23 محرم 1447 هـ   19 جولائی 2025 عيسوى 7:23 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-07-16   12

ہم عاشورا کیوں مناتے ہیں؟

شیخ مقداد الربیعی

ہر سال، عاشورائے حسینی کی یاد اپنے ہمراہ گہری معانی اور ابدی اقدار لے کر آتی ہے۔ یہ یاد دلوں کو جھنجھوڑتی ہے، احساسات کو متحرک کرتی ہے، اور ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اس کے حقیقی مفہوم اور روح پر غور کریں۔تو سوال یہ ہے عاشورا کا احیاء (زندہ رکھنا) کیا ہے؟ اور ہم کیسے اس احیاء کو اپنی روح کی تازگی اور اپنے معاشرے کی اصلاح کا نقطۂ آغاز بنا سکتے ہیں؟ لفظ "احیاء" (زندہ رکھنا) بذاتِ خود ایک گہرا مفہوم اور بلند مقصد رکھتا ہے۔جب ہم عاشوراء کے احیاء کی بات کرتے ہیں، تو اس سے مراد صرف عزاداری کی رسومات یا ظاہری سرگرمیوں کا انعقاد نہیں)اگرچہ وہ بھی اپنی جگہ محترم ہیں( بلکہ اس سے مراد ایک زیادہ گہرا اور اعلیٰ مفہوم ہےکہ ہم کسی مفہوم یا مقصد کو زندہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اور زیادہ درست انداز میں کہیں تو ہم اپنے آپ کو زندہ کر رہے ہوتے ہیں۔اپنے دلوں کو ان معانی سے زندہ کرتے ہیں جو اس واقعے میں پوشیدہ ہیں۔

عاشوراء کا حقیقی احیاء یہ ہے کہ ہم اپنے دلوں اور روحوں میں وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار اور معانی بیدار کریں جو امام حسینؑ نے اپنی بابرکت قربانی کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کیں،اور ان کو صرف ایک تاریخی یادداشت کے طور پر نہ رکھیں،بلکہ انہیں زندگی کا ایک مستقل راستہ اور عمل کا نمونہ بنائیں۔یہی وہ مقام ہے جہاں ہمیں رک کر سوچنا چاہیے کہ ہم کن معانی کو اپنی روح میں زندہ کر رہے ہیں؟ کیونکہ اکثر اوقات کربلا کے واقعات کو صرف ایک غمناک سانحہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، یعنی صرف یہ بتا دیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نواسہ، ان کے اہلِ بیتؑ اور جانثار ساتھی ظلم کا شکار ہوئے،انہیں ظالمانہ انداز میں شہید کیا گیا، عورتوں اور بچوں کو قید کیا گیا، اور یہ سب کچھ اتنا دردناک تھا کہ ہر سننے والا متاثر ہوتا ہے۔

یقیناً یہ پہلو اپنی جگہ اہم ہے اور دل کو رُلاتا ہے، لیکن اگر عاشوراء کو صرف تاریخی المیہ سمجھا جائے، تو ہم اس کے اصلی پیغام اور زندہ اقدار کو کھو بیٹھیں گے، یعنی وہ روح، وہ جذبہ، وہ راستہ جس پر امام حسینؑ ہمیں گامزن کرنا چاہتے تھے اس سے دور ہوجایئں گے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق، امام حسینؑ کی تحریک کو اخلاقی اقدار کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے، اور ان کے وہ تمام مؤقف، جن میں عزت، وقار، اور ذلت کے انکار کی جھلک نمایاں ہے، انہی اعلیٰ اخلاقی معیارات سے منسوب کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت صرف یہی نہیں اور اس عظیم قیام کو محض ذاتی غیرت و عزت کے تناظر میں محدود کر دینا بھی درست نہیں،اور اسی طرح اسے صرف انفرادی ردِعمل کے طور پر پیش کرنا بھی حقیقت سے دور ہے۔ اگرچہ عزتِ نفس کا تحفظ، اور ذلت و پستی کو رد کرنا دینِ اسلام میں عظیم اقدار شمار ہوتے ہیں، مگر امام حسینؑ کی تحریک ان سے کہیں بلند اور ہمہ گیر ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ امام حسنؑ نے بھی، اپنی امامت کے مرحلے میں، جب صلح کو دین کے مفاد میں پایا، تو انہوں نے اسے اختیار کیا، تاکہ اسلامی اصلاح و ہدایت کا مقصد آگے بڑھایا جا سکے۔ جب ہم امام حسینؑ کی ذات پر غور کرتے ہیں، جو معصوم اور الٰہی تائید یافتہ ہستی ہیں، تو ہمیں یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے تمام اقدامات اور ان کی سیرت کا ہر پہلو اللہ تعالی کی رضا اور انبیا کی رسالتوں کی بقا کے لیے تھا۔ امام حسینؑ کی تحریک کسی خاص دائرے تک محدود نہ تھی، بلکہ ایک ہمہ جہت اور ہمہ زمانی انقلاب تھا جو وقت، جگہ اور حالات کی قید سے بلند ہو کر ہر اُس دل تک پہنچتا ہے جو حق، عدل اور انسانیت کی تلاش میں ہے۔ یہ قیام محض ایک تاریخی واقعہ نہیں تھا جو وقت کے ساتھ ختم ہو گیا، بلکہ ایک زندہ، جاری رہنے والا انقلاب ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔

امام حسینؑ کے مقاصد ایسے نہیں تھے جنہیں کسی ایک زمانے یا قوم تک محدود سمجھا جائے، بلکہ یہ آفاقی انسانی اہداف ہیں کہ جو عدل و انصاف، آزادی، انسان کی عزت و تکریم، ظلم اور فساد کے خلاف جہاد، اور قسط (یعنی مساوات) کا قیام کےلئے تھا۔ یہ اقدار نہ پرانی ہوتی ہیں اور نہ ختم ہونے والی ہے، بلکہ ہر دور میں زندہ رہتی ہیں، ہر اس دل میں، جو انہیں اپنانا چاہے اور ہر اس معاشرے میں، جو انہیں اپنا نصب العین بنائے۔

جذباتی احیاء: تبدیلی کی طرف ایک راستہ

واقعۂ عاشورا کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ عقلی و فکری پہلو کے ساتھ ساتھ جذباتی و قلبی پہلو کو بھی متحرک کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو دل اور دماغ دونوں سے مخاطب ہوتا ہے۔ لیکن یہ جذباتی کیفیت خود مقصد نہیں ہے، بلکہ ایک وسیلہ ہے تاکہ دل اس سطح پر پہنچ جائے جہاں وہ حسینؑ کے پیغام کی گہرائیوں اور اعلیٰ اقدار کو سمجھنے اور قبول کرنے کے قابل ہو۔ جو فکر آنسو کے ساتھ پیش کی جائے، وہ دل کے قریب تر ہوتی ہے بنسبت اس فکر کے جس سے جذبات کا رشتہ نہ ہو۔ امام حسینؑ کے مصائب کا ذکر جب آنکھوں میں آنسو لے آئے، تو یہ محبت اور وفاداری کا آنسو ہوتا ہے، لیکن اسی کے ساتھ یہ ندامت کا آنسو بھی ہوتا ہے۔ اس بات پر کہ ہم نے حسینؑ کے راستے پر کتنا عمل کیا، اور یہ بھی عزم کا آنسو ہوتا ہے۔ کہ ہم اپنی زندگی میں تبدیلی اور اصلاح لائیں گے۔

لیکن سوال یہ ہے:ہم اپنے عاشورا کے احیاء کی صداقت کو کیسے جانچیں؟اس کا اصل معیار کیا ہے؟ حقیقی معیار یہ ہے کہ یہ عزاداری، مجالس، اور احیاء ہماری زندگی، اخلاق اور رویے پر کتنا اثر ڈال رہے ہیں۔ ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے: کیا ان مجالس کے بعد ہمارا تقویٰ بڑھا؟ کیا ہم اللہ کی اطاعت میں پختہ تر ہوئے؟ کیا ہم انصاف، دیانت، اور دین داری میں ترقی کر سکے؟ کیا ہمارے اندر نفس کی پاکیزگی، دوسروں کے لیے خیر خواہی، اور عدل و مساوات کا جذبہ پیدا ہوا؟ ان سوالات کے جوابات ہی یہ طے کریں گے کہ ہم نے عاشوراء سے حقیقتاً کچھ پایا یا نہیں۔ لہٰذا، عاشورا کے احیاء کی اصل قدر نہ تو شرکت کی تعداد میں ہے، نہ خرچ کی گئی رقم میں، بلکہ اس میں ہے کہ ہماری شخصیت میں کتنا مثبت اور حسینی تبدیلی آئی۔

اجتماعی سطح پر عاشوراء کا احیاء

جیسے عاشوراء کا احیاء فرد کی سطح پر اثر ڈالنا چاہیے، ویسے ہی اس کا اثر پورے معاشرے پر بھی ظاہر ہونا چاہیے۔ ایک ایسا معاشرہ جو واقعی عاشوراء کو زندہ کرتا ہے، وہی ہے جس میں قربانی، ایثار، دینی فداکاری، اصلاح اور فساد کے خلاف جدوجہد کا جذبہ بڑھتا ہے، جہاں اخلاقی معیار بلند ہو، اور جہاں ایسی فضا قائم ہو جو عدل و انصاف کے قیام کی بنیاد بنے۔

وہ معاشرہ جو حقیقی طور پر عاشوراء کا احیاء کرتا ہے، وہ صرف غم منانے والا نہیں، بلکہ وہ ایک اصلاحی اور انقلابی معاشرہ ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ جو ظلم و فساد کو رد کرتا ہے،اور عدل، ترقی، شعور اور فلاح کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔عاشوراء کا سچا اور حقیقی احیاء اس وقت مکمل ہوتا ہےجب ہم ظاہری رسومات سے آگے بڑھ کر حسینؑ کی اصل پیغام کو اپناتے ہیں۔ہم امام حسینؑ کی تحریک کا احیاء اس لیے کرتے ہیں تاکہ عاشوراء اور کربلا کی تعلیمات کو اپنی ذات، اپنے گھروں اور اپنے معاشرے میں زندہ کریں۔

ہم امام حسینؑ کی تحریک کو اس لیے زندہ رکھتے ہیں تاکہ ہمارے مرد امام حسینؑ کی سیرت کے علمبردار بنیں، اور ہماری خواتین حضرت زینبؑ کے کردار کی جھلک ہوں۔یہی ہے ہمارا اصل چیلنج، کہ ہم اپنی زندگی، عمل، سوچ اور معاشرت کو واقعی عاشوراء کی اقدار کا آئینہ دار بنائیں، اور ہم اپنے زمانے میں امام حسینؑ کے پیغام کا عملی تسلسل بن جائیں۔ عاشوراء کا احیاء ہم سب کے لیے تجدید اور اصلاح کی ایک کھلی دعوت ہے۔ یہ ہمیں آواز دیتا ہے کہ ہم اس سے بہتر بنیں جو ہم آج ہیں، اور امام حسینؑ کی اقدار کو اپنی زندگی کا چراغ بنائیں، تاکہ وہ ہماری سوچ، ہمارے فیصلوں، اور ہماری راہوں کو منور کریں۔ جتنا ہم عاشوراء کے مفاہیم کو اپنی ذات میں اُتارنے میں کامیاب ہوں گے، اتنا ہی ہمارا یہ احیاء سچا اور بامقصد ہوگا۔ جتنا ہم کربلا کے پیغام اور امام حسینؑ کی تعلیمات کو اپنے کردار، طرزِ زندگی، اخلاق، اور معاشرے میں ڈھال سکیں، اتنا ہی ہم واقعۃً معانی کربلا کو زندہ کرنے والے ہوں گے۔تو آئیے، عاشوراء کو تجدید و اصلاح کی ایک مضبوط بنیاد بنائیں، اور یہ عہد کریں کہ ہم اس عظیم یاد کی حرمت کے اہل بنیں، اور ہر دور  اور ہر زمانے میں امام حسینؑ کے پیغام کے سچے امین بنیں۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018