12 جمادي الاول 1447 هـ   3 نومبر 2025 عيسوى 8:10 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-10-29   50

شادی کیوں؟ غیر ازدواجی رفاقت کیوں نہیں؟-اس سوال کے پیچھے چھپی حقیقت

الشيخ مصطفى الهجري

میں ایک معاصر مصنف کی تحریر پڑھ رہا تھا۔ جس میں انہوں نے لکھا کہ ان کی کچھ طالبات نے ان سے سوال کیا کہ "اگر دین نے شادی اس لیے مقرر کی ہے کہ تعلق ظاہر ہو اور اہلِ خانہ کی اجازت سے ہو، تو ہم یہ دونوں شرطیں غیر ازدواجی رفاقت ( مساکنہ) میں بھی پوری کر سکتے ہیں۔مغرب میں تو آج زیادہ تر تعلقات علانیہ ہیں اور ان میں والدین کی منظوری بھی ہوتی ہے۔ تو کیا صرف چند جملے دہرا دینے سے شادی حلال اور انہی چند جملوں کے بغیر رفاقت و تعلق حرام ہو جاتا ہے  ہمارے اس معاصر مصنف نے جو جواب دیا ہے اس میں انہوں نے طویل مقدمات ذکر کیے  ہیں جس کی وجہ سے شاید مقصد زیادہ واضح نہ ہو سکا ۔

لہٰذا ہم اس سوال کا جواب مختصراً یوں دے سکتے ہیں:

کہ پہلی بات یہ ہے ایسے سوالات کا درست جواب تب ہی دیا جا سکتا ہے جب ہم اچھی طرح سمجھ لیا جائے  کہ شریعتِ اسلامی نے شادی (نکاح) سے کون سے مقاصد پیش نظر رکھے ہیں، تاکہ ہمیں یہ معلوم ہو سکے کہ جو شرائط نکاح کے لئے  شریعت نے مقرر کی ہیں وہ ان مقاصد کو پورا کرنے کی ضمانت دیتی ہیں یا نہیں۔بنیادی طور پر یہ سوال ایک بڑے مغالطے پر مبنی ہے، پہلے یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ شادی کا مقصد صرف تعلق کا "اعلان" اور اس کے بارے میں "اہل کی اجازت" ہے! پھر اس مغالطے پر سوال کی عمارت کھڑی کی گئی ہے ۔ حالانکہ یہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ گہری ہے جتنا سوال پوچھنے والی لڑکیاں سمجھتی ہے۔ شرعی نکاح محض چند الفاظ دہرا دینے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مکمل سماجی اور نفسیاتی نظام ہے، جو الٰہی حکمت کے تحت اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ وہ میاں بیوی کی خوشی، سکون اور خاندان و معاشرے کے استحکام کی ضمانت بنے۔ شرعی نکاح میں شادی محرومی اور انتظار کے زمانے کا اختتام ہوا کرتی ہے، اور خوشی، اطمینان اور سکونِ قلب کی نئی زندگی کا آغاز ۔  شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو مسرت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں، اور ہر ایک دوسرے میں اُس نعمت کو دیکھتا ہے جس کا طویل عرصے سے انتظار تھا۔ لیکن مساکنہ اور آزاد تعلقات میں معاملہ بالکل برعکس ہے ۔ ایسی زندگی میں اگر کبھی شادی ہو بھی جائے تو وہ آغازِ محرومی بن جاتی ہے! جی ہاں، وہ محرومی جو آزادی کے بعد قید کا احساس بن کر سامنے آتی ہے۔ ہر فریق دوسرے کو ایک "قیدخانہ" سمجھنے لگتا ہے جو اس کی "پہلی جیسی آزادیوں" اور "لذتوں" پر پابندی لگا دیتا ہے۔ کیا آپ ان کے درمیان فرق کو سمجھ رہے ہیں؟

پہلی صورت میں شادی آزادی ہے، اور دوسرے میں شادی (آزاد رفاقت کے بعد کرے) تو قید بن جاتی ہے!

آج مغرب میں، جسے "آزادی"کا چمپئین مانا جاتا ہے، وہاں شادی اب ایک خوبصورت خواب نہیں رہی، بلکہ ایک خوفناک بوجھ بن گئی ہے، جس سے نوجوان بھاگ رہے ہیں۔ جب مغربی نوجوان کو شادی کی بات پیش کی جاتی ہے تو وہ کہتا ہے۔ "میں ابھی تیار نہیں، میں ابھی جوان ہوں، وقت نہیں آیا۔" کیوں؟ کیونکہ اس کی نظر میں شادی ایک قید خانہ ہے، نعمت یا خوشی نہیں! جبکہ ماضی میں،  "یورپی تہذیب" کے نام پر عورت کی قدر و قیمت کم کر دی گئی تھی ، اور شبِ عروسی نوجوان کے لیے بادشاہ کے تخت سے کم نہ تھی۔ شادی انتظار، امید اور شوق کے ایک طویل دور کے بعد حاصل ہونے والی سب سے بڑی خوشی تھی، اور اسی لیے شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کو اپنی خوشی اور اطمینان کا سبب سمجھتے تھے۔

لیکن آج؟ جب جنسی لذت شادی سے باہر ہر جگہ میسر ہے، تو اب شادی کی طرف کوئی کشش یا تڑپ باقی نہیں رہی۔ آزاد تعلقات نے شادی کو ایک بھاری فریضے، ایک ثقافتی ذمہ داری، اور ایک زبردستی کا بوجھ بنا دیا ہے۔ ایسا عمل جو نوجوانوں پر جبر کے ساتھ مسلط کرنا پڑے! اور یہ بات محض مفروضہ نہیں؛ بعض مغربی اخبارات تو واقعی تجویز پیش کرتے ہیں کہ "نوجوانوں کو شادی پر مجبور کیا جائے!"

ذرا تصور کیجیے...

ایک ایسا معاشرہ جو اپنی نسل کو شادی پر آمادہ کرنے کے لیے زبردستی کا سہارا لے ۔ یہ ہے اس نام نہاد "جنسی آزادی" کا حقیقی انجام۔ ان معاشروں میں جہاں آزاد تعلقات کی اجازت ہے، وہاں میاں بیوی ایک دوسرے کے قید خانے کا داروغہ بن چکے ہیں! اب مرد یہ نہیں کہتا: "میں نے شادی کی" بلکہ گویا  یوں کہتا ہے: "میں نے اپنے لیے ایک قیدخانہ بنا لیا!" کیوں؟ کیونکہ شادی سے پہلے وہ خود کو آزاد سمجھتا تھا۔ جہاں چاہے جا سکتا تھا، جس سے چاہے بات کر سکتا تھا، جس کے ساتھ چاہے رقص کر سکتا تھا، اور جسے چاہے پسند کر سکتا تھا۔ مگر شادی نے اس کی اس "آزادی" پر ایک حد قائم کر دی۔ اب اگر وہ رات کو دیر سے گھر آئے تو بیوی اسے ٹوکے گی ، اگر وہ کسی اور عورت کے ساتھ خوش مزاجی سے بات کرے یا رقص کرے تو بیوی ناراض ہو جائے گی ۔

یوں بیوی اس کی نظر میں محبت کی شریک نہیں، بلکہ ایک نگران اور زندان بان بن جاتی ہے۔اور یہی کیفیت عورت کی بھی ہے، وہ بھی محسوس کرتی ہے کہ شوہر اس کی سابقہ آزادیوں پر پہرے بٹھا رہا ہے، اور اسے اس کے پُرانے تعلقات اور میل جول سے روک رہا ہے۔ یہی ہے جنسی آزادی کے دور کا ازدواجی نظام، ایک ایسی زندگی جو محبت اور ہم آہنگی کے بجائے عداوت، بے زاری اور کشمکش پر قائم  ہے۔مانعِ حمل کا فریب بعض لوگ  جیسے برٹرینڈ رسل   یہ کہتے ہیں کہ اگر شادی کا مقصد نسب کا تحفظ ہے،تو اس کا حل تو بہت آسان ہے: مانعِ حمل کے استعمال سے نسب کا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے!

لیکن حقیقت میں مسئلہ صرف نسب کا نہیں ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اعلیٰ ترین اور پاکیزہ ترین جذبات کو پروان چڑھایا جائے،اور ان کے درمیان کامل اتحاد و محبت کی بنیاد رکھی جائے۔

پھر ذرا سوچیے...

اگر ایک "آزاد خیال" عورت اپنے اس شوہر کے ساتھ، جس سے وہ محبت نہیں کرتی، مانعِ حمل استعمال کرے،اور اس عاشق کے ساتھ، جس سے وہ محبت کرتی ہے، مانعِ حمل استعمال نہ کرے ۔تو کیا ہوگا؟اگر وہ اپنے ناجائز بچوں کو اپنے شرعی شوہر کی طرف منسوب کر دے تو؟یہ کوئی خیالی بات نہیں ۔یورپی اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ مانعِ حمل کے عام اور وسیع استعمال کے باوجود ناجائز بچوں کی تعداد خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ "آزاد عورت" یہ چاہتی ہے کہ اس کے بچے اس عاشق سے ہوں جس سے وہ محبت کرتی ہے، نہ کہ اس شوہر سے جس سے اس کا دل نہیں لگتا۔ اور مرد بھی یہی سوچ رکھتا ہے کہ وہ اپنی قانونی بیوی سے نہیں، بلکہ اپنی محبوبہ سے اولاد چاہتا ہے۔ مگر شرعی نکاح صرف چند جملے دہرا دینے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل زندگی کا نظام ہے جو درج ذیل بنیادوں پر قائم ہے:

اوّل: جنسی تعلق کو شرعی نکاح کے دائرے تک محدود کرنا، تاکہ میاں بیوی ایک دوسرے کو ہی اپنی خوشی اور سکون کا واحد سرچشمہ سمجھیں، اور ان کے درمیان محبت و وابستگی کی جڑیں گہری ہوں۔

دوم: خاندان کو شک، غیرت اور بےاعتمادی کے اس طوفان سے بچانا جو آزاد تعلقات کے نتیجے میں لازماً پیدا ہوتا ہے۔

سوم: نسب کے تحفظ اور بچوں کو گمراہی و محرومی سے بچانے کا انتظام۔

چہارم:ایسا صحت مند اور مضبوط معاشرہ قائم کرنا جومستحکم خاندانوں پر کھڑا ہو، نہ کہ وقتی اور کمزور تعلقات پر۔

خلاصہ

اے سوال کرنے والی بہن!شادی اور مساکنہ (غیر ازدواجی ڑفاقت) کا فرق چند الفاظ میں نہیں، بلکہ ان کے نتائج میں ہے ۔ سکون یا بےقراری میں، خوشی یا اذیت میں، استحکام یا بربادی میں،اور اس نظر میں کہ شریکِ حیات کو نعمت سمجھا جائے یا قید خانہ دار۔آج مغرب اپنی کڑوی تجرباتی "آزادی" کا خمیازہ بھگت رہا ہے: نوجوان شادی سے بھاگ رہے ہیں،

طلاق کی شرحیں خوفناک ہیں، ناجائز بچوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے، خاندان ٹوٹ چکے ہیں، دل خالی ہیں، اور روحیں تنہائی و خلا میں تڑپ رہی ہیں۔ یہ ہے اس "آزادی" کا انجام جس کا تم خواب دیکھتی ہو! جبکہ شرعی نکاح ہی وہ واحد نظام ہے جو سچی خوشی، حقیقی سکون، اور پائیدار محبت کی ضمانت دیتا ہے۔ کیونکہ یہ اُس خالق کی شریعت ہے جو اپنے بندوں کی فطرت، ضرورت اور بھلائی کو سب سے بہتر جانتا ہے۔ تو بتاؤ اب بھی یہ سوال باقی ہے؟

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018