

یزید اور خونِ حسینؑ:وہ جرم جو کبھی پرانا نہیں ہوتا
الشيخ معتصم السيد أحمد
واقعۂ کربلا امتِ مسلمہ کے وجدان میں ایک ایسا زخم ہے جو آج تک رس رہا ہے۔ یہ صرف ایک بے مثال انسانی المیہ نہیں تھا ، بلکہ ایک ایسا واقعہ تھا کہ جس نے اس گہرے انحراف کو بے نقاب کر دیا جو اموی حکومت کے دور میں دینی شعائر اور اہلِ حق کے ساتھ رویّے میں پیدا ہو چکا تھا۔ رسولِ خدا ﷺ کے نواسے، امام حسین بن علی علیہ السلام، ان کے اہلِ بیت اور اصحاب کو نہایت سفّاکانہ انداز میں شہید کیا گیا، ایسی ہولناک واردات جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ کوئی پوشیدہ یا مبہم سانحہ نہ تھا، بلکہ ایسا واقعہ جوتھا دن دہاڑے، سب کے سامنے پیش آیا۔
باوجود اس کھلی حقیقت کے، آج بھی بعض لوگ یزید بن معاویہ کے جرم کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور واقعے کو محض کوفیوں کی پیدا کردہ مقامی بد نظمی یا یزید کے گورنروں کے انفرادی فیصلوں کا نتیجہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن اگر ہم واقعات کا شعوری جائزہ لیں اور انہیں ان کے سیاسی اور عقائدی سیاق و سباق میں سمجھنے کی کوشش کریں، تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ حادثہ کسی اتفاق یا وقتی لغزش کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کی پیداوار تھا ۔ ایک ایسا منصوبہ جس کی قیادت خود یزید نے کی، جو اسی کے نام پر، اسی کے دور میں، اور اسی کے اقتدار کے سائے میں انجام پایا۔
جب ہم بنو اُمیہ کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی حکومت کے لیے کسی بھی ایسی آواز کو دبانے میں دیر نہیں کرتے تھے جو ان کے اقتدار کے لیے خطرہ بن سکتی ہو، خاص طور پر اگر وہ آواز دینی اعتبار سے اہمیت رکھتی ہو۔ امام حسین علیہ السلام محض ایک سیاسی مخالف نہ تھے، بلکہ وہ رسولِ خدا ﷺ کے نواسے، نبوت اور حق کے تسلسل کا مظہر، اور خلافتِ نبوی کے نمائندہ تھے۔ایک ایسی خلافت جو غاصب اموی حکومت کے لیے کانٹے کی مانند تھی۔
جب معاویہ کی وفات کے بعد یزید نے خلافت سنبھالی، تو اس نے فوری طور پر اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے امت کی دینی اور سیاسی شخصیات سے بیعت لینے کا سلسلہ شروع کیا، جن میں سرِ فہرست امام حسین علیہ السلام تھے۔ یہاں بیعت محض ایک رسمی عمل نہ تھی، بلکہ یزید کے نزدیک اس کا مطلب یہ تھا کہ امام حسینؑ اس کی حکومت کو جائز تسلیم کر لیں۔ امام نے اس مطالبہء بیعت کو دوٹوک انداز میں مسترد کر دیا۔
اسی لیے یزید نے اپنے مدینہ کے گورنر، ولید بن عتبہ، کو خط لکھا اور حکم دیا کہ امام حسینؑ اور عبداللہ بن زبیر سے بیعت لی جائے، اور اگر وہ انکار کریں تو قتل کر دیا جائے۔ یزید نے اپنے خط میں لکھا: "جب میرا خط تمہیں پہنچے تو حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر کو حاضر کر کے ان سے بیعت لو، اگر وہ انکار کریں تو ان کی گردنیں اُڑا دو، اور ان کے سر مجھے بھیج دو۔ باقی لوگوں سے بھی بیعت لو، جو انکار کرے، اس پر سختی کرو، خاص طور پر حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر کے معاملے میں سختی سے پیش آؤ ۔ والسلام"(تاریخ یعقوبی، جلد 2، صفحہ 215)۔
یہ متن کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑتا کہ یزید امام حسین علیہ السلام کو ایک ایسا دشمن سمجھتا تھا جسے ہر قیمت پر ختم کرنا ضروری ہے، چاہے اس کے لیے قتل ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہ بات اس دعوے کو مکمل طور پر جھٹلا دیتی ہے کہ یزید کا واقعۂ کربلا سے کوئی تعلق نہ تھا یا وہ اس کا ذمہ دار نہیں تھا۔
جب امام حسین علیہ السلام مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے، تو یزید ان کی نقل و حرکت سے غافل نہ تھا۔ بلکہ وہ مسلسل ان کا پیچھا کر رہا تھا، خط و کتابت اور سازشوں کے ذریعے ان پر نظر رکھے ہوئے تھا۔اس حقیقت کی گواہی عبداللہ بن عباس نے یزید کو لکھے گئے اپنے ایک خط میں دی ہے، جس میں وہ کہتا ہے: "میں بہت سی باتیں بھول بھی جاؤں تو یہ بات کبھی نہیں بھولوں گا کہ تم نے حسین بن علی کو حرمِ رسول اللہ ﷺ سے نکال کر حرمِ خدا (یعنی مکہ) میں بھی نہ رہنے دیا، اور تم نے اس کے پیچھے آدمی بھیجے تاکہ اسے قتل کرا سکو۔ تم نے اُسے حرمِ خدا سے نکال کر کوفہ کی طرف روانہ ہونے پر مجبور کیا، اور وہ وہاں سے اس حال میں نکلا کہ خوف زدہ تھا، آس پاس کا جائزہ لیتا، جان بچاتا جا رہا تھا…" (تاریخ یعقوبی، جلد 2، صفحہ 221)۔
اس تاریخی گواہی سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ یزید نہ صرف امام حسین علیہ السلام کی نقل و حرکت سے باخبر تھا، بلکہ وہ ان تمام سرگرمیوں کو اس انداز سے کنٹرول کر رہا تھا کہ اس کے آخری مقصد — یعنی امام حسینؑ سے نجات حاصل کرنا ۔ کی تکمیل ہو سکے۔ یہ تاریخی سند یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ امامؑ کو قتل کرنے کی سازش محض ایک وقتی ردعمل نہ تھی، بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ تھی، اور امامؑ کا تعاقب ایک منظم حکمتِ عملی کے تحت کیا جا رہا تھا۔
جہاں تک امام حسین علیہ السلام کے قتل کا تعلق ہے، تو اس فیصلے پر عمل درآمد عبید اللہ بن زیاد کے ذریعے ہوا، جسے یزید نے کوفہ اور بصرہ کا گورنر مقرر کیا تھا، اور امام حسینؑ سے براہِ راست نمٹنے کی مہم کا نگران بھی بنایا تھا۔ عبید اللہ کوئی خود مختار کردار نہ تھا، بلکہ وہ یزید کے واضح اور صریح احکامات پر عملدرآمد کر رہا تھا۔ اس بات کو یزید کے اُس خط سے بھی تقویت ملتی ہے جو اس نے مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد عبید اللہ کو لکھا۔ اس خط میں یزید کہتا ہے:"تم نے میری امید پوری کی اور میرے بارے میں تمہارے متعلق جو رائے تھی وہ درست ثابت ہوئی مجھے خبر ملی ہے کہ حسین بن علی عراق کا ارادہ رکھتا ہے، لہٰذا راستوں پر نگرانی کے لیے لوگ مقرر کرو، چوکیوں کا انتظام رکھو، شک گزرے تو گرفتار کرو، اور ہر روز کی نئی صورت حال سے مجھے باخبر کرتے رہو…"(الفتوح، جلد 5، صفحہ 109)۔
اس سے بھی زیادہ خطرناک بات وہ ہے جو ابن اثیر نے نقل کی ہے، کہ عبید اللہ بن زیاد نے بعد میں خود اعتراف کرتے ہوئے کہا:"جہاں تک حسین کے قتل کا تعلق ہے، تو یزید نے مجھے یا تو حسین کو قتل کرنے یا خود مجھے قتل کر دینے میں سے ایک کے انتخاب کا اختیار دیا تھا، تو میں نے حسین کے قتل کو ترجیح دی۔"(الکامل في التاريخ، جلد 4، صفحہ 140)
یہ بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ یہ اس دلیل کو مکمل طور پر باطل کر دیتا ہے کہ عبید اللہ بن زیاد نے انفرادی طور پر یہ اقدام کیا تھا۔ اس کے برعکس، یہ واضح کرتا ہے کہ امام حسینؑ کے قتل کا فیصلہ خود اموی حکومت کے سربراہ ( یزید ) کی سطح پر لیا گیا تھا۔
ان حقائق کے ساتھ ساتھ اہل سنت کے بعض جلیل القدر علما کے بیانات بھی ایسے ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، جنہوں نے نہ صرف یزید کو بری الذمہ قرار دینے کا کوئی جواز نہیں پایا، بلکہ امام حسین ع کو شہید کرنے کے سلسلے میں یزید کے ناپاک کردار کو پوری شدت سے تسلیم کیا۔ ان میں سے ایک علامہ تفتازانی ہیں، جنہوں نے شرح العقائد النسفیہ میں لکھا: "تمام علما کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص امام حسین کو قتل کرے، قتل کا حکم دے، اس کی اجازت دے، یا اس پر راضی ہو — اس پر لعنت جائز ہے۔ اور حق بات یہ ہے کہ یزید کا امام حسین کے قتل پر راضی ہونا، اس پر خوش ہونا، اور اہلِ بیتِ رسولؐ کی توہین کرنا ایسی باتیں ہیں جن کا مفہوم تواتر سے ثابت ہے، اگرچہ ان کی جزئی تفصیلات خبرِ واحد سے نقل ہوئی ہیں۔ لہٰذا ہم یزید کے معاملے میں تردد نہیں رکھتے، بلکہ (اگر کوئی شک ہے تو) وہ اس کے کفر و ایمان کے بارے میں ہے، اللہ کی لعنت ہو اُس پر، اُس کے مددگاروں اور اُس کے حامیوں پر" (شذرات الذهب، ابن العماد الحنبلی، جلد 1، صفحہ 68)۔
اگرچہ کچھ لوگ یہ دعویٰ کر کے یزید کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یزید نے امام حسینؑ کو اپنے ہاتھوں سے قتل نہیں کیا، لیکن سیاست اور تاریخ کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ جب کوئی بڑا فیصلہ ریاست کی سربراہی میں ہوتا ہے، خاص طور پر ایسا فیصلہ جو حکمران کے مفادات، نظریات اور احکامات کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہو، اور جس کی پشت پناہی خطوط، سرمایہ اور افراد کے ذریعے کی جائے، تو پھر حکمران اس کا براہِ راست ذمہ دار ہوتا ہے۔ امام حسینؑ کا سر یزید کے دربار میں پیش کیا جانا، اور اہلِ بیتؑ کے اسیران کے ساتھ اس کے دربار میں ہونے والا سلوک، یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ یزید اس جرم سے صرف غافل نہ تھا، بلکہ پوری طرح اس میں شریک و ہمنوا بلکہ بنادی کردار تھا۔
یزید یہ سمجھتا تھا کہ امام حسینؑ کے گلے کو کاٹ کر وہ حق کے نور کو بجھا دے گا، مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اسی خون سے ایسی شمع جلائی جائے گی جو کبھی بجھنے والی نہیں۔ وہ سمجھتا تھا کہ تلوار ہی ہمیشہ غالب رہتی ہے، لیکن واقعہ کربلا نے ثابت کر دیا کہ آخرکار فتح خون کو ہی حاصل ہے۔ امام حسینؑ پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، لیکن تاریخ میں وہی ہمیشہ کے لیے سرخرو اور فاتح قرار پائے، اور یزید اصول، تاریخ اور انسانی ضمیر کے سامنے ہمیشہ کے لیے رسوا و شکست خوردہ ہوا۔
کیونکہ جسے ظلم کے ساتھ قتل کیا جائے، وہ ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہیں سے اس کی حقیقی حیات شروع ہوتی ہے؛ اور جو ظالم بن کر قتل کرتا ہے، وہ وقتی طور پر غالب دکھائی دے سکتا ہے، مگر آخرکار گر جاتا ہے — چاہے کچھ وقت کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لیے کربلا ایک ایسا چراغ بن گئی جو ہر دور کے مظلوموں اور حق پرستوں کو راہ دکھاتا ہے، اور اس کے اسباق ہمیشہ امت کے اجتماعی شعور میں زندہ رہیں گے۔ امام حسینؑ کا شہادت شکست نہیں تھی، بلکہ کامل ترین فتح تھی — ایک ایسی للکار جو ہر زمانے کے ظالموں کے خلاف گونجتی رہے گی۔
امام حسینؑ کی شہادت کوئی ایسا واقعہ نہیں جسے تاریخ کے اوراق میں دفن کر دیا جائے، یا وقت گزرنے کے ساتھ اس جرم کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ کیونکہ یہ جرم کسی ایک شخص کے خلاف نہ تھا، بلکہ ایک سیاسی نظام کی جانب سے وہ ہولناک اقدام تھا جس نے اقتدار کے تحفظ کی خاطر ہر مقدّس چیز کو پامال کر دیا تھا۔ کربلا حق و باطل کا دائمی معیار بن گئی، اور حسینؑ کا خون امت کے ضمیر میں آج بھی پکار رہا ہے ۔ اس ظالم کو بھی، جو قتل کا مرتکب ہوا؛ اسے بھی، جو اس پر راضی ہوا؛ اور اُسے بھی، جو خاموش رہا۔
لہٰذا یزید کی ذمہ داری کا تذکرہ صرف ماضی کے واقعے کا تکرار نہیں، بلکہ یہ اس اٹل حقیقت کا اعلان ہے کہ عدل کبھی مرتا نہیں، اور ظلم محض وقت گزرنے سے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
اگرچہ یزید دنیا کی عدالت سے بچ نکلا، لیکن اللہ کی عدل پر مبنی عدالت نہ غفلت برتتی ہے اور نہ ہی کبھی ختم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امام حسینؑ کے خون میں ایسی حرارت رکھ دی ہے جو مؤمنوں کے دلوں میں کبھی ٹھنڈی نہیں ہوتی، اور ان کی مظلومیت کو ایسی آواز عطا کی ہے جو کبھی خاموش نہیں ہوتی۔ کربلا میں ان کی وہ فریاد جو انہوں نے حق کے لیے بلند کی، آنے والی نسلوں کے ضمیر میں ایک زندہ شعور بن کر گونجتی رہی — جو حق کے طلبگار کو ہدایت دیتی ہے اور جس کے دل پر غفلت کا پردہ پڑا ہو اُسے بیدار کرتی ہے۔ یہی دراصل خدائی انتقام کی ایک شکل ہے، کہ کتنے ہی ظالم آئے اور مٹ گئے، اور کتنے ہی شہید مارے گئے مگر امت کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گئے۔
کربلا محض تاریخ کی ایک عارضی جنگ یا معمولی فوجی معرکہ نہ تھی، بلکہ یہ وجودی تقسیم کی ایک سرحد تھی — ایک طرف حق کا قافلہ تھا جس کی قیادت امام حسین علیہ السلام کر رہے تھے، اور دوسری طرف باطل کا لشکر تھا جس کی نمائندگی یزید اور اس کے پیروکار کر رہے تھے۔ یہ معرکہ وقت اور جگہ کی حدود سے بہت آگے نکل چکا تھا، اور کربلا ایک ایسا پیمانہ بن گئی جس سے ہر دور میں عدل اور ظلم کے درمیان ہونے والی ہر کشمکش کو پرکھا جائے گا، ہر اصول اور انحراف کی جنگ کو جانچا جائے گا۔
اسی لیے یزید کا جرم صرف ایک انسان کے قتل تک محدود نہ تھا، بلکہ وہ پوری امت کے قلب پر ایک کاری زخم تھا، اور رسولِ خدا ﷺ کی رسالت سے غداری تھی۔ اسی وجہ سے یزید کا نام تاریخ کی لعنتوں میں ڈوبا رہا، اور امام حسین علیہ السلام کا نام حق کے نور سے جگمگاتا رہا۔ ہر آزاد فکر رکھنے والے انسان کے دل میں روشن رہا، اور یونہی چمکتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کے خاص بندے زمین اور جو کچھ اس پر ہے، سب کا وارث بن جائیں ۔