

قرآن کریم میں موجودات کا سجدہ اور تسبیح کا کیا مطلب ہے؟
شيخ مقداد الربيعي
قرآنِ کریم کی بعض پیچیدہ اور غور طلب آیات کے فہم کے ضمن میں ، ہم ایک مختصر مطالعے کے ذریعے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مخلوقاتِ عالم — جن میں جمادات، نباتات اور حیوانات شامل ہیں — کا اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرنا، تسبیح بیان کرنا اور قنوت اختیار کرنا درحقیقت کیا مفہوم رکھتا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ)، الرعد: 15، وقوله تعالى: (تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا)، الأسراء: 44. وقوله ايضاً: (يَسْأَلُهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ..)، الرحمن: 29. وقوله: (وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ)، الروم: 26.
اور آسمانوں اور زمین میں بسنے والے سب بشوق یا بزور اور ان کے سائے بھی صبح و شام اللہ ہی کے لیے سر بسجود ہیں۔(الرعد:15) ۔ ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں جو موجودات ہیں سب اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی ثناء میں تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو، اللہ یقینا نہایت بردبار، معاف کرنے والا ہے۔ (الاسراء: 44)۔ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) اسی سے مانگتے ہیں، وہ ہر روز ایک (نئی) کرشمہ سازی میں ہے۔( الرحمٰن: 29)۔ اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اسی کا ہے اور سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔ (الروم:26)
ان قرآنی بیانات کو سمجھنے کی اصل بنیاد وہ اصول ہے جسے علامہ طباطبائیؒ نے اپنی تفسیر المیزان میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان کے نزدیک الفاظ محض ظاہری حرکات یا اشکال کے لیے نہیں، بلکہ ان کے پیچھے مخفی مقاصد اور حقیقی معنوں کو ادا کرنے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ جب کسی فعل میں وہ مقصد پوری طرح موجود ہو، تو چاہے وہ ظاہری شکل اختیار نہ کرے، تب بھی وہ لفظ اس پر صادق آتا ہے۔ سجدہ بھی دراصل ایک ایسی ہی کیفیت ہے، جس میں اصل چیز زمین پر پیشانی رکھنے کا جسمانی عمل نہیں، بلکہ بندے کا خالق کے حضور دل کی گہرائی سے جھک جانا، عاجزی اور نیازمندی کا اظہار ہے۔ یہی حقیقت دوسرے معنوی افعال مثلاً رکوع، قنوت اور تسبیح میں بھی کارفرما ہے۔علامہ طباطبائیؒ کی رائے کے مطابق، معاشرتی افعال جو کسی روحانی یا باطنی مقصد کے اظہار کے لیے انجام دیے جاتے ہیں، جیسے قیادت کے لیے صدر نشینی، سرداری کے لیے پیش قدمی، انکساری کے لیے رکوع، یا بندگی اور پستی کے اظہار کے لیے سجدہ — یہ سب افعال اپنی باطنی غایت کے لحاظ سے وہی نام پا لیتے ہیں جو ان کی ظاہری صورتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ یعنی اگر کوئی شخص حقیقی طور پر دل سے جھکا ہوا ہو تو اسے ساجد کہا جا سکتا ہے، چاہے اس نے زمین پر پیشانی نہ رکھی ہو۔ ان افعال کی اصل پہچان ان کا باطنی مفہوم ہے، نہ کہ محض ان کی جسمانی ادائیگی۔ اسی اصول کی روشنی میں قرآن غیر جاندار اشیاء کے سجدے اور تسبیح کو ایک حقیقی مظہر کے طور پر بیان کرتا ہے، کیونکہ ان میں اللہ کے حکم کے سامنے مکمل اطاعت، نیاز مندی اور محتاجی کا وہی مفہوم پایا جاتا ہے، جو انسان اپنے ظاہری افعال کے ذریعے ادا کرتا ہے۔
قرآنِ کریم نے بھی یہی زاویۂ فکر اختیار کیا ہے، جب وہ سجدہ، قنوت، تسبیح، حمد اور سوال جیسے افعال کی نسبت مختلف اشیاء کی طرف دیتا ہے، کیونکہ مقصود ان افعال کی حقیقت ہے، نہ کہ صرف ان کی ظاہری صورت۔ (المیزان، ج11، ص320)
قرآن میں سجدے کی حقیقت
سجدہ محض پیشانی زمین پر رکھنے کا عمل نہیں، بلکہ اس کا مفہوم اس سے کہیں زیادہ دقیق ہے۔ قرآن کی نظر میں سجدہ دراصل دل کی گہرائی سے اللہ کی عظمت کے آگے جھکنے، عاجزی، فروتنی اور بندگی کے باطنی احساس کا نام ہے۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس فہم کے مطابق، جمادات کا سجدہ انسان کے سجدے کے مقابلے میں مفہومِ سجدہ سے زیادہ قریب تر ہے۔ کائنات کی دیگر مخلوقات اور انسانوں کا سجدہ بنیادی طور پر ایک دوسرے سے مختلف نوعیت کا ہے۔پہلے درجے میں، یعنی کائناتی مخلوقات کا سجدہ، حقیقی معنی میں "سجدہ" ہوتا ہے ، یعنی کامل اطاعت اور اللہ کے حکم کے سامنے مکمل تسلیم و رضا۔ یہ اس لیے کہ وہ صرف اللہ کے تکوینی (یعنی قدرتی اور غیر اختیاری) حکم کی تابع ہوتی ہیں اور اس کے علاوہ کسی اور کی اطاعت ممکن ہی نہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔(ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ)( فصلت: 11)
پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا پھر آسمان اور زمین سے کہا: دونوں آ جاؤ خواہ خوشی سے یا کراہت سے، ان دونوں نے کہا: ہم بخوشی آ گئے۔ (فصلت:11)
جبکہ دوسرے درجے میں، یعنی انسان کے سجدے میں، مفہومِ سجدہ اعتباری اور سماجی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی کائناتی اشیاء کا اللہ کے سامنے جھکنا اور عاجزی اختیار کرنا حقیقت پر مبنی ہوتا ہے، جب کہ انسان کا زمین پر جھکنا یا پیشانی رکھنا محض ایک علامتی فعل ہو سکتا ہے، جو ہر وقت خلوص اور عاجزی کے جذبے سے معمور نہیں ہوتا۔
موجودات کی تسبیح کا مفہوم
جہاں تک موجودات کی تسبیح کا تعلق ہے، تو اس سے مراد ہر وہ اظہار ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہر نقص، کمی، اور شرک سے پاک اور منزّہ قرار دیتا ہے۔یہ تسبیح محض آواز یا الفاظ کے ذریعہ نہیں ہوتی، جیسا کہ انسانوں میں رائج ہے، بلکہ درحقیقت "کلام" اس اظہار کا نام ہے جو کسی شے کے اندرونی ارادے یا حالت کو ظاہر کرے ، چاہے وہ اظہار الفاظ کی صورت میں ہو، اشارے سے ہو، الہام یا وحی کے ذریعے ہو، یا کسی اور طریقے سے۔ علامہ طباطبائیؒ اس بارے میں فرماتے ہیں:"تسبیح دراصل زبان سے کی جانے والی تنزیہ (یعنی اللہ کو پاک قرار دینا) ہے، اور 'کلام' کی حقیقت یہ ہے کہ دل میں موجود بات کو کسی وسیلے سے ظاہر کیا جائے۔ چونکہ انسان اپنی ہر بات کو تخلیقی (یعنی فطری یا غیر زبانی) انداز میں بیان نہیں کر سکتا، اس لیے وہ مخصوص آوازوں (یعنی الفاظ) کا سہارا لیتا ہے جنہیں معانی سے جوڑ دیا گیا ہے۔ اسی طرح، انسان اپنے مقاصد کو ہاتھ، سر، تحریر یا کسی علامت کے ذریعے بھی ظاہر کرتا ہے۔"
لہٰذا موجوداتِ عالم کی تسبیح کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی فطری حالت اور وجود کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی عظمت، وحدانیت اور پاکیزگی کا اعلان کرتی ہیں ، خواہ وہ اظہار ہمیں سنائی دے یا نہ دے۔ ہر مخلوق اپنی تخلیق، حرکت، اور ترتیب کے ذریعے ایک خاموش مگر گہرا پیغام دیتی ہے کہ اس کا خالق نہایت باحکمت، قادر اور پاک ذات ہے۔اگر کوئی چیز کسی معنی یا پیغام کو آشکار کرتی ہے، تو وہ اس کی طرف سے "قول" یا "کلام" شمار ہوتی ہے، چاہے وہ آواز یا الفاظ کی شکل میں نہ ہو۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی طرف قول، کلام، امر اور وحی کی نسبت کی گئی ہے، حالانکہ یہ انسانی زبان یا آواز میں نہیں ہوتے۔ مگر چونکہ ان کے ذریعے کوئی مفہوم یا ارادہ ظاہر کیا جاتا ہے، اس لیے انہیں "کلام" کہا گیا ہے۔ (المیزان فی تفسیر القرآن، جلد 13، صفحہ 113)
اسی مفہوم کے تحت تمام موجودات اپنے رب کی تسبیح کرتی ہیں، کیونکہ وہ اپنے وجود کے ہر پہلو میں اس کی مکمل محتاج ہیں۔ ان کا ہونا، قائم رہنا، اور اپنی فطری راہ پر چلنا ، سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ارادے اور حکم سے وابستہ ہے۔جو شخص اس حقیقت کو سمجھ لیتا ہے کہ کائنات کی ہر شے اللہ کی محتاج ہے، وہ لازماً یہ بھی تسلیم کرے گا کہ اللہ ہر طرح کے شریک، نقص اور کمی سے پاک ہے۔چنانچہ اسی فطری احتیاج اور وابستگی کے ذریعے موجودات، شعوری یا غیر شعوری طور پر، اللہ کی تسبیح کر رہی ہوتی ہیں۔
آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ اگر کسی شخص پر اشیاء کی اصل حقیقت ظاہر ہو جائے، اور وہ دل کی آنکھ سے ان کی باطنی کیفیت کو دیکھنے لگے، تو وہ یہ مشاہدہ کرے گا کہ ہر چیز اپنے وجود میں اللہ تعالیٰ کی شدید محتاج ہے - یعنی وہ لمحہ بہ لمحہ اللہ کے وجودی فیض سے قائم ہے۔یہ محتاجی اور وابستگی، اس کے لیے ایک"تسبیح"کی شکل میں ظاہر ہوگی۔ یعنی وہ محسوس کرے گا کہ ہر شے اپنی حالت اور فطرت کے ذریعے زبانِ حال سے پکار رہی ہے: "ہم اللہ کے محتاج ہیں، ہم اسی کے حکم سے قائم ہیں!یہ کیفیت ایسی ہوگی جیسے خواب میں کوئی باطنی حقیقت ظاہری شکل اختیار کر لیتی ہے۔ مثال کے طور پر: حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب میں سورج، چاند اور گیارہ ستارے دیکھے، جو دراصل ان کے والدین اور بھائیوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔
اسی طرح اشیاء کی یہ محتاجی، صاحبِ بصیرت کے لیے "لفظی تسبیح" کی صورت میں محسوس ہونے لگتی ہے — گویا وہ ان کے ذریعے اللہ کی حمد و ثنا کو سن رہا ہو۔واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اشیاء کے باطن کا انکشاف ان علمی تصورات کے ساتھ ہوتا ہے جو انسان کے شعور میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں۔ یعنی جب کسی شخص پر کسی شے کا باطنی پہلو ظاہر ہوتا ہے، تو وہ اس کے اپنے ذہن میں موجود خیالات، شباہتوںاور تصورات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
اسی وجہ سے بعض اوقات آخرت کی حقیقتیں یا غیبی مناظر دنیاوی اشکال میں دکھائی دیتے ہیں — جیسے خواب میں کوئی حقیقت کسی اور صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر کشف (باطنی انکشاف) صرف اُس شخص کے لیے حجت (دلیل) ہوتا ہے جس پر یہ انکشاف ہوا ہو، کیونکہ، کشف میں جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ تعبیر اور تشریح کا محتاج ہوتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ صاحبِ کشف اس تعبیر میں غلطی کر بیٹھے، کیونکہ وہ علم ظاہری الفاظ یا براہِ راست معلومات کی صورت میں نہیں آتا، بلکہ "اشارات" اور "تصورات" میں آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شریعت کی بنیاد مکاشفے پر نہیں، بلکہ وحی پر رکھی گئی ہے، کیونکہ وحی واضح، محفوظ اور سب کے لیے مشترک پیغام ہوتا ہے، جب کہ کشف ایک انفرادی تجربہ ہے، جو کبھی درست ہوتا ہے اور کبھی اس کی تعبیر میں غلطی ہو سکتی ہے۔
اسی مفہوم کی روشنی میں اُن احادیث کو سمجھا جا سکتا ہے جن میں بعض صحابہؓ نے دیکھا کہ کنکریاں رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں تسبیح کر رہی تھیں۔درحقیقت، نبی کریم ﷺ نے ان کی بصیرت کی آنکھ کھول دی، جس کے نتیجے میں وہ کنکریوں کی اللہ تعالیٰ کی طرف وجودی محتاجی کو محسوس کر سکے۔یہ محتاجی اُنہیں حسّی شکل میں یوں دکھائی دی جیسے کنکریاں زبان سے تسبیح کر رہی ہوں - حالانکہ یہ تسبیح اصل میں ان کے فطری حال کی ترجمان تھی۔اسی مفہوم کو ہم اُس حدیث سے بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں جسے العقیلی نے الضعفاء میں، اور ابو الشیخ و دیلمی نے حضرت انسؓ سے روایت کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تمام جانوروں، زمین پر رینگنے والی مخلوقات، چیونٹیوں، پسوؤں، ٹڈیوں، گھوڑوں، خچروں اور چوپایوں کی زندگیاں تسبیح سے وابستہ ہوتی ہیں۔ جب ان کی تسبیح ختم ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی روح قبض کر لیتا ہے، اور ان میں سے کسی کے لیے ملک الموت کو بھیجنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔"
یہ تعبیر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ تسبیح محض زبان سے نہیں، بلکہ وجود کے ساتھ ہوتی ہے۔ ہر مخلوق کا زندہ ہونا، متحرک ہونا، اور اپنی فطری راہ پر چلنا ہی دراصل تسبیح ہے۔اور جب یہ وجودی تسبیح ختم ہو جاتی ہے، تو وہ مخلوق بھی دنیا سے اٹھا لی جاتی ہے — نہ کہ کسی سزاآمیز فیصلے کے تحت، بلکہ اس لیے کہ اس کی وجودی غرض پوری ہو چکی ہوتی ہے۔
خطیب بغدادی نے ابو حمزہ سے روایت کیا: "ہم امام علی بن الحسینؑ کے ساتھ تھے کہ اچانک ہمارے سامنے کچھ چڑیاں چہچہا نے لگیں۔ امام نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ چڑیاں کیا کہہ رہی ہیں؟ ہم نے کہا: نہیں۔تو امامؑ نے فرمایا: میں یہ نہیں کہتا کہ میں غیب جانتا ہوں، لیکن میں نے اپنے والد (امام حسینؑ) سے سنا، اور انہوں نے حضرت علیؑ امیرالمؤمنین سے سنا کہ چڑیاں صبح کے وقت اپنے رب کی تسبیح کرتی ہیں اور اپنے دن کے رزق کا سوال کرتی ہیں۔"غور کریں کہ امام نے چڑیوں کی "تسبیح" کو ان کے فطری (تکوینی) انداز میں اللہ تعالیٰ سے رزق طلب کرنے کے عمل سے تعبیر فرمایا۔
لفظی تسبیح کا جو ذکر بعض مکاشفوں میں آتا ہے، وہ درحقیقت اسی باطنی حقیقت کا ایک ظاہری مشاہدہ ہوتا ہے - یعنی باطن کی محتاجی ایک خواب یا کشف میں الفاظ یا آواز کی صورت میں ظاہر ہو جاتی ہے، جیسے کوئی حقیقت مجازی شکل میں خواب میں دکھائی دیتی ہے۔