23 محرم 1447 هـ   19 جولائی 2025 عيسوى 6:42 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-07-16   18

حرّ سے عمر بن سعد تک: حق کی نصرت اور دنیا کی غلامی

شیخ مصطفی الھجری

امام حسینؑ کی نصرت کی بات صرف نعروں یا ظاہری مظاہر تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ یہ ایک وجودی اور روحانی موقف ہے، جو انسان کے اندرونی انقلاب کا اظہار ہے۔ ایسا انقلاب جو اسے دنیا کی زنجیروں اور خواہشات سے آزاد کر دیتا ہے، اور اسے اس مقام تک پہنچاتا ہے کہ وہ امامِ حسینؑ کے ساتھ کھڑا ہو، نہ کہ اُن کے خلاف۔

امام حسینؑ کی نصرت کا سب سے خوبصورت اور روشن نمونہ کربلا کے اُن جانثار ساتھیوں میں نمایاں نظر آتا ہے، جنہوں نے دوسروں سے پہلے قربانی کے میدان میں قدم رکھا۔ ان کا امتیاز جسمانی طاقت یا زیادہ ساز و سامان نہیں تھا، بلکہ وہ اس لیے ممتاز تھے کہ وہ باطنی طور پر آزاد تھے۔ مال و دولت کی محبت ،اور دنیاوی مقام و مرتبے کی خواہش سے آزاد تھے۔ اسی طرح اپنی جان کی قربانی   پیش کرنے اور اہلِ خانہ کی اسیری کے خوف سے آزاد تھے۔ یہی ہے اصل نصرت کا جوہر۔

امام حسینؑ نے بھی اسی معرکہ کے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے اپنے دشمنوں سے فرمایا:"اگر تمھارا کوئی دین نہیں اور تم قیامت سے نہیں ڈرتے، تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد بنو"یہاں آزادی سے مراد صرف نقل و حرکت یا اظہارِ رائے کی آزادی نہیں، بلکہ دل اور عقل کو دنیا کی گرفت اور غلامی سے آزاد کرنا ہے۔ یہی وہ کلید ہے جو ہر زمانے میں امام حسینؑ کی نصرت کا دروازہ کھولتی ہے۔ جب ہم امام حسینؑ کے ساتھیوں کی حالت پر غور کرتے ہیں، تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی خصوصیت صرف شجاعت نہیں تھی، بلکہ دنیاوی تعلقات سے آزادی تھی۔ انہوں نے اپنی دنیا سے وابستہ ہر شے کو ترک کر دیا، اور اپنا کامل وفاداری و اخلاص امام حسینؑ اور حق کے لیے وقف کر دیا۔ وہ جانتے تھے کہ امام حسینؑ کے ساتھ کھڑے ہونا ان کی جان کی قیمت پر ہوگا، مگر وہ خوف اور زندگی سے محبت کے بندھنوں سے آزاد ہو چکے تھے۔ ان کے لیے شہادت، ابدی زندگی کا راستہ بن چکی تھی۔

اس معنیٰ کی ایک نمایاں مثال حرّ بن یزید ریاحی کی شخصیت ہے، جن کا یزیدی لشکر سے حسینی قافلے کی طرف آنا تاریخ  کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔ حرّ اس بات سے غافل نہ تھے کہ امام حسینؑ کون ہیں، مگر ان کا دل ایمان کی طرف مائل تھا، جبکہ ان کا مقام اور فوجی ذمہ داریاں انہیں روک رہی تھی۔ جب فیصلہ کن لمحہ آیا، تو ایمان کا پلڑا بھاری پڑا۔ وہ باطل کی فوج سے علیحدہ ہو گئے، اور ایک آزاد دل کے ساتھ امام حسینؑ کی طرف بڑھ گئے۔اور یوں وہ پہلا شہید بنے جو راہِ حسینؑ میں قربان ہوا۔

اس کے برعکس، امام حسینؑ کی نصرت کا متضاد پہلو عمر بن سعد کی شخصیت میں نمایاں ہوتا ہے، جسے وعدہ دیا گیا تھا کہ اگر وہ حسینؑ سے جنگ کرے گا تو اسے "رے" کی حکومت ملے گی۔ عمر بن سعد نے کچھ دیر تردد کیا، مگر آخرکار اس نے دنیا کو چن لیا۔ اس نے دین اور آخرت کو دنیا کے چند لمحاتی فائدوں کے عوض بیچ ڈالا۔ وہ اپنی دنیاوی خواہشات کی زنجیروں سے آزاد نہ ہو سکا، اور یوں درہم و دینار کی بدترین غلامی میں جا گرا۔ امام حسینؑ نے اس سانحے کی حقیقت کو ایک جملے میں سمیٹ دیا: "لوگ دنیا کے غلام ہیں، اور دین ان کی زبان پر ایک چکھنے کی چیز ہے (جو صرف وقتی مفاد کے لیے اپنائی جاتی ہے)"۔ یہ تضاد (امام حسینؑ کے جانثاروں اور ان کے دشمنوں کے درمیان)اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ نصرتِ حق کوئی وقتی جذباتی فیصلہ نہیں ہوتی، بلکہ یہ ایک طویل روحانی جدوجہد کا ثمر ہوتی ہے، جو انسان کو اس مقام تک لے جاتی ہے کہ وہ خواہشات اور ذاتی مفادات کے خلاف جا کر بھی حق کا انتخاب کر سکے۔

آج کے دور میں ہم سے تلواروں کا مقابلہ نہیں مانگا جا رہا، بلکہ ہم سے یہ تقاضا ہے کہ ہم امام حسینؑ کے سچے اور حقیقی ناصر بنیں۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم دنیا کی گرفت سے آزاد ہوں، اور ہمارے دل ہمارے جسموں سے پہلے اخلاص کے ساتھ حسینؑ کے لیے حاضر ہوں۔ بیشتر لوگ مجالس میں شریک ہوتے ہیں، غم و ماتم کا اظہار کرتے ہیں، لیکن حقیقی نصرتِ حسینؑ اس وقت حاصل ہوتی ہے جب دل دنیاوی مناصب، مقام و مرتبہ، یا روح سے خالی ظاہری مذہبی مظاہر سے پاک ہو کر محض حسینؑ کی محبت میں خالص ہو جائے۔ نصرتِ حسینؑ کا راستہ ہمارے باطن سے شروع ہوتا ہے۔ یہ راستہ تب کھلتا ہے جب ہم اپنے نفس کو ان تمام چیزوں سے آزاد کرتے ہیں جو اسے صداقت سے "لبیک یا حسین" کہنے سے روکتی ہیں۔ جیسے امام حسینؑ کے ساتھی دنیاوی بندھنوں سے آزاد ہو گئے تھے، ویسے ہی ہمیں بھی اپنے آپ کو آج کے دور کے بتوں سے آزاد کرنا ہوگا، مال، شہرت، خود پرستی، اور روحانی سستی سے آزاد کرنا ہوگا۔

خلاصہ کلام ، امامِ حسینؑ کی سچی نصرت یہ ہےکہ ہم ہمیشہ حق کے ساتھ ہوں، چاہے اس کی قیمت ہمیں اپنی ذات کے خلاف جا کر ادا کرنی پڑے، اور ہم دل سے آزاد انسان بن کر جئیں۔ کیونکہ امام حسینؑ کی نصرت صرف وہی کرتے ہیں جو دل سے آزاد ہوتے ہیں۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018