

عورت اسلام کی نظر میں: برابری کی نہیں، کمال کی جستجو
الشيخ معتصم السيد أحمد
عورت انسانی زندگی کے سفر میں کبھی بھی محض ایک ضمنی یا غیر اہم کردار نہیں رہی کہ اسے صرف گھریلو ذمہ داریوں یا جسمانی تقاضوں تک محدود کر دیا جائے۔ بلکہ وہ ہمیشہ زندگی کو سنوارنے اور معاشروں کو بنانے میں ایک نہایت اہم شریک کے طور پر کردار ادا کرتی رہی ہے۔
البتہ تاریخ کے مختلف ادوار میں عورت کی یہ حقیقی حیثیت بے رنگ بلکہ نظرانداز ہوتی رہی۔ کئی قدیم تہذیبوں میں عورت کی حیثیت پر تنگ نظر زاویے غالب آگئے، اور کچھ مسلم معاشروں میں بھی عورت کو کمی اور کجی کے چشمے سے دیکھا گیا۔ حتی کہ بعض روایات اور دینی متون میں بھی اس سوچ کی جھلک دکھاتی ہے۔ لیکن ان روایات کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ ان کو دین کی مسلمہ اور قطعی حقیقت کے طور پرنہ لیا جائے، بلکہ باریک بینی سے ان کا مطالعہ کیا جائے۔ ایسا مطالعہ جو سیاق و سباق کو مدنظر رکھتے ہوئے اورمفہوم پر غور کرتے ہوئے ان روایات کو قرآن کے معیار اور عقل کی روشنی میں پرکھے۔ تاکہ ان سے بظاہر سامنے آنے والی عورت کی تحقیر کو بڑھاوا دینے کے بجائے اس کی اصل قدر و منزلت کو اجاگر کرے۔
مسلمان ہونے کے ناطےہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ عورت کی اصل حیثیت اور مقام کو سمجھنے کے لیے سب سے بڑا اور حتمی حوالہ قرآنِ کریم ہے۔ کیونکہ قرآن ایک قطعی اور فیصلہ کن نص ہے، جو دوسری تمام نصوص پر حاکم ہے، اور اسی پر ہمارے اقدار اور قانون کی بنیاد قائم ہے۔
قرآن کی محکم اور واضح تعلیمات سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام نے عورت کو دیکھنے کا زاویہ "جنس کی برتری" یا "مرد و عورت کے فرق" پر نہیں رکھا۔ بلکہ اسلام نے اصل معیار انسانی عزت اور کرامت کو قرار دیا ہے، اور یہ عزت صرف اور صرف تقویٰ پر منحصر ہے، نہ کہ جنس، رنگ یا نسب پر۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا: ﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ﴾
بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔
اسی طرح قرآن نے عورت اور مرد کو ایمان، عمل اور ولایت میں برابر کا شریک بنایا ہے:
﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ﴾
"مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار اور رفیق ہیں۔"
اور دونوں کے درمیان آخرت کے اجر و ثواب میں بھی کوئی فرق نہیں رکھا
﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً﴾
جو بھی نیک عمل کرے، خواہ مرد ہو یا عورت، اور وہ مومن ہو، تو ہم اسے ضرور ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔
قرآن مجید کا یہ توحیدی منطق اور پیغام اس نکتے کو واضح کرتا ہے کہ جنس کی بنیاد پر کسی بھی قسم کا امتیاز یا فرق ڈالنا دراصل خدائی پیغام کا تسلسل نہیں بلکہ اس سے صریح انحراف ہے۔ اور اصل برتری کا معیار صرف نیک عمل اور تقویٰ ہے، نہ کہ فطری یا جسمانی خصوصیات۔ لیکن بد قسمتی سے ہوا یہ کہ قرآن کے اصل پیغام اور معاشرتی رسم و رواج کو آپس میں خلط ملط کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں کچھ دینی نصوص کو ایسے معانی کے پہناوے پہنائے گئے کہ جو ان میں سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔ یوں دین کو اس کے اپنے اقدار کے آنکھ سے نہیں بلکہ سماجی عینک سے پڑھا گیا۔
اسی پس منظر میں مختلف اقوال اور روایات جمع ہوتی گئیں، جو خاص حالات اور مخصوص سیاق میں کہی یا لکھی گئی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کو عورت کی کم تری والی سوچ کو درست ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عورت کو "ناقص العقل" قرار دیا گیا، یا یہ کہا گیا کہ اس کی فطرت میں فریب اور مکر زیادہ ہے، یا پھر یہ کہ اس کی جذباتیت اس کے درست فہم و ادراک میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔
اگرچہ ان میں سے بعض جملے ائمہ دین یا بزرگوں کی طرف منسوب کیے گئے، لیکن علمی مطالعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ایسی نسبتوں کی سند کو صحیح انداز میں پرکھنا ضروری ہے، اسی طرح ان کے مفہوم کی تہہ میں اترکر یہ واضح کرنا چاہیے کہ کون سا بیان وقتی اور بلاغی انداز کا ہے اور کون سا حکم واقعی اور شرعی حیثیت کا حامل ہے۔ جب یہ علمی معیار قائم ہو جاتا ہے تو ان میں سے بہت سی غلط فہمیاں اور روایتی خیالات از خود ختم ہو جاتے ہیں جو صرف ظاہرِ نصوص پر مبنی تھے۔ اس طرح ان اقوال کو ان کی اصل حدود میں واپس لایا جا سکتا ہے، تاکہ نہ ان کو غلط طور پر عام کیا جائے نہ ہی غلط مقصد کے لیے استعمال کیا جائے۔
جو شخص عربی زبان کے اسالیب پر غور کرتا ہے، خصوصاً قرآنِ کریم، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیانات اور اہل بیتؑ کے اقوال پر، وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیتا ہے کہ الفاظ عموم کا استعمال ہمیشہ ہر فرد کے لیے حکم عام ثابت کرنے کے لئے نہیں ہوتا۔ بہت سے مواقع پر عموم کی تعبیر محض بلاغتی اثر پیدا کرنے یا تربیتی تنبیہ کے لیے استعمال کی جاتی ہے، نہ کہ ہر ایک پرحکم کے اطلاق کے لیے۔ اس لیے ہرلفظ وعام کے استعمال کو کو کلی اور مطلق قاعدہ سمجھ لینا درست نہیں، کیونکہ عربی اسلوب میں مجاز، وسعت اور مبالغہ اپنی اپنی جگہ پر برتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، قرآنِ کریم میں عزیزِ مصر کا یہ قول نقل ہوا ہے ﴿إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ﴾ "بیشک تمہاری چالاکی بہت بڑی ہے۔
"بظاہر لگتا ہے کہ یہ عورتوں کی فطرت کے بارے میں ایک عمومی بیان ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک انسانی شخصیت (عزیزِ مصر) کا جملہ ہے، جو ایک خاص واقعے (حضرت یوسفؑ اور زلیخا کا قصہ) کے سیاق میں کہا گیا۔ یہ اللہ کی طرف سے عورت کی فطرت پر کوئی فیصلہ کن بیان نہیں، بلکہ قصے کے ضمن میں آیا ہوا ایک قول ہے۔ اسی طرح ان روایات کو بھی اسی زاویے سے سمجھنا چاہیے جن میں عورتوں کی مذمت یا عقل کی کمی کا ذکر ملتا ہے یا ان کی اطاعت سے منع کیا گیا ہے۔ ان میں سے کئی روایات اصل میں نصیحت، ڈانٹ یا نفسیاتی تیاری کے انداز میں کہی گئی ہیں، نہ کہ شرعی حکم یا عورت کی فطرت کے بارے میں قطعی فیصلہ کے طور پر۔
بعض نصوص میں مبالغہ اس لیے برتا جاتا ہے تاکہ سننے والے کو جھنجھوڑا جا سکے اور وہ بات پر زیادہ توجہ دے—جیسا کہ محاورات اور نصیحتوں میں عموماً کیا جاتا ہے۔ مقصد اثر پیدا کرنا ہوتا ہے، نہ کہ سائنسی حقیقت یا دائمی قانون بیان کرنا۔ یہی بات ہمیں ان نصوص میں نظر آتی ہے جو امیر المؤمنینؑ کے بیانات میں معرکہ جمل کے بعد ملتی ہیں۔ ان میں عورتوں کے بارے میں سخت اشارے موجود ہیں، لیکن وہ ایک خاص سیاسی صورتِ حال میں دیے گئے، جب مخالف لشکر کی قیادت ایک عورت کے ہاتھ میں تھی۔ اس لیے الفاظ عام ہیں، مگر مراد خاص ہے۔ اگر واقعی وہ جملے، جو بعض روایات میں عورت کے بارے میں آئے ہیں، دین کا کوئی کلی اور لازمی قاعدہ ہوتے، تو پھر امام علیؑ کی عملی زندگی میں ہمیں اس کے برعکس واضح مثالیں نہ ملتیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امام علیؑ کی سیرت عورت کے احترام، اس کے عقل و شعور پر اعتماد، اور معاشرتی کردار پر بھروسے سے بھری ہوئی ہے۔ ان کا اپنی زوجہ سیدہ فاطمہ زہراؑ کے ساتھ تعلق ایک اعلیٰ نمونہ ہے کہ مرد اور عورت انسانی کمال میں ایک دوسرے کے شریک کیسے ہو سکتے ہیں۔ ان کی زندگی احترام، محبت اور باہمی قدردانی سے لبریز تھی۔ امام علیؑ کے اقوال و اعمال سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی زوجہ کی عقل، رائے اور سیرت کی عظمت پر گہرا ایمان رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زہراؑ کو سیدہ نساء العالمین قرار دیا، اور فرمایا: "وہ میرا حصہ ہیں، ان کی رضا میری رضا ہے اور ان کا غصہ میرا غصہ ہے۔" یہ مرتبہ صرف اسی کو مل سکتا ہے جو انسانی کمال کی انتہا پر پہنچ چکا ہو۔
لہٰذا، وہ نصوص جو بظاہر عورت کو کم تر دکھاتی ہیں، ان کو امام علیؑ کی روشن سیرت سے علحدہ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ بلکہ ضروری ہے کہ انہیں ان کے اصل خطابی اور وقتی سیاق کے ساتھ سمجھا جائے، اور یہ پرکھا جائے کہ کہاں کلام بلاغی یا جذباتی انداز میں ہے اور کہاں تشریعی یا اقداری حکم دیا گیا ہے۔ بلکہ بعض ایسے نصوص، جنہیں کچھ لوگوں نے عورت کی توہین سمجھا، دراصل اپنے ساتھ وضاحت بھی رکھتی ہیں جو اصل مقصد کو واضح کر دیتی ہے اور عورت کی انسانی قدر و منزلت کو گھٹانے کا کوئی پہلو باقی نہیں رہتا۔
اس کی مثال نہج البلاغہ کی وہ روایت ہے جس میں امام علیؑ نے فرمایا: اے لوگو! عورتیں ایمان میں ناقص، عقل میں ناقص ، اور حصے (وراثت) میں ناقص ہیں۔
پھر فوراً وضاحت بھی کی کہ ایمان میں کمی اس لیے ہے کہ ایامِ حیض میں وہ نماز اور روزہ چھوڑ دیتی ہیں۔ عقل میں کمی اس لیے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر رکھی گئی ہے۔ حصے میں کمی اس لیے کہ ان کی وراثت مرد کی نسبت نصف رکھی گئی ہے۔ یعنی امامؑ نے ان "نقائص" کو عورت کی کمزوری یا کمتر ہونے سے نہیں جوڑا، بلکہ شرعی احکام اور عملی ذمہ داریوں کے فرق کے طور پر بیان کیا۔ اس روایت کو اکثر اس کے اصل سیاق سے کاٹ کر یا سطحی انداز میں پڑھا گیا ہے، اور یوں اسے عورت کی دینی اور عقلی کمزوری کا فیصلہ سمجھ لیا گیا۔ حالانکہ امامؑ نے خود اس کا مطلب کھول کر بیان کر دیا تھا۔
نقصانِ ایمان" سے مراد یہ نہیں کہ عورت کے یقین یا دین میں کمی ہے، بلکہ اس سے آپ کا اشارہ ان عبادتی احکام کی طرف ہے جو حالتِ حیض میں عورت سے ساقط ہو جاتے ہیں، جیسے نماز اور روزہ چھوڑ دینا۔ یہ عورت پر بوجھ کم کرنے کے لیے شرعی رعایت ہے، نہ کہ کسی طرح کی دینی مذمت۔ اسی طرح "نقصانِ عقل" کا مطلب عورت کے فہم یا سوچ میں کمی نہیں ہے، بلکہ یہ گواہی کے حکم کی طرف اشارہ ہے، جہاں دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر رکھی گئی ہے۔ یہ بھی تشریعی حکم ہے جو ذمہ داریوں اور تکالیف کے نظام سے جڑا ہوا ہے، نہ کہ عقل و شعور کی صلاحیت سے۔
حصے میں نقصان کا تعلق وراثت سے ہے، جہاں عورت کو مرد کے مقابلے میں نصف حصہ دیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک شرعی اور عبادتی حکم ہے، جو خاندان کے اندر ذمہ داریوں کی تقسیم کے ساتھ مربوط ہے، نہ کہ اس بات کی دلیل کہ عورت کی زندگی کا حصہ مرد سے کم ہے۔
اسی طرح ان روایات میں ایک اور جملہ ہے جسے غلط طور پر عورتوں کے بارے میں عمومی اور منفی حکم سمجھا گیا: "برے عورتوں سے بچو، اور نیک عورتوں کے بارے میں بھی محتاط رہو"۔ کچھ لوگوں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ گویا تمام عورتیں، حتیٰ کہ نیک بھی، خطرہ رکھتی ہیں۔ حالانکہ متن کو انصاف اور گہرائی سے پڑھا جائے تو یہ مفہوم بالکل نہیں نکلتا۔ روایت خود صاف طور پر "بری عورتوں" اور "نیک عورتوں" میں فرق کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذمت صرف ان عورتوں کی ہے جو برا رویہ دکھائیں، بالکل اسی طرح جیسے دوسری روایات میں مردوں کی ایک خاص برائی والی جماعت کی مذمت کی گئی ہے، مگر اس سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ سارے مرد برے ہیں۔ اور نیک عورتوں کے بارے میں بھی محتاط رہو" اس جملے کا مقصد یہ نہیں کہ نیک عورت سے ڈرا جائے یا اس کی نیکی پر شک کیا جائے، بلکہ یہ ہدایت مرد کو دی گئی ہے کہ وہ عورت کی محبت میں اس حد تک نہ ڈوب جائے کہ عقل و شریعت کے توازن کو نظر انداز کر بیٹھے۔
انسان اپنی ماں، بیوی، بیٹی یا بہن سے فطری طور پر بے پناہ محبت کرتا ہے۔ یہ محبت پاکیزہ اور فطرت کا عظیم تحفہ ہے، مگر کبھی کبھار یہی گہری محبت تنقیدی نظر کو کمزور کر دیتی ہے اور فیصلے کی صلاحیت پر اثر ڈالتی ہے۔ کیونکہ عورت، اپنی شدید جذباتی کیفیت (چاہے وہ محبت ہو، رحم ہو یا خوف) کے زیرِ اثر کوئی ایسی بات بھی تجویز کر سکتی ہے جو حکمت یا اولویت کے عین مطابق نہ ہو۔ ایسے موقع پر مرد کا کام عورت پر شک کرنا نہیں بلکہ خود باشعور رہنا ہے، تاکہ وہ فیصلے جذبات کی بجائے عقل اور شریعت کی بنیاد پر کرے، اور اللہ کی رضا کو ترجیح دے، چاہے اس میں اس کی محبوب ہستی کی خواہش کے برخلاف جانا پڑے۔
اگر اس حدیث کو محض عورتوں کے بارے میں عمومی تنقید سمجھ لیا جائے تو یہ صریحاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے خلاف ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو کبھی شک یا خطرے کی علامت نہیں سمجھا بلکہ عزت و تکریم دی۔ آپ نے عورت کو پیغامِ رسالت کا شریک اور حکمت و محبت کا سرچشمہ مانا۔ مثال کے طور پر صلح حدیبیہ کے نازک موقع پر، جب صحابہ آپ کے حکم پر عمل کرنے میں ہچکچاہٹ دکھا رہے تھے، تو آپ نے امّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا۔ ان کا مشورہ یہ تھا کہ آپ خود سب سے پہلے قربانی کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی پر عمل کیا اور یوں بحران ٹل گیا۔ یہ واقعہ صاف بتاتا ہے کہ اسلام میں معیار "صحیح رائے" ہے، نہ کہ یہ کہ رائے دینے والا مرد ہے یا عورت۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرمایا: فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، جس نے اسے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ یہ جملہ اس بات کا اعلان ہے کہ عورت اپنی روحانی اور انسانی حیثیت میں بلند مقام رکھتی ہے، جسے اس کی نسوانیت یا جذباتیت کمزور نہیں کرتی۔
یہی حقیقت ہمیں امام حسین علیہ السلام کی سیرت میں بھی ملتی ہے۔ آپ نے اپنی تحریکِ کربلا میی عورتوں کو صرف ساتھ ہی نہیں رکھا بلکہ اپنی بہن حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو عظیم ذمہ داری بھی سونپی۔ امامؑ نے ان کو یہ فریضہ دیا کہ وہ کربلا کے پیغام کو شہادت کے بعد دنیا تک پہنچائیں۔ حضرت زینبؑ نے ابن زیاد اور یزید کے درباروں میں خطبات دے کر دشمنوں کو رسوا کیا اور کربلا کو صرف ایک معرکہ نہیں رہنے دیا بلکہ ایک ابدی اور زندہ تحریک میں بدل دیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسی زندہ مثالوں کے باوجود ایک جملے کو سیاق سے کاٹ کر عورت کی دائمی مذمت کے طور پر پیش کیا جائے؟ اور کیا انصاف یہ ہے کہ اسلام کی پوری عملی تاریخِ نسوانی کو نظر انداز کر کے صرف چند جملے، وہ بھی سیاق سے ہٹا کر، عورت کے خلاف دلیل کے طور پر پیش کیے جائیں؟
عورت کی عاطفت: کمزوری نہیں بلکہ طاقت
عورت کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ زیادہ تر اپنے جذبات اور عاطفہ کے زیرِ اثر ہوتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی کمزوری نہیں بلکہ ایک طاقت ہے جو اُسے ماں بننے، اولاد کی پرورش کرنے، اور خاندان کو سنبھالنے کے لئے موزوں بناتی ہے۔ دنیا کے کسی عاقل شخص نے کبھی یہ نہیں کہا کہ رحمت، محبت اور نرمی کم عقلی یا قیادت میں ناکامی کی علامت ہیں۔ بلکہ اگر عورت کے اندر یہ جذباتی قوت نہ ہوتی تو نہ خاندان قائم رہ سکتا تھا اور نہ ہی انسان اپنی بچپن کی نشوونما مکمل کر پاتا۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت دونوں کو اُن کی اپنی نفسیاتی اور جسمانی خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا ہے، تاکہ ہر ایک اپنی ذمہ داری بہتر طور پر ادا کرے۔ لیکن یہ فرق کسی ایک کی دوسرے پر برتری یا فضیلت کو ظاہر نہیں کرتا، بلکہ یہ محض تقسیم کار ہے۔
لہٰذا عورت کو کمتر، ناقص یا مرد سے ادنیٰ سمجھنا دراصل معاشرتی اثرات اور بعض نصوص کے غلط مفہوم سے پیدا ہونے والی سوچ ہے۔ یہ نہ قرآن کے اصل پیغام کی نمائندگی کرتا ہے اور نہ ہی اسلام کے حقیقی جوہر کی۔ اسلام کی نظر میں عورت ایک باعزت، باشعور، ذمےدار، شریکِ حیات، مکرم اور مکلف انسان ہے۔ دین نے اُسے زندگی میں اثرانداز ہونے، فیصلے کرنے، عمل کرنے اور عزت کے ساتھ جینے کے مواقع وسیع پیمانے پر دیے ہیں، جو اُس کی فطرت کے عین مطابق ہیں اور اُس نظام عدل کی عکاسی کرتے ہیں جسے اسلام لے کر آیاہے۔