

اقدار کے زوال سے خاندان کے بکھرنے تک:مغرب میں خاندان کا المیہ، اعداد و شمار کی روشنی میں۔
الشيخ مصطفى الهجري
جب مغربی معاشروں نے حالیہ دہائیوں میں روایتی شادی کے تصور سے منہ موڑ لیا، اور جنسی خواہشات و مادی مفادات کے زیر اثر مرد و عورت کے درمیان غیر ازدواجی تعلقات کو رواج دیا، تو اس کے نتیجے میں کئی سنگین سماجی اثرات سامنے آئے جنہوں نے فطری اصولوں سے اس بد ترین انحراف کے تباہ کن نتائج بہت واضح کر دیے۔
اس حقیقت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ہم ڈاکٹر صلاح الدین سلطان کی کتاب "الحیاة الزوجیة فی الغرب: مشكلات واقعیة وحلول عملیة"یعنی مغرب میں ازدواجی زندگی، حقیقی مشکلات اور عملی حل ( صفحہ 6 تا 26) سے کچھ مستند اعداد و شمار پیش کرتے ہیں۔
ان اعداد و شمار کا ماخذ مغربی ممالک کی سرکاری ویب سائٹس اور وہاں کے تحقیقی مراکز ہیں۔ اگرچہ یہ اعداد کچھ پرانے ہیں، ت تاہم آج کے دور میں یہ تناسب یقیناً اس سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ ان اعداد و شمار سےمغربی معاشرے کے حقیقی صورتحال کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
پہلا: شادی سے بے رغبتی میں اضافہ:
امریکا میں اُن افراد کا تناسب جو کبھی شادی نہیں کرتے، حیران کن حد تک بڑھ چکا ہے۔
| جنس | عمر کی حد (سال) | 1970ء | 2002ء |
| مرد | 25 ــــ 29 | %10.5 | %53.7 |
| عورتیں | 25 ــــ 29 | %19.1 | %40.4 |
1970میں 25 تا 29 سال کے مردوں میں یہ شرح 10.5 فیصد اور عورتوں میں 19.1 فیصد تھی۔
2002میں یہی شرح مردوں میں 53.7 فیصد اور عورتوں میں 40.4 فیصد تک جا پہنچی۔
دوسرا: طلاق کی شرح میں اضافہ
| ملک | شادی کی شرح | طلاق کی شرح | طلاق کا تناسب |
|---|---|---|---|
| بلجیئم | 2.4 | 9.2 | 69٪ |
| امریکہ | 4.8 | 4.0 | 48٪ |
یعنی بیلجیم میں ہر ہزار افراد میں 4.2 شادیاں اور 2.9 طلاقیں ہوتی ہیں،جو طلاق کی 69 فیصد شرح کو ظاہر کرتا ہے۔
امریکا میں ہر ہزار افراد میں 8.4 شادیاں اور 4 طلاقیں ریکارڈ کی گئی ہیں،جو کہ طلاق کی 48 فیصد شرح بنتی ہے۔
تیسرا: بچوں کا والدین سے محروم رہ جانا:
طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث بچے عموماً ماں یا باپ کے ساتھ الگ رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، یا بعض اوقات سرکاری کفالت میں آجاتے ہیں۔ 1970میں صرف باپ کے زیرِ کفالت خاندانوں کی تعداد 3 لاکھ 93 ہزار اور صرف ماں کے زیرِ کفالت خاندانوں کی تعداد 34 لاکھ 10 ہزار تھی۔2003 میں یہ تعداد بڑھ کر بالترتیب 22 لاکھ 60 ہزار اور 1 کروڑ 1 لاکھ 42 ہزار تک پہنچ گئی۔
شادی کے بغیر بچوں کی پیدائش میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔
| سال | والد کی زیرِ کفالت خاندان | والدہ کی زیرِ کفالت خاندان |
|---|---|---|
| 1970 | 3,93,000 | 34,10,000 |
| 2003 | 22,60,000 | 1,01,42,000 |
1980میں سویڈن میں یہ شرح 40 فیصد، فرانس میں 11 فیصد، برطانیہ میں 12 فیصد اور امریکا میں 18 فیصد تھی۔
1988میں یہ شرح سویڈن میں 54 فیصد، فرانس میں 40 فیصد، برطانیہ میں 38 فیصد اور امریکا میں 33 فیصد تک پہنچ گئی۔
چوتھا: بچوں پر تشدد میں اضافہ
اعداد و شمار کے مطابق ہر سال 33 لاکھ بچے اپنی ماؤں کو اپنے باپ یا سوتیلے باپ کے ہاتھوں پٹتے دیکھتے ہیں۔ جن گھروں میں والدین ایک دوسرے پر تشدد کرتے ہیں، وہاں بچوں پر ظلم کے امکانات 1500 گنا زیادہ ہوتے ہیں۔مزید یہ کہ 40 تا 60 فیصد وہ مرد جو بیویوں یا گرل فرینڈز پر ہاتھ اٹھاتے ہیں، بچوں پر بھی تشدد کرتے ہیں۔قتل ہونے والے تمام بچوں میں 27 فیصد ایسے ہیں جو گھریلو تشدد کا شکار ہوئے، جن میں 90 فیصد کی عمر دس سال سے کم اور 56 فیصد کی عمر دو سال سے بھی کم تھی۔
پانچواں: عورتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ
مغربی معاشرتی ڈھانچے میں مرد و زن کے آزاد تعلقات نے عورت کو شدید ظلم و استحصال کا نشانہ بنایا۔ امریکا میں 10 ملین عورتیں اپنے بچوں کی تنہا پرورش کرتی ہیں، جبکہ مردوں کی تعداد صرف 2.25 ملین ہے۔ مزید اعداد و شمار کے مطابق 33 فیصد عورتیں مار پیٹ کا شکار ہوتی ہیں۔روزانہ اوسطاً 3 عورتیں قتل ہوتی ہیں۔ 2001ء میں 1247 عورتیں اپنے شوہر یا ساتھی کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔ گھریلو تشدد کا شکار ہونے والوں میں 90 تا 95 فیصد خواتین ہوتی ہیں،اور 70 فیصد مقتولین عورتیں ہیں۔ 1999ء میں تشدد کے واقعات 9 لاکھ 60 ہزار سے بڑھ کر 30 لاکھ ہو گئے۔
چھٹا: نوجوانوں میں منشیات و شراب نوشی کا فروغ
2003ء کے آخر میں امریکی ہائی اسکول کے طلبہ پر کی گئی تحقیق کے مطابق24.4 فیصد طلبہ سگریٹ نوشی کرتے ہیں، 21.2 فیصد ماریجوانا، 2 فیصد کوکین،47.5 فیصد شراب نوشی کے عادی ہیں، جبکہ 27.9 فیصد طلبہ مسلسل پانچ مرتبہ شراب نوشی کرتے ہیں۔
ساتواں: نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں میں غیر اخلاقی تعلقات
1995ء کی ایک تحقیق کے مطابق 50 فیصد لڑکیاں اور 60 فیصد لڑکے 19 سال کی عمر سے پہلے ہی جنسی تعلقات قائم کر چکے تھے۔
15 تا 19 سال کی لڑکیوں میں 10.2 فیصد حاملہ تھیں۔ حکومتی پالیسیاں زنا کو روکنے کے بجائے صرف "محفوظ تعلقات" کی تعلیم دیتی ہیں تاکہ ایڈز اور دوسری بیماریوں پر اخراجات کم ہوں۔ ایڈز کے مریض پر فی ماہ 1000 ڈالر خرچ آتا ہے۔ کم عمر لڑکیوں میں ولادت کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ 1994میں 10 تا 14 سال کی عمر کی 1290 لڑکیوں کے ہاں ولادت کے واقعات درج کیے گئے، جبکہ 2002 میں یہ تعداد بڑھ کر 7315 ہو گئی۔
آٹھواں: خاندانی نظام کی بگڑتی صورتِ حال مغربی معاشروں میں "خاندان" کا تصور بکھر چکا ہے۔1970 میں شادی شدہ جوڑوں کے بچوں کے ساتھ رہنے والے خاندانوں کی شرح 40.3 فیصد تھی، جو 2000 میں کم ہو کر صرف 24.1 فیصد رہ گئی۔شادی شدہ مگر بے اولاد جوڑوں کی شرح 30.3 سے 28.7 فیصد، اکیلے مردوں کی شرح 5.6 سے 10.7 فیصد، اکیلی عورتوں کی شرح 11.5 سے 14 فیصد، اور شادی کے بغیر ساتھ رہنے والے جوڑوں کی شرح 12.3 سے بڑھ کر 21.7 فیصد ہو گئی۔
یہ تمام اعداد و شواہد چیخ چیخ کر یہ بتا رہے ہیں کہ مغربی معاشرہ "ترقی" کے نام پر دراصل اخلاقی زوال، خاندانی ٹوٹ پھوٹ، نفسیاتی الجھنوں اور سماجی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ یہ وہ انجام ہے جو اس وقت سامنے آتا ہے جب انسان فطرت اور الٰہی ہدایات سے منہ موڑ لیتا ہے۔


