

غیر علمی جدال اور الحادِ معاصر قرآن کی روشنی میں تجزیہ و تحقیق
شيخ مقداد الربيعي
قرآنِ مجید میں ایک نہایت معنی خیز اشارہ ملتا ہے کہ (وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ) اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر کسی علم، بغیر کسی ہدایت، اور بغیر کسی روشن کتاب کے جھگڑتے ہیں"(سورۃ الحج، آیت 8)
یہ آیت موجودہ دور کے الحاد، یعنی خدا کے وجود کے انکار، کی حقیقت کو نہایت خوبصورتی سے واضح کرتی ہے۔ آیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو خدا کے بارے میں بحث تو کرتے ہیں، لیکن ان کی باتیں نہ کسی سچے علم پر مبنی ہوتی ہیں،، اور نہ ہی کسی آسمانی کتاب کی روشنی سے رہنمائی لیتی ہیں۔ بظاہر ان کے دلائل علمی لگتے ہیں، لیکن درحقیقت ان کے پیچھے صرف سماجی، ثقافتی اور نفسیاتی محرکات کارفرما ہوتے ہیں، جو علمی لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں۔
جب ہم انسانی تاریخ اور تہذیب کا بغور مطالعہ کرتے ہیں، تو ایک اہم بات سامنے آتی ہے: الحاد کبھی بھی انسانوں کے اجتماعی شعور کا مضبوط یا مستقل حصہ نہیں رہا۔یہ ہمیشہ ایک وقتی اور عارضی کیفیت رہی ہے — جیسے کہ شارک مچھلی کے بدن کے ٹکڑے بھی کبھار کسی سمندر کی سطح پر دکھائی دیں، مگر وہ سمندر کا اصل حصہ نہیں ہوتے۔ اسی طرح، الحاد کبھی کبھار تاریخ میں اُبھرتا ہے، مگر جلد ہی ختم ہو جاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں ہمیشہ مذہب، ایمان اور روحانیت کا غلبہ رہا ہے، نہ کہ الحاد کا۔یہ سوال بہت طاقت کے ساتھ سامنے آتا ہے کہ اگر واقعی ہم صرف فطرت کی پیداوار ہوتے، اور کائنات کے حقیقی وارث ( یعنی اسی سے جنم لینے والی مخلوق ) تو کیا الحاد (خدا کا انکار) ایک مشکل راستہ ہوتا؟ یا پھر وہ ہماری فطرت کا حصہ ہوتا، جیسا کہ باقی بنیادی انسانی عادات؟
تاریخ ہمیں واضح جواب دیتی ہے:
ایمان انسان کی اصل اور فطری حالت ہے۔ انسان ہمیشہ سے کسی بلند ہستی پر یقین رکھتا آیا ہے۔ جبکہ الحاد ایک ایسا نظریہ ہے جو انسان کو زبردستی اپنانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے فکری مشقت، دلیل سازی، اور اندرونی کشمکش درکار ہوتی ہے۔ یہ کبھی بھی دل و دماغ کی راحت یا فطری میلان کے ساتھ نہیں آتا۔ آج ہم جس صورتِ حال کا سامنا کر رہے ہیں، وہ کوئی قدرتی یا مسلسل سائنسی ترقی کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک وقتی اور غیر فطری مظہر ہے، جو مخصوص تہذیبی حالات اور ماحول سے پیدا ہوا ہے۔یہ ایک ایسا رجحان ہے جسے مخصوص سماجی و فکری محرکات نے جنم دیا — بالکل ویسے ہی جیسے پاولوف کے تجربے میں کتے کو گھنٹی کی آواز سے مشروط کیا گیا تھا؛ اگر وہ آواز ختم ہو جائے، تو ردعمل بھی ختم ہو جاتا ہے۔اسی طرح، الحاد بھی ایک مشروط ردعمل ہے، نہ کہ علم و عقل کی کسی منطقی یا فطری پیش رفت کا نتیجہ۔ اگر وہ تہذیبی محرکات کم ہو جائیں یا ختم کر دیے جائیں، تو الحاد کی شدت بھی گھٹ جاتی ہے، یا مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ الحاد اصل میں ایک وقتی فکری اضطراب ہے، نہ کہ انسان کی سوچ کی کوئی آخری منزل۔
مفکر ہیوستن اسمتھ اس فکری بحران کی نہایت باریک بینی سے نشاندہی کرتے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ "انسان کی امید کا مرکز آسمان سے زمین کی طرف منتقل ہو چکا ہے"۔یہ دراصل ایک سماجی منصوبہ ہے، جو آزادی اور خودمختاری کے خوشنما نعروں کے ساتھ انسان کو اخلاقی، دینی اور روحانی پابندیوں سے نکال کر مکمل انحلال ( یعنی ہر قسم کی حدود سے آزادی ) تک لے جانا چاہتا ہے۔یہاں سے یہ حقیقت نمایاں ہو جاتی ہے کہ الحاد کوئی سائنسی دریافت نہیں ہے، بلکہ ایک سوچا سمجھا سماجی منصوبہ ہے،جس کا مقصد انسان کو اخلاقی ضوابط سے آزاد کر کے ایک ایسی زندگی کی طرف دھکیلنا ہے جہاں کوئی بالادست ہدایت یا ذمہ داری باقی نہ رہے۔
ایک حیران کن تضاد اس وقت سامنے آتا ہے جب ہم حقیقی سائنسدانوں کا موازنہ اُن لوگوں سے کرتے ہیں جو صرف علم کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔چارلس ڈارون ( جسے الحاد کے کئی علمبردار اپنا فکری پیشوا سمجھتے ہیں ) خدا کے وجود کے معاملے میں اپنے بہت سے بعد کے پیروکاروں سے زیادہ متوازن، باادب اور سنجیدہ تھا۔نہ صرف اس کے خیالات میں اعتدال تھا، بلکہ اس کی زبان میں بھی احترام اور فکری دیانت نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس، آج کے نئے ملحدین اس قدر خوفزدہ اور محتاط ہیں کہ ایمان کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی معمولی سی بات بھی ان سے سرزد نہ ہو جائے، اسی لیے وہ حد سے زیادہ بچاؤ کی زبان اختیار کرتے ہیں۔ایسے میں ڈارون ہمیں فکری دیانت کا ایک خوبصورت نمونہ دکھاتا ہے، جب وہ بلا جھجک اور بڑے اطمینان سے کہتا ہے:کائنات پر حکمرانی کرنے والے ایک خدا کے وجود کو تسلیم کرنا، تاریخ کے عظیم ترین اذہان کا مشترکہ یقین رہا ہے۔"
یہ نمایاں تضاد اس بات کو واضح کرتا ہے کہ "نئے الحاد کے علمبردار، جیسے رچرڈ ڈاکنز، سام ہیرس، ڈینیئل ڈینیٹ، اور کرسٹوفر ہچنز — فکری شدت پسندی اور تنگ نظری میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ وہ خود اپنی پسندیدہ نظریے، یعنی نظریۂ ارتقاء کے بانی چارلس ڈارون، سے بھی زیادہ انتہا پسند نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ اس حد تک بند ذہن کے ساتھ بات کرتے ہیں کہ ایمان یا خدا کے امکان کو تسلیم کرنا تو دور، اس کا ہلکا سا اشارہ دینا بھی ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔اس کے برعکس، ڈارون تمام تر سائنسی نظریات کے باوجود ایک متوازن اور دیانت دار فکری رویہ اختیار کرتا ہے، اور کھلے دل سے ان عقلی و روحانی امکانات کو تسلیم کرتا ہے جنہیں یہ جدید ملحدین مکمل طور پر رد کر دیتے ہیں۔ اگرچہ الحاد محض ایک "عارضی شعور" اور "تہذیبی حالات کا فکری نتیجہ" ہے، پھر بھی ایک بات حیرت میں ڈال دیتی ہے:آج کے جدید ملحدین اپنے نظریے کی صداقت پر اس قدر پُر اعتماد نظر آتے ہیں، گویا وہ کوئی اٹل حقیقت ہو۔ اور اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ ان کے ماننے والوں کی ایک بڑی تعداد خود کسی دلیل یا تحقیق کی بنیاد پر الحاد کو نہیں اپناتی، بلکہ محض ان شخصیات پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے ان کے پیچھے چلتی ہے۔ یعنی ان مقلدین کا اعتماد کسی عقلی دلیل یا تجربے پر نہیں، بلکہ اس بات پر ہوتا ہے کہ "ہم جنہیں مانتے ہیں، وہ ضرور سچ کہہ رہے ہوں گے"۔یہ ایک ایسا فکری طرزِ عمل ہے جس میں ذاتی فہم، سوال یا غور و فکر کی کوئی جگہ نہیں بچتی ، صرف تقلید باقی رہ جاتی ہے، وہ بھی غیر مشروط اور بلا دلیل۔
یہاں تصویر پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ معاصر الحاد کی بنیاد سائنسی تحقیق یا عقلی تجزیے پر نہیں، بلکہ اندھی تقلید پر رکھی گئی ہے۔ یہ وہی کیفیت ہے جسے قرآنِ کریم نے نہایت گہرائی سے یوں بیان فرمایا: اور کچھ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر کسی علم، بغیر کسی ہدایت، اور بغیر کسی روشن کتاب کے"
یعنی آج کا الحاد درحقیقت ایک فکری دعویٰ نہیں بلکہ ایک غیر علمی جدل ہے ( ایسی بحث جسے نہ علم سہارا دیتا ہے، نہ ہدایت رہنمائی کرتی ہے، اور نہ کوئی روشن دلیل اسے تقویت دیتی ہے۔یہ صرف نعرے، تأثرات، اور دوسروں کی اندھی پیروی کا مجموعہ ہے، جس میں عقل و تحقیق کی جگہ محض شور و جذبات نے لے لی ہے۔ معاصر الحاد آج ہمارے سامنے ایک ایسی شکل میں کھڑا ہے جو حقیقت سے خالی اور ظاہر سے لبریز ہے)نہ اس کے پاس کوئی مضبوط سائنسی دلیل ہے، نہ حقیقی معرفت کا سہارا۔ یہ صرف سماجی اور ثقافتی اثرات کے نقاب میں چھپا ہوا ایک نظریاتی ردِعمل ہے، نہ کہ کسی فکری یا سائنسی ارتقاء کا قدرتی نتیجہ۔درحقیقت، الحاد ایک مخصوص تہذیبی ماحول میں پیدا ہونے والا وقتی انحراف ہے، جبکہ انسانی تاریخ اور فطرت دونوں اس پر گواہ ہیں کہ ایمان ہی انسان کی اصل سرشت ہے۔لوگ ہمیشہ کسی بلند تر ہستی کی طرف رجوع کرتے آئے ہیں ،اور یہ رجحان، نہ صرف فطری ہے بلکہ پائیدار بھی۔