

جب خدا کا تصور مٹ جائے۔ تو مرد و عورت کے درمیان انصاف کون کرے گا؟
الشيخ مصطفى الهجري
جب ہم بچے تھے تو ایک مشہور کھیل کھیلا کرتے تھے جسے"بادشاہ، جلاد، چور" کہا جاتا تھا۔ یہ کھیل تین بچوں کے درمیان ہوتا تھا۔ تینوں نام بادشاہ، جلاد اور چور الگ الگ پرچیوں پر لکھے جاتے اور قرعہ ڈالا جاتا۔ جس بچے کو بادشاہ کی پرچی ملتی، وہ جلاد کو حکم دیتا کہ چور کو مارے۔ مگر ایک ہوشیار لڑکا بڑا چالاک تھا، وہ بادشاہ بننے کے لیے ایک ترکیب نکال لیتا۔ وہ چپکے سے بادشاہ کی پرچی لکھنے کے بجائے چور کی پرچی دو بار لکھ دیتا۔ یوں جب قرعہ ڈالا جاتا اور اس کے ہاتھ ایک "چور" کی پرچی آتی تو وہ فوراً اعلان کر دیتا: "میں بادشاہ ہوں!" اور پھر جلاد کو حکم دیتا کہ دوسرے چور کو سزا دے۔
یہی کچھ مغرب میں بھی اُس وقت ہوا جب نطشے نے اعلان کیا کہ "خدا مر گیا ہے"۔ اس اعلان کے بعد وہ بادشاہ (یعنی خدا یا الٰہی قانون) غائب ہوگیا جو انسانوں کے درمیان انصاف کرتا تھا۔ نتیجتاً ظالم اور مظلوم کا فرق مٹ گیا اور انصاف کرنے والا خود ہی فریقِ مقدمہ بن بیٹھا۔ نطشے خود بھی اس افراتفری کا اعتراف کرتا ہے جب وہ کہتا ہے:"ہم نے جب زمین کو اس کے سورج سے جدا کر دیا تو ہم نے کیا کیا؟ اب وہ کہاں جارہی ہے؟ کس سمت میں بڑھ رہی ہے؟ کیا وہ تمام سورتوں سے دُور نہیں جا رہی؟ کیا ہم کسی طویل ڈھلان پر نیچے نہیں لڑھک رہے؟ کیا اب کوئی اوپر یا نیچے باقی رہ گیا ہے؟ کیا ہم لامحدود خلا میں بھٹک نہیں رہے؟ کیا ہمیشہ رات نہیں چھائی رہتی؟ کیا بار بار رات نہیں لوٹ آتی؟ کیا ہمیں دن کے وقت بھی چراغ جلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی؟"(ماخذ: العلم والمرح ، صفحہ 122)
اسی گمراہی کی ایک نمایاں مثال عورت کے حقوق کا مسئلہ ہے۔ جب عورت اور مرد کے درمیان حقوق کے معاملے میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ اب فیصلہ کون کرے گا؟
اسی الجھن کی طرف فرانسیسی انتہا پسند نسوی مفکرہ سیمون دی بُووار اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں: "اگر ہم اس معاملے کو واقعی سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان پرانی سوچوں سے باہر نکلنا ہوگا۔ ہمیں برتری، کمتری اور اس مبہم برابری کے تصورات کو ردّ کرنا ہوگا جنہوں نے تمام بحثوں کو بگاڑ دیا ہےاور ہمیں نئی شروعات کرنا ہوں گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم مسئلہ کیسے اٹھائیں؟ اور آخر ہم کون ہیں جو اسے اٹھائیں؟ مرد خود فریق بھی ہے اور منصف بھی اور عورت بھی تو اسی طرح ہے تو پھر غیر جانبدار فیصلہ کرنے والا کہاں سے ملے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ کوئی فرشتہ بھی اس بحث کے لیے موزوں نہیں کیونکہ وہ حالات و حقائق میں گزرا نہیں ہے۔ جہاں تک خنثی (یعنی دو جنسی صفات رکھنے والے شخص) کا تعلق ہے، وہ ایک غیر معمولی حالت ہے وہ نہ مرد ہے نہ عورت، بلکہ یوں کہیے کہ وہ دونوں میں سے کوئی بھی نہیں- کتاب: "الجنس الآخر"، صفحہ 27 )
یہ صورتحال بھی بالکل پچھلی مثال جیسی ہے جب بادشاہ (یعنی انصاف یا الٰہی اتھارٹی) کا نام مٹا دیا گیاتو سب لوگ کبھی جلاد بن گئے اور کبھی مظلوم اور یوں مدعی ہی منصف بن بیٹھا۔ سیمون دی بُووار کے بقول ایک پاک اور معصوم فرشتہ بھی اس معاملے میں فیصلہ کرنے کے قابل نہیں کیونکہ وہ انسانی حالات اور حقوق کے نزاع سے ناواقف ہے۔ یہ گمراہی ہےجس میں نسویت (فیمینزم)کے پیروکار جی رہے ہیں کیونکہ انہوں نے بادشاہ (یعنی حق و عدل کے اصل معیار) کو ٹھکرا دیا اور اس کی جگہ چورکو بٹھا دیا۔اللہ تعالی سچ کہتا ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًامًا (النساء: 65)
(اے رسول) تمہارے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے باہمی تنازعات میں آپ کو منصف نہ بنائیں پھر آپ کے فیصلے پر ان کے دلوں میں کوئی رنجش نہ آئے بلکہ وہ (اسے) بخوشی تسلیم کریں۔
یہ وہ حالت ہے جسے یہ لوگ اُس دن یاد کریں گے اُس دن جب پچھتاوا ان کے کسی کام نہیں آئے گا اور وہ کہیں گے:
﴿تَاللَّهِ إِنْ كُنَّا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ إِذْ نُسَوِّيكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ وَمَا أَضَلَّنَا إِلَّا الْمُجْرِمُونَ فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِينَ وَلَا صَدِيقٍ حَمِيمٍ ﴾ (97 ـ 101.)
قسم بخدا! ہم تو صریح گمراہی میں تھے۔۹۸۔ جب ہم تمہیں رب العالمین کے برابر درجہ دیتے تھے۔۹۹۔ اور ہمیں تو ان مجرموں نے گمراہ کیا ہے۔۱۰۰۔ (آج) ہمارے لیے نہ تو کوئی شفاعت کرنے والا ہے،۱۰۱۔ اور نہ کوئی سچا دوست ہے۔الشعراء: 97 ـ 101.
اندھی تقلید کے اس رجحان میں پڑنے سے پہلے جو ہمیں مغرب سے آنے والے ہر نظریے کے پیچھے دوڑنے پر مجبور کرتا ہےضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے اسلامی قوانین اور شریعت کا جائزہ لیں۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ آیا ان میں واقعی کوئی ایسی کمی ہے جو ان کی جگہ کسی دوسری شریعت یا قانون کے لانے کو جائز ٹھہرائے؟
بے شک ہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ اُس زمانے میں یورپ کی مذہبی اور سماجی شریعتوں میں عورت پر واضح ظلم اور ناانصافی موجود تھی،جن کے خلاف سیمون دی بُووارنے بغاوت کی۔اس حقیقت کو ماننے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہی ظلم اسلامی شریعت میں بھی پایا جاتا ہے۔ کیا کسی اور مذہب یا قانون میں ایسی مثال ملتی ہے جہاں خود ربِ کائنات اپنی بلند و برتر ذات سے عورت کے ایک ذاتی اور گھریلو مسئلے میں مداخلت کرتا ہو، اُس کا ساتھ دیتا ہواور اُس کے شوہر کو براہِ راست تنبیہ اور سزا سناتا ہو؟
اسلام میں تو ایسا واقعہ موجود ہے جہاں شوہر کے ایک لفظی ظلم محض زبان سے کہے گئے ناپسندیدہ الفاظ پر اللہ تعالیٰ نے خود فیصلہ فرمایا۔ اُس نے شوہر کو نہ صرف بیوی کے حقوق کی یاد دہانی کروائی بلکہ اُسے عملی سزا دی:بیوی کے ساتھ تعلقِ ازدواجی بحال کرنے سے پہلے اُسے لازم قرار دیا گیا کہ وہ ایک غلام آزاد کرے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزےرکھے۔ اگر وہ پچاس دن کے بعد ایک دن بھی ناغہ کرے تو سزا از سرِ نو شروع ہوگی اور ساٹھ دن کے روزے مکمل کرنے ہوں گے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔یہ اُس زمانے کے لحاظ سے نہایت سخت سزاتھی کیونکہ اتنے فقیروں کو کھلانا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ ﴿۱﴾الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْكُمْ مِنْ نِسَائِهِمْ مَا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ ۖ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنْكَرًا مِنَ الْقَوْلِ وَزُورًا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ ﴿۲﴾وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا ۚ ذَٰلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴿۳﴾فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا ۖ فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ۚ ذَٰلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿۴﴾ المجادلة: 1 ـ 4
بے شک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی اور اللہ آپ دونوں کی گفتگو سن رہا تھا، اللہ یقینا بڑا سننے والا، دیکھنے والا ہے۔۲۔ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں (انہیں ماں کہ بیٹھتے ہیں) وہ ان کی مائیں نہیں ہیں، ان کی مائیں تو صرف وہی ہیں جنہوں نے انہیں جنا ہے اور بلاشبہ یہ لوگ ناپسندیدہ باتیں کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں اور اللہ یقینا بڑا درگزر کرنے والا مغفرت کرنے والا ہے۔۳۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنے قول سے پلٹ جائیں انہیں باہمی مقاربت سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا چاہیے اس طرح تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔۴۔ پس جسے غلام نہ ملے وہ باہمی مقاربت سے پہلے متواتر دو مہینے روزے رکھے اور جو ایسا بھی نہ کر سکے وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے، یہ اس لیے ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں اور کفار کے لیے دردناک عذاب ہے۔
یہاں اس بات پر ضرور توجہ دلانی چاہیے کہ ہمیں غلط رویّوںاور اسلامی شریعت کے واضح و صریح احکام کے درمیان خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ بہت سے ایسے طرزِ عمل جو عورت پر ظلم یا ناانصافی کی صورت میں سامنے آتے ہیں ان کی بنیاد دینی نہیں ہوتی بلکہ وہ سماجی وراثت، خاندانی عادات یا ذاتی عقائد کا نتیجہ ہوتے ہیں۔لہٰذا جب ہم کسی قانون یا شریع کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اُن افراد کو معیار نہیں بنانا چاہیے جنہوں نے اس کا غلط اطلاق کیایا اپنے نفس پرستی والے طرزِ عمل کو کچھ آیات یا احادیث سے جواز دینے کی کوشش کی۔قانون کی جانچ ہمیشہ اُس کے اصول، منبع اور نیتِ تشریع سے ہونی چاہیے نہ کہ اُن غلط مثالوں سے جنہوں نے اس کے مقصد کو مسخ کر دیا۔
یہاں تفصیل سے اسلام کے خواتین سے متعلق احکام و قوانین بیان کرنے کی گنجائش نہیں، اس لیے ہم صرف ان عمومی خصوصیات اور امتیازات پر روشنی ڈالیں گے جو ان اسلامی تشریعات کو نمایاں اور منفرد بناتے ہیں:
اوّلًا: اللہ تعالیٰ نے مردوں کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ عورتوں کے بارے میں اپنی خواہشات یا رائے کے مطابق قوانین بنائیں۔ خود اللہ ربّ العزّت نے یہ ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لی ہے۔ اُس نے عورت کے حقوق و فرائض کو مرد کے اجتہاد یا ذاتی فیصلے پر نہیں چھوڑابلکہ اُن کی مکمل تفصیل قرآنِ کریم میں واضح طور پر بیان کر دی۔رشتے کی پیشکش (خِطبہ) سے لے کر نکاح، نان و نفقہ، رہائش، رضاعت اور آخرکار طلاق تک کے تمام مراحل کو دو سورتوں میں تفصیل سے بیان فرمایا( النساء اور سورۃ الطلاق ) یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو شخص اللہ کی ان حدوں سے آگے بڑھ جائے وہ دراصل اپنے ہی اوپر ظلم کرتا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا(الطلاق: 1)
اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لیے طلاق دے دیا کرو اور عدت کا شمار رکھو اور اپنے رب اللہ سے ڈرو، تم انہیں (عدت کے دنوں میں) ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ ہی وہ عورتیں خود نکل جائیں مگر یہ کہ وہ کسی نمایاں برائی کا ارتکاب کریں اور یہ اللہ کی حدود ہیں اور جس نے اللہ کی حدود سے تجاوز کیا تو اس نے اپنے ہی نفس پر ظلم کیا، تجھے کیا معلوم اس کے بعد شاید اللہ کوئی صورت پیدا کر دے۔
غور کرنے والا اللہ تعالیٰ کے کلام میں دیکھتا ہے جو ازدواجی حقوق سے متعلق ہیں کہ وہ سختی سے ازدواجی اختلافات میں زیادتی کرنے سے منع کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ تو اس بات سے بھی خبردار فرماتا ہے جو انسان اپنے دل میں چھپاتا ہےجیسا کہ اُس کا فرمان ہے:
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ۚ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (البقرة: 231)
اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں یا تو شائستہ طریقے سے نکاح میں رکھو یا شائستہ طور پر رخصت کر دو اور صرف ستانے کی خاطر زیادتی کرنے کے لیے انہیں روکے نہ رکھو اور جو ایسا کرے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا اور تم اللہ کی آیات کا مذاق نہ اڑاؤ اور اللہ نے جو نعمت تمہیں عطا کی ہے اسے یاد رکھو اور یہ (بھی یاد رکھو) کہ تمہاری نصیحت کے لیے اس نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی اور اللہ سے ڈرو اور یہ جان لو کہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔
تیسراً: عورت کے حقوق کے تحفظ کو اللہ تعالیٰ نے مردانگی اور مروّت کے اخلاق سے گہرا جوڑ دیا ہے۔ اس نے عورت کے ساتھ حسنِ سلوک اور بھلائی کے کا حکم دیا ہے:
(فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ)
یا تو شائستہ طریقے سے نکاح میں رکھو یا شائستہ طور پر رخصت کر دو
اللہ تعالیٰ نے عورت کے لیےاس کے مقررہ حقوق سے بڑھ کر بھی دینے کی ترغیب دی اور اس اضافے کو بھی عورت کا حق قرار دیا مگر یہ حق ہر کسی پر لازم نہیں بلکہ ان پر ہے جو متقی اور نیکوکار ہیں۔ اس میں دراصل نیکی اور احسان کی ترغیب پوشیدہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ (البقرة: 236)
اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تم عورتوں کو ہاتھ لگانے اور مہر معین
کرنے سے قبل طلاق دے دو، اس صورت میں انہیں کچھ دے کر رخصت کرو،
مالدار اپنی وسعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی وسعت کے مطابق یہ خرچ
دستور کے مطابق دے، یہ نیکی کرنے والوں پر ایک حق ہے۔


