10 ربيع الاول 1447 هـ   3 ستمبر 2025 عيسوى 3:40 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-09-02   13

حدیث عید زہراٗ سلام اللہ علیہا – فقہا نے اس عید کا ذکر کیوں نہیں کیا ؟

علي العزّام الحسيني

۹ ربیع الاول کے دن جشن  اور عیدمنانا جسے لوگ عید زہراءؑکے نام سے موسوم کرتے ہیں، یہ  ایک وسیع اور مختلف جہتوں والا موضوع ہے۔ کیونکہ یہ مسئلہ تاریخی، سماجی اور سیاسی زاویوں سے مختلف پہلو رکھتا ہے۔ لیکن اس مقالےمیں ان جہتوں پر گفتگو کرنے کے بجائے میں زیادہ تر اس مناسبت کے فقہی پہلو پر توجہ دوں گا، تاکہ یہ حقیقت سامنے آسکے کہ فقہا نے اس باب میں وارد ہونے والی روایت پر عمل کیوں نہیں کیا۔ میں اس موضوع کو آسان انداز میں چار سوالات اور ان کے جوابات کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔

پہلا سوال:

بعض لوگ تعجب سے یہ سوال کر سکتے ہیں کہ: "کیا اس مناسبت میں کوئی شرعی پہلو بھی ہے جس پر تحقیق کی جائے؟!

جواب یہ ہے کہ ہاں، بالکل ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ بغیر کسی استثناء کے مکلفین کے تمام افعال اور اعمال احکامِ شرعیہ کے دائرے میں آتے ہیں۔ کوئی ایسا عمل نہیں جس کے بارے میں اللہ کا کوئی حکم نہ ہو۔ انہی اعمال میں سے ایک عمل یہ بھی ہے جسے بعض مؤمنین ہر سال اس دن انجام دیتے ہیں۔ وہ جشن مناتے ہیں، اسے خوشی اور مسرت کا دن سمجھتے ہیں اور اس میں خوشی کی محافل اور تقاریب برپا کرتے ہیں۔ اس میں خوشی کے کئی اظہاریے ہیں جیسے مٹھائی بانٹنا، ایک دوسرے کو مبارکباد دینا، سرخ رنگ کے کپڑے پہننا، غسل کرنا اور نئے کپڑے پہننا وغیرہ شامل ہیں۔ اس پہلو سے دیکھا جائےتویہ مسئلہ بھی دوسرے تمام افعال اور موضوعات کی طرح ہی ہے۔ لہٰذا اگر عید زہراءؑ کے جشن کا کوئی خاص شرعی حکم ہے تو وہ کیا ہے؟ یہی دوسرا سوال ہے۔

دوسرا سوال:

فرحتِ زہراء (علیہا السلام) کے جشن کا کیا حکم ہے؟ یا یوں کہا جا سکتا ہے: "کیا نویں ربیع الاول کو خوشی و مسرت کی محافل منعقد کرنا  اور جشن منانے میں کوئی شرعی قباحت پائی جاتی ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناً اس کا شرعی حکم جواز اور عدمِ حرمت ہے، اور ان اعمال و مراسم میں کسی قسم کی کوئی قباحت یا اشکال موجود نہیں ہے۔البتہ اس بات پر اچھی طرح توجہ دینی چاہیے کہ یہاں گفتگو "ابتدائی حالت" اور "اصلی حکم" کے بارے میں ہے، یعنی ان اضافی عناوین سے ہٹ کر جو کسی فعل سے جڑ کر اس کے حکم کو بدل سکتے ہیں۔ ہمارے پیشِ نظر یہ معاملہ اپنی اصل حیثیت میں ان عام مباح امور سے مختلف نہیں ہے، جن کے بارے میں فقہا عموماً یہ قید لگاتے ہیں کہ "فی نفسه" یا "فی حد ذاته" جائز ہے۔

مثال کے طور پر:

وہ کہتے ہیں "انٹرنیٹ استعمال کرنا بذاتِ خود جائز ہے"، یا "ٹیٹو بنوانا اپنی ذات میں حرام نہیں ہے"، وغیرہ۔ اسی بنیاد پر 9 ربیع   الاول کے دن کو جشن اور خوشی کے طور پر منانا جائز ہے اور اس میں بذاتِ خود کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔ البتہ یہ اس وقت تک ہے جب تک یہ عمل کسی اور عنوان کے تحت نہ آجائے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر وہ اسی نئے عنوان کا حکم اختیار کرے گا۔ مثال کے طور پراگر ان اعمال کو دین کی طرف منسوب کیا جائے اور ۹ ربیع کے دن کو اس معنی میں عید سمجھا جائے جو شریعت نے عید کے لیے مقرر کیا ہے اور اس کے ساتھ وہ تمام یا بعض خصوصیات جو عید کے بارے میں شریعت میں آئی ہیں جوڑ دی جائیں تو اس صورت میں یہ عمل دین میں بدعت یا تشریعِ محرّم کے حکم میں آجائے گا۔

تیسرا سوال:

 یہ کہا جا سکتا ہے کہ بدعت کا عنوان تو اس وقت صادق آتا ہے جب کوئی کام انسان کے اپنے خیالات اور اختراعات سے پیدا ہو اور وہ خود ساختہ ہو نہ یہ کہ اس کی کوئی روایت موجود ہو۔ تو کیا واقعی یہ معاملہ ایسا ہی ہے؟جشن منانے والے کسی روایت پر اعتماد کرتے ہیں جو اہل بیتؑ سے منقول ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں، ان کے پاس اس بارے میں ایک روایت موجود ہے۔ وہ ایک طویل روایت ہے جو امام ابو الحسن العسکریؑ سے منقول ہے۔ یہاں امام حسن عسکریؑ مقصود نہیں بلکہ امام علی نقی الہادیؑ مقصود ہیں، بعض نے اس میں اشتباہ کیا ہے۔ اس روایت کو روایت احمد بن اسحاق قمی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک نہایت طویل نص ہے جسے ایک مختصر مقالے میں نقل کرنا مناسب نہیں۔ اسی لیے میں یہاں اس کا خلاصہ بیان کروں گا اور جو شخص اس روایت کے پورے متن کو دیکھنا چاہے وہ بحار الانوار کی طرف رجوع کرے۔ علامہ مجلسیؒ نے اسے دو مرتبہ نقل کیا ہے۔ ان میں سے ایک مرتبہ اس باب کے تحت ہے جس کا عنوان ہے: "فضل اليوم التاسع من شهر ربيع الأول وأعماله"۔ (بحار الأنوار، ج95، ص351)۔

خبر کا خلاصہ یہ ہے کہ قم کے کچھ شیعہ آپس میں دوسرے کے بارے میں اختلاف کرنے لگے۔ انہوں نے طے کیا کہ اس مسئلے میں احمد بن اسحاق قمی سے رجوع کیا جائے کیونکہ وہ وہاں شیعوں کے نمائندہ تھے اور امام ہادیؑ کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ جب وہ ان کے گھر پہنچے تو انہیں ایک عراقی بچی ملی جس نے بتایا کہ احمد بن اسحاق تو اندر عید منانے میں مشغول ہیں۔ یہ سن کر وہ لوگ حیران ہوئےکیونکہ ان کے ذہنوں میں یہ بات راسخ تھی کہ شیعوں کے نزدیک عیدیں صرف چار ہیں: فطر، قربان، جمعہ اور غدیر۔

اس پر اس بچی نے انہیں بتایا کہ احمد بن اسحاق اپنے مولا امام ہادیؑ سے نقل کرتے ہیں کہ یہ دن (۹ ربیع) عید کا دن ہے اور یہ اہل بیتؑ اور ان کے چاہنے والوں کے نزدیک سب سے افضل عید ہے۔ بعد میں احمد بن اسحاق نے بھی ان کے سامنے یہی بات کی اور اس کی مزید وضاحت دی۔ انہوں نے بتایا کہ جس طرح وہ لوگ ابھی اس بات پر تعجب کر رہے ہیں بالکل اسی طرح وہ خود بھی ایک مرتبہ امام ہادیؑ کے حضور میں تعجب کا شکار ہوئے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سال جب وہ امام ہادیؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ ۹ ربیع الاول کا دن تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ امام ہادیؑ خوشی منا رہے ہیں اور جشن برپا ہے۔ جب انہوں نے اس خوشی کی وجہ پوچھی تو امام نے جواب دیا کہ اسی دن حذیفہ بن یمان رسول اللہ اور اہل بیتؑ کے پاس آئے تھے اور انہیں ایک دسترخوان پر خوشی مناتے پایا تھا۔ اس موقع پر نبی اکرم اپنے اہل بیتؑ کو اس دن کی فضیلت اور برکتوں کے بارے میں بتا رہے تھےکیونکہ یہ وہ دن ہے جس میں دوسرے کو قتل کیا گیا۔

پھر یہ روایت ۹ ربیع الاول کے دن کے ناموں کی ایک لمبی فہرست بیان کرتی ہےجو امیرالمؤمنینؑ سے منقول ہے۔ آپؑ نے حذیفہ سے فرمایا: یہ دن یوم الاستراحة ہے،یہ دن الغدیر الثانی ہے ، یہ دن یوم رفع القلم ہےاور یہ دن عید اللہ الاکبر ہے۔ اسی طرح اس کے دوسرے نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔ ان میں عید البقربھی ہے، جس سے مراد ہے وہ دن جب دوسرے کا پیٹ چاک کیا گیا۔ اسی طرح یوم نزع الأسوار اور یوم نزع السواد بھی اس کے ناموں میں شمار کیے گئے ہیں۔ روایت میں اس کے علاوہ بھی بہت سی تفصیلات آئی ہیں جنہیں جیسا کہ پہلے ذکر ہوابحار الانوار میں دیکھا جا سکتا ہے۔

چوتھا سوال: پچھلی گفتگو کی بنیاد پر سب سے اہم سوال یہ ابھر کر سامنے آتا ہے کہ فقہا نے اس روایت سے اعراض کیوں کیا؟ اسے ترک کیوں کیا گیا اور اس پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟ اور نہ ہی اس کے مطابق فتویٰ دیا حالانکہ یہ روایت بعض شیعہ مصادر میں موجود بھی ہے؟! حقیقت یہ ہے کہ یہ اس موضوع سے متعلق سب سے اہم اور سب سے دقیق سوال ہے۔ اسی لیے اس کا جواب دینے کے لیے پہلے ایک بنیادی مقدمہ بیان کرنا ضروری ہےجو دو نکات پر مشتمل ہوگا۔

پہلا نکتہ یہ ہے کہ ظن پر عمل کرنا حرام ہے اور اس کی حرمت قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ محض کسی روایت کے کسی مصدر میں آجانا اور پھر اس کی بنیاد پر شرعی احکام اخذ کرنا اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا ظن پر عمل کرنے کی سب سے واضح مثال ہے۔

اسی لیے علما نے یہ بات بیان کی ہے کہ احادیثِ احکام پر عمل کرنا اور ان کے مطابق فتویٰ دینے کی چند شرائط ہیں: مصدر قابلِ اعتماد ہو، متن محفوظ اور درست ہو، دلالت پوری اور واضح ہو اور اس میں کوئی تعارض نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ صحتِ سند ثابت ہو اور صدور کا یقین حاصل ہو تاکہ وہ روایت فقیہ کے لیے حجت بن سکے اور اس پر حجت قائم ہو۔ یہ اصول مجموعی طور پر مسلمانوں کے فقہا کے درمیان متفق علیہ ہے، چاہے وہ اہل سنت کے ہوں یا شیعہ، اصولی ہوں یا اخباری۔ البتہ بعض لوگوں کے ذہن میں اخباریوں کے بارے میں جو تصور پایا جاتا ہے وہ اس حقیقت کے خلاف ہے۔

امین استرآبادی (متوفی 1023ھ) نے واضح طورپر کہا ہے کہ رئیس الطائفہؒ کے کلام کا صریح مفہوم یہ ہے کہ ایسے روایت پر عمل کرنا جائز نہیں جو یقین نہ دلائے کہ یہ واقعی اللہ کا حکم ہے یا وہ حکم ہے جو اہل بیتؑ سے وارد ہوا ہے۔پھر اخباری مکتب کے سربراہ نے مزید کہا: "رئیس الطائفہؒ نے جو بات صراحت کے ساتھ بیان کی ہے وہی دراصل عترتِ طاہرہؑ سے متواتر روایتوں سے بھی ثابت ہوتی ہے۔"(الفوائد المدنية، ص145)

مقدمے کا دوسرا نکتہ بدعت اور تشریع کی حرمت سے متعلق ہے۔ شیخ نراقی (متوفی 1245ھ) کہتے ہیں: "دین میں بدعت اور ایسی چیز کو شامل کرنا جو شریعت کا حصہ نہ ہو، اس کی حرمت میں کوئی شک نہیں۔ اس پر امت کا اجماع ہے بلکہ یہ دین اور ملت کی بدیہی بات ہے۔ثقة الاسلام کلینی نے اپنی کتاب الکافی میں نبی اکرم سے روایت نقل کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں ہے۔اسی کتاب میں امیرالمؤمنینؑ سے بھی یہ روایت آئی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: "فتنوں کی ابتداء خواہشات کی پیروی سے ہوتی ہے اور ایسے احکام وضع کرنے سے جو بدعت ہوں۔ ان احکام میں کتاب اللہ کی مخالفت کی جاتی ہے اور لوگ بعض دوسرے لوگوں کو اپنا پیشوا بنا لیتے ہیں۔"شیخ نراقی مزید وضاحت کرتے ہیں: "بدعت اور تشریع کا معیار یہ ہے کہ کوئی چیز دوسرے کے لیے شرعاً مقرر کی جائے اور اسے شارع کی طرف سے حکم قرار دیا جائےحالانکہ یہ حکم شارع کی طرف سے نہ آیا ہو۔ یعنی بدعت وہ عمل ہے جسے کسی غیر شارع نے دوسرے کے لیے بغیر کسی شرعی دلیل کے شریعت کا حصہ قرار دیا ہو۔"(عوائد الأیام، ص111)

جب مقدمے میں مذکور باتوں کو سامنے رکھیں تو اب میں واپس اس سوال کے جواب کی طرف آتا ہوں کہ فقہا نے احمد بن اسحاق قمیؒ سے منسوب خبر سے اعراض کیوں کیا؟ میرے نزدیک فقہا کا اس روایت پر عمل نہ کرنا اور اس کے مطابق فتویٰ نہ دینا تین طرح کے مسائل کی وجہ سے ہے۔ ان میں سے ہر ایک مشکل اپنی جگہ کافی ہے کہ وہ روایت حجت نہ رہے اور استدلال کے قابل نہ ہو۔ پھر اگر یہ تینوں اکٹھی ہو جائیں تو بطریق اولی یہ قابل اعتبار نہیں ٹھہرتی۔اس روایت کی تین مشکلات یہ ہیں: ایک اس کے ماخذ (مصدر) سے متعلق، دوسری اس کی سند سے متعلق اور تیسری اس کے متن سے متعلق۔ ان تینوں کی تفصیل یوں ہے: احمد بن اسحاق قمیؒ سے منسوب یہ خبر کسی بھی قدیم اور معتبر امامی حدیثی ذخیرے میں منقول نہیں ہے۔ یہ صرف متأخر کتب میں بیان کی گئی ہے۔ ہمارے پاس جو کتب حدیث موجود ہیں ان کے مطابق سب سے پہلے اسے ابن طاووس نے اپنی کتاب زوائد الفوائد میں ذکر کیا پھر حسن بن سلیمان حلی (متوفی 806ھ) نے اپنی کتاب مختصر البصائر میں نقل کیا۔ اس سے پہلے کے جو مصادر ہیں وہ دراصل فرقۂ نصیریہ کی کتابیں ہیں۔اس کے علاوہ یہ روایت احمد بن اسحاق سے بھی معتبر سند کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچی۔ اس کی سند میں دو ایسے واسطے ہیں جو مجہول ہیں: محمد بن علاء واسطی اور یحییٰ بن جریح بغدادی ہیں۔ یہ تو سند اور ماخذ کے حوالے سے درپیش مسئلہ کی وضاحت ہے۔رہا اس کے متن اور دلالت سے متعلق اشکال تو ان میں سے صرف چار کو مختصر طور پر بیان کرنا کافی ہوگا:

پہلا اشکال یہ ہے کہ اس خبر میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ نہم ربیع الأول اہل بیتؑ اور ان کے شیعوں کے نزدیک سب سے بڑی عید ہے۔ یہ دعویٰ بہت بعید معلوم ہوتا ہے کہ اسے مطلق طور پر أفضل الأعياد یعنی سب سے افضل عید کہا جائے جبکہ ہمیں احادیث اہل بیتؑ میں اس کے کوئی آثار و شواہد نہیں ملتے۔ اسی طرح یہ بھی معقول نہیں ہے کہ یہ دن شیعوں کے نزدیک ایسی عظیم منزلت رکھتا ہوجبکہ وہ دیگر مسلمانوں کے ساتھ زندگی کرتے تھے اور قرونِ اولیٰ میں ان سے منقول نہیں کہ وہ اس دن کو بطور عید و جشن مناتے رہے ہوں۔اگر اس روایت میں أفضل الأعياد کی بجائے من أفضل الأعياد (یعنی اعیاد میں سے ایک افضل عید) کہا گیا ہوتا تو اس احتمال کی گنجائش نکلتی کہ شاید یہ دن ان عیاد میں سے ہو جو مرورِ زمانہ یا حالاتِ تقیہ کے باعث فراموش ہوگئے۔

دوسرا اشکال یہ ہے کہ اس خبر کے متن میں ایسی بات آئی ہے جو اجماعی تاریخی روایات کے خلاف ہے۔ تمام کتبِ تاریخ و سیر میں اس پر اتفاق ہے کہ خلیفہ دوم کی وفات ایک اور مہینےمیں ہوئی جبکہ اس روایت میں ذکر ہے کہ یہ واقعہ ۹ ربیع الاول کو پیش آیا۔ علامہ مجلسی نے ابن ادریس حلیؒ (م 598ھ) سے نقل کیا ہے کہ: جس نے یہ گمان کیا کہ دوسرے کو نو ربیع الاول کو قتل کیا گیا تو وہ تمام اہلِ تواریخ و سیر کے اجماع کے مقابل غلطی پر ہے۔اس طرح روایت کا یہ پہلو اجماعی تاریخی حقیقت سے ٹکراتا ہے اور اس کے متن کو مزید مشکوک بنا دیتا ہے۔

تیسرا اعتراض اس خبر کے اس حصے سے متعلق ہے جس میں یہ بات منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے کراماً کاتبین کو حکم دیا ہے کہ اس دن سے تین دن تک قلم اٹھا لیں اور ان دنوں میں لوگوں کے گناہ نہ لکھیں۔ اس عبارت میں کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہر چیز واضح ہےیہ سمجھنا بھی بہت سے اشکالات کا حامل ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا یوں دفاع کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسے ان احادیث کے ساتھ تشبیہ دی جائے جو توبہ، حج یا امام حسینؑ کے عزاداری کے بارے میں آئی ہیں لیکن یہ واضح طور پر غلط استدلال ہے۔ کیونکہ اصل گفتگو اس بات میں ہے کہ یہ خبر فی الواقع صحیح اور ثابت ہے یا نہیں، نہ کہ اس کے صحیح ہونے کا امکان موجود ہے یا نہیں۔ دوسرے الفاظ میں مذکورہ قیاس اگر درست بھی مان لیا جائے تو اس کا نتیجہ صرف یہ ہے کہ ایسی بات ممکن ہےنہ یہ کہ یہ بات واقعاً صادر ہوئی ہے۔ پھر یہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ جن چیزوں پر قیاس کیا گیا ہے جیسے حج وغیرہ، وہ دین یا مذہب کی بدیہی و ضروری تعلیمات میں سے ہیں جبکہ یہ روایت  اپنی نوعیت میں ایک منفرد اور تنہا روایت ہے جس کی مؤید یا نظیر روایت موجود نہیں۔

نزع الاسوار یا سِوار نصیریوں کی خاص اصطلاح ہے جس سے مراد دینی واجبات سے چھٹکارا حاصل کرنا اور شرعی ذمہ داریوں سے آزاد ہونا ہے۔ اس کے برعکس لبس السوار کا مطلب ہے احکامِ دین کو اختیار کرنا اور ان پر قائم رہنا۔ یہ مطلب پہلے"ذمہ داریاں اٹھا لیے جانے" کے مفہوم کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہےاور اسی طرح ان ناموں کے ساتھ بھی میل کھاتا ہے جو اس دن کے لیے بیان کیے گئے ہیں، جیسے "یوم الاستراحة" (آرام کا دن) یا "یوم رفع القلم" (ذمہ داریاں اٹھا لیے جانے کا دن) وغیرہ۔

یہاں ایک اہم نکتہ عید زہراءؑ کے روز غسل کے بارے میں باقی رہ جاتا ہے۔ بعض قدیم فقہاء کے مطابقنو ربیع الاول کا غسل بھی مستحب غسل ہے۔ لیکن معاصر فقہاء کے نزدیک یہ استحباب ثابت نہیں ہوا۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی (دام ظلہ) نے اپنی کتاب منهاج الصالحين (1/140) میں واضح فرمایا ہے کہ نو ربیع الاول کے دن غسل کا مستحب ہونا ثابت نہیں ہے۔ البتہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی شخص برجاءمطلوبیت غسل کرے تو کوئی حرج نہیں۔ یعنی یہ نیت نہ کرے کہ یہ غسل مستحب ہے بلکہ اس اُمید کے ساتھ انجام دے کہ ممکن ہے حقیقت میں یہ مطلوب عمل ہو۔

دونوں صورتوں میں ہماری کہی ہوئی بات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر غسل کو برجاء مطلوبیت (یعنی امید کی نیت سے) انجام دیا جائے تو یہ بالکل واضح ہےکیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عمل شرعاً ثابت نہیں ہے اور اس کے استحباب کی کوئی مکمل دلیل موجود نہیں۔ اگر فرض کر لیں کہ واقعی نو ربیع الاول کے دن غسل مستحب ہےتب بھی یہ ہرگز اس بات کی دلیل نہیں بنتا کہ یہ دن عید کا دن ہے۔ ظاہر ہے کہ بہت سے مواقع اور دن ایسے ہیں جن میں غسل کا استحباب آیا ہے مگر ان کا عید سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح یہ دن (یعنی 9 ربیع الاول) بھی روزِ نوروز کی طرح ہے کہ شرعاً ہرگز عید نہیں مگر اس کے ساتھ بھی غسل کا ذکر مل جاتا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018