10 ربيع الاول 1447 هـ   3 ستمبر 2025 عيسوى 3:42 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-08-29   138

لڑکی کی شادی میں والد کی رضامندی: شریعت کا تحفظ جو تجربے سے ثابت ہے

الشيخ مصطفى الهجري

آج کے معاشرے میں یہ سوال عام طور پر اٹھایا جاتا ہے کہ لڑکی کی شادی میں والد کی رضامندی کیوں ضروری ہے؟ اسلام کا اس بارے میں کیا موقف ہے؟ یقینا اسلام نے والد کی اجازت کو ضروری قرار دیا ہے۔ بعض لوگ اس بات کو غلط طور پر یوں سمجھتے ہیں کہ گویا عورت کو ہمیشہ نا بالغ یا مرد سے کم ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کےلیے ضروری ہے کہ اس اسلامی حکم کے پیچھے موجود اصل حکمت کو سمجھا جائے جو مضبوط نفسیاتی اور سماجی بنیادوں پر قائم ہے اور جس کی تصدیق جدید نفسیاتی تحقیقات نے بھی کی ہے۔

لڑکی سے شادی کے معاملے میں والد کی اجازت لینے کی حکمت یہ نہیں کہ اسے نا بالغ یا سماجی اعتبار سے مرد سے کم سمجھا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو فقہی احکام میں کنواری اور شادی شدہ (بیوہ یا مطلقہ) کے درمیان کوئی فرق نہ ہوتا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سولہ سال (بیوہ یا مطلقہ) لڑکی کو والد کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ اٹھارہ سال کی کنواری لڑکی کو یہ اجازت درکار ہوتی ہے۔

اسی طرح اسلام نے بالغ اور سمجھ دار عورت کو مکمل مالی خودمختاری دی ہےاور اس کے مالی معاملات کو چاہے وہ کروڑوں کے ہوں، والد، بھائی یا شوہر کی اجازت کے بغیر درست قرار دیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام عورت کی عقلی صلاحیتوں یا سماجی پختگی پر کوئی شک نہیں کرتا بلکہ اس کے پیچھے ایک اور حکمت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بات طے ہے کہ ہم شرعی احکام کو مانتے ہیں اور ان کی علت جاننے کا دعویٰ نہیں کرتے کیونکہ دینِ خدا کو صرف عقل سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ جدید نفسیاتی تحقیقات نے کچھ ایسے فائدے بتائے ہیں جو اس حکم کی علت یا اس علت کا حصہ ہوسکتے ہیں۔ ان تحقیقات کے مطابق یہ معاملہ مرد اور عورت کی نفسیاتی ساخت کے ایک بنیادی پہلو سے جڑا ہے۔ مرد میں شکار کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کا جذبہ نمایاں ہوتا ہے جبکہ عورت جذباتی طور پر جلد مطمئن ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں وفاداری اور اخلاص کی غیر معمولی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ جدید نفسیاتی تحقیقات نے اس بنیادی فرق کی تصدیق کی ہے۔ ڈاکٹر جون گرے نے اپنی مشہور کتاب"مرد مریخ سے ہیں اور عورتیں زہرہ سے" میں اس بات پر زور دیا ہے کہ مرد اور عورت جذبات اور تعلقات کو نبھانے کے انداز میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اسی طرح ماہرِ نفسیاتِ ارتقاء ڈاکٹر ڈیوڈ باس نے یہ اشارہ کیا ہے کہ مرد اور عورت کے نفسیاتی فرق دراصل تولید اور بقا کی مختلف ارتقائی حکمتِ عملیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

اس کی طرف ماہرین اشارہ کرتے ہیں کہ مرد خواہش کا غلام ہے اور عورت محبت کی اسیر۔ یہ بلیغ جملہ ایک ٹھوس نفسیاتی حقیقت کا خلاصہ ہے جسے سائنسی تحقیقات نے بھی ثابت کیا ہے۔ مرد کو ہلا دینے اور اسے پستی کی طرف کھینچنے والی چیز جسمانی خواہش ہے۔اس کے مقابل عورت جیسا کہ ماہرینِ نفسیات بھی مانتے ہیں جسمانی خواہش کے مقابلے میں مرد سے زیادہ صبر اور مضبوطی رکھتی ہے۔

ڈاکٹر ہیلن فشرجو محبت اور تعلقات کے وسیع مطالعہ رکھتے ہیں اور ماہرِ بشریات ہیں وہ کہتی ہے کہ جب جذباتی تعلق بنتا ہے تو عورت کے دماغ سے آکسیٹوسن اور ویزوپریسن نامی ہارمون زیادہ مقدار میں خارج ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جذباتی تعلقات میں زیادہ وابستہ اور وفادار ہو جاتی ہے۔

لیکن جو چیز واقعی طور پر عورت کے دل کو جیت لیتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ مرد سے محبت، خلوص، عشق اور وفاداری کی آواز سنے۔ یہی وہ بات ہے جو عورت کو جلدی جذباتی اطمینان دے دیتی ہے۔ یہی بات امریکی ماہرِ نفسیات پروفیسر رِک نے بھی کہی، جب انہوں نے کہا کہ عورت کو سب سے پسندیدہ جمل  جو کہا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ مرد عورت سے کہے کہ میری عزیزہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ اور انہوں نے مزید کہا:عورت کی خوشی کا خلاصہ اس میں ہے کہ وہ کسی مرد کا دل حاصل کرے اور زندگی بھر اسے اپنے پاس رکھے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان نفسیاتی حقائق کے انکشاف سے چودہ صدی پہلے فرما دیا تھا کہ مرد کا عورت سے یہ کہنا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں، کبھی اس کے دل سے نہیں نکلے گا۔ یہ حدیث مبارک عورت کی نفسیاتی فطرت اور اس کے گہرے جذباتی تعلق کو نہایت عمدگی سے واضح کرتی ہے۔

جدید نفسیاتی مطالعات اس نبوی فرمان کی سچائی کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس بارے میں ڈاکٹر آرتھر آرون کی اسٹونی بروک یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ محبت کے الفاظ اور جذباتی اظہار کا اثر عورت کی یادداشت میں مرد کے مقابلے میں زیادہ گہرا اور دیرپا ہوتا ہے۔

اسی بنا پر آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی نے لڑکی کے لیے والد کی اجازت  کو لڑکی کی زندگی کے سب سے اہم فیصلے میں اضافی تحفظ کا نام دیا  ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام کبھی بھی عورت کی توہین نہیں کرتا بلکہ اس کے کندھے پر حفاظت کا ہاتھ رکھتا ہے۔

آیت اللہ جعفر سبحانی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس  حکم  میں عورت کی نفسیاتی اور سماجی فطرت کو مدنظر رکھا  گیاہے، خاص طور پر اس لڑکی کی جو مردوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا تجربہ نہیں رکھتی۔ والد اپنی زندگی کے تجربے اور بصیرت کی بنا پر مردوں کی فطرت اور ان کے محرکات کو بہتر جانتا ہےاور عموماً وہ اپنی بیٹی کے لیے خیر اور خوشی کے سوا کچھ نہیں چاہتا۔

جو لوگ لڑکیوں کو سرکشی  پر اُکساتے ہیں اور انہیں سرپرستوں کی رائے کی پرواہ نہ کرنے کا کہتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو روزانہ بگڑے ہوئے نوجوانوں کے ہاتھوں لڑکیوں کو دھوکا دیے جانے کے واقعات دیکھتے ہیں۔یہ بھی  دراصل اس سازش میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ لوگ، عورتوں کی بھلائی کے نعرے کے تحت، انہیں آج کے دور کے عورتوں کے شکاریوں کے لیے آسان شکار بنا دیتے ہیں۔

آخر میں  بیٹی کے نکاح میں باپ کی رضامندی کی حکمت عورت کی توہین یا اس کی صلاحیتوں پر شک کرنا نہیں ہے بلکہ مرد اور عورت کی مختلف نفسیاتی فطرت کے دقیق  فہم کا نتیجہ ہے۔ یہ وہ سمجھ ہے جسے اسلامی شریعت نے چودہ صدی پہلے بیان کیااور جس کی آج جدید نفسیاتی اور سماجی تحقیقات بھی تصدیق کرتی ہیں۔

اصل مقصد یہ ہے کہ لڑکی کو اس کے پاکیزہ جذبات کے استحصال اور اس کے شدید جذباتی لگاؤ سے بچایا جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ وہ اپنی زندگی کے سب سے اہم مرحلے پر سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔ یہ اس کی عزت یا صلاحیت میں کمی نہیں کرتا بلکہ اسے ایک اضافی حفاظتی حصار فراہم کرتا ہے جو اس کے خوشگوار اور پُرسکون ازدواجی زندگی کے حق کو محفوظ رکھتا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018