29 ذو الحجة 1446 هـ   26 جون 2025 عيسوى 5:02 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-06-22   8

استقرائی طریقہ اور ایمان: معرفت کے ذرائع کا تقابلی مطالعہ

الشیخ مقداد الربیعی

دینی علوم کی تحقیق میں عقلی، برہانی یا استنباطی طریقہ ہمیشہ سے بنیادی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس طریقے میں دلائل اور اصولوں کے ذریعے نتائج تک پہنچا جاتا ہے۔ لیکن دوسری جانب، جدید سائنسی فکر کا انحصار زیادہ تر استقرائی طریقۂ کار پر ہے، جس کا مطلب ہے مشاہدات، تجربات اور جزئیات سے عمومی اصول اخذ کرنا۔ اسی تناظر میں ایک فکری رجحان سامنے آیا جسے "نزعتِ استقرائیہ" کہا جاتا ہے۔یہ فکری تحریک اس تصور پر قائم ہے کہ صرف استقراء ہی ایسا طریقہ ہے جو انسان کو یقینی اور قابلِ اعتماد علم تک پہنچا سکتا ہے۔ اس سوچ نے بعد ازاں "علمیّت پسندی"کو جنم دیا—یعنی یہ نظریہ کہ صرف سائنسی طریقے ہی علم کے معتبر ذرائع ہیں۔ یہ رجحان فلسفۂ وضعیت کا بھی مرکزی عنصر بن گیا، جس نے کئی دہائیوں تک علمی دنیا میں غلبہ حاصل کیے رکھا۔

اس مضمون میں ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ استقراء کی نوعیت کیا ہے، اس کی حدود کیا ہیں، اور کیا واقعی یہ دعویٰ درست ہے کہ یقینی علم کا حصول صرف اسی طریقے سے ممکن ہے؟ یا پھر دیگر طریقوں، خصوصاً عقلی و برہانی مناھج، کو بھی علم حاصل کرنے کے معتبر ذرائع کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے؟

استقراء کی تعریف اور تاریخی ارتقاء:

استقراء کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ  یہ ایک ایسا  تحقیقی طریقہ ہے جو محدود اور مخصوص مشاہدات یا تجربات سے عمومی اور کلی قوانین تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے" (ماخذ: المنطق الوضعي، زکی نجيب، 2/297)۔

استقرائی طریقہ کار کی اہمیت خصوصاً سائنسی نشاۃِ ثانیہ کے آغاز سے اجاگر ہونا شروع ہوئی۔ 17ویں صدی میں معروف برطانوی مفکر فرانسس بیکن نے استقراء پر مبنی سائنسی تحقیق کی ضرورت کو اجاگر کیا اور اسے منظم بنیاد فراہم کی۔ بیکن کے مطابق، حقیقی علم صرف مشاہدے، تجربے اور حقائق سے حاصل ہو سکتا ہے، نہ کہ محض عقلی قیاسات سے۔وقت گزرنے کے ساتھ یہ طریقہ مزید مقبول ہوا، یہاں تک کہ 19ویں صدی میں یہ تصور غالب آ گیا کہ سائنسی تحقیق کا واحد درست طریقہ استقراء ہے۔ اس زمانے کے علمی حلقوں میں یہ بات عام ہو گئی کہ استقراء کے سوا کوئی اور طریقہ ایسا نہیں جو سچّے اور قابلِ اعتماد سائنسی نتائج دے سکتا ہو (ماخذ: فلسفة العلم في القرن العشرين، ڈونالڈ جیلز، ص 92100)۔

استقرائی اندازِ فکر میں انتہاپسندی کا رجحان

استقرائی طریقۂ تحقیق کو ماننے والوں نے نہ صرف اسے اپنایا، بلکہ اسے اتنی اہمیت دی کہ باقی تمام تحقیقاتی طریقوں سے بہتر اور واحد معتبر راستہ قرار دے دیا، خاص طور پر 'استنباطی طریقہ' کو، جو قرونِ وسطیٰ میں علمی دنیا پر غالب تھا۔ ان کے نزدیک صرف استقراء ہی علم حاصل کرنے کا اصل اور معتبر ذریعہ ہے، جبکہ دوسرے طریقوں کو کمزور یا ناقابلِ اعتماد سمجھا جانے لگا۔یہ انتہاپسندانہ مؤقف اس حد تک پہنچا کہ انہوں نے علم اور خرافات کے درمیان جاری کشمکش کو دراصل دو متضاد مناہج — استقراء اور استنباط — کے درمیان جنگ قرار دیا۔ ان کے خیال میں، علمی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ استنباطی طریقہ تھا، جو صرف عقلی قیاسات پر انحصار کرتا ہے۔اسی نقطۂ نظر کو مشہور فلسفی برٹرینڈ رسل نے بڑی وضاحت سے بیان کیا، وہ لکھتے ہیں:"جالیلیو اور انکیووزیشن (محاکم التفتيش) کے درمیان تصادم محض آزاد فکر اور تعصب، یا علم اور مذہب کے درمیان نہیں تھا، بلکہ حقیقت میں یہ استنباط اور استقراء کے درمیان کشمکش تھی" ( فلسفة العلم في القرن العشرين، یمنى الخولی، ص 166)۔

سائنٹیزم   کا جانبدارانہ رویہ اور استقرائی فکر کے نمایاں علَم بردار

سائنٹیزم کے حامیوں نے استقراء کے حق میں نہ صرف شدت پسندانہ رویہ اختیار کیا بلکہ اسے واحد اور قطعی ذریعۂ علم قرار دے دیا۔ ان کے نزدیک:"صحیح اور یقینی علم صرف استقرائی طریقے سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے، اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ حسی مشاہدات سے قوانین اخذ کرنے یا مستقبل کی پیش گوئیاں کرنے کا واحد مؤثر طریقہ بھی استقراء ہی ہے"(ماخذ: فلسفة العلم في القرن العشرين، ڈونالڈ جیلز، ص 102)۔

 استقرائی طریقۂ تحقیق کے نمایاں مفکرین:

اس مکتبِ فکر کے سب سے ممتاز اور انتہاپسند نمائندے انگریز فلسفی جان اسٹورٹ مِل (وفات: 1873ء) تھے۔ مِل نے استقراء کو علمی تحقیق کا نہ صرف بنیادی ذریعہ سمجھا بلکہ اسے علم کے حصول کا واحد معتبر اور قابلِ اعتماد راستہ قرار دیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ " حقیقت تک پہنچنے کا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے ، بلکہ تمام دیگر طریقے اگر کچھ حیثیت رکھتے ہیں تو وہ بھی استقراء ہی کی ذیلی صورتیں ہیں۔ یہاں تک کہ انسانی ذہن میں پائے جانے والے تمام تصورات، یہاں تک کہ ریاضی اور منطق کے قوانین بھی، درحقیقت محض استقرائی عمومیّات ہیں۔ ان میں کوئی فطری صداقت نہیں، بلکہ یہ بھی تجربے اور مشاہدے پر مبنی ذہنی استنتاجات ہیں۔(ماخذ: تاریخ الفلسفۂ جدید، وِلیم کیلی رائٹ، ص 418)۔

جان اسٹورٹ مِل نے اپنی مشہور کتاب "نظامِ منطق" (System of Logic) میں یہ کوشش کی کہ استقراء کے لیے وہی مرتب اور منضبط اصول وضع کرے جو کبھی ارسطو نے قیاس (syllogism) کے لیے کیے تھے۔ جیسے ارسطو نے قیاس کی اقسام اور اصول مرتب کیے، ویسے ہی مِل نے استقرائی منطق کو اصولوں اور طریقۂ کار کی شکل میں ڈھالنے کی سعی کی، تاکہ یہ طریقہ ایک منظم اور سائنسی علم کی حیثیت اختیار کر لے۔

منطقی اثباتیت اور اس کا استقرائی طریقِ تحقیق کا دفاع:

استقراء کے دفاع میں وضعیّتِ منطقية (منطقی اثباتیت )نے نہایت مؤثر کردار ادا کیا۔ اس فکری مکتب نے استقراء کو نہ صرف سائنسی تحقیق کی بنیاد قرار دیا بلکہ اسے علم کی صداقت کو جانچنے کا واحد معتبر پیمانہ بھی ٹھہرایا۔اس نظریے کے معروف نمائندے ہانس ریتشنباخ استقرائی منہج کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ : استقراء کا اصول سائنسی نظریات کی صداقت کا تعین کرتا ہے۔ اگر اسے علم کے دائرے سے نکال دیا جائے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ علم یہ صلاحیت کھو بیٹھے گا کہ وہ کسی نظریے کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ کر سکے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ اگر یہ صلاحیت نہ رہے تو علم اور شاعر کی خیالی تخلیقات کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہے گا"(ماخذ: فلسفة العلم في القرن العشرين، ڈونالڈ جیلز، ص 106)۔

ریتشنباخ مزید وضاحت کرتے ہوئے استقراء کی ہمہ گیری پر روشنی ڈالتے ہیں کہ :استقراء کا اصول سائنس کی جانب سے بلا کسی تحفظ کے قبول شدہ ہے، اور اس کی اہمیت پر نہ صرف سائنسی دنیا میں بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی کوئی سنجیدہ فرد شک نہیں کر سکتا"(ماخذ: فلسفة العلم في القرن العشرين، ڈونالڈ جیلز، ص 107) ۔

یہ مؤقف ظاہر کرتا ہے کہ استقراء محض سائنسی تحقیق کا ایک ذریعہ نہیں، بلکہ انسانی فہم و شعور اور روزمرہ تجربے کا بھی بنیادی ستون ہے۔ وضعی مفکرین کے نزدیک، اگر استقراء کو رد کر دیا جائے، تو نہ صرف سائنسی علم کی بنیاد کمزور ہو جائے گی بلکہ ہماری روزمرہ زندگی کی عقلی ساخت بھی متاثر ہوگی۔

استقرائی طریقہ پر تنقید:

بیسویں صدی میں متعدد فکری رجحانات نے  استقرائی طریقِ فکر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس تنقیدی مکتبِ فکر سے وابستہ نمایاں مفکرین میں کارل پوپر، پیئر دوهیم اور دیگر وہ فلاسفہ شامل ہیں جنہوں نے سائنسی فکر کے نقادین کے طور پر شہرت پائی۔ ان کی تنقیدات کئی پہلوؤں پر مشتمل تھیں، جن میں سب سے اہم نکتہ یہ تھا:

خالص استقراء کا ناممکن ہونا:

نزعتِ استقرائیہ پر سب سے مؤثر اور گہری تنقید یہ کی گئی کہ ایسا کوئی استقراء وجود نہیں رکھتا جو مکمل طور پر خارجی مشاہدات پر مبنی ہو اور انسانی ذہن یا پیش فرض تصورات سے بالکل آزاد ہو۔ یعنی خالص، غیر جانب دار اور معصوم استقراء محض ایک مفروضہ ہے، نہ کہ عملی حقیقت۔اس نکتہ کو آئن سٹائن نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا، وہ لکھتے ہیں کہ "علم محض قوانین اور غیر مربوط مشاہداتی حقائق کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ انسانی عقل کی پیداوار ہے، جو نظریات اور تصورات کی مدد سے وجود میں آتا ہے۔ فزکس کے بنیادی تصورات دراصل انسانی ذہن کی آزاد تخلیقات ہیں، نہ کہ محض خارجی دنیا کے مشاہدات سے اخذ شدہ اصول" (مدخل جدید إلى الفلسفة، عبد الرحمن بدوی، ص 70)۔

آئن سٹائن کے اس مؤقف سے واضح ہوتا ہے کہ سائنس میں مشاہدہ بھی ذہنی ساخت اور پہلے سے موجود نظریاتی فریم ورک سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا استقراء کو ایک خالص تجرباتی طریقہ قرار دینا، جو عقل یا نظریہ سے مکمل طور پر آزاد ہو، ایک سادہ لوح اور ناقص تصور ہے۔ان لوگوں میں سے جو سب سے پہلے اس حقیقت کی طرف متوجہ ہوئے، فلسفی ولیم ہیول (وفات 1866ء) شامل ہیں۔ زندگی کے آخری حصے میں اُن پر یہ گہرا احساس ہوا کہ صرف مشاہدہ اور تجربہ کافی نہیں، بلکہ انہوں نے واضح طور پر سمجھ لیا کہ انسانی علم صرف تجربات کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ انسانی عقل اور خارجی حسی معلومات کے درمیان باہمی تعامل کا نتیجہ ہوتا ہے۔(فلسفۂ علم در قرن بیستم، یُمنی الخولی، صفحہ 140)۔

اثبات کا مسئلہ:

استقرائی طریقہ کار کو درپیش سب سے بڑی اور پیچیدہ مشکلات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ خود اپنی صحت کو ثابت نہیں کر سکتا۔ فلسفی برٹرینڈ رسل نے اس مسئلے کو یوں بیان کیاہے کہ "ہم کبھی بھی تجربے کی مدد سے استقراء کے اصول کو ثابت نہیں کر سکتے، کیونکہ ایسا کرنے کا مطلب ایک دائرے میں گھومنا ہوگا جسے منطق کی زبان میں دور کہا جاتا ہے وہ باطل ہے۔ لہٰذا یا تو ہمیں استقراء کے اصول کو بغیر دلیل کے، صرف اس بنیاد پر مان لینا ہوگا کہ وہ خود واضح ہے، یا پھر ہمیں مستقبل کے بارے میں اپنی توقعات کا کوئی جواز پیش کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔"(فلسفۂ علم در قرن بیستم، ڈونلڈ جیلز، صفحہ 147۔

یہی وہ مشکل ہے جس میں ایک تجربہ پرست شخص پھنس جاتا ہے۔ اگر وہ مکمل طور پر تجربہ ہی کو معیار بنائے، تو صرف انہی باتوں کو سچ مانے گا جو یا تو منطقی طور پر ثابت ہوں یا براہِ راست تجربے سے حاصل ہوں۔ ایسی حالت میں وہ استقرائی طریقہ تو استعمال کر سکتا ہے، لیکن مستقبل کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ استقرائی استدلال کو قبول کرے، لیکن پھر اُسے ایک ایسا اصول ماننا پڑے گا جو نہ تو منطقی طور پر ثابت ہے اور نہ تجربے سے، اور یوں وہ اپنے ہی اصول ( یعنی صرف تجربہ کو ماننے )سے ہٹ جائے گا۔اس طرح مکمل تجربیت بالآخر اس نتیجے تک پہنچتی ہے کہ مستقبل کے بارے میں یقینی علم حاصل کرنا ممکن نہیں۔ (نشأة الفلسفة العلمية، صفحہ 93)۔

خلاصہ اور نتائج:

استقرائی طریقِ فکر پر کی جانے والی تنقید کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ سائنسی تحقیق میں استقراء کی اہمیت کو ختم کیا جائے، بلکہ اس کا مقصد اس انتہاپسندانہ رویے کی اصلاح ہے جو تمام تر علم کو صرف اسی ایک طریقے تک محدود کر دیتا ہے۔اس تنقید سے جو بات نتیجہ کے طور پر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں علمی طریقۂ کار کے بارے میں ایک متوازن نقطۂ نظر اپنانا چاہیے، جو استقراء اور استنباط — دونوں — کو اہمیت دے، اور انسانی علم کے مختلف ذرائع کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے باہمی انضمام پر زور دے۔چنانچہ درست سائنسی طریقۂ کار صرف تجربہ پر مبنی نہیں ہوتا، بلکہ اس میں تجربے کے ساتھ ساتھ استنباط اور فکری غور و فکر جیسے غیر تجرباتی عناصر بھی شامل ہوتے ہیں۔اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ طریقہ اس طریقۂ کار سے مختلف نہیں جو خدا کے وجود اور دینی اصولوں کے اثبات میں اختیار کیا جاتا ہے، کیونکہ ان میں بھی استدلال کا انداز تجرباتی شواہد اور استنباطی بنیادوں ( دونوں ) پر قائم ہوتا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018