20 صفر 1447 هـ   15 اگست 2025 عيسوى 9:50 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-06-18   154

لبرل ازم: آزادی یا معاشی بالادستی؟

شيخ معتصم السيد احمد

لبرل ازم کے نظریئے کو فلسفیانہ اور سیاسی تحریروں میں اکثر ایک ایسے آزادی بخش نظریے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس کا مقصد انسان کو روایتی، سیاسی اور مذہبی طاقتوں کے اثر سے آزاد کرنا، اور اس کی انفرادی آزادی اور بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ لیکن جب ہم لبرل ازم کے نظریاتی اور فکری پس منظر کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں، تو اس کی ایک مختلف حقیقت سامنے آتی ہے۔ خاص طور پر انیسویں صدی کے بعد، تو لبرل ازم کا مقصد انسانی آزادی کو ایک اخلاقی یا وجودی قدر کے طور پر سمجھنا بلکل بھی نہیں رہا، بلکہ اس نے فرد کو ایک ایسے اقتصادی وجود کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا ہے، کہ جو ملکیت رکھتا ہے، سرمایہ لگاتا ہو اور منڈی کے اصولوں پر عمل کرتا ہے۔

مراکش کے مفکر الطیب بوعزة اپنی کتاب "نقد الليبرالية" میں لکھتے ہیں کہ جدید لبرل ازم دراصل دولت مند طبقہ کی آزادی کی وکالت کرتا ہے، نہ کہ ایک باشعور اور باوقار انسان کی۔ یعنی اب آزادی کا مطلب انسان کی بطور انسان آزادی نہیں رہا، بلکہ اس کی حیثیت اور طاقت اس کی ملکیت، سرمایہ کاری اور منڈی میں اثر و رسوخ سے جڑی ہوئی ہے۔اس طرح لبرل ازم، جو کبھی انسان کی مکمل آزادی اور وقار کا علمبردار نظریہ تھا، آہستہ آہستہ صرف اقتصادی مفادات اور منڈی کی طاقتوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔

آج کی لبرل دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ معیشت کا اثر زندگی کے ہر پہلو پر غالب آچکا ہے، چاہے وہ سماجی پہلو ہو، ثقافتی ہو یا سیاسی۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق جیسے تصورات اب خالص انسانی اقدار نہیں رہے، بلکہ ان کا انحصار ذاتی مفاد اور منڈی کے اصولوں پر ہو گیا ہے۔مثال کے طور پر، اظہارِ رائے کی آزادی تب تک قابل قبول ہے جب تک وہ بڑی معاشی طاقتوں کے مفادات کو نقصان نہ پہنچائے۔ اسی طرح، انسانی حقوق کا دفاع اسی وقت کیا جاتا ہے جب وہ کسی مخصوص ایجنڈے کے حق میں جائے یا عوامی رائے کو قابو میں رکھنے کی پالیسیوں کے مطابق ہو۔یوں لگتا ہے کہ یہ اعلیٰ انسانی اقدار بھی اب منڈی، سرمایہ اور طاقت کی خدمت گزار و سہولت کار بن گئی ہیں۔

اس تناظر میں، لبرل جمہوریت جسے عوام کی رائے کا اظہار سمجھا جاتا ہے وہ اب اس تیار شدہ پروڈکٹ کی مانند بن چکی ہے۔ جیسے کوئی چیز صارفین کےلئے بنائی اور بیچی جاتی ہے۔ دور حاضر میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کے طاقتور ادارے اس قابل ہو چکے ہیں کہ وہ عوامی رائے کو اپنی مرضی کے مطابق تشکیل دیں، اور انتخابات کے نتائج اور ووٹرز کے رجحانات کو پسِ پردہ طریقوں سے قابو میں رکھیں۔ان ذرائع کے ذریعے ووٹرز کے شعور کو اس انداز میں بدلا جاتا ہے کہ وہ انہی فیصلوں کی حمایت کریں جو پہلے ہی با اثر اور دولت مند اقلیت کے مفاد میں طے کیے جا چکے ہوں اور یوں جمہوریت محض ایک نمائشی نظام بن کر رہ جاتی ہے، جس کا مقصد طاقتور طبقے کے فیصلوں کو قانونی اور مقبولِ عام بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس پورے عمل میں عوام کی اصل رائے اور اجتماعی مرضی پس منظر میں چلی جاتی ہے، اور فیصلہ سازی پر صرف چند بااثر افراد کا قبضہ رہ جاتا ہے۔

اسی پس منظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ لبرل ازم، جو ابتدا میں انسان کو سیاسی، دینی اور فکری جبر سے آزاد کرنے کا دعویٰ کرتی تھی، اب خود ایک نیا جبر بن چکی ہے۔ لیکن اس بار آزادی کا ہدف انسان نہیں، بلکہ منڈی ہے۔ یعنی لبرل ازم اب اس کوشش میں ہے کہ معیشت اور بازار کو ہر قسم کی اخلاقی، دینی یا سماجی حدود سے آزاد کر دیا جائے، تاکہ سرمایہ دارانہ مفادات بغیر کسی رکاوٹ کے فروغ پا سکیں۔

یہ نظریہ انسان کو ایک مکمل اور باوقار وجود کے طور پر دیکھنے کے بجائے، اسے صرف ایک "صارف" (جو خریدتا ہے) اور "پیدا کرنے والا"(جو منافع کےلیے کام کرتا ہے) بنا کر رکھ دیتا ہے۔ اس سوچ میں انسانی اقدار جیسے ہمدردی، انصاف، سماجی یکجہتی، اور وقار کی جگہ صرف معاشی مقابلہ بازی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، گویا انسان کی قدر کا تعین اب صرف اس کی معاشی کارکردگی سے ہوتا ہے۔

یہ تبدیلیاں صرف نظریاتی سطح تک محدود نہیں رہیں بلکہ انہوں نے جدید معاشروں کے اندر بھی گہرا عدم توازن پیدا کیا ہے۔ جس کا نتیجہ کئی خطرناک صورتوں میں ظاہر ہو رہا ہے کہ دولت اور طاقت تو محض چند افراد یا طبقوں کے ہاتھوں میں سمٹ کر آگئی ہے، جبکہ اکثریت غربت، عدم تحفظ اور محرومی کا شکار ہے۔ خاندان، رشتے اور کمیونٹی جیسے سماجی ادارے کمزور ہو چکے ہیں، کیونکہ معاشی مفاد نے انسانی تعلقات احساس مروت کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ایسے میں افراد شدید ذہنی، جذباتی اور روحانی دباؤ کا شکار ہیں، حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ڈپریشن، تنہائی، اور خودکشی کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔یوں لبرل ازم، جو کبھی انسان کی آزادی کا خواب تھا، وہ منزل سے ناآشنا ایک ایسے تہذیبی سفر کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ جو فرد کو تنہا، بے مقصد اور مسلسل مقابلے میں جھونکنے والی زندگی کی طرف لے جا رہا ہے۔

دوسرے لفظوں میں، آج جو ہم خودکشی، ڈپریشن، اور زندگی کے بےمعنی ہونے کے احساس کوبطور خاص لبرل معاشروں میں بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ یہ کوئی معمولی یا سطحی مسائل نہیں، بلکہ ایک گہری فکری اور انسانی بحران کی علامات ہیں۔ یہ بحران اُس لبرل فلسفے کا نتیجہ ہے جو انسان کو اس کے روحانی اور اخلاقی پہلوؤں سے خالی کر دیتا ہے، اور اسے صرف ایک پیدا کرنے اور خرچ کرنے والی مشین میں بدل دیتا ہے۔

ایسا فلسفہ انسان کو آزاد نہیں بناتا، بلکہ اسے کمزور، الجھا ہوا، اور مسلسل خوف میں جینے والا فرد بنا دیتا ہے، ایسا شخص جو اپنی سماجی حیثیت کے بارے میں بے حد فکر مند ہوتا ہے، اور اپنی پوری زندگی منڈی کے اصولوں کے مطابق گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خود مختار ہونے کی بجائے بازار کا غلام بن جاتا ہے۔ اس کی خوشی، کامیابی اور خودی سب کچھ مارکیٹ کی سوچ سے جُڑ جاتی ہے۔ اور یوں وہ اپنے اندر کا سکون، مقصد حیات اور انسانیت کھو بیٹھتا ہے۔

شاید موجودہ لبرل نظام کا سب سے خطرناک پہلو یہی ہے کہ اس نے انسان کی زندگی میں اخلاقی رہنمائی کا نظام کمزور کر دیا ہے۔جبکہ پہلے انسان کی زندگی دینی، اخلاقی یا اجتماعی اقدار کے تحت منظم ہوتی تھی، جو اسے صحیح اور غلط میں فرق کرنے کا معیار دیتی تھیں۔ لیکن اب "مطلق آزادی" کے نام پر ان تمام مستقل حوالوں کو کنارے سے لگا دیا گیا ہے، اور فرد کی ذاتی خواہشات کو ہی سب کچھ سمجھا جانے لگا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسے بہت سے انفرادی رویّے اور سلوک، جو کبھی غیر متوازن یا نقصان دہ سمجھے جاتے تھے، آج "حقوق" کے نام پر قبول کیے جارہے ہیں۔ حالانکہ یہ رویّے اکثر خاندانی نظام کو کمزور کرتے ہیں، انسانی فطرت کو بگاڑتے ہیں، اور معاشرے کے توازن کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

اس طرح جب آزادی کو بغیر کسی اخلاقی یا اجتماعی حدود کے اپنایا جاتا ہے، تو وہ آزادی انسان کو فائدہ پہنچانے کے بجائے اُسے تنہا، الجھا ہوا اور معاشرتی بگاڑ کا شکار بنا دیتی ہے۔

اس کے باوجود، لبرل ازم اپنی تمام خامیوں اور تضادات کے ساتھ آج بھی بہت سے ترقی پذیر ملکوں کے لیے ایک دلکش ماڈل بنا ہوا ہے، خاص طور پر ان معاشروں میں جو سیاسی ظلم یا معاشی پسماندگی کا شکار ہیں۔ مگر اس کشش کی بنیاد زیادہ تر اُس مثالی اور خوشنما تصویر کی رہوں منت ہوتی ہے جو لبرل ازم کے بارے میں پیش کی جاتی ہے، نہ کہ اس کی حقیقت یا گہرے فکری پہلوؤں کی سمجھ پر۔اسی لیے ان معاشروں کو صرف لبرل نظام اپنانے کی نہیں، بلکہ ایک ایسا متوازن نظام بنانے کی ضرورت ہے جو آزادی کے ساتھ ذمہ داری کو، فرد کے ساتھ معاشرے کو، حقوق کے ساتھ فرائض کو، اور مادی ترقی کے ساتھ روحانی اقدار کو بھی اہمیت دے۔ ایسا متوازن نظام ہی ایک مضبوط، انسان دوست اور پائیدار معاشرے کی بنیاد بن سکتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں اسلام ایک مکمل اور متوازن تہذیبی نظام کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اسلام صرف ایک مذہب نہیں، بلکہ ایک ایسا جامع نظریۂ حیات ہے جو انسان، زندگی اور معاشرے کے بارے میں متوازن اور ہم آہنگ سوچ پیش کرتا ہے۔

اسلام آزادی کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے، لیکن اسے خود غرضی یا سماجی رشتوں کو توڑنے کا ذریعہ نہیں بناتا۔ آزادی، اسلام کے نزدیک، انسان کی عزت اور وقار کو قائم کرنے کا ایک ذریعہ ہے، جو ایسے اصولوں کے اندر رہ کر استعمال ہونی چاہیے جو فرد اور معاشرے دونوں کی بھلائی کو یقینی بنائیں۔

اسلام ایسی آزادی کی بات کرتا ہے جو ذمہ داری سے جڑی ہو۔خاص طور پر انسان کی اپنے خالق کے سامنے جوابدہی کے احساس سے۔ یہ آزادی دوسروں پر ظلم یا بے لگامی کی اجازت نہیں دیتی۔مزید یہ کہ اسلام انسان کی قدرو قیمت کا پیمانہ صرف اس کی معاشی کارکردگی کونہیں بناتا، بلکہ اسلام کسی فرد کی پرہیزگاری، اخلاق اور معاشرے میں عدل و رحم کے فروغ میں اس کے کردار کو اصل معیار سمجھتا ہے۔ یہی توازن انسان کو حقیقی آزادی، وقار اور ایک بہتر معاشرہ تشکیل دینے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔قرآنِ کریم نے صاف طور پر بتایا ہے کہ انسان کی عزت اور مقام اس کی طاقت، دولت یا خاندان سے نہیں، بلکہ اس لیے ہے کہ اللہ نے اسے خود عزت دی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ﴾)الإسراء: 70(اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت دی۔

یہی عزت انسانی زندگی کی اصل بنیاد ہے، اور یہی ایسے سیاسی یا معاشرتی نظام کا مرکز ہونی چاہیے جو انسانیت کی قدر کرنا چاہتا ہو۔ جبکہ موجودہ لبرل نظام میں یہی چیز کمزور ہو چکی ہے، کہ یہ نظام انسان کو صرف ایک "معاشی آلہ" سمجھتا ہے، یعنی ایک ایسا فرد جو صرف کماتا، خرچ کرتا اور پیدا کرتا ہے۔

اسلام انسان کو صرف اس کی معاشی حیثیت سے نہیں جانچتا، بلکہ وہ اس کی اصل قدر اس کی اخلاقی خوبیوں، روحانی مقام، اور اس کے انسان ہونے کی بنیاد پر کرتا ہے۔ یہی سوچ انسان کو اصل عزت اور وقار عطا کرتی ہے۔اسی لیے اسلامی اقدار کو دوبارہ زندہ کرنا اور انہیں سیاسی و معاشرتی زندگی میں عملی شکل دینے کےلئے محض نعرے بازی سے کام نہیں لینا چاہیے، بلکہ اس کےلئے ایک سنجیدہ اور واضح منصوبہ ہونا چاہیے۔ کچھ ایسے منصوبے وضع کئے جایئں جو انسان کو محض ایک چیز یا صارف بننے سے بچائیں، اور اسے اس کا اصل مقام واپس دلائیں یعنی ایک باشعور مخلوق جو اس دنیا میں ایک مقصد، ایک پیغام اور ایک ذمہ داری کے ساتھ آئی ہے۔یقیناً یہ کام آسان نہیں، لیکن بہت ضروری ہے۔ کیونکہ اگر ہم نے یہ راستہ نہ اپنایا، تو موجودہ تہذیبی زوال اور روحانی طور پر کھوکھلے پن کا سلسلہ جاری رہے گا، جو کہ آج کے بہت سے جدید معاشروں میں واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔

آخر میں، لبرل ازم پر تنقید کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جدید دور کی انسانی کامیابیوں یا ترقی سے پیچھے ہٹ جائیں۔ بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم ایک ایسا متوازن نظام بنائیں جو مادی اور تکنیکی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور دینی اقدار کو بھی اہمیت دے۔اسلام نہ تو آزادی کا دشمن ہے اور نہ ہی جمہوریت کا، لیکن وہ ان تصورات کو محض لفظوں سے بدلنے اور طاقتور طبقے کے فائدے کے لیے استعمال کرنے کو غلط سمجھتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ آزادی اور جمہوریت انسان کی بھلائی، انصاف، اور وقار کے لیے استعمال ہوں۔ نہ کہ صرف مفاد پرستوں کے مفاد کے لیے۔اسلامی نقطۂ نظر میں انسان خود ایک مقصد ہے، نہ کہ دوسروں کے مفاد کا آلہء کار۔ پس یہی سوچ ایک بہتر، منصفانہ اور انسان دوست معاشرے کی بنیاد بن سکتی ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018