19 محرم 1447 هـ   15 جولائی 2025 عيسوى 3:15 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-07-13   52

دنیا کے انقلاب اپنے سپوتوں کو کھاگئے. صرف انقلابِ حسینیؑ ہمیشہ زندہ ہے

الشيخ مصطفى الهجري

جب ہم تاریخ کی بڑی انقلابی تحریکوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کچھ خاص صفات ہوتی ہیں جو انہیں زمان و مکان کی قیود سے بلند کر دیتی ہیں۔ یہی صفات انہیں آنے والی نسلوں کے لیے ہدایت کے چراغ بنا دیتی ہیں۔ اسی تناظر میں امام حسینؑ کا انقلاب ایک منفرد نمونہ بن کر سامنے آتا ہے، جو سنجیدہ مطالعے اور دقیق غور و فکر کا متقاضی ہے۔ مفکرین نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے انقلابات ایک تدریجی ارتقائی عمل سے گزرتے ہیں۔ معروف مفکر گستاف لوبون کے الفاظ میں: "انقلابات اقوام کی تقدیروں کو بدل دیتے ہیں لیکن اپنے بیشتر اہداف کو انتہائی سست رفتاری سے حاصل کرتے ہیں۔"یہ حقیقت ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ عظیم انقلابات کی ایک بنیادی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے مقاصد کو ایک لمحے یا ایک ہی نسل میں پورا نہیں کرتے، ان کے اثرات نسل در نسل ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے اہداف آہستہ آہستہ مکمل ہوتے ہیں۔

جب ہم اس تصور کو امام حسینؑ کے انقلاب پر لاگو کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر اور سطحی نظر سے دیکھنے والے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ امام حسینؑ کی قربانی نے کوئی فوری کامیابی حاصل نہیں کی۔ اُس وقت یہ واقعہ ایک ایسا دردناک سانحہ محسوس ہوتا ہے جس سے شاید بچایا جاسکتا تھا۔ یہ سطحی سوچ ہمیں اس انقلاب کی گہرائی اور اصل حقیقت کو دیکھنے سے محروم کر دیتی ہے۔ وہ حقیقت جو زیادہ اہم اور دور رس ہےاور جو وقتی نتائج سے بڑھ کر انسانی ضمیر، اخلاقی اقدار اور تاریخی شعور پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔

امام حسینؑ کا انقلاب اگر شعور کے ساتھ دیکھا جائےتو یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک طویل فہرست پر مشتمل اہداف کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھا، کچھ مہینوں یا دنوں تک نہیں بلکہ دہائیوں اور نسلوں تک پھیل گیا۔ جو واقعہ ایک مخصوص تاریخی لمحے میں شکست دکھائی دیتا تھا وہ دراصل ایک ایسا عظیم فتح نامہ بن گیا جو صدیوں سے زندہ ہے اور آج تک ظلم و جبر کے خلاف اٹھنے والی نسلوں کو حوصلہ اور ہمت عطا کرتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ حقیقی انقلاب اس وقت ہی اپنے ثمرات دیتا ہے جب وہ عوام کی روح میں اتر جائے، اور اس مقام تک پہنچنے کے لیے اسے مسلسل زندہ رکھا جانا اور مختلف انداز سے اس کے ساتھ جذباتی و فکری تعامل ضروری ہوتا ہے۔ یہی حقیقت امام حسینؑ کے عظیم انقلاب پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے۔اسی مقصد کے تحت حسینی شعائر وجود میں آئے۔ ہاں، بشرطیکہ وہ متوازن ہوں یعنی ویسے ہوں جیسے خود امام حسینؑ چاہتے تھے کہ جو عقل، جذبے اور دین تینوں پہلوؤں سے جڑے ہوں نہ کہ صرف اجتماعی ہجوم کی صورت میں ادا کیے جائیں۔ اگر صرف ہجومیت (بھیڑ کی نفسیات) پر انحصار کیا جائے تو یہ طرز عمل بعض اوقات خود امام حسینؑ کے بعض شعائر کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔

امام حسینؑ انقلاب کے قائد و اصلی پیامبر

ماہرین کہتے ہیں کہ اکثر انقلابات ایک بڑے مسئلے کا سامنا کرتے ہیں وہ یہ کہ انقلابی قائدین معاملات کا اندازہ تو اپنی عقل و فہم سے لگاتے ہیں لیکن عملی میدان میں فیصلے اپنے ذاتی مزاج اور طبیعت کے مطابق کرتے ہیں۔ چنانچہ جب کسی قائد سے کسی موقع پر عقلی طور پر صحیح فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہوتا تو وہ اپنی فطری جبلت یا مزاج کے تحت ردِ عمل ظاہر کرتا ہے۔اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے جمہوری نظام بھی اپنی تمام خوبصورت نعروں اور وعدوں کے باوجود اس قسم کی مشکلات پر قابو پانے میں اکثر نا کام رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اگر عقل کی بجائے طبعی رجحان سے فیصلہ کرے تو وہ بڑے سے بڑے نظام کو بھی غیر مؤثر بنا سکتا ہے۔

ذرا غور کریں کہ بعض بڑی عالمی طاقتیں کس طرح صدارتی امیدواروں کے درمیان انتخابات سے پہلے مباحثے منعقد کرتی ہیں۔ ان مباحثوں میں امیدوار عوام کو متاثر کرنے والی باتیں کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنی عقل و فہم سے گفتگو کرتے ہیں اور اس انداز میں بولتے ہیں جو عوام کو پسند آئے۔مگر جب وہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو اکثر عوامی ناراضگی اور مایوسی کا سبب بنتے ہیں کیونکہ وہ سیاست کو اپنے مزاج، جذبات اور شخصی رجحانات کے مطابق چلانے لگتے ہیں نہ کہ اس دانشمندی سے جس سے انہوں نے انتخاب جیتا تھا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے بہت سے انقلابی قائدین ناکام ہو جاتے ہیں کیونکہ انقلاب جیتنا ایک بات ہےاور اسے سنبھال کر آگے بڑھانا بالکل دوسری بات ہے۔

یہی بات ہمیں فرانسیسی انقلاب کی یاد دلاتی ہے جو بظاہر بڑے جوش و جذبے سے برپا ہوا لیکن پچاس برس کے اندر اندر وہی قوم مسلسل انقلابات کا شکار ہو گئی۔ ہر نیا انقلاب اپنے سے پچھلے انقلاب کے خلاف اٹھتا رہا۔اسی طرح عباسی انقلاب نے بھی ابتدا میں عدل و انصاف کا نعرہ بلند کیااور بڑے فکری و عقلی انداز میں اصولوں کی بات کی مگر جب اقتدار ہاتھ آیا تو حکومت چلانے میں انہوں نے بھی جذباتی مزاج، سخت رویّے اور غیر ذمہ دار طبعیت سے کام لیا۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ جب انقلاب کا آغاز عقل سے ہو اور اس کا انجام نفس و مزاج کے تابع ہو جائےتو وہ اپنے ہی دعووں کو جھٹلا دیتا ہے یہی انقلابات کی سب سے بڑی آزمائش ہوتی ہے۔

یہی حقیقت ہمیں اس نکتے پر لے جاتی ہے کہ ایک الٰہی انقلاب کے لیے قول و عمل دونوں میں معصوم کی رہنمائی ناگزیر ہے۔ ایسا انقلاب صرف اسی کے شایانِ شان ہے جو معصوم ہویا پھر وہ جو قرآن و سنت کی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہو کیونکہ ایسا شخص اپنی فطرت اور سوچ کے درمیان ہم آہنگی رکھتا ہے اور اس کے جذبات عقل کے تابع ہوتے ہیں جبلّت کا غلام نہیں ہو تا۔امام حسینؑ خود معصوم تھےاور ان کے ساتھ جو افراد تھے، جیسے مسلم بن عقیلؑ، عباس بن علیؑ اور دیگر صحابہ وہ "مستعصم" یعنی خدا کی رسی کو تھامنے والے تھے۔ انہوں نے اپنی حکمت، بصیرت اور دینی شعور کے مطابق قدم اٹھایا انہوں نے جذباتی یا غریزی ردِعمل کے تحت کوئی اقدام نہیں کیا۔ یہی وہ فرق ہے جو ایک الٰہی انقلاب کو وقتی انسانی بغاوتوں سے ممتاز کرتا ہے۔

حسینی انقلاب ہمیں انسانی تاریخ کا ایک ایسا منفرد نمونہ پیش کرتا ہے، جہاں سچائی حکمت کے ساتھ، عدل رحمت کے ساتھ اور طاقت اخلاق کے ساتھ یکجا ہو گئی۔ یہ وہ انقلاب تھا جو اپنے قائد کی شہادت پر ختم نہیں ہوا بلکہ اسی لمحے سے اس کی اصل شروعات ہوئی۔یہ انقلاب ایک ایسا زندہ اور ابدی پیغام ہے جو ہر اس وقت تازہ ہو جاتا ہے جب انسان ظلم و جبر کے خلاف اٹھنے کا فیصلہ کرتا ہے اور جب وہ اعلیٰ الٰہی اقدار کی طرف پلٹنے کی خواہش رکھتا ہے۔ امام حسینؑ کا قیام محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک دائمی تحریک ہے جو ہر دور کے باضمیر انسان کو آواز دیتی ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018