

نفسیاتی توازن: طوفانوں کے درمیان پُرسکون رہنے کا فن
الشيخ معتصم السيد أحمد
انسان کی زندگی میں بعض اوقات ایسے لمحے آتے ہیں جب وہ مسائل اور مشکلات کے دباؤ میں اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتا ہے، تواس وقت وہ ایک عاقل اور متوازن شخصیت کی بجائے ایک بے چین اور مضطرب انسان بن جاتا ہے جو سوچ اور بصیرت کے بجائے جذباتی ردِعمل کے تابع ہو جاتا ہے۔ اکثر یہی فیصلہ کن لمحات انسان کی زندگی میں اس چیز کو ظاہر کرتے ہیں کہ اس کی اندرونی عمارت کتنی مضبوط ہے ، اور وہ چیلنجز کے مقابلے میں خود پر کتنا قابو رکھ سکتا ہے۔
درحقیقت، نفسیاتی توازن کوئی ایسی صفت نہیں جو انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہو، بلکہ یہ گہرے شعور، مسلسل تربیت اور تجربات کے تسلسل کا نتیجہ ہوتا ہے، جو انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ جب زمین اس کے قدموں تلے لرزے، تب بھی وہ مضبوطی سے کھڑا رہے۔ تمام فکری اور تربیتی مکاتبِ فکر اپنی تمام تر اختلافات کے باوجود اس مشترک مقصد پر متفق ہیں کہ انسان کو سکون و توازن کی اس حالت تک پہنچانا ہے۔ انبیاء، علماٗ اوردیگر تمام رہنماوں نے انسان کو سب سے پہلے خود اپنی شناخت کی دعوت دی، کیونکہ خود شناسی ہی توازن کی کنجی ہے۔ انسان اگر اپنے آپ کو نہ پہچانے تو زندگی کی حقیقتوں کے سامنے بھٹک جاتا ہے، لیکن اگر وہ اپنی حدود اور صلاحیتوں سے آگاہ ہو جائے، تو وہ اپنی مشکلات کا پُرسکون اور عاقلانہ انداز میں سامنا کرسکتا ہے، اور زندگی کے ٹھوکروں پر نہیں گرتا نہیں ہے۔ انسانی زندگی کی درستی اور استقامت خود اس کے اندر سے شروع ہوتی ہے جب وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات کا مالک بنے گا، نہ کہ اپنے جذبات کا غلام ۔ نیز اپنی مشکلات کو وہ ناکامی کی علامت نہیں بلکہ ترقی اور نشوونما کے سفر کا حصہ سمجھے گا۔
متوازن انسان اپنی مشکلات سے فرار اختیار نہیں کرتا اور نہ ہی انہیں نظرانداز کرتا ہے، بلکہ وہ انہیں سمجھتا ہے اور حکمت و دانائی کے ذریعےان کا سامنا کرتا ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ مشکلات ہمیشہ مصیبت نہیں ہوتیں، بلکہ یہ ایسے متحرک اسباب ہیں جو انسان کو اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو دریافت کرنے اور چھپی ہوئی مہارتوں کو نکھارنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ درحقیقت زندگی اپنی اصل میں ایک مدرسہ (تعلیمی درسگاہ) ہے، اور اس کی مشکلات وہ سخت اسباق ہیں جنہیں صرف وہی شخص بخوبی سیکھ پاتا ہے جو صبر کا ہنر جانتا ہو اور وجود کی فلسفیانہ حقیقت کو گہرائی سے سمجھ چکا ہو۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ عاقل اور مضطرب انسان کے درمیان فرق ان بحرانوں کی تعداد میں نہیں ہے جو وہ جھیلتے ہیں، بلکہ اس زاویۂ نظر میں ہے جس سے وہ ان کا سامنا کرتے ہیں۔ عاقل انسان ہر مشکل میں ترقی کا دروازہ دیکھتا ہے، جبکہ مضطرب انسان اسی مشکل کو اپنی راہ کا خاتمہ سمجھ لیتا ہے۔ اور انسان جب اندرونی سکون اور اطمینان کی اس منزل تک پہنچنا چاہتا ہے، تو اسے اپنا توازن مختلف پہلوؤں پر مبنی ایک مکمل بنیاد پر قائم کرنا ہوتا ہے، جن کے درمیان باہمی ربط اور تعلق ضروری ہے۔
مثلاً جسمانی پہلو کو نفسیاتی پہلو سے الگ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ سائنسی طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اچھی صحت انسان کے مزاج کے استحکام اور مثبت اندازِ فکر میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، اسی لیے پرانی حکمت میں یہ کہا گیا ہے کہ: تندرست جسم میں ہی تندرست دماغ ہوتا ہے جب انسان کا جسم بیماریوں اور دائمی تکالیف سے محفوظ رہتا ہے، تو وہ اپنا توازن کھوئےبغیر ندگی کے بوجھ اور مشکلات کا بہتر طور پر مقابلہ کر سکتا ہے، اس کے برعکس، جو شخص جسمانی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے ، اس کا دل گھبراہٹ اور بے صبری کی طرف مائل ہو جاتا ہے، اور اس کی تحمل و برداشت کی صلاحیت کمزور پڑ جاتی ہے۔ جبکہ صحت مند انسان مشکلات کے سامنے زیادہ لچکدار اور متوازن ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح، انسان کی عملی اور پیشہ ورانہ زندگی بھی اس کے نفسیاتی استحکام پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ کیونکہ بے روزگاری اور بے عملی انسان کے وجود کو سب سے زیادہ متزلزل کرتی ہیں ، اور اسے بے معنی زندگی کے احساس میں مبتلا کر دیتی ہیں۔
درحقیقت، کام صرف روزی کا ذریعہ نہیں، بلکہ یہ انسان کی ذات کے اظہار اور وجود کے اثبات کا وسیلہ ہے۔ جو شخص ایسے کام میں مشغول ہوتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہو اور اس کی قدر و معنویت پر ایمان رکھتا ہو، تواسے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ موثر اور مفید ہستی ہے۔ یہی احساسِ کارآمدی اسے اطمینان، سکون اور مثبت رویّے عطا کرتا ہے۔لیکن جو شخص بغیر مقصد یا بغیر عمل کے زندگی گزار رہا ہو، وہ رفتہ رفتہ بے چینی، ناگواری اور ذہنی اضطراب میں مبتلا ہو جاتا ہے، اور نفسیاتی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ اس کے بعد خاندان (گھرانہ) آتا ہے، جو انسان کے توازن کی پہلی پناہ گاہ ہوتا ہے۔
خاندانی استحکام محض جذباتی سکون کا نام نہیں، بلکہ یہ نفسیاتی صحت کی بنیاد ہے۔ کیونکہ گھریلو تعلقات میں کوئی بھی بگاڑ انسان کی ذہنی حالت پر گہرا اثر چھوڑتا ہے، اور اس کے برعکس بھی یہی سچ ہے ، یعنی گھریلو تعلقات میں توازن و سکون بھی ذھنی کیفیت ہر بہت مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اندر سے مضطرب شخص کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے خاندان کو درست اور پُرامن مہیا کر سکے ۔ اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ خاندانی توازن اور نفسیاتی توازن ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، جنہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ شعور اور توازن کی نمایاں علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے ، کہ انسان یہ جانتا ہو کہ کب اور کہاں اسے تناؤ اور دباؤ کے ذرائع سے دور رہنا چاہیے۔ وہ اپنی ذات کو ان جھگڑوں یا تنازعات میں نہ الجھائے ، جن کا اس سے کوئی حقیقی تعلق نہیں، اور نہ ہی خود کو منفی خبروں یا فضول سماجی اختلافات کا قیدی بنائے۔ کیونکہ بعض لوگ اپنے آپ کو ہر طرف کے جھگڑوں اور بحرانوں کی خبرگیری میں اس قدر مصروف کر دیتے ہیں کہ ان کے اعصاب گھلنے لگتے ہیں، اور نتیجتاً وہ کچھ بھی بدلنے کے قابل نہیں رہتے۔ جبکہ متوازن انسان اپنی حدود کو پہچانتا ہے، اور ان چیزوں سے دور رہتا ہے جو اس کی توانائی کو ختم کرتے ہیں، وہ اپنی توجہ ان کاموں پر مرکوز کرتا ہے جو اس کے لیے نفع بخش اور قلبی سکون دینے والے ہوں۔
توازنِ نفس کے لیے فکری اور ثقافتی غذا بھی مسلسل ضروری ہے ۔ کیونکہ جہالت انسان کے ذہن میں مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے، اور وہ ہر مشکل میں دنیا کا اختتام دیکھنے لگتا ہے۔ جبکہ علم و ثقافت انسان کے نظریاتی دائرے کو وسیع کرتی ہے ، اور اسے یہ سکھاتی ہے کہ زندگی کے کئی پہلو ہیں، اور حالات چاہے کتنے ہی پیچیدہ کیوں نہ ہوں، حل ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ جو شخص اپنی زندگی کی مہارتوں کو نکھارتا ہے، دوسروں کے تجربات سے سیکھتا ہے، اور اپنی غلطیوں سے سبق لیتا ہے، وہ چیلنجوں کا سامنا پرسکون اور سمجھداری سے کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
علم و معرفت انسان کو چیزوں کے بارے میں متوازن نگاہ عطا کرتے ہیں، کیونکہ گہرا فہم خوف کو کم کرتا ہے اور ابہام کو بصیرت میں بدل دیتا ہے۔ تاہم، یہ تمام مادی اور فکری پہلو اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتے جب تک اُن کے ساتھ روحانی توانائی شامل نہ ہو، جو انسان کے توازن کی حفاظت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ وہ آخری دیوار ہے ، جو انسان کی نفس کو ٹوٹنے سے بچاتی ہے۔ جو شخص اپنے خالق سے سچے تعلق میں جڑا ہوتا ہے، وہ اپنے دل میں ایک ایسا اطمینان پاتا ہے جو دنیا کی کوئی چیز عطا نہیں کر سکتی۔ ایمان درد کو ختم نہیں کرتا، مگر وہ درد کو ایک معنی بخشتا ہے، اور تکلیف کو صبر و عمل کی قوت میں بدل دیتا ہے۔ جو انسان یہ یقین رکھتا ہے کہ ہر آزمائش کے پیچھے ایک حکمت ہے، توحالات چاہے کتنے بھی سخت ہوں وہ شخص کبھی نہیں ٹوٹتا، کیونکہ وہ ہر مصیبت میں امتحان دیکھتا ہے، انتقام نہیں، اور ہر تاخیر میں اللہ کی لطف و عنایت دیکھتا ہے، محرومی نہیں۔ نفسیاتی توازن دراصل جسم، عقل اور روح کے درمیان ہم آہنگی کا ثمرہ ہے۔
جو شخص اپنے جسم کو آرام، عقل کو علم، اور روح کو ذکر و عبادت سے سیراب کرتا ہے، وہ ایک ایسی داخلی ہم آہنگی میں جیتا ہے جو اُسے زندگی کے طوفانوں کا پرسکون اعصاب اور راضی دل کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ یہاں عبادت سے مراد صرف ظاہری رسومات نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ سے گہرا روحانی اتصال ہے، جہاں انسان دنیا کے شور و غل سے ہلکا محسوس کرتا ہے اور اپنے باطن کا سکون واپس پاتا ہے۔ جب مومن سجود میں اپنا ماتھا زمین پر رکھتا ہے، تو گویا وہ اپنی روح کی بے ترتیبی کو منظم کرتا ہے، اور نماز کے بعد مزید پرسکون، مضبوط اور مطمئن ہو کر اُٹھتا ہے۔
توازن کا مطلب یہ نہیں کہ انسان بے احساس یا جذبات سے خالی ہو جائے، بلکہ یہ کہ وہ اپنی جذباتی توانائی کو صحیح سمت میں استعمال کرے۔ غم فطری ہے، غصہ جائز ہے، خوشی مطلوب ہے، لیکن غیر متوازن انسان وہ ہے جو ان جذبات کا غلام بن جائے، جبکہ متوازن انسان وہ ہے جو ان جذبات پر قابو پائے۔ توازن یہی ہے کہ عقل بیدار رہے جب جذبات جوش میں ہوں، اور ایمان اضطراب کے اندھیروں میں روشنی کا مینار بن جائے۔ اس سطح کے شعور اور ضبط تک پہنچنا کوئی فوری عمل نہیں، بلکہ یہ ایک طویل سفر ہے خود تربیتی اور مسلسل مجاہدت کا۔ ہر انسان، چاہے وہ کتنا ہی پُراعتماد کیوں نہ ہو، کبھی نہ کبھی ہل جاتا ہے، مگر فرق یہ ہے کہ متوازن شخص جلد اپنے اندرونی مرکز کی طرف لوٹ آتا ہے، جبکہ دوسرا جذباتی طوفان میں بہہ جاتا ہے۔
جو شخص انبیاء اور اولیاء کی سیرتوں پر غور کرتا ہے، وہ دیکھتا ہے کہ اُن کے ثبات و سکون کا راز اُن کی جسمانی طاقت میں نہیں، بلکہ اُن کے اللہ پر پختہ یقین اور زندگی کے مقصد کی واضح بصیرت میں پوشیدہ تھا ، یوں نفسیاتی توازن کوئی ایسی چیز نہیں جو کسی ایک کتاب کے پڑھنے یا کسی مخصوص نسخے پر عمل کرنے سے حاصل ہو جائے، بلکہ یہ زندگی اور اپنے نفس دونوں کی گہری سمجھ بوجھ کا نتیجہ ہے۔ ہر انسان چاہے تو اپنی اصلاح کا آغاز خود سے کر سکتا ہے، اپنے خیالات کا جائزہ لے، تعلقات درست کرے، صحت کا خیال رکھے، اور اپنی روح کو ایمان سے سیراب کرے۔ جب وہ اس مرحلے پر پہنچتا ہے، تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ مسائل ختم تو نہیں ہوئے، لیکن اب وہ پہلے کی طرح اسے پریشان نہیں کرتے، کیونکہ اس کے اندر ایک نازک توازن کا پیمانہ قائم ہو چکا ہے جو اسے گرنے سے بچاتا ہے ، اور اسے زندگی کے طوفانوں میں پُراعتماد انداز سے چلنے کے قابل بناتا ہے۔ متوازن انسان ایسی زندگی نہیں جیتا جو غم و فکر سے خالی ہو، بلکہ وہ ایسی زندگی گزارتا ہے ، جس میں وہ توازن کے تمام اصولوں پر عبور رکھتا ہے۔ نہ وہ آزمائشوں میں ٹوٹتا ہے، اور نہ ہی کامیابیوں میں مغرور ہوتا ہے۔ وہ زندگی کو جیسے ہے، ویسے قبول کرتا ہے، اور اپنی سکونِ قلب کی بنیاد اپنے ایمان پر رکھتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز میں ایک حکمت ہے، ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، اور اصل توازن یہ ہے کہ تمہاری روح ثابت قدم رہے، خواہ تمہارے سامنے دنیا کیوں نہ ہل جائے۔


