26 ذو الحجة 1446 هـ   23 جون 2025 عيسوى 2:37 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-06-03   138

خالق کسی تشریح کا محتاج نہیں ہوتا۔

السيد علي العزام الحسيني

اہل ایمان کا نقطۂ نظر کائنات اور وجود کی واضح اور قابلِ فہم تعبیر پیش کرتا ہےجس کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ یہ منظم، حسین اور با مقصد کائنات ایک حکیم و علیم خالق کی تخلیق ہے، جس نے اسے بامقصد اور بہترین انداز میں بنایا۔ایک عظیم ہستی نے اسے ایجاد کیا ہے۔تاہم اس نظریے پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ نظریہ کائنات کے اسرار کو حل کرنے کے بجائے ایک راز کو دوسرے راز سے بدل دیتا ہے یعنی وجود کے سوال کا جواب دینے کے بجائے سوال ہی کو ایک اور رخ دے دیتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے کہا: "جب ہم خدا کو قوانینِ فطرت کے ماخذ کے سوال کے جواب میں لاتے ہیں تو ہم محض ایک معمہ کو دوسرے معمہ سے بدل دیتے ہیں"۔ اسی طرح ریچرڈ ڈاکنز کے مطابق: "ہم خدا کی تخلیق کے اس نظریے کو پیچیدہ تخلیق کی تشریح کے لیے استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ جو خدا کسی چیز کو ڈیزائن کرنے کی قدرت رکھتا ہو، وہ خود بھی ایک وضاحت کا محتاج ہوگا۔ (وهم الإله ، ص 111)۔

یہ لوگ (ایمانی تعبیر پر تنقید کرنے والے) یہ طعنہ دیتے ہیں کہ یہ تعبیر علم کے حصول کے منطقی اصول پر پوری نہیں اترتی کیونکہ علم کا حصول اس اصول پر مبنی ہوتا ہے کہ معلوم تصوری یا تصدیقی سے نامعلوم کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ مثال کے طور پرتصورات کے باب میں ضروری ہے کہ کسی چیز کی تعریف کرتے وقت جو چیز ذریعۂ تعریف (یعنی معرِّف) ہو وہ خود اس چیز (یعنی معرَّف) سے زیادہ واضح اور روشن ہو۔ یہ شرط نہایت منطقی اور قابل قبول ہے کیونکہ کسی مبہم شے کو اس جیسی ہی یا اس سے بھی زیادہ مبہم چیز کے ذریعے سمجھانا عقل کے خلاف ہے۔ یہی نکتہ عوامی زبان میں اس مثال کے ذریعے بیان کرتے ہیں: "پانی کی تعریف بڑی کوشش کے بعد پانی سے کرنا"۔ اس کے علاوہ اس سے بھی زیادہ مبہم چیز پر اعتماد کرنا تو اور بھی غلط ہےجیسے اگر ہم پانی کی تعریف "عنصر" کے طور پر کریں یا انسان کی تعریف "جوہر" سے کریں تو یہ تعریف واضح نہیں کہلا سکتی۔

اگر ہم اس کو منطقی مقدمات و نتائج کی زبان میں بیان کرنا چاہیں تو ہم اسے دو مقدمات اور ایک نتیجے کی شکل میں یوں ترتیب دے سکتے ہیں:

(1) خالق کا وجود کائنات سے زیادہ پیچیدہ ہے یا کم از کم اس کی طرح وضاحت کا محتاج ہے۔

(2) جو چیز خود زیادہ پیچیدہ ہو یا جس کی بھی مزید وضاحت درکار ہو، اس سے کسی شے کی وضاحت کےلئے بنیاد بنانا باطل ہے۔

لہٰذا، کائنات کی توضیح خالق کے ذریعے کرنا بھی باطل ہے۔

یہاں اصل بحث دوسرے مقدمہ پر مرکوز ہے کیونکہ یہ دلیل کا محور اور اس کی بنیاد ہے۔ تاہم پہلے مقدمہ کے بارے میں سوال کرنا ممکن ہے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم پہلے مقدمہ کو درست تسلیم بھی کر لیں تب بھی دوسرےمقدمہ کو عمومی طور پر علم و معرفت کے میدان میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر کوانٹم تھیوری (Quantum Theory) ہی کو دیکھ لیں جس کے بارے میں ایک معاصر سخت گیر ملحد (ریچرڈ ڈاوکنز) نے بھی اعتراف کیا کہ: "جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ کوانٹم تھیوری کو سمجھتا ہے وہ دراصل اسے نہیں سمجھتا" (ڈاوکنز، ص371)۔ بہرحال اس شکل کی ساخت کو مکمل تحلیل کرنا تین نکات کی طرف توجہ دینے کا متقاضی ہے، جنہیں آگے تفصیل سے بیان کیا جا سکتا ہے۔

پہلا نکتہ: نظریۂ "( كل شيء)" کے ذریعے جواب

خدا کے وجود پر یہ اعتراض کہ وہ ہر چیز کی توجیہ کرتا ہےمگر خود اس کی کوئی توجیہ موجود نہیں درحقیقت ایک بے بنیاد اعتراض ہے اور علمی اعتبار سے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اسے بہت آسانی سے رد کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً طبیعی علوم کی اعلی ترین غایت (كل شيء) (Theory of Everything) کی تلاش ہے۔ اس نظریہ کی اہمیت ہی اس میں ہے کہ وہ تمام چیزوں کی توضیح فراہم کرےجبکہ خود کسی توضیح کا محتاج نہ ہو۔ اس مقام پر علمی وضاحت کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے اور وضاحت در وضاحت کے لامتناہی تسلسل کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ (دیکھیے: وہمِ ڈاوکنز: الحاد کی بنیاد پرستی اور انکارِ خدا، ص28، ط: اسلامی مرکز برائے اسٹریٹیجک اسٹڈیز)

اسی ضمن میں لیسٹر ایڈگر مکگراتھ اس نظریے کی تشریح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ طبیعیات کا اعلی  مقصد ایک ماڈل پیش کرنا ہے جو مادے کی مکمل وضاحت کرے، کائناتی مظاہر کی جامع تشریح کرے اور چار بنیادی قوتوں(نظامِ کشش، برقی مقناطیسی قوت،اور کمزور و طاقتور نیوکلیائی قوت)کو یکجا کرے۔ اس نظریے کی کامیابی کو انسانی عقل کی عظیم فتح سمجھا جائے گا۔ اس کے لیے مختلف نظریات پیش کیے گئے جیسے "سٹرنگ تھیوری" اور "ایم تھیوری" وغیرہ جن کی تفصیل مختلف  مقامات پر موجود ہے۔ اس نظریہ پر سوالات کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے ویسے ہی خالقِ کائنات کے وجود پر بھی سوالات کی توجیہ رک جاتی ہےکیونکہ وہی کائنات اور اس کے تمام اسرار کی وضاحت فراہم کرتا ہے، جب کہ خود کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ حدیث میں وارد ہوا ہے:

مرحوم راوندی (م 573ھ) نے امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: "میرے والد نے روزِ عاشورا جب ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا، مجھے سینے سے لگایا اور فرمایا: بیٹا! ایک دعا یاد رکھنا جو مجھے  حضرت فاطمہؑ نے سکھائی، انہیں رسول خدا ﷺ نے سکھائی اور جبرائیل نے آنحضرتؐ کو سکھائی، جو شدید حاجت، مصیبت یا کرب کے وقت پڑھی جاتی ہے: (اس دعا میں ہے): اے وہ ذات جو سائلوں کی حاجتوں پر قادر ہے، اے وہ جو دلوں کے راز جانتا ہے، اے غمزدہ لوگوں کے غم دور کرنے والے، اے مصیبت زدوں کو کشادگی عطا کرنے والے، اے بوڑھوں پر رحم فرمانے والے، اے بچوں کو رزق دینے والے، اے وہ ذات جو کسی توضیح کی محتاج نہیں، محمدؐ و آل محمد پر درود بھیج، اور میرے ساتھ یہ اور یہ معاملہ فرما۔" (الدعوات، ص55، حدیث 137)

یہ روایت اگرچہ مرسل ہے یعنی اس کی سند مکمل نہیں مگر اس میں موجود فقرہ "وہ جو کسی توضیح کا محتاج نہیں" ایک منفرد اور نادر تعبیر ہے جس کی نظیر کسی اور روایت میں نہیں ملتی۔

کیوں خالق کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی؟

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہمارے اردگرد موجود ہر چیز کسی نہ کسی وضاحت و بیان کی محتاج ہے لیکن وضاحت کا یہ سلسلہ لامتناہی نہیں ہو سکتا۔ اسے کسی نہ کسی مقام پر رُکنا ہی ہوتا ہے۔ وضاحت کا یہ منطقی عمل بچپن میں ہی ہم میں جاگ اٹھتا ہے، جہاں بچے مسلسل "کیوں؟" پوچھتے رہتے ہیں اور والدین کی برداشت کا امتحان لیتے ہیں۔ پیٹر لپٹن کہتے ہیں: مجھے وہ لمحہ خوب یاد ہے جب مجھے احساس ہوا کہ میری ماں جتنے بھی جوابات دے، میں ہر جواب پر دوبارہ "کیوں؟" پوچھ سکتا ہوں یہاں تک کہ یا تو ان کے جوابات ختم ہو جائیں یا ان کا صبر۔ اہم بات یہ ہے کہ کسی چیز کی وضاحت ضرور ہو سکتی ہے، چاہے ہم اس وضاحت کو مکمل طور پر نہ سمجھ سکیں۔ مثلاً: قحط سالی فصل کی کمی کو واضح کرتی ہے، چاہے ہمیں قحط کی مکمل وجوہات معلوم نہ ہوں۔ اسی طرح اگر کوئی دوست شدید سردرد کی وجہ سے تقریب میں نہ آ سکے تو ہم اس عذر کو سمجھ سکتے ہیں، چاہے ہمیں اس سردرد کی اصل وجہ نہ معلوم ہو۔ اسی طرح "بگ بینگ" نظریہ کائناتی شعاعوں کی وضاحت کرتا ہے، چاہے خود "بگ بینگ" کی تفصیل ابھی واضح نہ ہو۔ اس سارے عمل میں سوال "کیوں؟" دو اہم حقیقتیں آشکار کرتا ہے: ایک یہ کہ وضاحتیں ایک زنجیر کی صورت میں جُڑی ہوتی ہیں اور دوسرا یہ کہ جو چیز کسی اور کی وضاحت کرتی ہےاسے خود وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اسی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ "خالق" جو کہ ہر ممکن وجود کی وضاحت ہے اُس کے لیے وضاحت مانگنا دراصل Category Mistake (قِسمی مغالطہ) ہے۔ جیسا کہ وِلیم جیمز ایرل کہتے ہیں: "قِسمی مغالطہ یہ ہوتا ہے کہ ہم مختلف النوع چیزوں کو ایک ہی زمرے میں شمار کر کے ان میں غیر منطقی نسبت قائم کر دیں جیسے یہ کہنا کہ اعداد سرخ ہوتی ہیں یا  فضائل موٹی ہوتی ہیں یا کوئی بات کھانے کے قابل نہیں۔" (معاصر فلسفی لغت، کتاب: فلسفہ کا مقدمہ، ص 376)

دوسرا نکتہ"ھل" اور "ما" کا مغالطہ:

پچھلے اعتراض میں ایک اہم منطقی مغالطہ پایا جاتا ہےجس کی وضاحت کے لیے ہمیں منطق کے اصولوں کا جائزہ لینا ہوگا، خاص طور پر سوالات کی اقسام کے حوالے سے تفصیل کو جاننا ہو گا۔ منطق میں تین بنیادی الفاظ سولات کے لیے استعمال ہوتے ہیں: ما (کیا ہے؟)، هل (کیا؟) اور لماذا (کیوں؟)۔ ان تینوں میں نمایاں فرق ہے۔ جب کسی چیز کے بارے میں "ما" سے سوال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد اس کی حقیقت، تعریف یا تصور معلوم کرنا ہوتا ہے جیسے: "ما القرآن؟" یعنی قرآن کیا ہے؟ جواب ہوگا: اللہ کی وہ کتاب جو رسول اسلام پر نازل ہوئی۔ لیکن "هل" کا سوال کسی چیز کے وجود یا عدمِ وجود کے بارے میں ہوتا ہےجیسے: "هل للقرآن وجود؟" یعنی کیا قرآن کا وجود ہے؟ جبکہ "لماذا" (کیوں) سے مراد کسی چیز کے ہونے کی غایت یا علت معلوم کرنا ہوتا ہے۔

یہاں ہمیں "ما" اور "هل" کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ "ما" معرفت اور تصور سے متعلق ہےیعنی ہم کسی شے کا تصور یا عمومی تعریف جاننے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ "هل" وجودی سوال ہے جس کا تعلق اس شے کے خارجی وجود سے ہے۔

خالق چونکہ مرکب وجود نہیں ہےلہٰذا اس کی ماہیت کے اجزاء کے بارے میں سوال نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم خالق کا ایک عمومی تصور سب کے ذہن میں موجود ہے، چاہے وہ مؤمن ہوں یا ملحد اس سے فرق نہیں پڑتا۔ رچرڈ ڈاکنز بھی کہتا ہے: "اللہ ایک ایسی ہستی کا نام ہے جو ماورائے فطرت عالم سے تعلق رکھتی ہے۔" لہٰذا سوال صرف یہ ہونا چاہیے: "کیا خدا کا وجود ہے یا نہیں؟" نہ یہ کہ اس کی حقیقت کیا ہے کیونکہ اس کا ایک تصور بہرحال موجود ہے۔ اگر یہ عمومی تصور نہ ہوتا تو کوئی بھی خدا کے وجود پر سوال نہ اٹھا سکتا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کیا یہ ممکن ہے کہ کسی چیز کا ایک عمومی تصور موجود ہو اور اس کے وجود پر یقین بھی ہو لیکن اس کی حقیقت نامعلوم ہو؟ تو جواب ہے: بالکل، ایسا ممکن ہے۔ مثال کے طور پر: ہمیں "انسان" کا عمومی تصور معلوم ہےاور ہم اس کے خارجی وجود کو مانتے ہیں لیکن اس کی اصل حقیقت یعنی اس کی روح یا نفس کیا ہے؟ یہ سوال آج بھی قائم ہے۔ جسمانی تبدیلیوں کے باوجود انسان خود کو "میں" کہتا ہے، جو اس کی اصل ہے۔

ایسا ہی معاملہ "ڈارک میٹر" یعنی تاریک مادہ کا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو روشنی کو منعکس نہیں کرتی، دکھائی نہیں دیتی، لیکن سائنسی شواہد اس کے وجود پر دلالت کرتے ہیں۔ یہ کائنات کا 90% سے زیادہ حصہ ہے اور کششِ ثقل جیسے مظاہر کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ لیکن آج تک کوئی سائنسدان نہیں جانتا کہ یہ کس چیز سے بنی ہے۔ پھر بھی ہم اس کے وجود کو مانتے ہیں کیونکہ شواہد اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اگر سائنس میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں کسی شے کی حقیقت واضح نہ ہو لیکن وجود تسلیم کیا جائے تو خدا کے معاملے میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ پس یہ کہنا کہ خالق کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کی حقیقت معلوم نہیں دراصل ایک غلط قیاس اور منطقی مغالطہ ہے۔

تیسرا نکتہ"وجود" سب سے زیادہ پہچان والی بدیہی حقیقت

تیسرا نکتہ ایک مختلف قسم کی فلسفیانہ بحث پر مشتمل ہےجو پچھلے نکات سے ہٹ کر ایک نیا زاویۂ نظر پیش کرتا ہے۔ اس بحث کی بنیاد وحدتِ وجود کے تشکیکی نظریہ پرہے۔ جسے بعض متکلمین اور فلاسفہ خاص طور پر صدر الدین شیرازی اور ان کے پیروکار یعنی حکمتِ متعالیہ کے علما نے پیش کیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ نظریہ دینی عقائد سے متصادم نہیں بلکہ بعض کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اس نظریے پر ایمان لانا ضروری ہے کیونکہ یہی وہ بنیاد ہے جس پر الٰہیاتی (خدا شناسی) علوم کے اکثر اصول قائم ہیں (ملاحظہ ہو: مبادئ الإيمان، ص50) اس کے بغیر توحید کی حقیقت درست طور پر سمجھ میں نہیں آتی، نہ ہی علت و معلول یا خالق و مخلوق کے درمیان تعلق کا نظام قائم رہ سکتا ہے (الفردوس الأعلى، ص255)۔

اس نظریہ کا خلاصہ یہ ہے کہ وجود چاہے وہ خارج میں ہو یا ذہن میں ہو ایک ہی حقیقت رکھتا ہے اور اس کا مفہوم سب کے لیے ایک ہی ہے۔ البتہ خارج میں اس حقیقت کے مصادیق (نمونے) شدت و ضعف، ظہور و خفاء کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان مصادیق میں سب سے اعلیٰ اور کامل مصداق واجب الوجود ہے، یعنی اللہ تعالیٰ، جس کا وجود بذاتِ خود ہے اور جو ہر چیز کی علت ہے۔ جبکہ دوسرے مصادیق ممکنات ہیں یعنی وہ چیزیں جن کا وجود اللہ پر موقوف ہے۔ اگرچہ ان دونوں مصادیق (اللہ اور ممکنات) میں فرق ہےلیکن ان کے درمیان اشتراکِ مفہومی ہے یعنی "وجود" کا مفہوم ان دونوں پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔

اس نظریے کے حامی وجود کو تین اقسام میں تقسیم کرتے ہیں:

نور (جو خالص وجود کی علامت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ)

ظلّ (جو عدم و وجود کا مرکب ہے، یعنی مخلوقات)

ظلمت (جو خالص عدم ہے اور جس کی نہ کوئی حقیقت ہے اور  نہ  کوئی اثر)۔

ان کے مطابق خالص وجود (یعنی اللہ) نہایت سادہ، غیر مرکب اور ماورائے ماہیت ہے؛ جبکہ مخلوقات مرکب ہیں، ان کا وجود اللہ کی طرف سے ہے اور ان کا "عدم" ان کے ذاتی نقص یا فقر کی علامت ہے۔ چنانچہ ہر ممکن الوجود ایک ایسا مرکب ہے جس کی حقیقت میں وجود (اللہ سے حاصل) اور عدم (اس کی اپنی طرف سے) شامل ہیں، جیسا کہ کاشانی نے فرمایا:

"ہر ممکن موجود دو پہلوؤں کا مرکب ہے: ایک وجودی پہلو جو اللہ کی طرف سے ہے اور دوسرا عدمی پہلو جو اس کی اپنی طرف سے ہے۔" (أصول المعارف، ص10)

چونکہ "وجود" اللہ کی ذاتی صفت ہے اس لیے اس فلسفہ کی بنیاد پر اس اعتراض کا جواب نہایت واضح ہو جاتا ہے۔ اس مکتب کے علما اس نظریہ کو بعض بنیادی اصولوں پر قائم کرتے ہیں، جن میں سے ایک ہے "اشتراکِ معنوی فی الوجود" یعنی "وجود" کا مفہوم سب کے لیے مشترک اور ایک ہی ہے۔ مزید یہ کہ "وجود" کا مفہوم نہایت بدیہی، واضح اور سب سے زیادہ جانا پہچانا ہےجو کسی تعریف یا تشریح کا محتاج نہیں۔

ملا ہادی سبزواری نے اپنی منظومہ میں فرمایا:"إنّ الوجودَ أَوضحُ الأَشیاءِ۔۔۔فی الذّهنِ لا یحتاجُ للأَناءِ"

یعنی "وجود سب سے زیادہ واضح چیز ہے۔۔۔ اور ذہن میں اس کے تصور کے لیے کسی دلیل یا واسطے کی حاجت نہیں۔

پھر وہ (ملا ہادی سبزواری) اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ وجود کو کسی دوسرے نام یا تعریف سے بیان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ہر تشریح و تعریف کا پہلا مبدأ (ابتدائی اساس) ہے، اس لیے خود اس کی کوئی تشریح ممکن نہیں۔ اس کی صورت (تصور) بلا کسی واسطہ کے انسان کے ذہن میں قائم ہو جاتی ہے کیونکہ جس چیز کے ذریعے کسی مفہوم کی تعریف کی جائے وہ خود اُس مفہوم سےزیادہ واضح ہونی چاہیےاور وجود سے زیادہ واضح کوئی چیز نہیں ہے۔ لہٰذا وجود کا مفہوم ان سب سے زیادہ معروف اور واضح مفاہیم میں سے ہے۔یہ بات مفہوم کے حوالے سے ہے۔رہی بات وجود کی حقیقت اور اس کی اصل حقیقت کی یعنی وہ خالص نوری حقیقت جس کی ذات کا خاصہ یہ ہے کہ وہ عدم سے مکمل طور پر پاک ہے اور تمام اثرات و آثار کا منبع ہے تو وہ حقیقت انتہائے خفا (انتہائی پوشیدگی) اور غموض (پیچیدگی) کی حامل ہے۔اسی بنا پر ملا ہادی سبزواری نے اپنے اس شعر کے ذریعے ان دونوں اقوال کے درمیان تطبیق و جمع کیا:ایک طرف وہ لوگ جو کہتے ہیں: "وجود بدیہی ہے" یعنی اس کا مفہوم۔دوسری طرف وہ لوگ جو کہتے ہیں: "وجود کو تصور میں لایا ہی نہیں جا سکتا" یعنی اس کی حقیقت اور کنہ کے اعتبار سے ہے۔(ماخذ: شرح المنظومة، جلد 2، ص 60، تصحیح: حسن زادہ آملی)

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018