23 محرم 1447 هـ   19 جولائی 2025 عيسوى 6:45 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-07-16   22

مجالسِ امام حسینؑ علیہ السلام: رسم یا اصلاح کا ذریعہ؟

الشيخ مصطفى الهجري

واقعۂ کربلا سے آج تک، امام حسینؑ کی عزاداری اور مجالس شیعہ معاشروں میں کبھی بند نہیں ہوئیں۔ بلکہ یہ مجالس ان معاشروں کا ایک مضبوط مذہبی اور ثقافتی حصہ بن چکی ہیں، جو ہر سال لاکھوں افراد کو اپنی جانب متوجہ کراتی ہیں۔ یہ روایت نہ وقت کی قید میں ہے اور نہ ہی جغرافیے کی حدود میں محدود ہے۔ تاہم، اس تسلسل کے ساتھ ایک اہم سوال بھی جنم لیتا ہے۔ کیا ان مجالس کا مقصد صرف غم منانا اور رسمیں ادا کرنا ہے؟یا یہ واقعی امام حسینؑ کے اُن اعلیٰ مقاصد کو سمجھنے اور اپنانے کا ذریعہ ہیں جن کے لیے آپؑ نے اپنی جان قربان کی؟

اس سوال کا جواب شیعہ نقطۂ نظر سے دیکھیں تو یہ براہِ راست "احیاءِ امرِ حسینؑ" کے مفہوم سے جُڑا ہوا ہے۔ اگر ہم مجالسِ عزا کو محض رسم و رواج کا جامہ پہنا دیں، اور انہیں امام حسین علیہ السلام کی الٰہی تحریک سے جوڑنے کی کوشش نہ کریں، تو ایسی مجالس کو "احیاء" کہنا حقیقت کا انکار ہوگا۔احیائے حسینؑ، جیسا کہ امام کی تعلیمات سے واضح ہے، اصلاح کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ وہی اصلاح جس کا اعلان خود امام حسینؑ نے یوں فرمایا تھا۔ "میں نہ کسی ذاتی فخر کے لیے نکلا ہوں، نہ فساد پھیلانے کے لیے، بلکہ میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں"۔

پس اگر ہم مجالسِ حسینؑ سے اس اصلاحی روح کو نکال دیں، اور انہیں صرف ایک روایتی، غم زدہ رسم تک محدود کر دیں، تو ہم انہیں ایک بےجان عادت میں ڈھالنے کے خطرے سے دوچار ہو جائیں گے۔ یوں ان مجالس کا اصل مقصد، یعنی انسان سازی، معاشرہ سازی، اور باطل کے خلاف بیداری، پسِ پشت چلا جائے گا۔دراصل، مسئلہ اکثر مجلس کی ظاہری شکل میں نہیں ہوتا، بلکہ ان تصورات میں ہوتا ہے جو لوگوں کے ذہنوں میں مجالس کے بارے میں پختہ ہو جاتے ہیں۔ بہت سے افراد عزاداری کو صرف ایک روحانی یا معاشرتی روایت سمجھ کر ادا کرتے ہیں، بغیر اس کے کہ وہ اپنی زندگی، اپنے کردار، یا اپنے افکار پر کوئی نظرِ ثانی کریں۔ ایسی صورت میں عزاداری ایک عظیم پیغام کے بجائے محض ایک جذباتی عمل بن کر رہ جاتی ہے، جبکہ امام حسینؑ کا پیغام تو ایک ہمہ گیر انقلاب اور انسانی بیداری کا پیغام ہے۔

یہ رسمی انداز فکر اگرچہ ضمیر کو وقتی طور پر مطمئن کر دیتا ہے، لیکن اس کے ذریعے وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے جن کے لیے امام حسین علیہ السلام نے اپنی اور اپنے اہلِ بیت و اصحاب کی قربانیاں  پیش کئے۔اسی لیے آج کے دور میں ہمیں ایک گہری نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ایسا حسینی خطبہ اور بیانیہ جو امامؑ کے انقلاب کے بڑے مقاصد کو واضح کرے، اور انہیں ہمارے موجودہ سماجی و سیاسی حالات سے جوڑے۔صرف امام حسینؑ پر رونا کافی نہیں، بلکہ ضروری ہے کہ ہم حسینی طرزِ حیات اپنائیں، اور اپنی زندگی کو ان کے اصولوں کے مطابق ڈھالیں۔ مجالسِ حسینؑ اپنی اصل فلسفیانہ روح میں نہ تو موسمی خطبات ہیں، نہ ہی صرف غم کی مجالس، بلکہ یہ ایسی تربیتی ورکشاپس ہیں جن کا مقصد "انسانِ حسینی" کی تشکیل ہے ۔ ایسا انسان جو امام حسینؑ کے اصلاحی مشن کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہو، اور اپنی روزمرہ زندگی میں اس کو عملی جامہ پہنائے۔ یہی "انسانِ حسینی" ایک حسینی معاشرے کی بنیاد بنتا ہے، جو آگے چل کر ایک ایسا سیاسی، معاشی اور ثقافتی نظام قائم کرتا ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہو، اور ظلم و فساد کے خلاف ایک مضبوط دیوار بن جائے۔

سال بہ سال مجالس کا تسلسل ایک بے جان روایت نہ بن جائے، بلکہ ان کا ہر دور ایمان، شعور، اور حوصلے کی تجدید کا موقع ہو۔ان مجالس کی تقریریں اور خطابات صرف رنج و غم کی حد تک محدود نہ رہے، بلکہ یہ امام حسینؑ کے اہداف اور ہمارے موجودہ حالات کے درمیان تحلیل، تقابل اور تنقید کا ذریعہ بنے۔امامؑ نے اپنی امت کے لیے جو چاہا، اور آج ہماری امت جس حال میں ہے، ان دونوں کے درمیان فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔

آج منبرِ حسینؑ کا اصل فریضہ ہے کہ وہ انقلابی روح کو زندہ کرے، اور تاریخ اور حال کے درمیان ایک پُل بنے۔نظریے اور عمل کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم کرے۔اس کا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ عزاداری کرنے والا معاشرہ محض سوگوار نہ رہے، بلکہ ایک ایسا بیدار معاشرہ بن جائے جو گمراہی، ناانصافی اور بدعنوانی کے خلاف کھڑا ہو، اور ہر میدان ( سیاست، معیشت، تعلیم، تربیت، حتیٰ کہ جہاد اور شعور کی تعمیر ) میں حقیقی اصلاح کی کوشش کرے۔ ایسے میں مجالسِ امام حسینؑ ایک تمدنی منصوبہ بن جاتی ہیں، نہ کہ صرف ایک یادگار تقریب۔ اور یوں یہ مجالس نہ صرف مظلومیتِ امام حسینؑ کو یاد رکھتی ہیں بلکہ پیغامِ حسینی کو زندہ کرتی ہیں۔

شیعہ قوم کے لیے مجالسِ عزاء صرف گریہ و زاری کا ذریعہ نہیں ہے، بلکہ یہ امام حسینؑ کے ساتھ وفاداری کے عہد کی تجدید کا موقع ہوتی ہیں۔ہر سال، ہر آنسو کے ساتھ یہ قوم اس ابدی پیغام سے جُڑتی ہے جو ظلم کے خلاف قیام، اور عدل کے لیے قربانی کی علامت ہے۔ یہ مجالس محض وقتی جذباتی کیفیت کا اظہار نہیں، بلکہ ایک گہری دینی بصیرت اور انقلابی شعور کا مظہر ہیں، جو امام حسینؑ کو نہ صرف شہیدِ کربلا بلکہ مظہرِ عدل اور منبعِ ہدایت کے طور پر دیکھتی ہیں۔اسی شعور کی بنیاد پر عزاداری، اصلاحِ نفس اور اصلاحِ معاشرہ کا ایک مقدس فریضہ بن جاتی ہے۔یہ مجالس ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہمارا فریضہ صرف ماتم کرنا نہیں، بلکہ وہ معاشرے تشکیل دینا ہے جو جہالت کے اندھیروں سے لڑنے والے ہوں، جو ظلم و فساد کے خلاف حسینی جرات سے لبریز ہوں،اور جو اعلیٰ انسانی اقدار کی راہ میں قربانی، ایثار اور صداقت کے حسینؑ نقشِ قدم پر چلنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔یہی وہ "احیاءِ امرِ حسینؑ" ہے، جو ہر دور میں ظلمتوں کے خلاف ایک روشن مینار بن کر کھڑا ہوتا ہے، اور جو ہر باضمیر انسان کو بیداری کی صدا دیتا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018