23 ذو الحجة 1446 هـ   20 جون 2025 عيسوى 7:06 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-04-06   231

عقیدہ یا اعتقادات:عقائد کے تنوع کو ہم کیسے سمجھیں؟

شیخ معتصم سید احمد

انسانوں کے درمیان اختلاف ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں، خصوصاً جب بات مذہبی اعتقادات کی ہو۔ عقائد کا یہ تنوع انسانی فکر کے مختلف انداز کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ اختلافات متعدد عوامل کی بنیاد پر جنم لیتے ہیں، جیسے ماحول، ثقافت، وراثت، اور سماجی، اقتصادی و سیاسی حالات۔ اگر ہم تاریخِ مذاہب و مسالک کا مطالعہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام عوامل مختلف ادوار میں عقائد کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں

ظاہری طور پر جب ہم عقائد کا جائزہ لیتے ہیں تو ان میں تنوع دکھائی دیتا ہے، کیونکہ بظاہر نظریات مختلف نظر آتے ہیں۔ تاہم، اس تنوع کے باوجود عقیدے کا جوہر ایک ہی ہوتا ہے۔ کچھ حقائق ایسے ہیں جو ثابت اور مستقل رہتے ہیں، جیسے اللہ کا وجود، آخرت، نبوت، اور آسمانی کتابوں پر ایمان۔ یہ بنیادی عقائد نہ تو انسانی خواہشات کے تابع ہوتے ہیں اور نہ ہی سماجی تبدیلیوں کے زیرِ اثر بدلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور رسل کی بعثت انسانوں کی ہدایت کے لیے ناگزیر تھی، تاکہ وہ صحیح عقیدہ کی طرف رہنمائی حاصل کر سکیں۔ اگرچہ انسانی عقل میں استدلال کی صلاحیت موجود ہے، لیکن یہ عقل اکثر ذاتی خواہشات یا خارجی عوامل سے متاثر ہو کر اصل حقیقت سے منحرف ہو سکتی ہے

عقیدہ میں اختلاف کے اسباب

اسلام انسانیت کی رہنمائی کے لیے آیا تاکہ انسانوں کو حق و حقیقت کی طرف لے جائے اور وہ گمراہی و انحراف سے محفوظ رہ سکیں۔ اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ ایمان کا حصول عقل، دلیل اور برہان کے ذریعے ہونا چاہیے۔ صحیح عقیدہ کبھی اندھی تقلید یا محض روایات کی پیروی کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایسے علم پر مبنی ہوتا ہے جو قطعی اور واضح دلائل سے ثابت ہو۔ قرآنِ کریم کی بے شمار آیات میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ ایمان، ظن (گمان) یا اندھی تقلید کی بنیاد پر نہیں آنا چاہیے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ) (النساء: 157)

اور جن لوگوں نے اس میں اختلاف کیا وہ اس میں شک میں مبتلا ہیں۔

دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے : (وَمَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍۖإِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّۖوَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا" (النجم: 28)۔

حالانکہ انہیں اس کا کچھ بھی علم نہیں ہے وہ تو صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اور گمان تو حق (تک) پہنچنے کے لیے کچھ کام نہیں دیتا۔

ظن  کے ساتھ ساتھ، سماجی تقلید بھی ان اہم اسباب میں سے ایک ہے جو انسان کو صحیح عقیدہ تک پہنچنے سے روکتی ہے۔ سماجی تربیت (یا نشوونما) افراد کو بغیر تحقیق بعض اعتقادات کی طرف مائل کرتی ہے، جس کے نتیجے میں انسان موروثی تصورات کو بغیر کسی تنقیدی جائزے کے اپنا لیتا ہے۔ وہ نہ تو ان کی صحت کو پرکھتا ہے، اور نہ ہی یہ دیکھتا ہے کہ آیا وہ عقل و فطرتِ سلیم سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں۔ قرآن کریم نے بھی اس رویے کی نشاندہی ان الفاظ میں کی ہے

(وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ" (البقرة: 170)۔

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آبا و اجداد کو پایا ہے، خواہ ان کے آبا و اجداد نے نہ کچھ عقل سے کام لیا ہو اور نہ ہدایت حاصل کی ہو۔

سماجی تقلید فکری جمود کی ایک قسم کو جنم دیتا ہے، جہاں انسان اپنے عقائد کی سچائی کو پرکھنے کے قابل نہیں رہتا، بلکہ وہ صرف اپنے خاندان اور معاشرے سے حاصل شدہ خیالات پر اکتفا کرتا ہے

اس کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اور سماجی بیماریاں انحرافی عقائد کے بننے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ تکبر اور خودپسندی حق کو تسلیم کرنے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں کیونکہ جب انسان اپنے آپ کو بہتر سمجھنے لگے اور یہ مانے کہ اسے سچائی کی تلاش کی ضرورت نہیں ہے تو وہ ہدایت کے دروازے بند کر لیتا ہے۔ یہی کچھ قوم عاد کے ساتھ ہوا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:

 (فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً )(فصلت: 15)

مگر عاد نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور کہا: ہم سے بڑھ کر طاقتور کون ہے ؟ ۔

خود پر غرور اوراپنی طاقت پر فخر کرنا انسان کو اپنے عقائد سے چمٹے رہنے پر مجبور کر دیتا ہے، چاہے وہ عقائد غلط ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ وہ یہ تسلیم نہیں کرنا چاہتا کہ کوئی چیز اس سے اعلیٰ ہے یا اس کا راستہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح ہٹ دھرمی اور عقلی دلائل کو سننے سے انکار بھی گمراہی پر قائم رہنے کا سبب بنتا ہے چاہے دلائل واضح اور مضبوط ہی کیوں نہ ہوں۔ جب انسان اپنے خیال پر اڑا رہتا ہے تو وہ صحیح سوچنے کی صلاحیتوں کو معطل کر دیتا ہے، اور یہی بات قرآن مجید میں قوم نوح کے بارے میں ذکر کی گئی ہے، جو اپنے نبی کی دعوت کو سننے سے بچنے کے لیے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال کر اپنے جسم کو کپڑے سے ڈھانپ لیتے تھےجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا" (نوح: 7)

اور میں نے جب بھی انہیں بلایا تاکہ تو ان کی مغفرت کرے تو انہوں نے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے (منہ) ڈھانک لیے اور اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انحراف درست عقیدہ میں دلائل کی کمی کی وجہ سے نہیں تھابلکہ یہ ضد اور تکبر میں تھے جس کی وجہ سے وہ حقیقت کو سننے تک کو تیار نہ تھے۔

ذاتی مفادات بھی عقائد کی تبدیلی میں اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ انسان کبھی کبھار ایک خاص عقیدہ کو اس لیے اپناتا ہے کہ وہ اس کے ذاتی مفادات پر پورا اترتا ہے یا اسے معاشرتی یا مادی فوائد فراہم کرتا ہے۔ یہی ہم کچھ قوموں کے رہنماؤں کے برتاؤ میں دیکھتے ہیں جنہوں نے انبیاء کی دعوت کو رد کیا۔ نہ اس لیے کہ وہ حقیقت سے بے خبر نہ تھے بلکہ انہوں نے حق کو قبول نہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حق کو قبول کرنے سے ان کا اقتدار اور اثر و رسوخ ختم ہو جائے گا۔ اس لیے قرآن میں ہے کہ بعض کافر حق کو اس طرح جانتے تھے جیسے وہ اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں، لیکن انہوں نے اسے صرف اس وجہ سے انکار کیا کہ وہ ان کی خواہشات اور مفادات کے خلاف تھا۔

اس لئےعقیدہ میں اختلاف دلیل کی کمی یا حقیقت کے غموض کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ یہ مختلف نفسیاتی، سماجی اور ماحولیاتی عوامل کا نتیجہ ہوتا ہے جو انسان کے سوچنے کے طریقے پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اسے صحیح عقیدہ تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔ اگر انسان رسم و رواج، خواہشات اور ذاتی مفادات کی پابندیوں سے آزاد ہو کر انصاف اور خلوص کے ساتھ اپنے دماغ کو استعمال کرے تو عقیدہ میں کوئی اختلاف نہیں ہوگا بلکہ سب لوگ اسلام کے روشن حق کو پہچان لیں گے۔

عقل کے ذریعے حقیقت کی پہچان

چونکہ صحیح عقیدہ ایک ثابت شدہ  حقیقت کا بیان ہوتا ہے، اس لیے اسلام نے عقل کو اس تک پہنچنے کا اہم وسیلہ قرار دیا ہے اور انسان کو برہان اور دلیل کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ قرآن میں 49 بار عقل کے استعمال کی دعوت دی گئی ہے قرآن کی مختلف آیات میں "لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ"، "أَفَلَا تَعْقِلُونَ"، "إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ" کو استعمال کیا گیا ہے

یہ تمام اشارات واضح طور پر بتاتے ہیں کہ سچا ایمان صرف شعور اور سمجھ بوجھ کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔اسی وجہ سے، علما ء اسلام نے عقیدے میں تقلید (اندھی پیروی) کو حرام قرار دیا ہے، اور اس بات پر زور دیا ہے کہ ایمان ایسی عقلی قناعت پر مبنی ہونا چاہیے جو قطعی دلائل سے ثابت ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ" (البقرة: 111)

یہ ان کی محض آرزوئیں ہیں، کہہ دیجئے: اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو۔ یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ عقیدہ صرف واضح دلیل پر مبنی ہونا

اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عقیدہ وہ ہونا چاہیے جو کسی واضح دلیل پر مبنی ہو محض خواہشات یا مفروضات پر عقیدہ کی بنیاد نہیں ہونی چاہیے۔

ظاہری تنوع اور مگر ایک حقیقت

اگرچہ عقیدہ کی حقیقت ایک ہی ہےمگر عقائد میں تنوع ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔یہ تنوع نفسیاتی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی عوامل کی بنا پر ہوتا ہے۔ ہر انسان ایک خاص ماحول میں پیدا ہوتا ہے جو اس کے ذہن اور حقیقت کو سمجھنے کے طریقے کو متاثر کرتا ہے جس کی وجہ سے مختلف اعتقادات اپنائے جاتے ہیں۔ یہ تنوع انسانوں پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ایک متنوع معاشرے میں ہم آہنگی سے رہیں کیونکہ کوئی بھی فرد یا گروہ اپنی سوچ کو دوسروں پر طاقت کے ذریعے مسلط نہیں کر سکتا۔ تنوع کے ساتھ معاملات کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بات چیت اور تفہیم کو بنیادی اصول کے طور پر اپنایا جائے۔ اب  اس پر سوال اٹھتا ہے: ہم اس تنوع کے ساتھ کس طرح نمٹیں گے؟

پہلا قدم یہ ہے کہ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ عقیدہ ایک ذاتی مسئلہ ہے اور ہر انسان کو اپنی مرضی سے حقیقت تک پہنچنے اور اپنی استعداد کے مطابق اسے اپنانے کا حق حاصل ہے۔ قرآن مجید نے اس اصول کو واضح طور پر بیان کیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:

" لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ" (البقرة: 256)۔

دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انبیاء ؑ نے بھی لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کیا بلکہ وہ انہیں حکمت اور خوش اخلاقی سے دعوت دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے: (أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنْتُمْ لَهَا كَارِهُونَ ) (هود: 28)۔کیا ہم تمہیں اس پر مجبور کر سکتے ہیں جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو؟

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کبھی بھی زبردستی حاصل نہیں ہو سکتابلکہ یہ انسان کی ذاتی قناعت اور شعور پر مبنی ہونا چاہیے۔

دوسرا قدم یہ ہے کہ ہمیں عقیدہ کو ایک مطلق حقیقت سمجھنے اور عقائد کے تنوع کے ساتھ امن سے رہنے کی ضرورت میں فرق کرنا چاہیے۔ انسانی معاشرے افراد پر مشتمل ہوتے ہیں جو اپنے خیالات اور رجحانات میں مختلف ہوتے ہیں اور عقیدہ کو طاقت کے ذریعے مسلط کرنے سے صرف مزید تقسیم اور تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیے اسلام نے مختلف مذاہب اور مسالک کے درمیان امن و سکون کے ساتھ رہنے کا اصول قائم کیا۔ اسلام نے عقیدہ کے تنوع کو حقیقت کے طور پر تسلیم کیا اور ایسی حدود وضع کیں جو ہر ایک کے حقوق کا احترام کرتی ہیں، ساتھ ہی دعوت کو حکمت اور خوش اخلاقی سے پیش کرنے کی ہدایت کی۔

تیسرا قدم یہ ہے کہ عقیدہ کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے علمی اور منطقی بنیادوں پر مبنی گفتگو کی جانی چاہیے بے نتیجہ بحثوں میں جو جذبات یا عصبیتوں پر مبنی ہوں اجتناب کرنا چاہیے۔ جب اسلام نے مخالفین کا سامنا کیا تو اس نے ان سے انہیں عقل و دلیل کے ساتھ بات کرنے کی دعوت دی اور یہی انسانوں قریب لانے کا بہترین طریقہ ہے۔ قرآن نے بار بار عقل اور تفکر کی دعوت دی اور عقائد کے مسائل میں عقل کو حاکم قرار دیاتاکہ انسان جذباتی ردعمل یا تعصبات سے پرہیز کرے۔ علم اور منطق پر مبنی گفتگو ہی وہ کامیاب طریقہ ہے جس کے ذریعے حقیقت کو واضح کیا جا سکتا ہے اور صحیح نتائج تک پہنچا جا سکتا ہے۔اس طریقہ پر عمل سے اختلاف یا تنازعہ پیدا نہیں ہوتا۔

خاتمہ

اعتقادی تنوع کے ساتھ اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ عقیدہ ہرفرد کا ذاتی مسئلہ ہے، ہر فرد کے اس حق کا احترام ضروری ہے کہ وہ سچائی کی تلاش کرے۔ تاہم، اس کے ساتھ یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ درست عقیدہ ایک ہی ہوتا ہے، اور اختلافات کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ جب انسان اپنی عقل کو خواہشات اور بیرونی اثرات سے بلند کر لیتا ہے، تو وہ اسی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے جس تک انبیاء اور اللہ کے برگزیدہ بندے پہنچے تھے۔اسی لیے، حل اس میں ہے کہ عقلی سوچ کو فروغ دیا جائے، شبہات سے دور رہیں، اور ایسے فکری مکالمے قائم کیے جائیں جوتعصب اور فکری تنگ نظری سے دُور ہو کر انسانیت کو ہدایت کے نور کی طرف لے جائیں ۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018