19 محرم 1447 هـ   15 جولائی 2025 عيسوى 3:26 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-07-13   44

خون کی پکار: امام حسینؑ کی ظلم و جبر اور باطل کے خلاف جدوجہد

الشيخ معتصم السيد أحمد

ایسا کیا ہے جو واقعہ کربلا کو ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی انسانی ضمیر میں زندہ رکھے ہوئے ہے؟ کیوں امام حسینؑ کا خون آج بھی دلوں میں جوش پیدا کرتا ہے اور اس وقت ظلم کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے جب استبداد حد سے بڑھنے لگتا ہے یا باطل سر اٹھانے کی کوشش کرتا ہے؟اس کا جواب صرف اس سانحے کی شدت اور غم انگیزی میں نہیں بلکہ اس عظیم پیغام کی گہرائی میں ہے جو امام حسینؑ نے کربلا میں عملاً پیش کیا۔ یہ صبر، ثابت قدمی اور عزت نفس کا وہ پیغام ہے جو کبھی پرانا نہیں ہو سکتا، نہ ہی بھلایا جا سکتا ہے۔ یہ محض ایک تاریخی واقعہ یا یادگار نہیں بلکہ ایک ایسی مشعل ہے جو حق کا راستہ روشن کرتی ہےاور ایک ایسا خون ہے جو انسان کی خدا کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

امام حسینؑ نے یہ ثابت کر دیا کہ اصل طاقت ہتھیاروں اور ساز و سامان میں نہیں ہوتی بلکہ اصل طاقت وہ پختہ ایمان اور غیر متزلزل اصول ہوتے ہیں۔ کربلا میں امام حسینؑ کے پاس کوئی بڑا لشکر نہ تھا نہ ہی کسی بادشاہ یا امیر کی حمایت حاصل تھی لیکن ان کے دل میں ایمان کی روشنی تھی اور ان کی روح حق کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ تھی۔یہی وہ راز ہے جو کربلا کو صرف ایک جنگ سے بڑھ کر بناتا ہے۔ کربلا ایک دائمی موقف کا نام ہے، جہاں امام حسینؑ نے اعلان کیا کہ زمین کی تمام تلواریں مل کر بھی ایک سچے مؤمن کے دل کو کفر پر مجبور نہیں کر سکتیں، نہ ہی ایک بیدار عقل کو جھکنے پراور نہ ہی ایک زندہ ضمیر کو اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ کر سکتی ہیں۔

یہ وہ سچائی ہے جو امام حسینؑ نے ہمیں کربلا میں سکھائی اور آج بھی یہ سچائی ہر اس شخص کے منہ پر طمانچہ ہے جو یہ گمان رکھتا ہے کہ جبر و استبداد ایمان کو مغلوب کر سکتا ہے۔ اس عظیم دن، امام حسینؑ نے یہ سب سے بڑا درس دیا کہ انسان کو قتل تو کیا جا سکتا ہےلیکن شکست نہیں دی جا سکتی۔ خون بہایا تو جا سکتا ہے اور وہ خون وہ اللہ کی راہ میں بہے تو ایک شفاف چشمہ بن جاتا ہے جو آنے والی نسلوں کو ہدایت کا راستہ دکھاتی ہے۔

امام حسینؑ صرف ایک شہید نہیں تھےبلکہ ایک ایسے معلم تھے جنہوں نے اپنی شہادت کو عزت و وقار کا سبق بنا دیا، اپنے خون کو حق کا پیغام بنا دیااور اپنے صبر کو خدا تک پہنچنے کا راستہ بنا دیا۔ اسی لیے ان کی تاریخ صرف ایک باب نہیں جو کسی کتاب میں درج ہو بلکہ انسانیت کی تاریخ کا مرکزی محور ہے کیونکہ انہوں نے یہ مجسم کر کے دکھایا کہ انسان موت سے بلند کیسے ہو سکتا ہے اور اپنے زخموں سے ہر دور اور ہر سرزمین کے حریت پسندوں کے لیے کیسے چراغ جلایا جا سکتا ہے۔

جس نے کہا سچ کہا کہ قوموں کی تاریخ دراصل ان کے شہداء کی تاریخ ہوتی ہے۔ وہی قومیں عظیم ہوتی ہیں جو ایسے افراد کو جنم دیتی ہیں جو اپنے خون کا نذرانہ صرف اس لیے پیش کرتے ہیں کہ اصول زندہ رہیں اور تہذیب متحرک رہے۔ اگر ہر قوم کے پاس ایک شہید ہوتا ہے تو حسینؑ پوری انسانیت کے شہید ہیں۔ وہ سب سے زیادہ مخلص، سب سے زیادہ پُرعزم اور سب سے زیادہ بے خوف شہید تھے جنہوں نے خوشی خوشی اپنا خون پیش کیا۔ان کی شہادت صرف ایک بہادری سے بھرا انجام نہیں تھی بلکہ جھوٹ اور فریب کے منہ پر ایک بلند صدا تھی اور ایک اعلان تھا کہ حق کبھی مر نہیں سکتا، چاہے ہزار وں بار اس پر نیزوں کے وار کیے جائیں۔

اپنے آخری کلمات میں امام حسینؑ نے فرمایا: "میرے اللہ! اگر تو اس میں راضی ہے تو میری قربانی حاضر ہے، اس سے تیری مکمل رضا حاصل ہو جائے۔" اس ایک جملے میں کتنا اعلی اخلاص، روحانی بلندی اور ایمان کی کامل شدت چھپی ہوئی ہے، یہ صرف آخری لمحات کا کوئی جذباتی جملہ نہیں تھا بلکہ عقیدے کی اچھی آگاہی، تقدیر پر کامل یقین اور الٰہی محبت کا ایسا مظہر تھا جو جسم کی حدود سے آگے نکل کر روح تک پہنچتا ہے جو شہادت کو اپنے سفر کی تکمیل سمجھتی ہے اور جو اپنے سب سے قیمتی اثاثے کو رضائے الٰہی کی راہ میں قربان کرنے کو سعادت جانتی ہے۔ اسی لیے کربلا کو صرف خون کی ایک تصویر میں محدود نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کی اصل جوہر وہ عظیم ایمانی موقف ہے جو موت کے خوف کو چھین لیتا ہے، قبر کو ایک دائمی انقلاب کا گہوارہ بنا دیتا ہےاور ریت پر ہونے والی شہادت کو ایک ایسی روشنی میں بدل دیتا ہے جو قیامت تک ظلم کو للکارتی رہے گی۔

امام حسینؑ نے ہمیں صرف یہ نہیں سکھایا کہ ہمیں ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے بلکہ یہ بھی سکھایا کہ کب بغاوت کرنی ہے؟ کیسے ثابت قدم رہنا ہے؟ اور کیوں قربانی دینی ہے؟ انہوں نے مکمل شعور اور ادراک کے ساتھ باطل کا سامنا کرنے کا راستہ چُنا حالانکہ وہ جانتے تھے کہ اس راستے کا انجام ان کی شہادت ہو سکتا ہے۔ وہ ہمیں یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ایسی زندگی جس میں عزت نہ ہو، ناقابلِ برداشت ہے۔ ظلم پر خاموشی اختیار کرنا حق سے خیانت ہےاور انسان اُس وقت تک حقیقی انسان نہیں بنتا جب تک وہ آزاد نہ ہو اور جب تک وہ اپنی آزادی کی قیمت چکانے کے لیے تیار نہ ہو۔

امام حسینؑ نے ہمیں یہ سکھایا کہ شرک کے مقابلے میں ایمان کو، باطل کے مقابلے میں حق کو، برائی کے مقابلے میں بھلائی کو اور فساد کے مقابلے میں اصلاح کو اختیار کرنا چاہیے۔چاہے اس راستے پر چلنے کی قیمت ہمیں سب کچھ قربان کر کے ادا کرنی پڑے۔یہی حسینؑ کی حقیقی عظمت ہے۔ یہ عظمت تلوار یا نسب کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے موقف میں ہے، ان کی استقامت میں، ان کے ایمان میں، اور اس صبر میں ہے جو کسی حالت میں کمزور نہیں پڑا۔

اسی لیے ہمیں اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ امام حسینؑ کا خون آج تک جوش کیوں مار رہا ہے۔ یہ اس لیے نہیں کہ وہ خون کبھی ٹھنڈا نہیں ہوابلکہ اس لیے کہ وہ اصول، جس کے لیے وہ شہید ہوئے، آج بھی ایسے لوگوں کی تلاش میں ہیں جو اسے تھام سکیں۔ حق اور باطل کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور جب تک زمین پر کوئی ظالم، متکبر یا فاسد موجود ہے، یہ جنگ جاری رہے گی۔امام حسینؑ کا خون ایک ایسی پکار ہے جو ان ظالموں کا پردہ چاک کرتا ہےاور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم آج خاموش ہو گئے تو ممکن ہے کل ہم سب کچھ کھو بیٹھیں۔

امام حسینؑ کا خون انسان کو خدا تک لے جاتا ہے، یہ کوئی عام خون نہیں تھا ،یہ خون شہادت کی محراب میں بہااور کربلا کی خاک میں جذب ہو کر ہر ذرّے کو ایک ایسی روشنی میں بدل گیا جو بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھاتی ہے۔ حق کے طلبگاروں کے لیے چراغِ راہ بن جاتی ہے۔یہ خون بولتا ہے، گواہی دیتا ہے، مزاحمت کرتا ہے، خروج کرتا ہے اور انقلاب برپا کرتا ہے کیونکہ یہ کسی ذاتی خواہش، دنیاوی لالچ یا شخصی مقصد کے لیے نہیں بہایا گیابلکہ اللہ کی رضا، انسان کی عظمت اور زمین پر عزت و وقار کے قیام کے لیے نچھاور کیا گیا۔

اسی لیے جو بھی شخص اپنی ذات، اپنی قوم یا اپنے حالات کو سنوارنا چاہتا ہے، اسے لازماً کربلا سے گزرنا ہوگا، امام حسینؑ سے سیکھنا ہوگا، ان کے خون سے اپنی روح کو سیراب کرنا ہوگااور ان کے اس اعلان پر ٹھہرنا ہوگا: "ذلت ہم سے دور ہے!"کیونکہ جو یہ جملہ سچے دل سے نہیں کہتاوہ ذلت کے لیے تیاررہے اور جو اس پر ایمان نہیں رکھتا، وہ خواری اور پستی کا شکار ہو گا۔

آج ہم ایک ایسی دنیا کے سامنے کھڑے ہیں جہاں ظلم اور فساد کی صورتیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں، عزتیں پامال کی جا رہی ہیں اور قوموں کو کچلا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں ہمیں امام حسینؑ کو صرف ایک جذباتی یاد کے طور پر نہیں لینا چاہیے بلکہ ایک موقف اور ایک معیار کے طور پر یاد کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک ایسا ترازو جس سے ہم اعمال کو تول سکیں اور حالات کے مطابق درست فیصلہ کر سکیں۔جو حق کے ساتھ ہے وہ حسینؑ کے ساتھ ہے اور جو استبداد کے ساتھ ہے، وہ یزید کے ساتھ ہے چاہے وہ دین کا لبادہ اوڑھےیا اصلاح کے دعوے کرے۔

کربلا آج بھی دنیا کے ضمیر میں دھڑک رہی ہے اور امام حسینؑ کا خون آج بھی ہر اس شخص کی رگوں میں جوش مار رہا ہے جو ذلت کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اسی خون میں خدا تک پہنچنے کا راستہ چھپا ہوا ہے کیونکہ یہ ایک پاکیزہ خون تھاجو ایک پاکیزہ مقصد کے لیے ایک پاکیزہ جسم سے بہا۔ کیا ہم ان لوگوں میں شامل ہوں گے جو اس خون سے ہدایت پاتے ہیں؟ یا ہم اس پیغام کو نظر انداز کر کے صرف آنسو بہانے پر اکتفا کریں گے؟ یہی اصل چیلنج ہے اور یہی وہ انقلاب ہے جو کبھی مر نہیں سکتا۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018