19 محرم 1447 هـ   14 جولائی 2025 عيسوى 2:30 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-07-13   8

روح کے بدلے سونا: مادی کامیابی کی دوڑ پر تنقیدی نظر

شیخ مصطفی الأحمد الهجري

آج کی مصروف زندگی میں انسان ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ مسلسل ایک ایسی منزل کے پیچھے بھاگ رہا ہے جو اُس سے دور ہی ہوتی جا رہی ہے۔ عام طور پر یہ منزلیں دولت، شہرت اور عزت جیسے دنیاوی فائدے ہوتے ہیں، جو آج کے انسان کے لیے سب کچھ بن چکے ہیں۔ وہ انہی کے پیچھے لگا رہتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ یہ سب چیزیں صرف دکھاوے کی ہیں، جو دور سے بہت خوبصورت لگتی ہیں لیکن جب قریب جاتے ہیں تو حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی۔قرآن کریم نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: (وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِنْدَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ). (النور: 39)

اور جنہوں نے کفر کیا، ان کے اعمال ایک چٹیل میدان کے سراب کی مانند ہیں، جسے پیاسا پانی سمجھتا ہے، حتیٰ کہ جب وہ اس کے پاس پہنچتا ہے، تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا، اور اللہ کو وہاں پاتا ہے، جو اس کا پورا حساب چکا دیتا ہے، اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔

یہ آیت دنیا کے طلبگار انسان کی کیفیت کو واضح کرتی ہے، جو ان فانی مقاصد کو حاصل کرنے کی دھن میں لگا ہوتا ہے، لیکن جب وہ ان تک پہنچتا ہے تو اسے ان میں وہ قدر و قیمت نظر نہیں آتی جس کا وہ گمان رکھتا تھا ، اور تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے، حساب کا وقت آ پہنچتا ہے۔نہ صرف قرآن، بلکہ جدید نفسیاتی اور فلسفیانہ تحقیقات بھی اسی حقیقت پر متفق ہیں کہ دنیا کی پیاس کبھی بجھتی نہیں ہے۔ مشہور امریکی فلسفی ولیم جیمس نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیاہے کہ: "انسانی خواہشات کبھی سیر نہیں ہوتیں۔ جب بھی کوئی انسان کسی منزل کو پا لیتا ہے، ایک اور منزل اس سے زیادہ پرکشش بن کر اس کے سامنے آ جاتی ہے"۔"(William James, The Varieties of Religious Experience, 1902)

یہ حقیقت اس مادی منطق کا بنیادی نقص بے نقاب کرتی ہے، جس کے مطابق انسان ایک نہ ختم ہونے والی بھاگ دوڑ میں مبتلا رہتا ہے۔ اور اس ساری جدوجہد کے باوجود، سکونِ قلب اور حقیقی اطمینان اس کے ہاتھ نہیں آتے۔اسی طرح کا مادی تعاقب انسان کو ایک خونخوار درندے میں بدل دیتا ہے، جو اپنی خواہشات کے حصول کی راہ میں آنے والے ہر فرد کو کچلتا چلا جاتا ہے۔ وہ دوسروں کے جذبات، اقدار اور حقوق کو نظر انداز کر کے صرف اپنے مفاد کو مقدم رکھتا ہے۔اس خود غرضانہ نظریے کی بہترین ترجمانی جرمن فلسفی فریڈرک نطشے (Friedrich Nietzsche) نے کی ہے، جو کہتا ہے: "قوی انسان وہ ہے جو اپنی ذات کو مکمل طور پر پا لے، اور اپنے تمام اردگرد کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرے۔"(Nietzsche, Thus Spoke Zarathustra, 1883)

یہ سوچ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ جب انسان صرف دنیاوی کامیابی کو اپنا مقصد بناتا ہے، تو وہ اخلاقی اصولوں، دوسروں کے حقوق اور روحانی توازن کو نظر انداز کر کے محض اپنی "خواہشات" کے پجاری بن جاتا ہے ۔ یوں وہ ایک مہذب انسان کے بجائے ایک انفرادی مفاد پرست طاقت کے پجاری میں بدل جاتا ہے۔

حقیقت کی دنیا سے ایک تجربہ

سماجی موازنہ  کا اصول اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔ جیسا کہ سام بولک، جو کبھی وال اسٹریٹ کا ایک کامیاب تاجر تھا، اپنی ذاتی زندگی کے تجربے سے بتاتا ہے: "جب میں نے اپنی پہلی بونس رقم — 40 ہزار ڈالر — حاصل کی، تو بے حد خوشی ہوئی۔ لیکن اگلے سال جب ہیج فنڈ سے مجھے صرف 15 لاکھ ڈالر ملے، تو مایوسی ہوئی۔ (سام بولک، نیویارک ٹائمز، 2014)یہ مثال واضح کرتی ہے کہ انسان خواہ کتنا بھی کما لے، اگر اس کی نظر دوسروں سے اوپر جانے پر مرکوز ہو، تو وہ کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ جب تک معاشرے میں کوئی اس سے بہتر حیثیت میں ہو، وہ اپنی کامیابی کو ناکامی محسوس کرتا ہے۔فرانسیسی فلسفیہ سیمون وی اس طرزِ فکر کے شدید نتائج سے خبردار کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: "جو معاشرہ دنیوی کامیابی کو خوشی کا واحد معیار سمجھتا ہے، وہ ایک روح سے خالی معاشرہ ہے۔ (Simone Weil, Gravity and Grace, 1952)

یہ بات ہمیں یاد دلاتی ہے کہ محض مادّی کامیابی کے پیچھے دوڑنا انسانی روحانیت، اخلاق اور اندرونی سکون کو کمزور کر دیتا ہے۔ انسان باہر سے کامیاب، مگر اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے۔اس مسئلے کا حل یہ نہیں کہ مادی اہداف کو مکمل طور پر مسترد کر دیا جائے، بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ انہیں زندگی میں درست مقام دیا جائے۔ دولت، شہرت یا مقام بذاتِ خود برے نہیں، اگر ان کا استعمال اعلیٰ مقاصد کے لیے ہو: جیسے دوسروں کی خدمت، اپنی اصلاح، علم کی تلاش، اور اخلاقی و روحانی قدروں کی پیروی۔جیسا کہ البرٹ شفاٹزر کہتے ہیں: "وہ انسان جو صرف دنیاوی اہداف کے پیچھے دوڑتا ہے، وہ اپنی روح کو راستے میں کھو دیتا ہے، اور وہ خوشی کبھی نہیں پاتا جس کی اسے ہمیشہ تمنا رہی۔" (Albert Schweitzer, Culture and Ethics, 1923)

خاتمہ: سچا پانی اور جھوٹا سراب

اگر انسان دنیاوی مقاصد کو زندگی کا حتمی ہدف بنا لے، تو وہ مادیات کا غلام بن جاتا ہے، اور ایک نہ ختم ہونے والے سراب کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔ اصل حکمت یہ ہے کہ انسان پہچانے کہ دنیاوی چیزیں صرف ذرائع ہیں، نہ کہ مقاصد۔ اصل خوشی ان روحانی اور اخلاقی اقدار میں ہے جو انسان کو زندگی کا حقیقی معنی دیتی ہیں ۔ نہ کہ دولت یا شہرت کے انبار میں۔

قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے:  (وما عند الله خير وأبقى) (سورة القصص، آية 60) "اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ یعنی باقی رہنے والی چیز وہ ہے جو انسان اچھے اعمال اور اخلاقی قدروں کی صورت میں اپنے رب کے لیے انجام دیتا ہے — نہ کہ وہ مال و متاع جو ایک دن فنا ہو جائے گا۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018