10 ربيع الثاني 1447 هـ   3 اکتوبر 2025 عيسوى 8:52 am کربلا
موجودہ پروگرام
آج کے دن ،یعنی 10ربیع الثانی، سنہ 201 ہجری کو معصومہ قم حضرت فاطمہ بنت امام موسی کاظم(ع) کی وفات ہوئی۔
مین مینو

2025-09-26   122

آزمائش اور سزا: ایمان کے تناظر میں زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے کا زاویہ

الشيخ معتصم السيد أحمد

جب مومن انسان کو مشکل درپیش ہوتی ہے اور وہ سخت مسائل میں گھرا برے حالات سے لڑ رہا ہوتاہے تو اس وقت اس کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ میں جن مشکل سے گزر رہا ہوں یہ امتحان ہے جس کے ذریعے میرے صبر و ایمان کو جانچا جا رہا ہے یا یہ کسی گناہ یا کوتاہی کی سزا ہے؟ یہ سوال خلا میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس فطری احساس سے جنم لیتا ہے کہ انسان کی زندگی کا کوئی مقصد ہے اور اس کی پریشانیوں اور تکلیفوں کے پیچھے بھی کوئی وجہ ہوتی ہے۔ مومن یہ یقین رکھتا ہے کہ ہر واقعے کے پیچھے ایک بلند حکمت کارفرما ہوتی ہے جو اکثر ہماری محدود نظر سے اوجھل رہ جاتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کیسے پہچانیں کہ درپیش صورتحال ابتلاء ہے یا سزا ہے ؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ قرآن کریم کی روشنی میں دنیا میں پیش آنے والے مصائب اور آزمائشوں کی حکمت کو کس طرح سمجھا جائے؟

اس بحث کی ابتدا ہمیں تخلیق ِ انسان کے فلسفے کو سمجھنے کے ذریعے کرنی چاہیے۔ قرآنی تصور کے مطابق انسان کو فضول یا بے مقصد پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اسے ایک بڑی ذمہ داری دی گئی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیا:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات ۵۶)

اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔

 یہاں عبادت سے مراد صرف چند مخصوص رسومات یا معین عبادات نہیں بلکہ ایک مکمل نظریۂ حیات ہے جو انسان کی زندگی کو اللہ کی مرضی کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے۔ اس طرح جب وہ کھاتا ہے، کام کرتا ہے، حکم دیتا ہے یا صبر کرتا ہے تو یہ سب کچھ ان اقدار کی روشنی میں کرتا ہے جو اللہ کی صفات اور کمالات سے ماخوذ ہیں اور یوں اس کا روزمرہ کا طرزِ عمل آزادی اور شعوری بندگی کا اظہار بن جاتا ہے نہ کہ جبر کی غلامی ہوتا ہے۔

اس تصور کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ انسان کی زندگی ایک ہی منہج پر نہیں چل سکتی کیونکہ امتحان ایک ماحول یا چیلنج سے خالی حالات میں ممکن ہی نہیں۔ جیسے طالب علم اسی وقت پرکھا جا سکتا ہے جب اسے درست اور غلط کے بیچ انتخاب کا موقع دیا جائے۔ویسے ہی مؤمن کا امتحان بھی تب ہوتا ہے جب اس کے سامنے خیر و شر، آسائش و سختی، دولت و فقیری کی مختلف صورتیں آتی ہیں تاکہ دیکھا جاسکے کہ وہ ان سب سے کیسے نبرد آزما ہوتا ہے۔ یہی بات قرآن کریم میں صاف الفاظ میں بیان ہوئی ہے:

أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (سورہ عنکبوت ۲)

کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟

ایک اور مقام پر فرمایا:

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ (سورہ الانبیاء ۳۵)

ہر نفس کو موت (کا ذائقہ) چکھنا ہے اور ہم امتحان کے طور پر برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں مبتلا کرتے ہیں اور تم پلٹ کر ہماری ہی طرف آؤ گے۔

مصیبت اور آزمائش زندگی کا حصہ ہیں اور انہی کے ذریعے اللہ کی حکمت، اس کا عدل اور بندوں کی تربیت کا پتہ چلتا ہے۔ اصل مسئلہ ہمارے فہم میں ہےکہ ہم ان واقعات کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا ہم انہیں امتحان کی علامتیں سمجھتے ہیں یا ناراضی اور غضب کا اظہار قرار دیتے ہیں؟

اس کا جواب ایک نہایت باریک نکتے سے شروع ہوتا ہے کہ واقعہ خواہ مؤمن کے ساتھ پیش آئے یا کافر کے ساتھ اپنی نوعیت کے اعتبار سے زیادہ فرق نہیں رکھتا۔ دونوں ہی بیماری، فقر یا قدرتی آفت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اصل فرق واقعے کی نوعیت میں نہیں بلکہ اس کے قبول کرنے اور اس سے نمٹنے کے طریقے میں ہے۔ مؤمن ہر آزمائش کو ترقی اور انتخاب کا موقع سمجھتا ہے، ایک ایسا امتحان جو صبر، ثابت قدمی اور توکل کے دروازے کھول دیتا ہے۔یوں وہ اپنی تکلیف کو معنی اور اپنے درد کو یقین میں ڈھال دیتا ہے۔ جس کے پاس ایمان کی روشنی نہیں جس سے وہ حالات کو سمجھ سکے وہ جلد ہی ان واقعات کو محض عبث یا فقط سزا سمجھنے لگتا ہے اور یوں بیزاری، گھبراہٹ اور اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔

نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حقیقت کو نہایت جامع انداز میں یوں بیان فرمایا: "مؤمن کا معاملہ بڑا عجیب ہے! اس کا ہر حال اس کے لیے بھلائی ہے اور یہ خصوصیت کسی اور کے لیے نہیں سوائے مؤمن کے؛ اگر اسے خوشحالی ملے تو شکر کرتا ہے، یہ اس کے لیے بھلائی ہے اور اگر اسے سختی پہنچے تو صبر کرتا ہےیہ بھی اس کے لیے بھلائی ہے۔" اس طرح ہر حالت میں مؤمن اپنے امتحان کے ساتھ مثبت اور بامقصد انداز میں جڑتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ نفع میں رہتا ہے اور خسارے سے محفوط ہوتا ہے۔

آزمائش ہمیشہ سزا نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات یہ عزت افزائی اور بلندی کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ کیا انبیاء کو آزمائشوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا؟ کیا ائمہ اور اولیاء سب سے کٹھن حالات سے نہیں گزرے؟ اگر مصیبت محض اللہ کے غضب کی علامت ہوتی تو اس کے سب سے محبوب بندے اس کا شکار نہ ہوتے۔ درحقیقت جب آزمائش نیک اور صالح لوگوں پر آتی ہے تو یہ ان کے چُنے جانے، ان کے تزکیے اور کمال کی اعلیٰ منزلوں تک پہنچنے کی علامت ہوتی ہے۔

اس کے باوجود یہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بعض آزمائشیں درحقیقت گناہوں کی سزا بھی ہو سکتی ہیں اور وہ اس وقت آتی ہیں جب انسان اللہ کے راستے سے روگردانی کرے اور سرکشی و ظلم میں حد سے بڑھ جائے۔ لیکن اسلام میں یہ سزائیں انتقام کے طور پر نہیں بلکہ تنبیہ اور باز رکھنے کے طور پر آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ(سورہ شوری ۳۰ )

۳۰۔ اور تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہے اور وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔

اس کے ساتھ اسلام ہر مصیبت کو فوری طور پر اخلاقی جرم سے جوڑنے کا طرز نہیں اپناتا بلکہ سب سے پہلے انسان کو غور و فکر، خود احتسابی اور توبہ کی دعوت دیتا ہے،پہلے ہی خود کو کوسنے یا ٹوٹ پھوٹ میں مبتلا ہونے کی تعلیم نہیں دیتا۔

اسی بنیادی سوال کی طرف ہم پلٹتے ہیں: ہم کیسے پہچانیں کہ کوئی آزمائش اللہ کی طرف سے امتحان ہے یا سزا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ فرق خود واقعے کی نوعیت یا اس کی شدت سے نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ ایک ہی مصیبت مؤمن کو بھی پہنچ سکتی ہے اور کافر بھی اس کا شکار ہو سکتا ہے، نیک کو بھی اور بدکار کو بھی اس میں مبتلا کیا جاسکتا ہے۔ اصل فرق اس کے اثرات اور انسان کے ردِّعمل میں ہے۔ اگر وہ مصیبت انسان کو اپنی اصلاح پر آمادہ کرے، اللہ کی طرف رجوع کا ذریعہ بنے، ایمان اور صبر میں اضافہ کرے اور عبادت و اطاعت کے قریب کر دے تو یہ ایسا امتحان ہے جس میں رحمت اور تزکیہ پوشیدہ ہے۔ لیکن اگر وہی مصیبت انسان کو بے صبری، مایوسی، بغاوت یا غفلت کی طرف لے جائے اور اسے اللہ سے دور کر دے تو یہ سزا ہے، چاہے اسے سزا کا نام نہ بھی دیا جائے۔ لہٰذا اصل معیار خود مصیبت نہیں بلکہ وہ بیداری یا سختی ہے جو دل میں پیدا ہوتی ہے اور وہ قرب یا بُعد ہے جو اللہ کے ساتھ تعلق میں ظاہر ہوتا ہے۔

اس زاویے سے دیکھا جائے تو پوری زندگی ہی امتحان کا میدان بن جاتی ہےاور اس کی ہر گھڑی انسان کے لیے ترقی یا زوال کا موقع بن سکتی ہے۔ امتحان صرف مصیبتوں سے نہیں ہوتابلکہ نعمتیں بھی بعض اوقات کڑی آزمائش ثابت ہوتی ہیں کیونکہ وہ انسان کو غفلت اور بے فکری کی طرف مائل کر دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

فَأَمَّا الْإِنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ ﴿۱۵﴾ وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ ﴿۱۶﴾ كَلَّا ۖ بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ ﴿۱۷﴾(سورہ فجر آیات ۱۵،۱۶،۱۷)

مگر جب انسان کو اس کا رب آزما لیتا ہے پھر اسے عزت دیتا ہے اور اسے نعمتیں عطا فرماتا ہے تو کہتا ہے: میرے رب نے مجھے عزت بخشی ہے۔ ۱۶۔ اور جب اسے آزما لیتا ہے اور اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے میری توہین کی ہے۔ ۱۷۔ ہرگز نہیں ! بلکہ تم خود یتیم کی عزت نہیں کرتے،

یعنی انسان کا یہ معیار کہ وہ نعمت کو عزت اور تنگی کو ذلت سمجھے غلط ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس بندے کے لیے کون سا حال خیر کا ذریعہ ہے اور کس صورت میں اس کی تربیت اور آزمائش مقصود ہے۔

اسی طرح بلا کے بارے میں توحیدی نقطۂ نظر انسان کو اپنے حالات کے مقابلے میں باشعور بنا دیتا ہے۔ وہ نہ تو اپنے ماحول کا غلام بنتا ہے اور نہ ہی حادثے یا قسمت کا شکار سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنے رویّے کا خود ذمہ دار ہےکہ وہ صبر کرتا ہے یا بے صبری، برداشت دکھاتا ہے یا ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے صبر کرنے والوں کے لیے خاص اجر کا وعدہ کیا ہے:

الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ(سورہ بقرہ ۱۵۶)

۱۵۶۔جو مصیبت میں مبتلا ہونے کی صورت میں کہتے ہیں: ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

 یہ کلمات پورے فلسفۂ بلا کو بہترین انداز میں بیان کر رہے ہیں: ہم اپنی ذات اور اپنی زندگی کے تمام واقعات کو اللہ سے تعلق اور اسی کی طرف واپسی کے تناظر میں دیکھیں۔

آذمائش ہر وقت کوئی منفی چیز نہیں ہےبلکہ ان تربیتی وسائل میں سے ایک ہے جنہیں اللہ انسان کی تہذیب، اس کے ارادے کی مضبوطی اور اس کے باطن کو سامنے لانے کے لیے اختیار کرتا ہے۔ جیسے سونا آگ میں تپ کر نکھرتا ہے، ویسے ہی ایمان مصیبتوں کی بھٹی میں صیقل ہوتا ہے۔ جو شخص اس حقیقت کو سمجھ لے، وہ صرف یہ نہیں پوچھے گا: مجھے کیوں آزمایا گیا؟ بلکہ یہ سوال کرے گا کہ میں اس آزمائش پر کیا ردِّعمل دکھاؤں؟ مجھے اس سے کیا سیکھنا چاہیے؟ اور اس کے ذریعے اللہ نے میرے لیے کون سا دروازہ کھولا ہے؟"

اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ہم یہ طے کریں کہ کوئی واقعہ ابتلاء ہے یا سزا، بلکہ زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم ہر آزمائش کو اللہ کے قریب جانے کا موقع بنا سکیں، ہر مصیبت کو رشد و ہدایت کی سیڑھی بنا لیں اور ہر مشکل کو ایمان کی علامت سمجھ سکیں۔ جو شخص ایسا کر لیتا ہے وہی ہدایت یافتہ ہے، جس سے اللہ نے اپنی رحمت اور رضا کا وعدہ کیا ہے ۔ اس لیے نہیں کہ وہ آزمائشوں سے بچ گیا بلکہ اس لیے کہ اس نے سیکھ لیا کہ آزمائشوں کا سامنا کیسے کرنا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018