

اسلامی وحدت: مسلکی تنوع کے تقاضے اور عصرِ حاضر کے چیلنجز
تحریر: الشيخ معتصم السيد أحمد
عصرِ حاضر میں اسلامی وحدت امتِ مسلمہ کو درپیش سب سے اہم چیلنجوں میں سے ایک ہے، جہاں سیاسی اور سماجی مسائل مذہبی تنوع کے ساتھ گہرے طور پر جُڑے ہوئے ہیں۔ یہ تنوع، بظاہر وحدت کی راہ میں رکاوٹ محسوس ہوتا ہے، لیکن اگر اسے وسیع النظر اور دقیق انداز میں سمجھا جائے تو یہی اختلاف ایک عظیم قوت میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم مسلمانوں کے درمیان مشترک اصولوں کو بنیاد بنائیں اور ہر مکتبِ فکر کے عقائد و روایات کا احترام کریں۔ اس پس منظر میں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ اس متنوع صورتِ حال میں اسلامی وحدت کو کس طرح عملی شکل دی جا سکتی ہے اور وہ کون سے اصول و ضوابط ہیں جو اسے حقیقی اور پائیدار بنا سکتے ہیں؟
اسلامی وحدت: مفہوم اور اس کے ابعاد(جہات)
اسلامی وحدت کا مطلب کسی مخصوص مکتبِ فکر کو دوسروں پر مسلط کرنا یا کسی مسلک کو ختم کرنا نہیں، بلکہ اس کا بنیادی مقصد ایسی مشترکہ بنیادیں قائم کرنا ہے جو تمام مسلمانوں کو یکجا کر سکیں۔ یہ وحدت ان اصولوں پر استوار ہے جو تمام اہلِ ایمان کے درمیان قدرِ مشترک ہیں، جیسے توحید، رسالتِ محمدیﷺ اور قرآنِ کریم۔ اسی کے ساتھ، مذہبی تنوع کو امتِ مسلمہ کی فکری و تاریخی وراثت کا ایک لازمی جزو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسلامی وحدت محض ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک جامع تہذیبی منصوبہ ہے جو امت کو درپیش سنگین چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور اسے استحکام و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے باہمی یکجہتی اور ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔
اسلامی وحدت کو دو بنیادی زاویوں سے سمجھا جا سکتا ہے:
سیاسی و سماجی پہلو: یہ وحدت مسلمانوں کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دینے پر زور دیتی ہے، تاکہ مشترکہ مفادات کے حصول، استحکام کے قیام اور اجتماعی ترقی کی راہ ہموار کی جا سکے۔
عقیدتی و علمی پہلو: اس کا مقصد بین المذاہب مکالمے کی ثقافت کو تقویت دینا اور علمی و تحقیقی بنیادوں پر مختلف اسلامی مکاتبِ فکر کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی تفہیم کو مضبوط بنانا ہے، تاکہ فکری یکجہتی کو فروغ ملے اور امتِ مسلمہ کے درمیان اتحاد کو مستحکم کیا جا سکے۔
اسلامی وحدت کا سیاسی و سماجی پہلو
اسلامی وحدت امت کے استحکام اور اس کی مجموعی طاقت کے لیے ایک اسٹریٹیجک عنصر کی حیثیت رکھتی ہے، جو مسلمانوں کو درپیش سیاسی و سماجی چیلنجز کا مؤثر انداز میں مقابلہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ یہ وحدت محض ایک نعرہ نہیں، بلکہ امت کے بقا اور ترقی کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے، جو مسلم معاشروں میں استحکام کو یقینی بنانے، عالمی سطح پر ان کی حیثیت کو مستحکم کرنے، اور ان سازشوں کا سدِّباب کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، جو امت کو تقسیم اور کمزور کرنے کے لیے رچی جاتی ہیں۔
مسلمانوں کے مابین وحدت کے فقدان نے بیرونی طاقتوں کو اندرونی اختلافات سے فائدہ اٹھانے اور انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کا سنہری موقع فراہم کیا۔ مغربی استعمار اور بعد ازاں جدید دور کی بڑی طاقتوں نے "تقسیم کرو اور حکمرانی کرو" کی پالیسی نہایت چالاکی سے نافذ کی، جس کے نتیجے میں داخلی تنازعات، سیاسی عدم استحکام، اور فرقہ وارانہ کشمکش نے امتِ مسلمہ کی طاقت کو منتشر کر دیا۔ باوجود اس کے کہ اسلامی دنیا بے پناہ سیاسی، اقتصادی اور جغرافیائی وسائل رکھتی ہے، مؤثر ہم آہنگی، مشترکہ حکمتِ عملی، اور حقیقی اتحاد کے فقدان نے ان صلاحیتوں کو ایک مضبوط اور خودمختار قوت میں ڈھلنے سے روکے رکھا ہے، جس کا نتیجہ عالمی سطح پر امت کی کمزور حیثیت کی صورت میں سامنے آیا۔
سیاسی وحدت کا تقاضا ہے کہ امتِ مسلمہ اپنی بقاء اور مستقبل سے جڑے اہم ترین مسائل پر یکساں اور مضبوط موقف اپنائے، جیسا کہ مسئلہ فلسطین، جو امت کے اتحاد و یکجہتی کا ایک فیصلہ کن امتحان ہے۔ صہیونی جارحیت نے مسلمانوں کو ان کے مسلک یا فرقے کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا، بلکہ بلا تفریق سبھی کو نشانہ بنایا، جو اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ امت کو درپیش خطرات فرقہ وارانہ نہیں بلکہ مشترکہ ہیں۔ اس پس منظر میں ضروری ہے کہ مسلمان داخلی اختلافات میں الجھنے کے بجائے حقیقی اور بڑے خطرات پر توجہ مرکوز کریں، جیسے عالمِ اسلام کی جغرافیائی تقسیم کی سازشوں کو ناکام بنانا، بیرونی طاقتوں کی مداخلت کا سدِّ باب کرنا، اور امت کی سیاسی و اقتصادی خودمختاری کو عملی شکل دینا۔ یہی وہ اقدامات ہیں جو امت کو ایک مضبوط، باوقار اور خودمختار قوت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
مزید برآں، اسلامی وحدت مسلم ممالک کو سیاسی بلیک میلنگ اور بیرونی دباؤ سے محفوظ رکھنے کا ایک مضبوط وسیلہ ہے۔ داخلی انتشار اور باہمی اختلافات نہ صرف امت کے اجتماعی موقف کو کمزور کرتے ہیں بلکہ اسلامی دنیا کو اقتصادی اور عسکری دباؤ کے لیے نرم ہدف بنا دیتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر مسلم ممالک آپسی تعاون کو مستحکم کرتے ہوئے اسٹریٹیجک اتحاد قائم کریں، تو وہ نہ صرف عالمی سطح پر طاقت کے توازن کو برقرار رکھ سکتے ہیں بلکہ بین الاقوامی پالیسی سازی میں بھی ایک مؤثر اور فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں، جو امتِ مسلمہ کی خودمختاری اور وقار کے لیے ناگزیر ہے۔
عقیدتی و علمی پہلو: وحدت اور نظریاتی استحکام میں ہم آہنگی
بادی النظر میں اسلامی وحدت کی دعوت اور ہر مکتبِ فکر کا اپنے عقائد کی صحت پر اصرار، بظاہر متضاد نظر آ سکتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہر مسلک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عقائد کو مستند دلائل کی بنیاد پر برحق سمجھے، بشرطیکہ وہ دوسروں کا احترام کرے اور تکفیر یا اخراج کی روش اختیار نہ کرے۔ مثال کے طور پر، شیعہ عقیدہ یہ ہے کہ ان کا مکتبِ فکر اسلامِ محمدیؐ کی حقیقی اور فطری توسیع ہے، جو واضح قرآنی نصوص اور مستند احادیث پر مبنی ہے۔ تاہم، اس کے باوجود، وہ دیگر اسلامی مکاتبِ فکر کے ساتھ علمی و تحقیقی مکالمے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ مکالمہ نظریات سے دستبرداری نہیں، بلکہ اسلام کے صحیح فہم کو مزید گہرائی اور وسعت دینے کا ذریعہ ہے، جو امت میں فکری بلوغت اور ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔
غیر جانب دار اور معروضی علمی تحقیق ہی وہ مؤثر ترین وسیلہ ہے، جس کے ذریعے مسلکی اختلافات کو نہ صرف بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے بلکہ انہیں مثبت اور تعمیری انداز میں منظم بھی کیا جا سکتا ہے۔ جب اسلامی مکاتبِ فکر دلیل اور برہان پر مبنی مکالمے کو اختیار کرتے ہیں، تو اس سے فکری ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے، جو تفرقے کے بجائے قربت اور باہمی احترام کا سبب بنتی ہے۔ یہی اصول مکتبِ اہلِ بیت (علیہم السلام) نے بھی اختیار کیا، جہاں ہمیشہ تحقیق کی بنیاد دلیل پر رکھی گئی اور اندھی تقلید و تعصب سے اجتناب کی تلقین کی گئی۔ یہی علمی و فکری رویہ امتِ مسلمہ کے درمیان بامقصد مکالمے اور حقیقی یکجہتی کے فروغ کا ضامن بن سکتا ہے۔
اسلامی وحدت کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ فرقہ واریت ہے، جسے اکثر سیاسی مقاصد کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر، مسلکی اختلافات بذاتِ خود اسلامی معاشروں کے زوال کا بنیادی سبب نہیں بنے، بلکہ انہیں سیاسی طور پر ہوا دے کر امت کو تقسیم اور کمزور کرنے کی سازشیں کی گئیں۔ قرآنِ کریم نے داخلی تنازعات کے مہلک اثرات کی واضح تنبیہ کی ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ) (الأنفال: 46)؛ یعنی "آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم کمزور پڑ جاؤ گے اور تمہاری قوت جاتی رہے گی۔" یہ آیتِ مبارکہ اس حقیقت کی نشان دہی کرتی ہے کہ جب فکری اختلافات دشمنی اور داخلی محاذ آرائی میں تبدیل ہو جاتے ہیں، تو وہ امت کی وحدت کو پارہ پارہ اور اس کی اجتماعی قوت کو زائل کر دیتے ہیں۔
مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان بنیادی نکات پر توجہ دیں جو انہیں جوڑتے ہیں، جیسے توحید، رسالتِ محمدیﷺ، قرآنِ کریم، اور وہ اسلامی اقدار جو عدل، رحمت، اور رواداری کو فروغ دیتی ہیں۔اسی طرح، علمی مکالمے اور بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ دینا، اختلافات کو تصادم میں بدلنے کے بجائے فکری اور نظریاتی تبادلے کی راہ ہموار کرنا، اسلامی وحدت کو مضبوط بنانے کے لیے ایک ناگزیر حکمتِ عملی ہے۔
اسلامی وحدت کے قیام میں درج ذیل چیلنجز بنیادی رکاوٹیں سمجھے جاتے ہیں:
فرقہ واریت اور اشتعال انگیز میڈیا – بعض سیاسی اور میڈیا ادارے جان بوجھ کر مسلکی اختلافات کو ہوا دیتے ہیں، جس سے امت مسلمہ کے اندر انتشار پیدا ہوتا ہے۔ یہ ذرائع ابلاغ نہ صرف غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں بلکہ اختلافات کو تنازعات میں تبدیل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بیرونی مداخلتیں – عالمی طاقتیں اسلامی دنیا میں تفرقہ ڈالنے کے لیے مسلکی تقسیم کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتی ہیں، تاکہ مسلم ممالک کو کمزور اور منتشر رکھا جا سکے۔ ان سازشوں کے نتیجے میں امت مسلمہ اندرونی اختلافات میں الجھ کر اپنی اجتماعی طاقت کھو بیٹھتی ہے۔
مکالمے اور فکری برداشت کی کمی – امت میں علمی و فکری اختلافات کو سنبھالنے اور انہیں مثبت مکالمے میں ڈھالنے کی صلاحیت کا فقدان ایک سنگین مسئلہ ہے۔ نتیجتاً، علمی بحث و مباحثہ تنازعات اور شدت پسندی میں بدل جاتا ہے، جو وحدت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
اسلامی وحدت کے راستے میں حائل کئی چیلنجز کے باوجود اس کے عملی نفاذ کے لیے کئی روشن امکانات بھی موجود ہیں، جن میں درج ذیل نکات نمایاں حیثیت رکھتے ہیں:
مشترکہ دینی اصولوں کو تقویت دینا – امتِ مسلمہ کو متحد کرنے کے لیے عدل، رحمت، اور انسانی حقوق جیسے بنیادی اسلامی اصولوں کو اجاگر کرنا ناگزیر ہے۔ ساتھ ہی، مسلمانوں کے مشترکہ مسائل اور ان کے اجتماعی مستقبل پر توجہ مرکوز کرنا وحدت کے قیام میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
مکالمے کی ثقافت کو فروغ دینا – بین المذاہب و مسالک فکری تبادلے کے لیے ایسے علمی و تحقیقی ادارے قائم کیے جائیں، جو مختلف اسلامی مکاتبِ فکر کے درمیان ہم آہنگی اور فکری قربت کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوں۔
نتیجہ:
اسلامی وحدت کوئی محض خیالی تصور نہیں، بلکہ موجودہ دور کے سنگین چیلنجز کے تناظر میں ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ یہ وحدت کسی مسلکی تنوع کو مٹانے کا نام نہیں، بلکہ اس تنوع کو ایک مثبت قوت میں ڈھال کر امت کی طاقت کو مستحکم کرنے کا ذریعہ ہے، تاکہ یہ اختلافات تفرقے کے بجائے تکمیل اور ترقی کا سبب بنیں۔جب تک مسلمان اس وحدت کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھتے، وہ داخلی انتشار اور بیرونی استحصال کا شکار رہیں گے، جس کے نتیجے میں امت مزید کمزور ہوتی چلی جائے گی۔ اس تناظر میں، علماء، دانشوروں، اور سیاسی قائدین پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فکری ہم آہنگی کو فروغ دیں، مکالمے کی ثقافت کو عام کریں، اور ایسی نظریاتی و عملی بنیادیں فراہم کریں جو اسلامی وحدت کو ایک زندہ حقیقت میں بدلنے کا ذریعہ بن سکیں۔