12 جمادي الاول 1447 هـ   3 نومبر 2025 عيسوى 8:16 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-10-29   36

جب سائنس مقصد کے بارے میں جواب دینے سے عاجز ہو جائے تو ایمان اس کا جواب دیتا ہے۔

الشيخ معتصم السيد أحمد

جب سے انسان نے کائنات پر غور و فکرکا آغاز کیا ہے، تب سے وہ دو ایسے بنیادی سوالات کے روبرو ہے جو اس کے وجود کے بارے میں احساس اور شعورکی بنیاد تشکیل دیتے ہیں: ایک، کیفیت کا سوال، اور دوسرا، غایت کا سوال۔

پہلا سوال یہ ہے کہ اشیاء اور مظاہر کیسے  وجود میں آتے ہیں،یہ  کن قوانین کے تابع ہیں ۔ یہ وہ دائرہ ہے جس میں علمِ تجربی، یا سادہ الفاظ میں سائنس، اپنی تحقیق کو بروئے کار لاتی ہے۔ سائنس مظاہرِ فطرت کے درمیان موجود مادی رشتوں اور ان کے پسِ پردہ  کارفرما قوانین کو منکشف کر کے اُن کے وقوع کی کیفیت کو واضح کرتی ہے، یعنی وہ یہ بتاتی ہے کہ کائنات کیسے کام کرتی ہے۔

لیکن جب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ مظاہر کیوں موجود ہیں؟ ان کے وجود کی غایت، حکمت اور مقصد کیا ہے؟ تو یہاں سائنس  کا دائرہ ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ سوال مشاہدے اور تجربے کی سرحدوں سے آگے نکل کر اُس جہت میں داخل ہو جاتا ہے جہاں معنی، قدر اور مقصدیت کی جستجو شروع ہوتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سائنس خاموش ہو جاتی ہے، کیونکہ اس کا منہج معروضی حقائق کی توضیح تک محدود ہے اور وہ ماورائی معنویت تک رسائی نہیں رکھتا۔ یہاں سے ایمان کی روشنی آغاز پاتی ہے ، ایمان، جو وجود کو اس کی معنوی جہت عطا کرتا ہے، اور کائنات کے پسِ پردہ  پوشیدہ حکمت، ارادہ اور مقصد کو آشکار کرتا ہے۔

جبکہ سائنس میں یہ قدرت موجود ہے کہ وہ کششِ ثقل، جوہری احتراق، ارتقائی عمل، اور حیاتی تفاعل جیسے قوانین کو دریافت کرے اور یہ واضح کرے کہ یہ مظاہر کس طرح وقوع پذیر ہوتے ہیں، وہ اس سوال کے سامنے بےبس ہو جاتی ہے کہ یہ قوانین ابتدا ہی میں کیوں وجود میں آئے؟ اور وہ اس حیرت انگیز نظم، توازن اور ہم آہنگی کے ساتھ کیوں کارفرما ہیں جن میں کسی تعارض  یا تصادف کا شائبہ تک نہیں؟ سائنس، اپنی تمام تر سائنسی بصیرت کے باوجود، مظاہرِ فطرت کے "کیف" کی تو وضاحت کر لیتی ہے، مگر ان کے "لِمَ" کی تعبیر کے باب میں خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ جب انسان یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ہم کیوں پیدا کیے گئے؟ یا کائنات کے وجود کا مقصد کیا ہے؟ تو سائنس کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں ہوتا کہ وہ یا تو خاموش ہو جائے، یا احتمال اور اتفاق کی آغوش میں پناہ لے لے ، گویا وہ معنی کے سوال سے پہلوتہی اختیار کر لیتی ہے۔

اس کے برعکس، ایمان ان ہی سوالات کو الٰہی حکمت اور غایتِ تخلیق کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ ایمان یہ بصیرت عطا کرتا ہے کہ وجود کا ہر ذرّہ ایک منظم اور دقیق نظام کا جزوِ لاینفک ہے، اور کائنات کا ہر عنصر ایک متعین مقصد کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔ جہاں سائنس صرف مظاہر کی توصیف تک محدود رہتی ہے، وہاں ایمان ان مظاہر کو ایک ماورائی معنویت سے مربوط کر دیتا ہے۔ یوں ایمان وہ نکتۂِ تکمیل ہے جہاں سائنس کی توضیح ختم ہو کر تفہیمِ غایت کا آغاز کرتی ہے ،  ایک ایسا مرحلہ جہاں انسان محض "جاننے" سے آگے بڑھ کر "سمجھنے" کے سفر میں داخل ہوتا ہے۔

انسانی جسم پر ایک لمحہ غور ہی اس حقیقت کو آشکار کرنے کے لیے کافی ہے کہ “کیفیت” کے سوال اور “غایت” کے سوال کے درمیان ایک گہرا فکری اور معرفتی فاصلہ موجود ہے۔ جب ہم جسمِ انسانی کے کسی عضو، مثلاً آنکھ، پر نظر ڈالتے ہیں تو سائنس ہمیں اس کے طریقۂ کار کی دقیق تفصیل فراہم کرتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ روشنی کی شعاعیں کس طرح عدسے پر مرتکز ہوتی ہیں، تصویری تاثر اعصاب کے ذریعے دماغ تک کیسے منتقل ہوتا ہے، اور آنکھ روشنی و تاریکی کے مابین اپنے نظامِ ادراک کو کس حیرت انگیز دقت کے ساتھ ہم آہنگ کرتی ہے۔ سائنس  اس تمام عمل کے طریقہ کار کو منکشف کرتی ہے، اور ہمیں یہ دکھاتی ہے کہ یہ پیچیدہ نظام کس نظم اور تسلسل سے انجام پاتا ہے۔

تاہم، یہی سائنس اس سوال کے سامنے خاموش ہو جاتی ہے کہ آنکھ ابتدا ہی میں کیوں پیدا کی گئی؟ اسے اسی مقام پر کیوں رکھا گیا جہاں وہ موجود ہے؟ اور وہ جسم کے دیگر اعضاء کے ساتھ اتنے کامل توازن اور ہم آہنگی کے ساتھ کیوں اور کس مقصد کے تحت عمل کرتی ہے؟ یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ “کیفیت” کا سوال محض کسی مظہر کی آلیّت  یعنی طریقہ کار اور فعلیت سے متعلق ہے، جب کہ “غایت” کا سوال اُس کی حکمت، ارادۂ تخلیق، اور معنویتِ وجود کو منکشف کرتا ہے۔

درحقیقت، یہی وہ بنیادی فرق ہے جو وصف اور معنی کے درمیان انسانی معرفت کی سرحد کو متعیّن کرتا ہے۔ سائنس بیان کرتی ہے کیا ہے اور کیسے ہے، جب کہ ایمان یہ آشکار کرتا ہے کیوں ہے اور کس غرض کے لیے ہے۔ یہی نقطۂ التقاء انسان کے عقلی اور ایمانی شعور کو ایک وحدت میں جوڑ دیتا ہے ۔  جہاں  سائنس کی روشنی حقیقت کو منکشف کرتی ہے، اور ایمان کی بصیرت اس حقیقت کو غایت اور معنی عطا کرتی ہے۔

اگر ہم ذرا مزید گہرائی سے غور کریں تو یہ حقیقت عیاں  ہو جاتی ہے کہ انسانی جسم کا ہر عضو ایک ایسی کامل، منسجم اور غایت آفرین فعالیت انجام دیتا ہے جس کا کوئی بدل متصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہر عضو اپنے مخصوص محل و موقع پر اس درجے کی دقیق تنظیم  کے تحت رکھا گیا ہے کہ اس میں ذرا سا بھی تغیّر پورے نظام کے توازن کو درہم برہم کر دے۔ گویا جسمِ انسانی ایک ایسی معماریِ وجود ہے جس کے ہر جزو کو کسی اعلیٰ تدبیر اور کامل حکمت نے نہایت شعوری ترتیب کے ساتھ استوار کیا ہے۔

مثلاً آنکھ محض دیکھنے کا آلہ نہیں، بلکہ ایک حیرت انگیز نظامِ بصارت ہے ،  جس میں عدسات، اعصاب، اور مائعات ایک دوسرے کے ساتھ اس درجہ ہم آہنگی سے عمل کرتے ہیں کہ یہ نظام پیدائش کے لمحۂ اوّل سے لے کر زندگی کے آخری سانس تک بلا وقفه کام کرتا رہتا ہے۔ اگر یہ آنکھ اپنے موجودہ مقام سے صرف ایک سینٹی میٹر بھی ہٹ جائے تو پورا بصری توازن مختل ہو جائے اور نظامِ ادراک اپنی کارکردگی کھو بیٹھے۔

یہ غیر معمولی تناسب، توازن اور ہم آہنگی محض اتفاق  یا کسی بے مقصد فطری قوت کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ بلکہ یہ ایک حکیم و مدبّر خالق کی موجودگی کا بین ثبوت ہے — اُس خالق کا، جس نے تخلیق کے ہر جز کو کامل نظم، بےمثال دقّت، اور بےعیب اتقان کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ یوں جسمِ انسانی خود اپنے وجود میں اس حقیقت کی شہادت دیتا ہے کہ جہاں علم مظاہر کی ساخت کو بیان کرتا ہے، وہاں ایمان اُن کی غایت اور حکمت کو آشکار کرتا ہے؛ اور یہی وہ نقطہ ہے جہاں مشاہدہ دلیل بن جاتا ہے اور تدبّر عبادت۔

یہ ایک نہایت قابلِ  فکر حقیقت ہے کہ انسان جو اپنے بنائے ہوئے آلات کی ذہانت، رفتار اور دقّت پر ششدر رہ جاتا ہے، اکثر اُس معجزے سے غافل رہتا ہے جو خود اس کے اپنے وجود کے اندر پوشیدہ ہے۔ وہی انسان جو اپنے جدید ترین ہاتفِ ذکی، کمپیوٹر یا کیمرے کی کارکردگی پر فخر محسوس کرتا ہے، شاذ ہی اس حقیقت پر غور کرتا ہے کہ یہ تمام ایجادات اُس حیاتیاتی اعجاز کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، جسے وہ روز اپنے ساتھ لیے پھرتا ہے۔ وہ آنکھ جو ایک لمحے میں لاکھوں رنگوں میں تمیز کر سکتی ہے، مختلف شدتوں کی روشنی سے فوراً ہم آہنگ ہو جاتی ہے، اور ہر سیکنڈ میں کروڑوں اعصابی پیغامات دماغ تک منتقل کرتی ہے، انسانی تخلیق کی کسی بھی صنعت سے بےحد برتر اور دقیق تر ہے۔

 سائنس ہمیں یہ بتانے کی صلاحیت رکھتی ہے کہ آنکھ کیسے کام کرتی ہے: اس کے عدسات کس طرح روشنی کو مرتکز کرتے ہیں، اعصاب کس طرح تصویری تاثر کو دماغ تک پہنچاتے ہیں، اور یہ نظام تاریکی و روشنی کے مابین کس طرح توازن پیدا کرتا ہے۔ لیکن سائنس  اس راز سے پردہ نہیں اٹھا پاتا کہ یہ آنکھ اس قدر جمال، نظم، اور دقّت کے ساتھ کیوں کام کرتی ہے، اور یہ حیرت انگیز نظامِ بصارت آغازِ وجود ہی میں کس مقصد کے تحت پیدا کیا گیا۔

یہی وہ مقام ہے جہاں سائنس  اپنی حدِ تفسیر پر آ کر خاموش ہو جاتی  ہے، اور ایمان اپنی بصیرت کے ساتھ بولنا شروع کرتا ہے۔ کیونکہ اس ہم آہنگی کے پسِ پشت ایک ارادۂ تخلیق کارفرما ہے، اس کمالِ صناعت کے پیچھے ایک غایتِ مقصد مضمر ہے، اور اس غیر معمولی ترتیب کے ماوراء ایک حکمتِ الٰہی جلوہ گر ہے۔ ایک ایسی حکمت جو انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ جہاں سائنس مظاہر کو بیان کرتی ہے، وہاں ایمان اُن میں معنی پیدا کرتا ہے، اور یہی معنی دراصل وجود کی روح ہے۔

تاہم، فکرِ مادّی کی سب سے بڑی الجھن اسی خام گمان میں پوشیدہ ہے کہ گویا  ’سوالِ کیفیت‘ کا جواب دینا ہی ’سوالِ غایت‘   کے جواب سے بےنیاز کر دیتا ہے۔ یہی وہ فکری مغالطہ ہے جو مادّی ذہن کو علم کی ظاہری سرحدوں سے آگے دیکھنے سے باز رکھتا ہے۔ جب سائنس  ، اپنی ساری توضیحات اور تجرباتی بصیرت کے باوجود، اس امر کی وضاحت سے قاصر ہو جاتی ہے کہ وجود کی کوئی غایت یا حکمت کیوں ہے، تو بعض اذہان اس عجز کو خود عدمِ غایت کا ثبوت سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یوں وہ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ فطرت ازخود، اندھی اور بےمقصد قوتوں کے تحت چل رہی ہے، اور کائنات کا نظم محض اتفاق یا حادثے کا نتیجہ ہے۔

درحقیقت، الحاد اپنی اصل میں کوئی نئی فکری بصیرت، نہ کوئی انقلابی کائناتی نظریہ ہے؛ بلکہ یہ صرف نصفِ حقیقت پر توقف کا نام ہے ،  ایک ایسا فکری جمود جو انسان کو اُس سوال سے غافل کر دیتا ہے جو اُس کی انسانیت کی بنیاد ہے: ہم یہاں کیوں ہیں؟ اور یہ منظم و دقیق نظامِ کائنات کس غایت کے لیے وجود میں آیا؟

یہی وہ مقام ہے جہاں ایمان اور الحاد کے درمیان حدِ فاصل کھنچ جاتی ہے۔ ایمان حقیقت کو اُس کے تمام ابعاد میں دیکھتا ہے ،  وہ جانتا ہے کہ جہاں سائنس  کائنات کی ساخت کو منکشف کرتی ہے، وہاں ایمان اس کے مقصد کو روشن کرتا ہے؛ اور یہ کہ “کیفیت” کے بغیر “غایت” ناقص ہے، مگر “غایت” کے بغیر “کیفیت” بےمعنی۔

درحقیقت، الحاد کی منطق اساساً انکارِ غایت پر استوار ہے، کیونکہ وہ اس وجودی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے جو تجرباتی پیمائش کے آلات سے ماورا ہو۔ اُس کا موقف یہ ہے کہ جو چیز مادّی طور پر محسوس یا ناپی نہ جا سکے، وہ حقیقت نہیں رکھتی۔ یہ طرزِ فکر گویا اُس سائنس دان کی مانند ہے جو محض اس بنا پر کہ اُس کا  مائکروسکوپ کسی شے کو دکھانے سے قاصر ہے، یہ نتیجہ اخذ کر لے کہ وہ شے سرے سے موجود ہی نہیں۔

حالانکہ وجودی و معنوی سوالات مادی پیمائش کے دائرے میں آتے ہی نہیں، کیونکہ ان کا تعلق معنی، حکمت اور مقصدیت سے ہے، اُس غیرمادّی حقیقت سے جو انسان کے شعورِ ذات میں مضمر ہے، اور جو اُسے اپنے وجود کے ’کیوں‘ کے سوال کی جستجو پر اُبھارتی ہے، اس سے پہلے کہ وہ ’ مسئلہ  ‘ کے طریقِ کار  کو سمجھے۔

جب سے انسان نے اپنی خودی اور شعورِ وجود کا ادراک کیا ہے، وہ محض یہ جاننے پر قانع نہیں رہا کہ درخت کیسے اُگتے ہیں، ستارے کس طرح ضوفشاں ہوتے ہیں، یا زندگی کن حیاتیاتی قوانین کے تحت رواں ہے؛ بلکہ اُس نے ہمیشہ یہ بنیادی سوال اٹھایا ہے:
درخت کیوں اُگتا ہے؟ ستارہ کیوں چمکتا ہے؟ اور میں کیوں موجود ہوں کہ اُنہیں دیکھ سکوں؟

یہ سوالات کوئی ذہنی آسائش یا فلسفیانہ کھیل نہیں، بلکہ معنی کی اُس فطری تشنگی کا اظہار ہیں جو انسانی عقل کی گہرائیوں میں ودیعت کی گئی ہے اور جسے دبایا نہیں جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں علم و فہم اور جستجو کا جو جذبہ رکھا ہے، ایمان اسی جذبے کی ماورائی تکمیل ہے، وہ مقام جہاں تلاشِ علم، یقین کی بصیرت میں بدل جاتی ہے، اور انسان محض “جاننے” سے آگے بڑھ کر “سمجھنے” اور “ماننے” کے مرتبے تک پہنچ جاتا ہے۔

جب عقل اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود مادی تفسیر کی حدوں کو چھو لیتی ہے، تو وہ ایمان میں اپنے فطری تسلسل کو پاتی ہے، نہ کہ اس کے نقیض کو۔کیونکہ ایمان، علم کی نفی نہیں کرتا بلکہ اُس کے معنی، غایت، اور حکمت کو واضح کرتا ہے۔سائنس  یہ بتاتی ہے کہ چیزیں کس طرح کام کرتی ہیں، جبکہ ایمان یہ بتاتا ہے کہ انہیں اس طرح کام کرنے کا ارادہ کیوں اور کس نے کیا تھا۔

یوں جب انسان غایت کے تصور کا انکار کرتا ہے، تو وہ کسی نئی بصیرت کا انکشاف نہیں کرتا، بلکہ اپنی فکری محدودیت اور بصیرتی فقدان کا اظہار کرتا ہے۔ کیونکہ سوالِ لِمَاذا؟  ہی وہ سوال ہے جو انسان کو محض ایک حیاتی وجود سے بلند کر کے باشعور و معنوی وجود بناتا ہے۔

اسی لیے ایمان کوئی اندھی تقلید یا غیرعقلی تسلیم نہیں، بلکہ وسیع تر ادراک اور وجودی شعور کا نام ہے۔ یہ اس حقیقت کا عرفان ہے کہ کائنات محض قوانین کے اندھے جال میں محصور نہیں، بلکہ اُن قوانین کے پیچھے  کارفرما ارادہ، معنی، اور حکمتِ الٰہی کے ذریعے اپنی تکمیل پاتی ہے۔

کائنات کی ہر شے اپنے وجود کے ذریعے دو بنیادی علتوں کی نشاندہی کرتی ہے: ایک علّتِ وجودی، جو یہ بتاتی ہے کہ کوئی شے کیسے وجود میں آئی، اور دوسری علّتِ غائی، جو یہ واضح کرتی ہے کہ وہ کیوں وجود میں آئی۔ مثال کے طور پر، ایک خوبصورت فنی تخلیق ،  جیسے کوئی مصوّری یا نقش و نگار  کے بارے میں کیمیائی تجزیہ یہ بتا سکتا ہے کہ اس میں کون سے رنگ اور مواد استعمال ہوئے، یعنی وہ کیفیتِ وجود کو واضح کرتا ہے، لیکن یہ نہیں بتا سکتا کہ فنکار نے یہ تخلیق کیوں کی، اور اس کا مقصد کیا تھا۔ یہی حال کائنات کا ہے؛ سائنس ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ اس کے قوانین کیسے کام کرتے ہیں، مگر وہ اس سوال پر خاموش ہو جاتا ہے کہ یہ قوانین ایسے کیوں ہیں اور کس ارادے کے تحت یوں منظم کیے گئے۔

یوں علّتِ وجودی کا تعلق علم و تجربے سے ہے، جبکہ علّتِ غائی شعور، وجدان اور ایمان سے وابستہ ہے۔ سائنس ہمیں مظاہرِ فطرت کی ساخت اور نظام سے روشناس کراتی ہے، مگر ایمان اُن کے پسِ پشت پوشیدہ حکمت اور مقصد کو منکشف کرتا ہے۔ یہی جامع بصیرت رسولِ اکرم ﷺ کے ارشادِ بلیغ میں سمٹ آئی ہے: «رَحِمَ اللهُ امرأً عَرَفَ مِن أينَ؟ وفي أينَ؟ وإلى أينَ؟» یعنی “خدا اُس شخص پر رحم فرمائے جو جان لے کہ وہ کہاں سے آیا، کہاں ہے، اور کہاں کو جا رہا ہے۔” جو شخص ان تین حقیقتوں کو جان لیتا ہے، وہ وجود اور معنی دونوں کے اسرار سے واقف ہو جاتا ہے ۔  یہی  سائنس و ایمان کا نقطۂ اتصال ہے، جہاں فہمِ کائنات اپنے روحانی اور عقلی توازن کو پاتا ہے۔

یقیناً، سائنس اور ایمان دو ایسے متکامل اور ہم آہنگ راستے ہیں جو انسان کو کائنات کے جامع اور متوازن فہم تک پہنچاتے ہیں۔ سائنس ، وجود کے مادی اور مشہود پہلو پر روشنی ڈالتی ہے، اس کے قوانین، اسباب اور نظام کی توضیح کرتا ہے؛ جبکہ ایمان، اسی وجود کے غائی اور معنوی پہلو کو منوّر کرتا ہے، اور اس کے پیچھے کارفرما حکمت و ارادے کو آشکار کرتا ہے۔ جب یہ توازن ٹوٹ جاتا ہے توسائنس  ایک بے روح آلہ بن کر رہ جاتی ہے، جو وضاحت تو دیتی ہے مگر معنی سے خالی ہوتا ہے؛ اور ایمان، اگر بصیرتِ علمی سے جدا ہو جائے، تو وہ ایک جامد تأمل بن جاتا ہے جس میں تفہیم کی روشنی مفقود ہوتی ہے۔ چنانچہ انسانی شعور کی تکمیل اسی وقت ممکن ہے جب سائنس اور ایمان ایک دوسرے کے معاون بن کر، کائنات کے ظاہر اور باطن   دونوں جہات  کا ادراک فراہم کریں۔

جو شخص غایت یا مقصد کے تصور کو ردّ کرتا ہے، وہ دراصل زندگی کو اُس کے باطنی معنی اور اخلاقی جواز سے خالی کر دیتا ہے، اور یوں ایک گہرے وجودی تضاد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اگر زندگی میں کوئی مقصد نہ ہو تو اخلاق کی بنیاد کس اصول پر قائم کی جا سکتی ہے؟ اور اگر کائنات کو غایت سے عاری سمجھ لیا جائے تو اقدار کا وجود محض ایک وہم بن کر رہ جاتا ہے۔ درحقیقت، یہ عقیدہ کہ کائنات میں کوئی حکمت یا ارادہ کارفرما نہیں، لازماً انسان کے رویّے کو عبثیّت  کی گہرائیوں میں دھکیل دیتا ہے، جہاں خیر و شر، عدل و ظلم، اور مقصد و لاحاصل کے مابین کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔

اس کے برعکس، ایمان ہر شے کو اُس کے حقیقی سیاق اور مقام پر رکھتا ہے۔ ایمان زندگی کو مقصد عطا کرتا ہے، عمل کو معنی بخشتا ہے، اور اخلاق کو ایک استوار جڑ فراہم کرتا ہے۔ کیونکہ ایمان کائنات کے اس وسیع و دقیق نظام کے پسِ پشت ایک عاقل ارادہ اور الٰہی عدل کو دیکھتا ہے ،  وہ عدل جو ہر فعل کو حساب سے اور ہر وجود کو ایک متعین غایت سے مربوط کرتا ہے۔ یوں ایمان، محض عقیدہ نہیں بلکہ ایک فکری و اخلاقی نظام ہے، جو کائنات کو معنویت بخشتا ہے اور انسان کو اُس کی غایتِ وجود کا شعور عطا کرتا ہے۔

دنیا کو ایمان کی نگاہ سے دیکھنا تحقیق سے دستبرداری نہیں، بلکہ تحقیق کے افق کو وسعت دینا ہے۔ کیونکہ ہر نیا سائنسی انکشاف اہلِ ایمان کے لیے خالقِ کائنات کی عظمت اور حکمت کے مشاہدے کا ایک نیا دریچہ بن جاتا ہے۔ جتنا زیادہ انسان ذرّے کی گہرائیوں اور کہکشاؤں کی وسعتوں میں غور کرتا ہے، اتنا ہی اسے اس حقیقت کا شعور گہرا ہوتا جاتا ہے کہ اس نظم و توازن کے پسِ پشت ایک ایسی حکیم و مدبّر ارادت کارفرما ہے جو کسی شے کو عبث یا اتفاق پر نہیں چھوڑتی۔ دراصل یہ کائنات کوئی بند معما نہیں، بلکہ ایک کھلی ہوئی کتاب ہے ،  جسے صرف وہی پڑھ سکتا ہے جو بصیرت کی آنکھ سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔اور سائنس، خواہ کتنا ہی ترقی کر جائے، اُس سوال کے سامنے ہمیشہ خاموش رہے گی جس کا جواب ایمان فراہم کرتا ہے: ہم کیوں پیدا کیے گئے؟ کیونکہ غایت نہ تو تجرباتی آلات سے ناپی جا سکتی ہے، نہ ریاضیاتی معادلات سے اخذ کی جا سکتی ہے؛ بلکہ یہ انسان کے اندرونی شعور اور فطری وجدان کی اُن گہرائیوں میں دریافت ہوتی ہے جہاں ایمان اپنی اصل صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ جب یہ ایمان کی بصیرت مفقود ہو جائے، تو سائنس  محض معلومات کا انبار بن کر رہ جاتی ہے ،  مفہوم سے خالی، روح سے عاری، اور وجود اپنی تمام حقیقت کے باوجود بے معنی دکھائی دینے لگتا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018