11 ذو القعدة 1446 هـ   9 مئی 2025 عيسوى 10:01 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-04-25   99

رچرڈ ڈاکنز کے نزدیک الحاد کے پانچ مضبوط ترین اسباب اور ان کی وجوہات

علي العزّام الحسيني

ایک مختصر ویڈیو کلپ، (جس کا عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے) اس میں موجودہ دور کے مشہور ملحد، برطانوی ماہرِ حیاتیات رچرڈ ڈاکنز (R. Dawkins) کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ: "خدا کے وجود نہ ہونے کے پانچ وجوہات ہیں"۔اس ویڈیو کی انٹرنیٹ پر بہت تشہیر ہوئی ہے اور یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی خوب پھیل گئی۔ چنانچہ ہم نے یہ مناسب سمجھا کہ اس موضوع پر ایک مختصر مضمون میں گفتگو کی جائے۔چنانچہ ذیل میں وہ پانچ وجوہات پیش کی جا رہی ہیں جن کا ویڈیو میں ذکر کیا گیا اور ان کے ساتھ ہی ان پر مختصر تبصرہ بھی کیا گیا ہے۔

1۔ ڈاکنز اپنی بات کا آغاز ان الفاظ سے کرتا ہے کہ، وجود ِ خدا کے نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ خدا کے وجود کے حق میں کوئی دلیل موجود نہیں۔"میری رائے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ موصوف ایک منطقی مغالطے کا شکار ہیں جسے "جہالت پر مبنی استدلال"کہا جاتا ہے، یعنی وہ دلیل کے فقدان کو ہی دلیل بنا رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے بارے میں لاعلمی صرف لاعلمی پر دلالت کرتی ہے، نہ کہ اس شے کے عدمِ وجود پر۔

ہمارے پاس ایک ایسا ثبوت بھی موجود ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ڈاکنز خود بھی اس مغالطے سے باخبر ہیں۔چنانچہ جو شخص ایک طرف تو خدا کے وجود نہ ہونے کی پانچ وجوہات پیش کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف وہی شخص آسٹریلوی کارڈینل جارج پیل کے ساتھ مناظرے میں یہ اعتراف کرتا ہے:آپ کو ایسا کوئی سائنس دان نہیں ملے گا، خواہ اس کا فکری رجحان کچھ بھی ہو، جو یہ ثابت کر سکے کہ کوئی چیز (مثلاً خدا) وجود نہیں رکھتی۔ میں خود بھی یہ ثابت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا کہ خدا کا وجود نہیں ہے۔(ملاحظہ ہو حوارات سدنی، ص 27)

ایک اور پہلو سے بھی بات قابلِ غور ہے کہ کسی بھی چیز کی نفی یا اثبات کے دعوے کےلیے دلیل و برہان پیش کرنا ضروری ہوتا ہے، اس میں لاادریت (Agnosticism) کا موقف بھی مستثنیٰ نہیں۔ جیسا کہ برطانوی فلسفی انتھونی کینی کہتے ہیں:"یہ ظاہر کرنا کہ آپ جانتے ہیں، اس سے زیادہ محنت طلب ہے کہ آپ یہ کہیں کہ آپ نہیں جانتے۔"یہ بات لاادریت کو بھی مغالطے سے نہیں بچاتی۔ مثال کے طور پر، امتحان میں شریک ہونے والا طالب علم کسی سوال کا جواب نہ دے سکنے کو تو جواز بنا سکتا ہے، لیکن اس جواز سے وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی امتحان پاس کر سکتا ہے۔(ملاحظہ ہو کتاب "هناك إله"، ص 75)

2۔ڈاکنز مزید کہتا ہے: "ڈیزائن (یعنی تخلیق) کا وہ استدلال جو کہتا ہے کہ چیزیں—جیسے کیلا، سیب، انسان، کنگرو وغیرہ—ایسے نظر آتے ہیں کہ گویا انہیں بہت خوبصورتی سے ڈیزائن کیا گیا ہو، دراصل وہ اس لیے ایسے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ وہ ڈارون کے قدرتی انتخاب کے عمل کا نتیجہ ہیں۔"یہ بات سب کو معلوم ہے کہ خود چارلس ڈارون نے بھی اس مسئلے کو اس انداز میں نہیں دیکھا کہ یہ دو متضاد راستے ہیں، یا تو ایک خالق و مصمم کو مانا جائے یا ارتقاء کے نظریے کو۔

جب ڈاکنز سے اس نکتے کا ذکر کارڈینل جارج پیل نے مناظرے کے دوران کیا تو اس نے فوراً انکار کیا اور کہا: "یہ درست نہیں!"لیکن جب کارڈینل نے ڈارون کی سوانح حیات سے اس بات کا حوالہ پیش کیا، تو ڈاکنز خاموش ہو گیا اور ایک لفظ بھی نہ بول سکا۔(ملاحظہ ہو: مناظرے کی ویڈیو، منٹ 29، عنوان: "کیا مذہب پر ایمان دنیا کو بہتر جگہ بناتا ہے؟)

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ ویڈیو کلپ کتاب ’حوارات سدنی میں درج نہیں، اور جب ہم نے مترجم سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے وضاحت کی کہ اس نے مناظرے کو ڈاکنز کی ویب سائٹ پر شائع شدہ ترمیم شدہ متن سے ترجمہ کیا ہے، نہ کہ اصل ویڈیو سے!اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہاں ایک بڑا خلطِ مبحث پایا جاتا ہے .قدرت جس طریقے سے کام کرتی ہے (یعنی اس کی "آلہ کاری") اور اس آلہ کاری کے پیچھے کارفرما "فاعل"کے درمیان فرق کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔طبیعیاتی (سائنس) علوم کا کام صرف قریب ترین مادی اسباب کا مطالعہ کرنا ہے، یعنی وہ ان سوالات کا جواب دیتے ہیں: "یہ چیز کیسے کام کرتی ہے؟"لیکن ان علوم کا دائرہ کار ان بعید اور مقصدی (غائی) اسباب تک نہیں پہنچتا جو یہ سوال اٹھاتے ہیں"یہ سب کس نے کیا؟ اور کیوں کیا؟"چنانچہ یہ تصور کہ خدا کا تصور اور حیاتیاتی ارتقاء کا نظریہ ایک دوسرے کو باطل کر دیتے ہیں، درحقیقت یہ ماننا ہے کہ خدا اور ارتقاء دونوں ایک ہی زمرۂ تشریح میں آتے ہیں—جو کہ سراسر غلط ہے۔یہ ایک واضح "درجہ بندی کی غلطی ہے۔ارتقاء کا نظریہ صرف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ایک حیاتیاتی آلہ (mechanism) ہے،جبکہ خدا پر ایمان رکھنے والے اسے ایسا خالق و فاعل مانتے ہیں جو ان آلہ جات کو ڈیزائن کرتا اور وجود میں لاتا ہے۔

اسی نکتے کو جان لینوکس نہایت خوبصورتی سے یوں واضح کرتے ہیں:"فورڈ کار کے کام کرنے کے طریقہ کار کو سمجھ لینا بذاتِ خود اس بات کی دلیل نہیں کہ مسٹر فورڈ کا کوئی وجود ہی نہیں!یعنی کسی آلہ کے کام کرنے کا علم، اس کے بنانے والے کے انکار کی دلیل نہیں بن سکتا۔"

3۔ پھر ڈاکنز مزید کہتا ہے:

"بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں خدا سے متعلق کوئی ذاتی یا روحانی تجربہ حاصل ہوا ہے۔ لیکن ہم بخوبی جانتے ہیں کہ انسانوں کا دھوکا کھا جانا، ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہونا، اور خیالات میں کسی چیز کو حقیقت سمجھ لینا کس قدر آسان ہے۔"اس مقام پر رچرڈ ڈاکنز مکمل طور پر غلط نہیں ہے، کیونکہ اسے اور اس جیسے دوسرے لوگوں کو یہ پورا حق حاصل ہے کہ وہ مومنین کے ذاتی روحانی تجربات کو بطور دلیل قبول نہ کریں۔یہ تجربات بہرحال انفرادی نوعیت کے ہوتے ہیں، جو دوسروں تک نقل نہیں کیے جاسکتے، اور بعض خاص افراد تک محدود ہوتے ہیں، اس لیے لازم نہیں کہ دوسرے انہیں مانیں ۔تاہم، اس کے باوجود ہمیں یہ بات عاجزی اور انکساری کے ساتھ تسلیم کرنی چاہیے کہ ایسے تجربات کو قطعی جھوٹ یا باطل قرار دینا، اور ان کی سچائی کا انکار کر دینا کوئی معمولی بات نہیں۔کیونکہ ایسا انکار تو وہی شخص کر سکتا ہے جو ہر چیز کا کامل علم رکھتا ہو!

4۔ڈاکنز اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے:

"پہلے سبب (First Cause) کا استدلال خود کو ہی باطل کر دیتا ہے، کیونکہ اگر تم فرض کرو کہ خدا ہی پہلا سبب ہے، تو تمہیں ایک بڑی مشکل درپیش ہو گی: تم یہ کیسے سمجھاؤ گے کہ خود خدا کہاں سے آیا؟"اس سوال "کہ خو د خدا کہاں سے آیا؟" کے جواب میں ہم کہیں گے کہ خدا کسی دوسرے خدا نے پیدا نہیں کیا، بلکہ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ ایک خدا کو کسی اور نے پیدا کیا، اور پھر اس سے بھی پہلے ایک اور خدا تھا—تو یہ سلسلہ ایک ایسے خدا پر جا کر ختم ہو گا جو خالق ہے مگر مخلوق نہیں، جو سبب ہے مگر مسبَّب نہیں، جو موجود ہے مگر اس کا وجود کسی اور پر موقوف نہیں۔

یعنی ہم ایک ایسے واجب الوجود پر پہنچیں گے:جو خودبخود موجود ہے،جس کا وجود اس کی اپنی ذات کا عین ہے،اور جس کے وجود کو کسی اور علت یا سبب کی ضرورت نہیں۔جبکہ ہر وہ چیز جو کسی اور کے سبب سے موجود ہو، آخرکار ایسی ہستی تک جا پہنچتی ہے جو بذاتِ خود ہے، نہ کہ بوسیلہ غیر۔یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ طبیعیاتی علوم کی اعلیٰ ترین غایت یہ ہے کہ وہ"نظریۂ کُل"تک پہنچیں—یعنی ایسی ایک جامع و واحد تھیوری جو ہر چیز کی وضاحت کر سکے،اور یہ نظریہ اس لیے اتنا اہم ہے کہ وہ خود کسی مزید وضاحت کا محتاج نہیں ہوتا۔پس یہیں پر سائنسی توضیح کا سلسلہ رک جاتا ہے، اور لامتناہی وضاحتوں کے تسلسل کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی(کتاب "الأصولية الملحدة وإنكار الإله"، ص 28)

5۔ موجودہ دور کے الحاد کا نمائندہ اپنی بات کا اختتام ان الفاظ پر کرتا ہے:"پاسکل کی شرط جو یہ کہتی ہے کہ تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم خدا کے وجود پر ایمان رکھو، کیونکہ اگر تم نے ایسا نہ کیا توتم جہنم میں جا سکتے ہو—یہ ایک بے وقعت دلیل ہے، کیونکہ یہ فرض کرتی ہے کہ تمہیں پہلے سے معلوم ہے کہ کون سا خدا اصل میں سچا خدا ہے۔"

یہ بات واقعی نہایت عجیب ہے!اس وقت گفتگو خالقِ کائنات کے بارے میں ہو رہی ہے، جو تمام موجودات کا ازلی و ابدی مبدأ ہے،مگر الحاد کا علمبردار اچانک یہ بحث چھیڑ دیتا ہے کہ "کون سا خدا سچا ہے، اور یوں وہ سامع کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ مذاہب اور عقائد میں خدا کے مختلف ناموں اور صفات کا ہونا، لازمی طور پر کئی مختلف خداؤں کے وجود پر دلالت کرتا ہے!حالانکہ پاسکل کی شرط کا مقصد کسی خاص مذہبی تصور کو ترجیح دینا ہرگز نہیں تھا،بلکہ اس کا نکتہ صرف یہ تھا کہ:اگر تم ایمان نہیں لاتے اور خدا واقعی موجود نکلا تو تم ہمیشہ کی ہلاکت سے دوچار ہو سکتے ہو، جبکہ اگر تم ایمان لے آتے ہو اور بالفرض خدا کا وجود نہ بھی ہو،تب بھی آخرت میں کوئی خسارہ نہیں۔یعنی یہ دلیل خالصتاً عقلی و عملی نوعیت کی ہے، نہ کہ وجودِ خدا پر کوئی مابعدالطبیعیاتی یا مذہبی استدلال۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018