

ولادت سے پہلے شہادت کا وعدہ
السيد علي العزام الحسيني
شیخ طوسیؒ نے امام حسن عسکریؑ سے ایک دعا نقل کی ہے جو امام حسینؑ کی ولادت کے دن، یعنی 3 شعبان کو پڑھی جاتی ہے۔ اس دعا کے آغاز میں یہ الفاظ ہیں: (اَللَّهُمَّ إِنّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ الْمَوْلُودِ فِي هَذَا الْيَوْمِ، الْمَوْعُودِ بِشَهَادَتِهِ قَبْلَ اسْتِهْلالِهِ وَوِلادَتِهِ)
اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس مولود کے حق کے واسطے سے جو اس دن پیدا ہوا، وہ جس کی شہادت کا وعدہ اس کے نور کا دنیا میں آنے اوران کی ولادت سے پہلے ہی دیا جا چکا تھا۔ (مصباح المتهجد، ص826)۔
یہ الفاظ واضح طور پر بتاتے ہیں کہ خداوند متعال نے امام حسینؑ کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی یہ وعدہ دیا تھا کہ وہ ضرور شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوجائیں گے۔ یہ جملہ یقینا غیبی خبر اور مستقبل کے ایک بڑے واقعے کے پیشن گوئی کے دائرے میں آتا ہے۔ اور اس موضوع کے کئی دیگرشواہد بھی موجود ہیں؛ جیسے روایات میں آیا ہے کہ نبی اکرمؐ نے امام حسینؑ کی ولادت کے وقت ہی ان پر گریہ فرمایا اور شہادت کی خبر دی، نیز ان کی شہادت کا مقام اور وقت بھی بیان فرمایا۔ اس بارے میں وارد ہونے والی احادیث مسلمانوں کے درمیان مستفیض اور متواترکا درجہ رکھتی ہیں جو سب اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ سب خدا کے ازلی علم کے مطابق ہے۔
یہاں سے یہ سوال ہمارے ہمارے ذہنوں میں آتا ہےکہ : اس طرح کی غیبی خبروں کے بتانے کا مقصد کیا ہے؟ خصوصاً امام حسینؑ کی شہادت کے بارے میں پیشگی اطلاع دینے میں کیا حکمت پوشیدہ تھی؟ اگر یہ خبر اتنی تفصیل سے پہلے ہی دے دی گئی کہ ظلم کہاں اور کب ہوگا؟ لشکرکون سے ہوں گے؟ تو کیا ممکن تھا کہ کسی ایک فریق کے فیصلے سے یہ واقعہ بدل جاتا اور کربلا نہ پیش آتی؟ اگر کہیں کہ ایسا ممکن تھا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خدائی خبر اور علم، حقیقت سے ہم آہنگ نہ تھا (معاذ اللہ)۔ اور اگر کہیں کہ ایسا ممکن نہ تھا تو اس کا مطلب انسان کے اختیار کا انکار ہے۔ یہ نہایت اہمیت کا حامل سوال ہے ،اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ:
اس قسم کی غیبی خبروں کی اہمیت دو پہلوؤں میں ہے:
اول:یہ وحی کی صداقت کی دلیل ہے۔ قرآن کریم کی غیبی خبریں وحی الٰہی کے سچے ہونے کی مستقل دلیل شمار ہوتی ہیں۔ آیۃ اللہ خوئیؒ فرماتے ہیں:
(أخبر القرآن الكريم في عدة من آياته عن أمور مهمة، تتعلق بما يأتي من الانباء والحوادث، وقد كان في جميع ما أخبر به صادقا، لم يخالف الواقع في شيءٍ منها. ولا شك في أن هذا من الاخبار بالغيب، ولا سبيل اليه غير طريق الوحي والنبوة، وهناك جملة من الشواهد القرآنية على هذا المعنى، يمكن الاطلاع عليها في مظانها)
قرآن نے متعدد آیات میں آئندہ کے اہم واقعات کی خبر دی اور وہ سب حقیقت کے مطابق ثابت ہوئے۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جن تک پہنچنے کا کوئی راستہ وحی اور نبوت کے علاوہ ممکن نہیں۔ اس سلسلے کی شواہد قرآنی اپنی جگہ موجود ہیں۔ (البيان، ص68)۔
یہی بات ان احادیث پر بھی صادق آتی ہے جن میں اس قسم کی پیشین گوئیاں موجود ہیں۔
دوم: اس طرح کی خبریں امت کو ان کے مستقبل کے بارے میں بصیرت عطا کرتی ہیں اور انہیں یہ سمجھاتی ہیں کہ واقعات کے مقابلے میں ان کا فریضہ کیا ہے۔
غیبی خبر دو قسم کی ہوتی ہیں:
1- محض خبر ، جو کسی عملی موقف یا تکلیف سے خالی ہو، جیسے قرآن کریم نے بتایا کہ ابو لہب اور اس کی بیوی ایمان نہیں لائیں گے اور وہ جہنم میں جائیں گے۔
2- وہ خبر جو محض اطلاع نہ ہو بلکہ ساتھ میں موقف اور ذمہ داری بھی متعین کرے۔ امام حسینؑ کے بارے میں دی گئی خبر اسی نوعیت کی ہے۔
مثلاً ابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں یہ روایت ذکر کی ہے، کہ انس بن حارث کہتے ہیں:
(سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ ابْنِي هَذَا يُقْتَلُ بِأَرْضِ الْعِرَاقِ فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ فَلْيَنْصُرْهُ، فَقُتِلَ أَنَسٌ مَعَ الْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ)
میں نے رسول اللہؐ سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے: میرا یہ بیٹا (حسینؑ) عراق کی سرزمین پر قتل کیا جائے گا، پس تم میں سے جو اسے پائے وہ اس کی نصرت کرے۔» انس بن حارث خود کربلا میں امام حسینؑ کے ساتھ شہید ہوئے۔(دلائل النبوۃ، ص554)۔
اس سوال کا ایک اورجواب : حدیث قدسی میں ہے کہ خداوند عالم نے فرمایا:
(يا ابن آدم، بمشيئتي كنتَ أنت الذي تشاء لنفسك ما تشاءُ)
اے ابن آدم! میری مشیت سے ہی تم اپنی مرضی کے مطابق اپنے لئے چاہتا ہے» (الکافی، ج1، ص152)۔
اس مطلب کو ہم دونکات میں خلاصہ کر سکتے ہیں
اول: زمان و مکان کے دائرے میں مقید موجودات اور واقعات (جیسے کربلا کا واقعہ سنہ 61ھ میں) ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم ہوتے ہیں، جبکہ خداوند متعال زمان و مکان سے منزہ ہے۔ اس کے لیے سب واقعات یکساں ہیں، نہ ماضی ہے نہ مستقبل۔ اس کا علم واقعات کے اسباب و علل پر مبنی ہوتا ہے۔ جیسے ماہرِ موسمیات موسم کی وجوہات کو دیکھ کر بارش کی خبر دیتا ہے۔ اسی طرح خدا کے علم میں تمام علل و اسباب کا احاطہ ہے۔
دوم: ان علل و اسباب کا ایک لازمی جزو انسان کا اختیار ہے۔ انسانی ارادہ اور فیصلہ علتِ تامہ کے بنیادی اجزاء میں سے ہے۔ کوئی واقعہ انسان کے اختیار کے بغیر وقوع پذیر نہیں ہوسکتا۔ اور یہی انسانی اختیار بھی خدائی علم اور مشیت کے دائرے میں ہے۔ گویا خدا نے حتمی فیصلہ یہ کیا ہے کہ انسان کے افعال اسی وقت وجود میں آئیں گے جب وہ اپنے اختیار سے انہیں انجام دے۔ اس طرح خدائی علم اور انسانی اختیار ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں، نہ کہ ایک دوسرے کی نفی۔
علامہ طباطبائیؒ اس بارے میں فرماتے ہیں
علمِ ازلی ہر چیز سے اسی کے مطابق متعلق ہے جیسا وہ ہے۔ پس جب یہ افعال اختیاری ہیں تو اس علم کا تعلق بھی ان کے ساتھ اختیاری ہونے کی حیثیت سے ہے۔ لہذا ان کا غیر اختیاری ہونا محال ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ خدا نے اپنے اس علم کو بعض واقعات (جیسے کربلا) کے بارے میں انسانوں پر پہلے سے ظاہر کر دیا۔ یہ افعال ذواتِ مختار سے صادر ہوتے ہیں، نہ کہ سورج کی روشنی کی طرح مجبوری سے (إلهیات السبحاني، ص216)۔