

امام مہدی ؑ کے بارے میں احادیث کا ظاہری اور باطنی معنی
الشيخ معتصم السيد أحمد
امام مہدی (علیہ السلام) کا موضوع ان اہم عقائدی موضوعات میں سے ہے جو عمومی طور پر مسلمانوں اور خاص طور پر شیعوں میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ عقیدہ الہی نجات دہندے اور زمین پر مکمل عدل کے قیام کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے سائنسی اور تکنیکی ترقی ہوئی اس عقیدے سے متعلق مفاہیم کو موجودہ دور کے مطابق سمجھنے کا سوال بھی اٹھا ہے ۔ یعنی کیا ان کی جدید تعبیر ممکن ہے؟ سوال یہ ہے کہ آیا امام مہدی (علیہ السلام) سے متعلق جو روایات وارد ہوئی ہیں، کیا ان کی ایسی تشریح کی جا سکتی ہے جو سائنسی ترقی سے ہم آہنگ ہو؟ یا ہمیں ان نصوص کے ظاہری معانی کو بغیر کسی تاویل کے قبول کرنا چاہیے؟
مثلا اگر ہم امام مہدی (علیہ السلام) سے متعلق کچھ روایات پر نظر ڈالیں تو ہمیں ان میں ایسی باتیں ملتی ہیں جو روایتی فہم کے مطابق جدید سائنسی معلومات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ جیسے ان کا تلوار سے جنگ کرنا، ان کے ساتھیوں کا بادلوں کے ذریعے سفر کرنایا وہ آواز (صیحہ) جو پوری دنیا کے لوگ اپنی اپنی زبانوں میں سنیں گے۔ عصرحاضر میں ان مفاہیم کی عصری (جدید دور کے مطابق) تشریح سامنے آتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان روایات کی ایسی تعبیر ممکن ہے جو زمانے کی ترقی اور جدید سائنسی فہم سے ہم آہنگ ہو۔
مثلا جب امام مہدی (علیہ السلام) کے تلوار سے جنگ کرنے کا ذکر آتا ہے تو ہم اس بیان کو عمومی جنگ و جدال کے طور پر بھی سمجھ سکتے ہیں جو کسی بھی قسم کے جدید ہتھیاروں سے ہو سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ اس سےمراد وہی روایتی تلوار ہو جو زمانۂ وحی میں عام ہتھیار تھی۔ اس وقت چونکہ تلوار ہی جنگ کا بنیادی ذریعہ تھی اس لیے اس کا ذکر ہوا تھا۔ وقت کے ساتھ ہتھیاروں میں بے پناہ ترقی ہوئی ہے اس لیے ممکن ہے کہ یہاں تلوارکا ذکر مجازی ہوا ہو اور اس سے مراد ہر قسم کے آتشین، روایتی، جدیدسمارٹ ہتھیار اور جنگی طیاروں جیسے جدید ذرائع ہوں۔ اس خیال کی روشنی میں امام مہدی (علیہ السلام) کا تلوار سے جنگ کرنا محض ایک علامتی بات ہو سکتی ہے جو عام جنگی جدوجہد کی طرف اشارہ کرتی ہے نہ کہ صرف تلوار سے مخصوص ہے۔
اسی طرح "صیحہ" (بلند آواز) کے بارے میں بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے جسے پوری دنیا کے لوگ سنیں گے اس کی تشریح بھی اس انداز میں کی جا سکتی ہے کہ وہ جدید ذرائع ابلاغ پر مبنی ہو، جیسے سیٹلائٹ، انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلز وغیرہ۔ آج یہ ٹیکنالوجیز اس قابل ہو چکی ہیں کہ چند لمحوں میں دنیا بھر میں کوئی بھی خبر یا پیغام پہنچا سکتی ہیں۔ ان ذرائع کے ذریعے امام مہدی (علیہ السلام) سے متعلق واقعہ یا اعلان پوری دنیا تک ایک ہی وقت میں پہنچ سکتا ہےاور ہر شخص اسے اپنی زبان میں سن اور سمجھ سکتا ہے۔ لہٰذا ممکن ہے کہ یہاں صیحہ (بلند آواز) کا ذکر ایک علامتی انداز ہو جس سے مراد یہ ہو کہ امام مہدی (علیہ السلام) کی آمد کی خبر پوری دنیا میں فوراً پھیل جائے گی اور یہ جدید مواصلاتی نظاموں کی صلاحیت کے عین مطابق ہے جو آج واقعی زمین کے ہر کونے تک فوری رسائی رکھتے ہیں۔
اسی طرح امام مہدی (علیہ السلام) کے انصار (مددگاروں) کے بادلوں کے ذریعے سفرکو بھی جدید تشریح کے تحت دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس سے مراد جدید فضائی ذرائع آمد و رفت جیسے ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر وغیرہ ہیں۔ اس مفہوم کو مزید وسعت دی جائے تو جیٹ طیاروں کے ذریعے بین الاقوامی پروازوں تک بھی لے جایا جا سکتا ہےجو چند گھنٹوں میں براعظموں کا سفر طے کر لیتے ہیں۔ اس طرح امام کے ساتھیوں کی تیز رفتار نقل و حرکت کے متعلق جو روایات ہیں ان میں ایک جدید پہلو شامل ہو جاتا ہے۔ ماضی میں جب لوگ یہ سنتے تھے کہ امام اور ان کے ساتھی بادلوں میں سفر کریں گے تو وہ اسے ایک معجزہ یا غیر معمولی امر سمجھتے تھے۔ لیکن آج کے دور میں ہوائی سفر عام ہو چکا ہےاس لیے ممکن ہے کہ ان روایات میں بادل سے مراد فضائی سفر ہی ہو۔
یہ تاویلات (تشریحات) عقل کی بنیاد پر کیے اجتہاد کے دائرے میں قابلِ قبول ہو سکتی ہیں کیونکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ روایات نے اپنے زمانے کے لوگوں کے لیے قابلِ فہم الفاظ استعمال کیے لیکن ان کے مفاہیم وسیع ہو سکتے ہیں جو مستقبل کی ترقی کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوں۔ ایسی تشریحات بہرحال گمان اور قیاس کے دائرے میں آتی ہیں۔ ہم ان کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ممکن ہے یہ تشریحات درست ہوں اور ممکن ہے یہ مکمل طور پر درست نہ ہوں۔ یہی بات اس موضوع پر بحث و گفتگو کی گنجائش پیدا کرتی ہے کہ کیا اس قسم کی تعبیرات شرعی طور پر جائز ہیں اور کہاں تک قابلِ قبول مانی جا سکتی ہیں؟
نصوص کے ظاہری معنی سے تمسک کرنا
دوسری طرف کچھ محققین اور علما کی رائے یہ ہے کہ روایاتِ مهدویت کو سمجھنے کے لیے صرف تاویل (باطنی یا جدید مفہوم تلاش کرنا) ہی واحد راستہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ بعض اوقات نصوص کے ظاہری معنی کو اختیار کرنا ہی زیادہ مناسب اور اس غیبی مسئلے کو سمجھنے سے زیادہ ہم آہنگ ہوتا ہے۔ امام مہدی (علیہ السلام) کا معاملہ صرف تاریخی یا سماجی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا غیبی امر ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم کا حصہ ہے۔ اس لیے انسان اسے ہمیشہ عقلی یا سائنسی پیمانوں سے نہیں سمجھ سکتاکیونکہ وہ محدود ہوتے ہیں اور ہر غیبی حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ اسی لیے عقیدۂ مہدی (علیہ السلام) کو سمجھنے میں ایمان بالغیب ایک بنیادی عنصر ہےاور اس کی روشنی میں انسان کو صرف عقل کے ذریعے ان معاملات کو پرکھنے کا پابند نہیں بنایا جا سکتا۔
مثلا جب ہم وہ روایات پڑھتے ہیں جن میں امام مہدیؑ کے تلوار سے جنگ کرنے کا ذکر ہےتو یہ ممکن ہے کہ یہ جنگ واقعی حقیقی ہونہ کہ صرف ایک علامتی یا تمثیلی بات ہو۔ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں کہ یہ بیان حقیقت پر مبنی نہ ہو اور واقعتا پیش نہ آئے۔ یہ اس بات سے متصادم نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی عظیم قدرت سے غیرمعمولی معجزات دکھانے پر قادر ہے۔اس حوالے سے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ معجزانہ طور پر ایسی صورت حال پیدا کرے کہ جدید اور ترقی یافتہ ہتھیاروں کا اثر ختم کر دے جنہیں آج کی افواج استعمال کرتی ہیں اور یوں جنگ ایک بار پھر ان روایتی ہتھیاروں (جیسے تلوار) کی طرف لوٹ آئے جو نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں استعمال ہوتے تھے۔یہ نظریہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جدید دور کے ہتھیاروں کے اثر کو زائل کرنے پر بھی قادر ہے جس کے نتیجے میں تلوار ایک حقیقی اور مؤثر ہتھیار بن جاتی ہےعلامتی ہتھیار نہیں رہتی۔
اسی طرح جو الصيحة (آواز) تمام اہلِ زمین سنیں گے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں ہمیں یہ ماننے کی ضرورت نہیں کہ وہ آواز میڈیا، جدید ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ یا سوشل میڈیا جیسے ذرائع کے ذریعے سنی جائے گی۔ یہ صدا ایک خدائی معجزہ ہو سکتی ہے جو بغیر کسی انسانی یا تکنیکی ذریعے کے پوری دنیا کے ہر فرد تک پہنچے۔یہ صدا ایک ایسی الٰہی نشانی ہو سکتی ہے جو ٹیکنالوجی کی تمام حدود سے ماورا ہو اور ہر شخص تک اس کی اپنی زبان میں پہنچے۔ یہ اس بات کا مظہر ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے براہِ راست بات کرنے کی مکمل قدرت حاصل ہے اور اس میں کسی زمانے کی سائنسی ترقی یا جدید ذرائعِ ابلاغ کی ضرورت نہیں ہے۔
جہاں تک امام مہدیؑ کے انصار کا بادلوں کے ذریعے سفر کرنے کا تعلق ہے تو اس میں بھی کوئی بعید یا ناممکن بات نہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک غیرمعمولی معجزہ ہو سکتا ہےجس میں قوتوں کو ایک الٰہی مقصد کے لیے مسخر کر دیا جائے۔علامہ راوندی نے اپنی کتاب الخرائج والجرائح (جلد ۲، صفحہ ۹۳۰) میں امام محمد باقرؑ سے روایت نقل کی ہے:"ذوالقرنین ایک نیک اور صالح بندےتھے، انہوں نے اللہ تعالیٰ سے وفاداری کی اور اللہ نے اُن کے لیے سحاب (بادل) کو مسخر کر دیا، زمین ان کے لیے لپیٹ دی گئی اور اُنہیں روشنی میں وسعت عطا ہوئی یہاں تک کہ وہ رات کو ایسے دیکھتے تھے جیسے دن کو دیکھتے ہیں۔"امام باقرؑ فرماتے ہیں کہ:"حق کے تمام اماموں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بادل کو مسخر کیا تھاجو انہیں مشرق و مغرب لے جاتاتاکہ مسلمانوں کی بھلائی اور ان کے باہمی معاملات کی اصلاح ہو سکے۔"اسی بنیاد پر امام مہدیؑ کے بارے میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔ اسی لیے انہیں "صاحب المرأى والمسمع" (دور سے دیکھنے اور سننے والے) کہا جاتا ہے۔ ان کے پاس ایسا نور ہوگا جس سے وہ دور کی چیزوں کو ویسے ہی دیکھیں گے جیسے قریب کی چیزوں کو دیکھتے ہیں اور دور کی آوازیں بھی اسی طرح سن سکیں گے جیسے قریب کی سنتے ہیں۔امام مہدیؑ پوری دنیا میں سفر کریں گے: کبھی بادلوں کے ذریعے، کبھی ہوا کے ذریعے اور کبھی زمین ان کے لیے لپیٹی جائے گی۔ وہ مشرق و مغرب میں لوگوں اور علاقوں سے بلاؤں کو دور کریں گے۔یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ قدرتی مظاہر کو بھی اپنے الٰہی مقاصد کے لیے مسخر کر سکتا ہے۔ جب اللہ نے یہ معجزات اپنے پہلے نبیوں اور اولیاء کے لیے ظاہر کیے تو امام مہدیؑ کے لیے ان کا دوبارہ ظہور کیوں ناممکن ہو؟
پس بادل اور ہوا کو مسخر کرنا کوئی ایسا مفہوم نہیں جو عقیدے کے دائرے سے باہر ہو بلکہ یہ تصور اللہ تعالیٰ کی مطلق قدرت پر ایمان کے مجموعی فہم سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر پوری طرح قادر ہے کہ وہ ان قدرتی مظاہر کو اپنے الٰہی مقاصد کے لیے اس انداز میں استعمال کرے جو انسانی عقل کی حدود سے ماورا ہو۔یہ غیرمعمولی طاقتیں ان معجزات کا حصہ ہیں جو امام مہدیؑ کے زمانے میں ظہور پذیر ہو سکتی ہیں۔
تاویل اور یقین کے درمیان:متوازن نقطۂ نظر
امام مہدیؑ سے متعلق تصورات کو جدید سائنسی ترقی کے مطابق ڈھالنے والوں اور ان لوگوں کے درمیان واضح فرق پایا جاتا ہے جو ان نصوص کے ظاہر پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے غیبی پہلو کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ایک متوازن موقف یہ ہے کہ تاویل کی گنجائش کو مخصوص شرائط کے تحت تسلیم کیا جائےلیکن ان تاویلات کو یقینی حقیقت یا حتمی سچائی کے طور پر قبول نہ کیا جائے اور نہ ہی دوسروں پر ان کی قبولیت لازم ٹھہرائی جائے۔
اس میں کوئی مشکل نہیں ہے کہ انسان اپنے زمانے کی معلومات اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دینی نصوص کو سمجھنے کی کوشش کرے لیکن یہ کوشش یقین کے درجے میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ امکانات کے دائرے میں رہنی چاہیے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اگر کوئی شخص دینی نصوص کے ظاہر پر قائم رہتا ہے اور ان کی کوئی تاویل (تشریح) نہیں کرتاتو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ترقی کا دشمن ہے یا صرف پرانی روایتوں سے چمٹا ہوا ہے بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کی قدرت پر ایمان رکھتا ہوجو انسان کے عقلی معیار کے مطابق ناممکن لگنے والی چیزوں کو بھی ممکن بنا سکتا ہے۔
خاتمہ:
مہدویت کا مسئلہ ان موضوعات میں سے ہے جن کا تعلق غیب سے ہے اور انہیں مکمل طور پر انسانی عقل کے ذریعے سمجھنا ممکن نہیں۔ اسی لیے اگر ہم اس موضوع کو جدید سائنسی یا فکری بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کریں تو وہ صرف اندازوں اور گمان کی حد تک ہو سکتا ہے یقینی اور قطعی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے۔یہ ممکن ہے کہ بعض روایات علامتی انداز میں ہوں جو ٹیکنالوجی کی ترقی سے ہم آہنگ مفاہیم کی طرف اشارہ کرتی ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ روایات لفظاً پوری ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت غیر معمولی اور لامحدود ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم امام مہدیؑ کے ظہور پر ایمان رکھیں کیونکہ یہ ایک یقینی اور قطعی حقیقت ہےجو اللہ کی مشیت سے ضرور واقع ہوگی۔ہم اس کی تمام تفصیلات کو سمجھیں یا نہ سمجھ سکیں یہ ضروری نہیں ہے۔