19 محرم 1447 هـ   15 جولائی 2025 عيسوى 3:28 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-07-13   21

کیا سیاسی اقتدار لوگوں کے ایمان پر نگہبان ہو سکتا ؟

الشيخ معتصم السيد أحمد

معاصر دینی و سیاسی  مباحث کے درمیان اکثر ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا کسی بھی ملک میں سیاسی اقتدار کو افراد کے ایمان پر نگرانی کا اختیار حاصل ہے؟ اور کیا یہ جائز ہے کہ ریاست دین کے نام پر عقائد کی سچائی یا ان کی مشروعیت پر حَکم یا اتھارٹی بنے؟ یہ سوال صرف اسلامی سیاسی فکر کے محققین کے لیے ہی اہم نہیں ہے بلکہ فقہا، مبلغین اور دینی و سماجی عدل پر یقین رکھنے والے دانشوروں کی فکر سے بھی گہرا تعلق رکھتا ہے، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ جب ہم آج مذہبی اور غیر مذہبی دونوں طرح کی اقتدار کی شکلوں کو دنیا میں کہیں نہ کہیں دیکھ رہے ہیں۔  بعض سیکولر فکر کے نظریہ پردازوں کا خیال ہے کہ اس سوال کا عملی جواب پہلے ہی تاریخی تجربات کی روشنی میں طے ہو چکا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہر وہ کوشش جو دینی اقتدار کو سیاسی اقتدار کے ساتھ ملانے کی ہوئی، لازماً استبداد (تسلط) پر منتج ہوتی ہے، خصوصاً جب بات مذہبی یا مسلکی تنوع کے انتظام کی ہو۔

اس سلسلے میں ان کا استدلال یہ ہے کہ مذاہب کی تاریخ خونریز تنازعات سے بھری پڑی ہے، جن کی وجہ غالبا بعض فرقوں یا حکومتی قوتوں کی جانب سے دینی سچائی پر اجارہ داری قائم کرنے اور اپنی تعبیرات دوسروں پر مسلط کرنے پر اصرارکرنا رہی ہے ۔ اسی طرح وہ اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ سیاست و دین کے امتزاج کے تجربات اکثر اقلیتوں کو نظر انداز کرنے، مخالفین کو دبانے اور دین کو حکمرانوں یا حکمران گروہ کی بالادستی قائم رکھنے کے لیے ایک نظریاتی ہتھیار میں بدل دینے کا سبب بنے ہیں۔اس سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ کسی مضبوط دین کا کسی مضبوط ریاست کے ساتھ وجود اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دین کو سیاسی اقتدار سے جدا نہ کر دیا جائے۔

بعض سیکولر فکر کے نظریہ سازوں کا کہنا ہے کہ ادیان کے مابین پُرامن بقائے باہمی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ایک سیکولر نظام قائم ہو، جو تمام عقائد کے ساتھ یکساں فاصلے پر کھڑا رہے اور کسی بھی دین یا مسلک کو قانون سازی یا قانونی معاملات میں کوئی امتیازی حیثیت نہ دے۔ اس تصور کے مطابق یہ مانا جاتا ہے کہ دین و ریاست کا کوئی بھی تعلق بالآخر دوسروں کو خارج کرنے یا اقتدار پر قبضہ کی صورت ہی اختیار کر لیتا ہے۔

 یہ مؤقف اگرچہ تاریخی مشاہدے کی حد تک اپنی ایک معقولیت رکھتا ہے، لیکن یہ اسلامی تجربے کے مجموعی منظرنامے کے ساتھ انصاف نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی مثالی متبادل پیش کرتا ہے ۔  یہ درست ہے کہ اسلامی تاریخ — جس طرح زیادہ تر اقوام کی تاریخیں ہیں — دین کے نام پر اقتدار پر قبضے اور تسلط کی کوششوں سے خالی نہیں رہی، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلام بطور فکری اور قانونی نظام اس قسم کے ظلم یا استبداد کی اجازت دیتا ہے۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس، اسلامی نصوص کا بغور جائزہ اس بات کو آشکار کرتا ہے کہ اسلامی نظام  میں ایک کشادہ دلی اور وسعتِ ظرفی کا جذبہ پایا جاتا ہے جو تنوع کی اجازت دیتا ہے، دین میں جبر کو روکتا ہے، اور اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ اعتقاد پر حساب اور جزا کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے۔

البتہ یہ درست ہے کہ سیاسی حالات نے کئی ادوار میں ایک مسلک کی دوسرے مسلک پر بالادستی یا اقتدار کی طرف سے دین کو اپنی پالیسیوں کے جواز کے طور پر استعمال کیے جانے کی عکاسی کی ہے، جیسا کہ عباسی دور میں ہوا۔ مثال کے طور پر مأمون اور معتصم کے زمانے میں اعتزال ایک فکری مکتب فکر سے بڑھ کر ایک سیاسی منصوبہ بن گیا، جس کے ساتھ قرآن کے مخلوق ہونے کے عقیدے کو مسلط کیا گیا اور ان بزرگ علماء کا محاکمہ کیا گیا جنہوں نے اس رائے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ لیکن جب طاقت کا توازن بدلا اور متوکل عباسی نے اہل حدیث مسلک کو اپنا لیا تو اس نے بھی معتزلہ کے خلاف وہی طریقے اختیار کیے جو پہلے خود معتزلہ استعمال کرتے تھے۔ پس مسئلہ درحقیقت نہ تو معتزلی مسلک میں ہے اور نہ ہی اہل حدیث کے مسلک میں ، بلکہ اصل خرابی اس میں ہے کہ ریاست ان مکاتبِ فکر کو اپنی حکمرانی کو جائز قرار دینے اور دوسروں کی آزادیوں کو محدود کرنے کے لیے شرعی ماخذ کے طور پر استعمال کرتی رہی۔

دوسری جانب جدید سیکولر تجربات بھی اپنے اخراجی اور  استبدادی انداز میں مذہبی آمریت کے تجربات سے زیادہ مختلف نہیں رہے۔ اسلامی دنیا میں کئی ایسی حکومتیں جنہوں نے سیکولرازم کو شہری آزادیوں اور شہری حقوق کے دفاع کے نام پر اپنایا، حقیقت میں وہ ایک اور قسم کا جبر روا رکھتی رہیں، مگر اس بار اس کا جواز "دین کو غیر جانبدار کرنے" کے نام پر پیش کیا گیا۔ یوں سیکولرازم، جسے ریاست کی غیر جانبداری کی ضمانت کا ذریعہ کہا جاتا تھا، خود ایک نظریاتی ہتھکڈے میں تبدیل ہو گیا، جس کے ذریعے زندگی کے ایک خاص طرز کو عوام پر مسلط کیا گیا؛ ایسا طرز جو نہ تو دینی اظہار کے لیے گنجائش رکھتا تھا اور نہ ہی دینداروں کو اپنی عبادات کی ادائیگی کے حقوق تسلیم کرتا تھا۔ مثال کے طور پر اتاترک کےترکی میں دین — خاص طور پر اسلام — کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا گیا گویا وہ جدیدیت کی راہ میں رکاوٹ ہو۔ چنانچہ سرکاری اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کی گئی، قرآن کی تعلیم دینے والے مدارس بند کر دیے گئے، اور علما و دینی شخصیات کو شہری ریاست کے تحفظ کے نام پر مختلف قسم کی سختیوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی صورت حال بورقیبہ کے دور کے تیونس میں بھی دیکھی گئی، جہاں ایسے قوانین بنائے گئے جنہوں نے تعلیم اور میڈیا میں دینی موجودگی کو محدود کر دیا، اور اسلامی مظاہر کو قومی شناخت کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔

اور ان حکومتوں نے بجائے اس کے کہ ایک عادلانہ ماڈل پیش کریں جو تنوع اور آزادی کو یقینی بنائے، خود کو سیکولرازم کے نام پر استبداد  کے جال میں پھنسا لیا، بالکل اسی طرح جیسے بعض مذہبی حکومتیں شریعت کے نام پر استبداد کے دام میں گرفتار ہوئیں۔ یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ اصل مسئلہ لگائے گئے نعرے میں نہیں (چاہے وہ دینی ہو یا سیکولر) بلکہ مسئلہ اس اقتداری ڈھانچے میں ہے جو اپنی فطرت میں عوامی دائرے پر اجارہ داری کی طرف مائل ہوتا ہے اور ہر اس چیز کو دبا دیتا ہے جو اس کے نقطہ نظر سے مختلف ہو، چاہے وہ پُرامن ہی کیوں نہ ہو۔ پس چاہے حکومتیں دین کا سہارا لیں یا سیکولر آئین کا حوالہ دیں، اگر وہ تنوع پر ایمان نہ رکھیں اور آزادیوں کا احترام نہ کریں تو بالآخر وہ ایک آمرانہ منصوبے کی شکل اختیار کر لیں گی، جو اگرچہ اپنے ہتھکنڈے اور نعرے بدل لے، لیکن جبر کو ہی جنم دیتی رہے گی۔

چنانچہ سیاسی تجربات کا منصفانہ جائزہ (چاہے وہ اسلام کے پرچم تلے انجام دیے گئے ہوں یا سیکولرازم کو اپنائے ہوئے ہوں) ایک ہی نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ: اصل مسئلہ حاکم بنے والے انسان اور اس کے اقتدار کے استعمال کے طریقے میں، نہ کہ دین یا کسی اور نظریاتی بنیاد میں۔ جب حاکم عادل ہو اور آزادی، وقار اور برابری پر مبنی شہری حقوق کی قدروں کو بنیاد بنائے، تو کوئی بھی نظام (چاہے وہ دینی ہو یا شہری)ایک مستحکم بقائے باہمی کی بنیاد رکھ سکتا ہے اور افراد و گروہوں کی خصوصیات کا احترام کر سکتا ہے۔ لیکن جب نعروں کو جبر اور تسلط کے جواز کے لیے استعمال کیا جائے تو نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے، چاہے عنوانات مختلف ہوں۔

قرآنِ کریم نے دین میں جبر کو واضح طور پر رد کر دیا ہے: "دین میں کوئی زبردستی نہیں" اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور کہہ دو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے"۔ اور ایک اور مقام پر فرمایا: "اور ہم نے تمہیں ان پر نگران نہیں بنایا"، "اور تم ان پر وکیل نہیں ہو"۔ یہ آیات کسی شک کی گنجائش نہیں چھوڑتیں کہ نبی اکرم ﷺ کی ذمہ داری — اور پھر اسلامی ریاست کی ذمہ داری — لوگوں پر ایمان مسلط کرنا یا ان کے ضمیروں میں مداخلت کرنا نہیں ہے، بلکہ ان کی ذمہ داری انہیں حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دینا ہے اور حساب و جزا کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دینا ہے۔

اسی بنیاد پر، ہر وہ حکومت جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ لوگوں کے ایمان پر وکیل ہے، یا جو شریعت کی تعبیر پر اجارہ داری قائم کرے، یا دین کے نام پر مخالفین پر ظلم و جبر کرے، وہ حکومت اسلام کی نمائندہ نہیں ہے، چاہے وہ اسلام کا جھنڈا ہی کیوں نہ اٹھائے۔ بلکہ وہ ایک آمرانہ حکومت ہے جو دین کو اپنے مفادات کی خدمت کے لیےاستعمال کرتی ہے اور اس کی تقدس کو اپنی بالادستی کے جواز کا ذریعہ بناتی ہے، جیسے خوارج نے کیا کہ جنہوں نے امیرالمؤمنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو کافر قرار دیا اور پھر ان سے جنگ کی۔ مگر اس کے باوجود جب جنگ ختم ہوئی تو آپؑ نے ان کے بارے میں فرمایا: "ہمارے بھائی ہم پر ظلم کر بیٹھے، ہم انہیں اپنی مساجد سے نہیں روکیں گے"۔

یہ مختصر سی عبارت اسلام حقیقی اور اسلام کے نام پر استبداد کے درمیان بنیادی فرق کو بیان کرتی ہے۔ اسلام اس وقت تک درگزر اور رواداری کی دعوت دیتا ہے جب تک کہ کوئی حملے پر اصرار نہ کرے، چاہے وہ اس سے جنگ ہی کیوں نہ لڑی  ہو۔ اور مسجد، جو دینی شناخت کی سب سے بڑی علامت ہے، اس میں کسی بھی اہلِ قبلہ کو محض تعبیر یا مسلک کے اختلاف کی بنیاد پر داخلے سے روکا نہیں جا سکتا۔

چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام، جو کہ اللہ کا دین ہے، ریاست کو عقلوں اور دلوں پر نگرانی و اجارہ داری کا پروانہ نہیں دیتا، بلکہ ریاست کو خدمت اور رعایت کی جگہ پر رکھتا ہے، نہ کہ تسلط اور غلبے کی جگہ پر۔ اسی لیے اسلام تنوع سے متصادم نہیں ہے، اور نہ ہی ایک ہی معاشرے میں مختلف عقائد کی موجودگی کو روکتا ہے، بلکہ اس کو انسانی زندگی میں اللہ کی آزمائش اور امتحان کی سنتوں کا حصہ سمجھتا ہے۔

دین کو ریاست کی گرفت سے آزاد کر دینے کا مطلب یہ نہیں کہ دین کو اجتماعی زندگی سے بالکل الگ کر دیا جائے، جیسا کہ بعض انتہا پسند سیکولر مفکرین چاہتے ہیں، اور نہ ہی اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کو ریاست کے حوالے کر دیا جائے کہ وہ جب چاہے اور جیسے چاہے اس کو استعمال کرے۔ بلکہ مطلوب یہ ہے کہ ایک متوازن شکل قائم کی جائے جس میں دین اقدار کا سرچشمہ ہو، ریاست حقوق کی ضامن ہو، اور انسان اپنے انتخاب میں آزاد ہو، اور بالآخر اللہ کے حکم کے تابع ہو، نہ کہ انسانوں کے حکم کے۔

چنانچہ حقیقی پُرامن بقائے باہمی کا راستہ نہ انتہا پسندانہ سیکولرازم سے ہو کر گزرتا ہے، اور نہ ہی ظالمانہ مذہبی حکومتوں سے، بلکہ ایسا ریاستی نظام قائم کرنے سے جو عدل پر مبنی ہو، جو اپنی قدریں وحی سے لے، مگر یہ دعویٰ نہ کرے کہ وہ لوگوں کے ضمیر میں مداخلت کا حق رکھتی ہے یا ایک ہی رنگ کے ایمان کو سب پر لازم قرار دے سکتی ہے۔ تب ہی وہ چیز ممکن ہو سکے گی جو پرانے اور نئے دونوں نظام حاصل کرنے میں ناکام رہے: وحدت کے سائے میں تنوع، اور آزادی کے سائے میں ایمان۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018