

اللہ کو کس نے خلق کیا ؟
السيد علي العزام الحسيني
یہ سوال کہ"اللہ کو کس نے پیدا کیا؟" دلیلِ حدوث پر مشہور فلسفی "رسل" کی تنقید کا محور تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ "اگر ہر چیز کے لیے کوئی سبب ہونا ضروری ہے، تو پھر خدا کے لیے بھی کوئی سبب ہونا چاہیے۔ اور اگر یہ ممکن ہے کہ کوئی خدا بغیر کسی علت یا سبب کے ہو، تو پھر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کائنات بھی بغیر کسی علت یا سبب کے بنی ہو بالکل اسی طرح جیسے خدا۔(کتاب: "میں عیسائی کیوں نہیں ہوں"، صفحہ 17، پہلا ایڈیشن 2015، دار التکوین)
یہ بات کسی حد تک نئے ملحدانہ فکر کے مشہور ترین نمائندے ڈاوکنز پر بھی صادق آتی ہے، جس نے اپنی کتاب "خدا کا وہم" میں کئی مرتبہ یہی سوال دہرایا ہے۔ مثلاً صفحہ 111 پر وہ کہتا ہے کہ"پوری دلیل کا محور اس سوال کے گرد گھومتا ہے کہ" خدا کو کس نے پیدا کیا؟" اور ساتھ ( (Intelligent Designپرنقد کرتے ہوئے صفحہ 122 پر لکھتا ہے کہ انٹلیجنٹ ڈیزائن بنیادی طور پر کوئی متبادل نہیں ہے، کیونکہ یہ خود اس مسئلے سے بھی بڑا مسئلہ پیدا کر دیتا ہے جسے یہ حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ـ خالق کو کس نے پیدا کیا؟َ
یہ صرف دو نمونے ہیں، اورہم ابھی انہی دو مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں، کیونکہ ہمارا مقصد اس بات پر دلیلیں دینا نہیں ہے۔ اسی طرح ہمارا ارادہ نہ تو اس سوال کی بنیادوں کوکھولنے کا ہے، اور نہ ہی اس پر علمِ کلام یا فلسفیانہ جوابات کی اقسام کو بیان کرنے کا، کیونکہ ہم یہ سب کچھ تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب "خدا کو کس نے پیدا کیا؟ - سوال کے سیاقات اور رائج جواب پر تنقید" میں بیان کر چکے ہیں۔اس مختصر مضمون کا واحد مقصد اوراس میں ہماری کوشش یہ ہے کہ مذکورہ سوال کا جواب صدرالدین شیرازی کے فلسفہ - یعنی مدرسۂ حکمت متعالیہ - کی روشنی میں واضح کیا جائے۔
تمام معاملہ درحقیقت اس بات پر موقوف ہے کہ ہم مبداٗ علیت کو کس حد تک گہرائی سے سمجھتے ہیں ۔ فلسفۂ حکمتِ متعالیہ کے فیلسوف نے اس اصول کی یہ جہت محسوس کی کہ یہ ایک موجود اور دوسرے موجود کے درمیان کسی نہ کسی طرح کا ربط اور دو چیزوں کے مابین ایک خاص نوعیت کا تعلق ہے۔ چنانچہ انہوں نے مختلف اقسام کے ربط اور تعلقات کا باریک بینی سے مطالعہ، تحقیق اور غور و فکر کیا، جس کے نتیجے میں وہ اس نتیجے تک پہنچا، کہ تمام اقسام کے ربط دراصل دو مستقل وجود رکھنے والی ہستیوں کے درمیان ہی قائم ہوتے ہیں، یعنی یہ تعلقات ان کے موجود ہونے کے بعد پیدا ہوتے ہیں، نہ کہ ان کے وجود میں آنے کی بنیاد یہی ربط ہوتا ہو۔
سوائے ایک قسم کے تعلق کے اور وہ ہے رابطۂ علیّت (سبب و مسبب کا تعلق)۔
اس کی وضاحت کچھ یوں ہےکہ "رابطوں کی اقسام، خواہ کتنی ہی زیادہ ہوں، بنیادی طور پر دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں
الف) وہ تعلقات جو دو چیزوں کے درمیان پائے جاتے ہیں مگر ان میں علیّت (سببیت) نہیں ہوتی۔ مثلا مصور اُس تختی سے جُڑا ہوتا ہے جس پر وہ تصویر بناتا ہے. لکھنے والا اُس قلم سے وابستہ ہوتا ہے جس سے وہ لکھتا ہے، مطالعہ کرنے والا اُس کتاب سے منسلک ہوتا ہے جسے وہ پڑھ رہا ہوتا ہے۔ شیر اُس لوہے کی زنجیر سے بندھا ہوتا ہے جو اُس کی گردن میں پڑی ہوتی ہے،وغیرہ وغیرہ - یعنی چیزوں کے درمیان جتنے بھی عام تعلقات اور ربط ہیں، وہ سب اسی نوع کے ہیں۔ لیکن ان تمام مثالوں میں ایک بات بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہے، اور وہ یہ کہ ان تمام ربط رکھنے والی چیزوں میں ہر ایک کا ایک الگ، مستقل وجود ہوتا ہے، جو دوسرے سے ربط پیدا ہونے سے پہلے موجود ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر تختی اور مصور دونوں کا اپنا اپنا وجود ہوتا ہے اس سے پہلے کہ عملِ مصوری شروع ہو، قلم اور لکھنے والا دونوں پہلے سے موجود ہوتے ہیں، اس کے بعد ان میں تعلق قائم ہوتا ہے، اسی طرح قاری اور کتاب بھی الگ الگ وجود رکھتے ہیں، اور بعد میں ان کے درمیان تعلق پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا، ان تمام مثالوں میں ربط ایک ایسا تعلق ہے جو دونوں اشیاء کے وجود میں آنے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔اسی لیے، یہ ربط اور ان اشیاء کا وجود دو الگ الگ چیزیں ہیں۔یعنی نہ تختی اپنی حقیقت میں مصور سے وابستگی ہے، اور نہ مصور کی حقیقت صرف تختی سے ربط ہے۔ بلکہ ربط ایک صفت ہے جو دونوں میں اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ پہلے سے خود بخود موجود ہوں۔
ب) وہ تعلق جو دو چیزوں کے درمیان علیّت (سبب و مسبب) کے رشتے پر مبنی ہوتا ہے، جیسے آگ اور جلنے کا تعلق۔ علیّت اپنی فطرت میں یہ تقاضا کرتی ہے کہ معلول (مثلاً جلنا) کی کوئی حقیقت، اپنی علت (یعنی آگ) سے جدا نہ ہو - اگر ہو، تو وہ معلول ہی نہ رہے۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معلول کا وجود بذاتِ خود کوئی مستقل حقیقت نہیں رکھتا، بلکہ اس کی پوری حقیقت علت سے اس کا تعلق اور وابستگی ہی ہے۔
یہی وہ بنیادی فرق ہے جو معلول اور اس کی علت کے تعلق کو دوسرے عام تعلقات سے جدا کرتا ہے، جیسے: تختی اور مصور کا تعلق، قلم اور لکھنے والے کا تعلق، یا کتاب اور پڑھنے والے کا تعلق۔ کیونکہ تختی، قلم، اور کتاب - یہ سب ایسی چیزیں ہیں جن میں ربط ایک اضافی صفت کے طور پر پیدا ہوتی ہے۔ یعنی یہ اشیاء پہلے سے موجود ہوتی ہیں، پھر ان میں تعلق قائم ہوتا ہے۔ جبکہ "جلنا" (الإحراق) ایسی شے نہیں ہے جس کا کوئی الگ وجود ہو اور پھر وہ آگ سے مربوط ہو۔ ایسا ماننے کا مطلب یہ ہوگا کہ "جلنا" ایک مستقل وجود رکھتا ہے، اور ربط اس پر بعد میں طاری ہوتا ہے-جیسے کہ مصور کے ہاتھ میں موجود تختی اور یہ تصور "جلنے" کو معلول کی حیثیت سے خارج کر دیتا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جلنا، آگ سے ربط ہی کا نام ہے ۔یعنی جلنے کا وجود خود ایک تعلقی وجود ہے، ایک "وابستہ وجود" ہے۔
اسی لیے اگر یہ ربط علت (آگ) سے منقطع ہو جائے، تو اس کا وجود بھی ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ اس کا پورا وجود اسی تعلق میں مضمر ہے۔ اس کے برعکس تختی کو دیکھیں۔ اگر وہ کسی خاص مصوری کے عمل میں شریک نہ بھی ہو، تو بھی اپنا الگ وجود رکھتی ہے، اور اسے زوال نہیں آتا۔ (فلسفتُنا، صفحہ 277)۔
مذکورہ گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ممکن الوجود اشیاء (یعنی وہ چیزیں جو ممکن الوجود ہیں) - ان کی حقیقت اور پہچان عین اسی تعلق اور وابستگی کا نام ہے جو ان کا واجب الوجود (اللہ تعالیٰ) کے ساتھ ہوتا ہے۔ یعنی ان کے معنی اور حقیقت، اللہ تعالیٰ سے ربط کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں - جیسا کہ صدرالدین شیرازی نے فرمایا ہے"الأسفار الأربعة" جلد 1، صفحہ 65۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ممکنات (تمام مخلوقات) کا وجود دراصل محض تعلق اور وابستگی ہے،جبکہ واجب الوجود (اللہ) کی حقیقت محض بےنیازی اور استقلال ہے۔ اسی لیے یہ سوال درست نہیں کہ یا یہ کہ"اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ "اسے وجود کس نے دیا؟ کیونکہ اللہ کا وجود عین اُس کی ذات ہے، اور جو چیز ذاتی ہو، اس کے لیے کوئی علت نہیں ہو سکتی کیونکہ ذاتی صفات کی کوئی علت نہیں ہوتی۔اس بات کو ایک سادہ مثال سے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ چائے کی مٹھاس کے بارے میں سوال درست ہے - کیونکہ چائے کی مٹھاس اس کی ذات سے نہیں، بلکہ شکر سے تعلق کی بنا پر ہے، لیکن شکر کی مٹھاس پر سوال درست نہیں - کیونکہ مٹھاس شکر کی عین ذات ہے، اس کی کوئی خارجی علت نہیں۔اسی طرح، اللہ تعالیٰ کا وجود خود اس کی ذات کا عین ہے، اس پر علت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا