23 محرم 1447 هـ   19 جولائی 2025 عيسوى 6:39 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-07-16   49

لبیک یا حسینؑ: ایک نعرہ یا حقیقت؟ انسان خود کو اور اپنی سب سے قیمتی متاع کو کب قربان کرتا ہے؟

شیخ مقداد الربیعی

انسان اپنی جان اور قیمتی ترین متاع کو کب اور کیوں قربان کرتا ہے؟ یہ سوال ہمیں قربانی کے حقیقی مفہوم اور اس کے پس منظر میں چھپے محرکات کی طرف لے جاتا ہے۔ قربانی، اعلیٰ اصولوں اور آفاقی اقدار کے لیے جان دینا، انسانی صفات میں سب سے بلند اور شرافت کی علامت ہے۔ انسانی تاریخ ایسی عظیم قربانیوں سے بھری ہوئی ہے جن میں افراد نے حق و انصاف کی خاطر اپنی جان، مال اور سب کچھ نچھاور کر دیا۔ ان قربانیوں کی سب سے روشن مثال واقعہ کربلا اور امام حسینؑ کی تحریک ہے، جس میں امامؑ نے حق کے تحفظ اور باطل کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے ہر چیز قربان کر دی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انسان ایسا کٹھن فیصلہ کیوں کرتا ہے؟ وہ اپنی جان اور محبوب ترین چیزیں کیوں قربان کرتا ہے؟ اس فیصلے کے پیچھے کون سے جذبات اور نظریات کارفرما ہوتے ہیں؟

اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم الٰہی پیغامات اور ان کے اہداف کا ادراک کریں۔ تمام آسمانی ادیان کا اصل مقصد ظلم و فساد کا مقابلہ، معاشرے کی اصلاح اور عدل و انصاف کا قیام ہے۔ یہی پیغام انبیاء اور اوصیاء کا بھی رہا ہے، جو طاقتور ظالموں، مفاد پرستوں اور متکبروں کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ یقیناً ایسی تحریکوں کو ہمیشہ طاقتور ظالم قوتوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا رہا ہے، کیونکہ یہ پیغام ان کے مفادات، جاہ و جلال اور اقتدار کے لیے خطرہ ہوتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں "قربانی" ایک ناگزیر ضرورت بن جاتی ہے، تاکہ پیغام محفوظ رہے اور اس کی اقدار معاشرے میں راسخ ہوں۔

درحقیقت، قربانی کسی بھی نظریے سے سچی وابستگی کی کسوٹی ہے۔ جب حالات سخت ہو جائیں اور وقت امتحان کا آ جائے، تو اُس وقت اہلِ حق کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں: یا تو وہ اپنی دعوت اور اصولوں سے پیچھے ہٹ جائیں، یا پھر ہر قیمت پر اس کی حفاظت کریں یہان تک کہ اگر اس کے لیے اپنی جان، اپنے بچوں، اپنے مال و متاع، حتیٰ کہ سب کچھ قربان کرنا پڑے۔ تب جا کر کوئی "لبیک یا حسین" کو محض نعرہ نہیں، بلکہ ایک زندہ اور عملی حقیقت بنا پاتا ہے۔

امام حسین علیہ السلام کا اپنی ذات، اہلِ خانہ اور اصحاب کو قربان کر دینا اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اُن کی جدوجہد کسی وقتی یا محدود مقصد کے لیے نہیں تھی، بلکہ وہ ایک عظیم، آفاقی اور ابدی پیغام کی حامل تحریک تھی، جو نہ صرف اپنے وقت کے لیے، بلکہ ماضی، حال اور مستقبل کی پوری انسانیت کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ ان کی یہ قربانی کوئی جذباتی اقدام یا وقتی ردِعمل نہیں تھی، بلکہ ایک سوچا سمجھا، مدبرانہ اور دُوراندیش منصوبہ تھا، جس کا مقصد گہرے اور دور رس اہداف کا حصول تھا۔ امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد کا مقصد اقتدار حاصل کرنا ہرگز نہ تھا، کیونکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ اُن کی تحریک کا انجام شہادت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ امام حسینؑ کا اصل ہدف بنی اُمیہ کے اقتداری منصوبے کو دینی اور اخلاقی جواز سے محروم کرنا تھا۔ اُنہوں نے یہ حقیقت پا لی تھی کہ اُموی حکومت دین کے نام پر دین ہی کو مٹانے کے درپے ہے؛ وہ دین کو ایک خالی خول، ایک بے جان رسمی ڈھانچے میں بدلنے کا منصوبہ بنا چکی ہے، جو بظاہر اسلام کے نام پر قائم ہے، مگر درحقیقت اسلام کی روح کو مسخ کر رہی ہے۔ ایسے نازک وقت میں، امام حسینؑ کے نزدیک واحد راستہ یہ تھا کہ وہ اپنی قربانی کے ذریعے اس گھناؤنے منصوبے کو بے نقاب کریں، امت کو جھنجھوڑیں، اور حق و باطل کے درمیان ایک ایسی واضح لکیر کھینچ دیں جو رہتی دنیا تک قائم رہے۔

قربانی کی مختلف صورتیں

قربانی صرف جان دینے تک محدود نہیں، بلکہ اس کے کئی پہلو اور شکلیں ہیں۔ جب ہم "قربانی" کی بات کرتے ہیں، تو اس سے مراد صرف جان یا روح کی نذر دینا نہیں ہوتا، بلکہ اس میں مال، وقت، محنت، عمر، یعنی انسان کے پاس موجود ہر قیمتی چیز کی قربانی شامل ہے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ قربانی کی نوعیت اس کردار پر منحصر ہوتی ہے جو ایک فرد یا معاشرہ حق و باطل کی جنگ میں ادا کر رہا ہو، اور یہ بھی کہ یہ معرکہ کس مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ بعض اوقات قربانی سیاسی یا اقتصادی میدان میں درکار ہوتی ہے، اور بعض اوقات انسان کو اپنی انا، خود پسندی، جاہ و منصب اور اقتدار کی محبت کو قربان کرنا ہوتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب ہر اُس شخص سے، جو امام حسینؑ کے پیغام پر ایمان رکھتا ہے، ایک بنیادی سوال کیا جانا چاہیے کہ کیا میں تیار ہوں کہ ان مادی چیزوں، نفسانی خواہشات، اور دنیاوی میلانات کو ترک کر کے حسینؑ کے راستے پر چلوں؟ اگر کوئی شخص ان تمام چیزوں کو قربان کر سکے، تو وہ واقعی اپنے دعوے میں سچا ہے کہ وہ "حسینی" ہے، اور اگر وہ ایسا نہ کر سکے، تو یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ اس کا دعویٰ کھوکھلا ہے۔ یہ امتحان کسی خاص زمانے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک جاری و ساری، مسلسل اور ہمہ وقتی سوال ہے، جو ہر انسان سے تعلق رکھتا ہے۔ کیونکہ امام حسینؑ ہر دور میں موجود ہیں، اور اُن کا پیغام ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا۔

واقعۂ کربلا نے ایک نہایت اہم حقیقت کو آشکار کیا، جیساکہ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: (الناس عبيد الدنيا، والدين لعق على ألسنتهم، يحوطونه ما درت معايشهم، فإذا محصوا بالبلاء قل الديانون)

 "لوگ دنیا کے غلام ہوتے ہیں، دین صرف ان کی زبانوں پر ہوتا ہے، جب تک ان کے مفادات قائم رہیں، وہ دین کے گرد گھومتے رہتے ہیں، لیکن جب آزمائش آتی ہے، تو سچے دیندار بہت کم رہ جاتے ہیں۔ (الشاهرودي، مستدرک سفینة البحار، ج۱، ص۴۲۴)۔

قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے حقیقی شکر گزاروں کی قلت کو بیان کیا ہے، (وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ) (سورة سبأ، الآية: 13) اور میرے بندوں میں شکر گزار کم ہی ہوتے ہیں

کربلا میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی، جہاں صرف چند افراد نے امام حسینؑ کا ساتھ دیا، جبکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ یا تو باطل کا ساتھ دے رہے تھے یا خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔اگر ہم ایسا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں جو اصولوں اور اقدار کی خاطر قربانی دے سکے، تو اس کے لیے مستقل تربیت کی ضرورت ہے۔ایک ایسا معاشرہ جو قربانی کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے، اسے کربلا کی روح اور حسینی ایمان کے ساتھ تربیت حاصل کرنی ہو گی۔ اور یہ تربیت صرف بڑے واقعات پر منحصر نہیں، بلکہ اسے معمولی روزمرہ کے واقعات، چھوٹی قربانیوں، اور سادہ آزمائشوں سے شروع کیا جانا چاہیے، تاکہ انسان بڑے امتحانات میں بھی سرخرو ہو سکے۔وہ تاجر جو مشکل وقت میں معمولی منافع چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا، یا وہ ملازم جو انصاف کی خاطر اپنے کچھ مفادات کی قربانی نہیں دے سکتا۔ کیا ایسے لوگوں سے بڑی قربانیوں کی توقع کی جا سکتی ہے؟ جو شخص چھوٹے امتحانات میں ناکام ہوتا ہے، وہ بڑے امتحانات میں کیسے کامیاب ہو سکے گا؟

اختتامیہ

کسی عظیم پیغام یا امت کی بقا کے لیے قربانی دینا صرف ایک انفرادی اور بہادری کا مظاہرہ نہیں، بلکہ یہ ایک تہذیبی ضرورت ہے—ایک ایسا لازمی عمل جس کے بغیر انسانی اقدار کا تسلسل اور ظلم و فساد کی طاقتوں کا مقابلہ ممکن نہیں۔ یہ وہ قیمت ہے جو حق کی حفاظت اور زمین پر عدل و انصاف کے قیام کے لیے چکانا لازم ہے۔ امام حسینؑ کی قربانی کی سب سے بڑی عظمت یہ ہے کہ وہ کوئی گزر جانے والا تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ ایک زندہ اور روشن درسگاہ ہے، جو نسل در نسل انسان کو عزت، غیرت اور اصولوں پر جینے کا ہنر سکھاتی ہے۔ یہ قربانی ہمیں بتاتی ہے کہ ظلم کے سامنے "نہیں" کہنا کب فرض ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر اس کی قیمت اپنی جان ہو۔ کیونکہ وہ زندگی جس میں عزت، اصول اور حق نہ ہو، وہ جینے کے قابل نہیں۔ اور وہ موت جو حق کی راہ میں آئے، وہ دراصل ایک لازوال زندگی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018