

خالق کے وجود پر عقلی استدلال کی نفی: مکاتبِ فکر، فکری بنیادیں اور اسلامی موقف
علي العزّام الحسيني
کچھ فکری رجحانات ایسے ہیں جو خالق کے وجود پر ایمان کا اظہار تو کرتے ہیں اور مادی فلسفوں یا دہری نظریات کے زمرے میں نہیں آتے۔باہمی اختلافات کے باوجود ان سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خالق کے وجود پر عقلی دلیل دینا درست نہیں۔وہ یہ امکان ہی رد کرتے ہیں کہ خالق پر کوئی عقلی برہان (ثبوت) قائم ہو سکتا ہے۔ ان کے نزدیک ایمان کا راستہ دلیل اور برہان پر نہیں بلکہ وجدان اور دل کے ادراک پر مبنی ہے۔ ان کے خیال میں ایمان کی اصل اور دینی عقیدہ کی فطرت ایک قلبی اور تسلیماتی معاملہ ہے نہ کہ عقلی و استدلالی۔وہ اس بات کو یوں واضح کرتے ہیں کہ "صبح کی روشنی چراغ سے بے نیاز کر دیتی ہے" یعنی دل کا نور صبح کی مانند ہےاور عقل کا نور چراغ کی مانند ہے۔ چنانچہ وہ عقلمندوں پر تنقید کرتے ہیں کہ جو لوگ ایمان کے معاملے میں عقل استعمال کرتے ہیں وہ ایسے ہیں جیسے کوئی شخص دن کے وقت چمکتی دھوپ میں چراغ تھامے چل رہا ہویا جیسے کوئی تندرست شخص بلا ضرورت لاٹھی کا سہارا لے رہا ہو۔
ہم اس نقطۂ نظر کو ایک درمیانی یا برزخی نظریہ کہہ سکتے ہیں جو اس میدان میں موجود دو متضاد آراء کے درمیان واقع ہے۔ایک طرف وہ کلامی اور الٰہیاتی نظریہ ہے جو عقل کی ابتدائی بدیہیات اور اس کی یقینی حیثیت پر مکمل بھروسا رکھتا ہےاور اسی بنیاد پر خالق کے وجود پر کئی عقلی دلائل لاتا ہے۔ دوسری طرف مادی اور دہری مکاتب فکر ہیں جو خالق کے وجود کو سرے سے رد کرتے ہیں اور اس سلسلے میں پیش کیے جانے والے عقلی دلائل کو بھی مسترد کر دیتے ہیں۔ان دونوں کے درمیان یہ ایک درمیانی رائے بھی موجود ہے جو بظاہر خالق پر ایمان رکھتی ہےلیکن وہ عقل کی اس صلاحیت پر شک کرتی ہے کہ آیا وہ خالق کے وجود کو ثابت کرسکتی ہے یا نہیں۔اگرچہ اس نظریے کی طرف سے ظاہر کیے گئے شکوک نے دین سے دوری کے رجحان کو تقویت دی ہے تاہم علمی لحاظ سے اس کے مختلف مکاتب کو دہریت یا الحاد میں شامل نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔
اوّل: مکاتب فکر اور رجحانات
اگر ہم مشرق و مغرب سے ملنے والے انفرادی اقوال کو ایک طرف رکھ دیں جنہیں اسلامی کتابوں میں بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے وجود کی بداہت (یعنی خود واضح ہونا) کے بیان میں نقل کیا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر کتاب "مفاہیم القرآن" (1/38) میں تھامس کارلائل کا یہ قول نقل ہوا ہے:"جو لوگ اللہ کے وجود کو دلیل و برہان سے ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے کوئی روشن اور چمکتے ہوئے سورج کی موجودگی کو چراغ سے ثابت کرنا چاہے۔"اسی طرح "أجوبة الشبهات الكلامية" (1/23) کے مصنف نے تقی خان کرمانی کا یہ قول نقل کیا ہے:"عقلی دلیل سے خالقِ باری تعالیٰ کے وجود کو ثابت نہیں کیا جا سکتا اور اس پر ایمان کسی قسم کے مباحثے یا مناقشے سے پاک ہونا چاہیے۔"ان اقوال کا تجزیہ اور ان پر تبصرہ مضمون کے آخر میں پیش کیا جائے گا لیکن اگر ہم صرف ان اقوال کے ذکر پر اکتفا نہ کریں اور اس موضوع کو وسیع تر دائرے میں دیکھیں، تو میری محدود تحقیق کی حد تک ہمیں وہ افراد جو اس رجحان کے حامی ہیں، تین بنیادی مکاتب فکر سے تعلق رکھتے نظر آتے ہیں۔
پہلا مکتب فکر وہ ہے جسے پوزیٹوزم کہا جاتا ہےاس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو تجربے کو علمی طریقہ کار (یعنی علم حاصل کرنے کا ذریعہ) مانتے ہیں اور اسی بنیاد پر اپنے فلسفیانہ نظریات بھی قائم کرتے ہیں جو کہ عقلیت (Rationalism) کے مدمقابل ہے۔تجربیت (Empiricism) ایک ایسا مکتبِ فکر ہے جو تجربے اور حسی مشاہدے کو علم کا سب سے اہم ذریعہ سمجھتا ہےاور وہ کوشش کرتا ہے کہ جتناممکن ہو سکے سوالات کا جواب حواس کے ذریعے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر دیا جائے۔یہ مکتب ان نتائج کو رد کرتا ہے جو محض ذہنی تجرید (abstraction) یا دینی معیارات پر مبنی ہوں۔تجربیت پسندوں اور وضعتیوں کے درمیان اللہ پر ایمان کے معاملے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان میں ملحد بھی ہیں۔ایسے بھی ہیں جو اللہ پر ایمان کا برملا اظہار کرتے ہیں جیسے مغرب میں جان لاک (John Locke) اور عرب دنیا میں زکی نجيب اور دیگر۔یہاں گفتگو کا محور یہی گروہ ہے:جان لاک اور ان کے پیروکار یہ بات ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ انسانی عقل میں پیدائشی طور پر کوئی پیشگی علم موجود ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کا سارا علم تجربے کے ذریعے آہستہ آہستہ اس کے ذہن میں داخل ہوتا ہے۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے عقلی دلائل کو مسترد کرتے ہیں جو اللہ کے وجود کو بغیر کسی تجرباتی بنیاد کے ثابت کرنا چاہیں۔
دوسرا مکتب فکر ایمانوئل کانٹ کا نقّادانہ مکتب
ایمانوئل کانٹ (وفات: 1804ء) ایک جرمن فلسفی تھا جس نے اپنی مشہور کتاب "نقد العقل المحض" (Critique of Pure Reason) میں انسانی علم کی حدود پر خاص توجہ دی ہے۔ اس کے عقلی علم پر شکوک کا آغاز اس وقت ہوا جب اس نے ڈیوڈ ہیوم کے اعتراضات کا مطالعہ کیا یہاں تک کہ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے کہا:"میں سو رہا تھا یہاں تک کہ ہیوم نے مجھے میرے جمودی خواب (dogmatic slumber) سے جگا دیا۔"ہیوم نے یہ سوال اٹھایا تھا:"ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ تمام اجسام کششِ ثقل (gravity) کے ذریعے حرکت کرتے ہیں حالانکہ ہم نے صرف چند ہی اجسام کا مشاہدہ اور تجربہ کیا ہے؟!"کانٹ نے جب اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی تو وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ہم اشیاء کو جیسا کہ وہ حقیقت میں ہیں (things-in-themselves) نہیں جان سکتے بلکہ ہم صرف وہی کچھ جان سکتے ہیں جو ہمارے حواس کے ذریعے ہمیں ظاہر ہوتا ہے۔ کانٹ کے نزدیک عقل صرف اسی وقت کام کرتی ہے جب اسے حواس کے ذریعے کچھ معلومات حاصل ہوں۔ چونکہ ماورائے حس امور جیسے خدا، روح، آخرت حواس کے دائرہ کار سے باہر ہیںاس لیے اس کے نزدیک عقل ان پر کوئی یقینی دلیل نہیں قائم کر سکتی۔اسی بنیاد پر اس نے عقل کے ذریعے غیب پر استدلال کو رد کر دیا اور تمام عقلی دلائل کا تجزیہ کر کے انہیں باطل قرار دینے کی کوشش کی۔تاہم کانٹ نے الحاد اختیار نہیں کیا بلکہ وہ اللہ پر ایمان رکھتا رہامگر اس کی بنیاد انسانی ضمیر اور اخلاقی دلیل پر تھی۔وہ اکثر کہا کرتا تھا:"دو چیزیں میرے دل کو ہمیشہ عظمت اور تعجب سے بھر دیتی ہیں: اوپر آسمان میں جگمگاتے ہوئے ستارے اور میرے باطن میں موجود اخلاقی قانون!"
تیسرا مکتب فکر صوفیانہ اور حدسی (Intuitive) مکتب
ہم "حدسی مکتب" سے مراد اُس فکری رجحان کو لیتے ہیں جس کا مغربی نمائندہ فرانسیسی فلسفی "ہنری برگساں" (وفات: 1941ء) ہے جو ادب کا نوبل انعام یافتہ بھی تھا۔برگساں اس بات پر زور دیتا ہے کہ فہم (سمجھنے) کا بہترین ذریعہ حدس (یعنی وجدان یا باطنی ادراک) ہے کیونکہ اس کے مطابق ذہانت کی طرح یہ چیزوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے مسخ نہیں کرتی۔ یہ حدس وہ نہیں ہے جسے عام طور پر لوگ غلطی سے چھٹی حس کہتے ہیں بلکہ یہ ایک براہِ راست ادراک ہوتا ہےجس کے ذریعے کوئی چیز بغیر عقل یا حواس کی مدد کے جان لی جاتی ہے۔یہ علم کسی واضح شعوری یاد یا ظاہری عقلی دلیل کے بغیر دل میں آتا ہے اور اسے حدس یا الہام کہا جاتا ہے۔ یہ بصیرت سے قریب المعنی ہوتا ہے۔برگساں کے نزدیک معرفت (علم) کے دو راستے ہیں:ظاہری مشاہدہ اور سائنسی تجربہ پر مبنی طریقہ، جو اکثر غلطی کا شکار ہوتا ہے۔بصیرت اور حدس کا راستہ، جو چیزوں کی گہرائی تک پہنچتا ہے اور ان کے باطن کو سمجھ کر حقیقتِ مطلقہ تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ یہی طریقہ مابعد الطبیعیات اپناتی ہے۔اسی حدسی مکتب کے مشرقی ہم پلہ تصوف یا عرفان کا مکتب ہے، جو علم کے حصول میں کشف و وجدان اور قلبی مشاہدے کو بنیاد بناتا ہے۔یہ مکتب برہانی عقل کو زیادہ اہمیت نہیں دیتااس کے برعکس اس کے جو فلسفۂ مشاء (یعنی ارسطویی طرزِ فکر) میں پایا جاتا ہے اور اس پہلو سے یہ فلسفۂ اشراق کے زیادہ قریب ہے۔تصوف اپنے فکری اصول اشراقی فلاسفہ سے لیتا ہےجو روحانی ریاضت اور نفس کی تہذیب کے ذریعے نفس کو پاک کرنے پر زور دیتے ہیں۔ان کے نزدیک معرفت کی بنیاد "اشراق" (روشنائی) ہے یعنی:ایک غیر محسوس نور کا ذہن پر طلوع ہوناجس سے علم حاصل ہوتا ہے۔پس ان کے ہاں ادراک اور علم کا سرچشمہ اشراق اور فیضان ہے۔
دوسرا محور: محرکات اور اسباب
اگرچہ ان تمام رجحانات میں یہ بات مشترک ہے کہ وہ عقلی دلائل کو غیر مؤثر سمجھتے ہیں لیکن ان کے محرکات اور نظریاتی بنیادیں مختلف ہیں۔ غور و فکر اور تجزیے کے بعد ہم محرکات کی دو بنیادی اقسام کی نشان دہی کر سکتے ہیں:
روحانی و ایمانی محرکات:
یہ وہ محرکات ہیں جو بظاہر دینی اور باطنی بنیادوں پر مبنی ہیں اگرچہ بعض اوقات ان کے ساتھ کچھ علمی یا عقلی توجیہات بھی شامل کی جاتی ہیں۔یہی بنیاد حدسی مکتب اور عرفانی (صوفیانہ) رجحان کا نقطۂ آغاز بنی۔
فلسفیانہ و نظریاتی محرکات:
ان کا مقصد ایک جامع منہجی نظریہ پیش کرنا ہے جو عقلی ماورائیات کی ممکنہ حیثیت کو سرے سے رد کر دے۔ یہی روش کانٹ کے تنقیدی فلسفہ اور ایمان دار تجربیت (religious empiricism) میں نظر آتی ہے۔ بعض افراد نے خدا کے وجود تک عقل کے ذریعے پہنچنے کے امکان کو خاص طور پر صوفیانہ اور عرفانی فضا میں اس بنیاد پر مسترد کیا کہ اللہ کا وجود ایسی حقیقت ہے جسے صرف باطنی مشاہدے اور ذاتی تجربے سے جانا جا سکتا ہے۔یعنی اللہ کا علم صرف حضوری (براہِ راست قلبی شعور) کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے نہ کہ حصولی (ادراکی و عقلی محنت) کے ذریعےکیونکہ ان کے نزدیک خدا کا وجود دیگر موجودات کی طرح "ماہیت + وجود" پر مشتمل نہیں ہوتا جسے عقل کسی فطری تعریف سے پہچان سکے۔ اللہ کا وجود محض وجودِ مطلق ہے، اس کے لیے کوئی "ماہوی" (ماہیت پر مبنی) شناخت ممکن نہیں۔اس لیے اللہ کا علم عقل کے ذریعے حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ صرف دل کے نور یا حضوری ادراک سے ہی جانا جا سکتا ہے۔ممکن ہے کہ بعض نے اس بنیاد پر بھی عقلی استدلال کو مسترد کیا ہو کہ بداہت اور برہان ایک دوسرے کے منافی ہیں۔جہاں تک حدسی مکتب کا تعلق ہےتو یہ مغربی تناظر میں مادیت کے غلبے کے خلاف ایک ردعمل کے طور پر سامنے آیا۔یہ مکتب روحانی اقدار کی بازیابی اور ان کے احترام کی کوشش تھی، جنہیں مغربی مادیت نے پامال کر رکھا تھا اور اب بھی کیے ہوئے ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغربی ادارے اس طرح کی فلسفیانہ فکر کو نظر انداز کرتے ہیں اور مادی سوچ رکھنے والے فلسفیوں اور افکار کو غیرمعمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ شاید یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ جس نے کہا تھا:"مغرب میں اصالت (مرکزیت) مادیت کو حاصل ہےاور مشرق میں روحانیت کو۔"
اس کے برعکس، تجربہ پسند مفکرین یا کانٹ کے تنقیدی فلسفہ کے حاملین کے محرکات بالکل مختلف ہیں۔ان کا مقصد دینی عقائد کو عقلی دلیل و برہان کے تابع لانے سے انکار کرنا ہے۔یہ لوگ تین مختلف دائروں کے درمیان حد فاصل کھینچتے ہیں:فطری و سائنسی امور، جو تجربہ اور تحقیق سے پرکھے جا سکتے ہیں،ماورائی و فلسفیانہ امور، جو عقل و نظریات سے وابستہ ہیں،ایمانی و تسلیمی عقائد، جو دلیل سے ماورا اور ایمان پر مبنی ہیں۔مصری مفکر زکی نجيب محمود لکھتے ہیں:"قریبی اسباب کی تحقیق کا کام سائنس کا ہے۔مثلاً: اگر حیاتیات ہمیں اس بات کا کافی جواب دے دیتی ہے کہ ایک جاندار سے دوسرا جاندار کیسے پیدا ہوتا ہے تو ماورائی فلسفہ اس سے مطمئن نہیں ہوتا بلکہ سوال کو پیچھے لے جاتا ہے اور پوچھتا ہے: خود زندگی کیا ہے؟لیکن دینی عقیدہ تو بالکل مختلف چیز ہے۔کیونکہ نبی یہ نہیں کہتا کہ یہ میری ذاتی بصیرت ہے بلکہ وہ کہتا ہےیہ مجھے میرے رب کی طرف سے وحی کے ذریعے ملا ہے، جسے میں تم تک پہنچا رہا ہوں۔لہٰذا، ایمان کی بنیاد عقلی برہان نہیں بلکہ یہ ہے کہ نبی جو کچھ اللہ کی طرف سے کہے، اسے سچ مانا جائے۔یعنی ایمان کی بنیاد خود نبی کا صدق و اعتماد ہےنہ کہ نظریاتی نتائج۔"(ماخوذ از: مقدمہ کتاب "موقف من الميتافيزيقا", مؤسسہ ہنداوی، 2019ء)
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغرب میں اس رجحان کا ظہور اور ترقی کی ایک بڑی وجہ تجربہ پسندی کا فروغ تھا، جس نے عقلیت کو کمزور کیااور اس کے ساتھ تنقیدی فلسفہ نے الٰہیاتی و کلامی طرزِ فکر کی شدت سے مخالفت کی اور خدا کے وجود پر عقلی دلائل کا گہرا تنقیدی جائزہ لیا۔اس کے علاوہ، یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ حدسی مکتب نے مغرب میں رائج فردیت پسندی (individualism) سے اثر لیا ہو،جس کے مطابق دین ایک فرد کا ذاتی تجربہ اور خالق کے ساتھ انفرادی تعلق بن گیاجو کسی اور تک منتقل نہیں ہو سکتا۔یقینی بات ہے کہ اس طرز فکر سے دوسروں کو ایمان کی دعوت دینا کمزور پڑتا ہے اور تبلیغِ دین اپنی سب سے بڑی طاقت بلکہ شاید واحد طاقت سے محروم ہو جاتا ہےیعنی عقلی دلیل سے۔ان تمام اسباب کے علاوہ، ایک اور اہم وجہ کلیسائی عقائد کی فطرت ہے، خاص طور پر وہ عقائد جو عقل کے مخالف تھے جیسے تثلیث (تین خداؤں کا تصور)۔چنانچہ کلیسا کے اکابرین نے عقل کو محدود کر کے دینی عقائد کو بچانے کی کوشش کی۔ سینٹ آگسٹین نے کہا تھا:"میں ایمان لاتا ہوں تاکہ سمجھ سکوں نہ کہ سمجھتا ہوں تاکہ ایمان لا سکوں۔"لیکن اگر مغربی دنیا میں وجدانی ایمان کے لیے ایسی تاریخی و فکری توجیہات موجود ہیں تو اسلامی تناظر میں ایسی کوئی بنیاد نہیں ملتی۔ یہی بات ہمیں اس مضمون کے تیسرے اور آخری محور کی طرف لے جاتی ہے:اسلام خدا کے وجود کے بارے میں کیا کہتا ہے؟کیا اللہ کا وجود بدیہی ہے؟کیا بدیہیت اور برہان جمع ہو سکتے ہیں؟اور کہاں یہ سابقہ نظریاتی رجحانات ناکام ہوتے ہیں؟
تیسرا محور: ایمان ایک فطری حقیقت ہے جو عقلی استدلال کو قبول کرتی ہے
یہ ایک بدیہی (یقینی اور خود واضح) بات ہے کہ اصیل (خالص) اسلامی فکر عقل کو بہت بلند مقام دیتی ہے اور اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔یہاں تک کہ کتاب "الکافی" (جو شیعہ حدیث کی اہم کتب میں شمار ہوتی ہے) میں پہلا باب ہی "بابُ العقل" کے عنوان سے ہے۔اسلام خاص طور پر اصولِ دین کے معاملات میں عقل کے کردار پر بہت زور دیتا ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں کہ اللہ پر ایمان کی بنیاد عقل پر ہے۔جیسا کہ حدیثِ شریف میں آیا ہے:"بندوں نے اپنے خالق کو عقل کے ذریعے پہچانااور یہ جانا کہ وہ خود مخلوق ہیں اور یہ بھی کہ اللہ ہی ان کا مدبّر ہے اور وہ اس کی تدبیر کے ماتحت ہیں"(الکافی، جلد 1، صفحہ 29)اسی طرح قرآن مجید نے بھی اللہ کے وجود پر عقلی (فطری) استدلال کو اختیار کیا ہےاور قرآن کی بعض آیات میں نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ عقلی دلائل مختصر مگر مؤثر انداز میں پیش کیے گئے ہیں،خاص طور پر اُن لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے جنہیں قرآن "اُولُو الألباب" (عقل و فہم رکھنے والے) کہتا ہے۔مثال کے طور پر سورۃ الطور کی آیت نمبر 35 میں فرمایا: (أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ) کیا یہ لوگ بغیر کسی خالق کے پیدا ہوئے ہیں یا خود (اپنے) خالق ہیں؟
یہ آیت (أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ) دراصل اُن میں سے ایک نہایت پختہ عقلی دلیل کی طرف اشارہ ہے، جسے موحِّد فلاسفہ نے تفصیل سے پیش کیا ہے اور جسے "برہانِ امکان" (دلیلِ ممکن الوجود) کہا جاتا ہے۔لیکن دوسری طرف اسلامی نصوص اس بات پر بھی زور دیتی ہیں کہ ایمان ایک فطری حقیقت ہےاور اللہ کے وجود کی بداہت ایسی ہے کہ اس پر شک کرنا ہی نامناسب ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ)(سورہ ابراہیم، آیت 10)
ان کے رسولوں نے کہا: کیا (تمہیں) اس اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟
یہ بات بظاہر کچھ تناقض یا ٹکراؤ جیسی لگ سکتی ہے جو کہ پوشیدہ نہیں رہتا یعنی جب اللہ کا وجود بدیہی (یقینی اور واضح) ہے تو پھر اس پر عقلی دلیل دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟تو کیا واقعی کسی بدیہی حقیقت پر استدلال پیش کرنا درست اور مفہوم ہے؟!یہ سوال اور اس سے پہلے بیان کردہ حدسی فکر کی جانچ دونوں ہمیں لے جاتے ہیں منطق کے علمی اصولوں کی طرف،جہاں اس طرح کے اشکالات اور ان کے جوابات کو تفصیل سے سمجھا اور حل کیا جاتا ہے۔منطق کے علم سے واقف افراد جانتے ہیں کہ بعض یقینی اور بدیہی قضایا (حقائق) کے درمیان فاصلہ اور درجہ بندی پائی جاتی ہے۔یہ بدیہی حقائق تین بنیادی اقسام میں تقسیم ہوتے ہیں:اولیات (یعنی بنیادی ضروریات)حدسیات (یعنی وجدان یا باطنی ادراک پر مبنی قضایا)فطریات (یعنی فطری عقل سے پیدا ہونے والے ادراکات)ان میں "ضروريات" (اولیات) وہ سب سے نمایاں اور روشن قضایا ہیں جن کے بغیر انسانی معرفت کا وجود ہی ممکن نہیں۔یعنی اگر یہ مسلمات نہ ہوں تو انسان کا کوئی بھی علم باقی نہ رہے۔مثلاً:ایک چیز، وہی چیز ہوتی ہے، کوئی دوسری نہیں۔دو متضاد چیزیں نہ تو ایک ساتھ جمع ہو سکتی ہیں، نہ دونوں کو بیک وقت ختم کیا جا سکتا ہے (یعنی اجتماع و ارتفاع نقیضین ممکن نہیں)۔ان قضایا کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ:یہ اس قدر بدیہی اور واضح ہوتی ہیں کہ ان پر کوئی دلیل قائم ہی نہیں کی جا سکتی۔ فرض یہ ہے کہ کوئی اور قضیہ ان سے زیادہ واضح اور روشن نہیں ہوتا جس سے ان پر روشنی ڈالی جا سکے یا ان کا ابہام رفع کیا جا سکے۔اب یہاں ایک بات بالکل واضح ہے کہ:اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان ان "اولیات" جیسا نہیں ہے۔اس کی ایک سادہ اور اہم وجہ یہ ہے کہ:اولیات (ضروريات) کا خاصہ یہ ہے کہ وہ عقلی دلیل قبول ہی نہیں کرتیں کیونکہ وہ ہر دلیل سے پہلے کی چیز ہوتی ہیں۔جبکہ اللہ کے وجود کا مسئلہ اگرچہ یہ فطری سطح پر واضح اور کسی حد تک استدلال سے بے نیاز بھی ہے پھر بھی اس پر عقلی استدلال ممکن ہے۔ یہی فرق ان دونوں کے درمیان صاف اور قطعی طور پر واضح ہے۔
حدسی قضیہ جس کے تحت بعض لوگ خالق کے وجود کو شمار کرنا چاہتے ہیں ایسی معرفت ہے جو صرف اس شخص کے ساتھ خاص ہوتی ہے جو حدس کی قوت رکھتا ہےگویا اس کی بداہت مطلق نہیں بلکہ نسبی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ منطق کہتے ہیں کہ ایک ہی قضیہ کسی شخص کے لیے بدیہی ہو سکتا ہےلیکن کسی دوسرے کے لیے نہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ حدسی معرفت کا انحصار فراست اور الہام پر ہوتا ہے۔ جیسے زمین کے گول ہونے کا حدس، جو سمندر میں دور سے آتی کشتیوں کے تدریجی ظہور کے مشاہدے سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ مثال اچھی ہے مگر اس میں ایک عقلی مقدمہ شامل ہے (یعنی کشتیوں کا مشاہدہ)، جس کی بنا پر حدس کو عقلی بنیاد پر دوسروں کے لیے قابلِ فہم بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم، ہر معاملے میں ایسا نہیں ہوتا؛،بعض اوقات حدس رکھنے والا خود یہ نہیں بتا سکتا کہ اسے یہ علم کیسے حاصل ہوا، کہاں سے آیایا اس پر کیا دلیل ہے۔ وہ نہ اس پر برہان قائم کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی اور کو تعلیم یا تلقین کے ذریعے اس میں شریک کر سکتا ہے۔ البتہ وہ طالبِ علم کو صرف وہ راستہ دکھا سکتا ہے جس پر وہ خود چلا، اگر طالب بھی اسی راستے پر چل پڑے تو ممکن ہے اسے بھی وہی حدس حاصل ہو جائے، ورنہ نہیں۔ لہٰذا، اگر کوئی شخص ایسے حدسی قضیے کا انکار کرے تو صاحبِ حدس اس کے سامنے اسے دلیل سے ثابت کرنے سے قاصر ہوتا ہے، جب تک کہ انکار کرنے والے کو بھی وہی باطنی ادراک حاصل نہ ہو جائے۔
جہاں تک فطری قضایا کا تعلق ہے، تو یہ بھی یقین کے درجے کی بدیہی باتیں ہوتی ہیں، جیسے کہ اولیات اور حدسیات، لیکن ان دونوں سے ایک خاص فرق رکھتی ہیں۔ فطری قضایا ہمیشہ کسی ایسے عنصر کے ساتھ آتے ہیں جو ان پر یقین کا باعث بنتا ہے اور جس سے ان کی بدیہت واضح ہو جاتی ہے۔ منطق کی زبان میں اسے "حدِ اوسط" کہا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے فطری قضایا اولیات سے مختلف ہوتی ہیں کیونکہ اولیات جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا، "حدِ اوسط" کو قبول نہیں کرتیں جبکہ فطری قضایا میں "حدِ اوسط" کا پایا جانا لازمی ہوتا ہے۔ البتہ اس کا خاصہ یہ ہے کہ یہ حدِ اوسط شعور میں موجود اور حاضر ہوتا ہے نہ کہ کسی پیچیدہ استدلال کے نتیجے میں حاصل کیا جاتا ہے۔ جیسے ہم یہ کہتے ہیں کہ "دو، دس کا پانچواں حصہ ہے" یہ ایک بدیہی حکم ہےلیکن یہ ایک درمیانی نکتہ (حد اوسط) کے ذریعے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی "دو" ایک عدد ہے اور دس اس طرح تقسیم ہوئی ہے کہ وہ "دو" اور اس جیسے چار دیگر حصوں میں بٹ گئی ہے، اور ہر ایسا عدد جو اس طرح پانچ برابر حصوں میں تقسیم ہو جائے، اس کا ہر حصہ اس کا پانچواں حصہ کہلاتا ہے، لہٰذا دو، دس کا پانچواں حصہ ہے۔ اس طرح کا استدلال ذہن میں خود بخود موجود ہوتا ہے، نہ اس کے لیے مشقت درکار ہوتی ہے اور نہ غور و فکر۔ یہی معاملہ اس وقت ہوتا ہے جب عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ "عالم کا کوئی خالق ہے" یہ بھی ایک بدیہی فیصلہ ہے جو ایک درمیانی نکتے کے ذریعے معلوم ہوتا ہے۔ یہاں وہ "حدِ اوسط" یہ ہے کہ "معلول (نتیجہ) بغیر علت (سبب) کے وجود نہیں رکھ سکتا" اور یہ ایک اولی قضیہ ہے (یعنی بدیہی ترین حقیقت)۔
خلاصہ یہ ہے کہ خالق کے وجود پر ایمان رکھنا ایک فطری اور بدیہی حقیقت ہے، جو اگرچہ عقلی دلائل کا محتاج نہیں، تاہم اس پر عقلی استدلال پیش کرنا بالکل ممکن ہے۔ یہ نہ تو ایسی ابتدائی بدیہیات میں سے ہے جن پر کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی خالص حدسیات میں شامل ہے جو صرف مخصوص افراد کے باطنی وجدان تک محدود ہوتی ہیں بلکہ یہ ان فطری قضایا میں شامل ہے جن کی دلیل خود ان کے ساتھ شعور میں حاضر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا جا سکتا ہے، ان کے شعور کو بیدار کیا جا سکتا ہے اور اس ایمان کو ان تک منتقل بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ بدیہی حقیقت ہے جو گہرے فلسفیانہ تجزیے یا طویل مقدمات کی محتاج نہیں،یہاں تک کہ عام سادہ مزاج بوڑھی عورتیں بھی اپنی فطری عقل سے کہہ اٹھتی ہیں: "اونٹ کی مینگنی اونٹ کی موجودگی پر دلالت کرتی ہے۔"