

غنا اور موسیقی کی حقیقت:ظاہری لذت اور روحانی خطرات
الشيخ معتصم السيد أحمد
یہ حقیقت ہے کہ غنا اور موسیقی کا رجحان آج کل ہمارے معاشروں میں بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے اسے عصرِ حاضر کی ثقافت کا ایک لازمی حصہ بنا دیا ہے اور اس نے مختلف طبقات اور معاشروں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔زمانہ ماضی میں گانا صرف خاص مواقع اور مخصوص مقامات تک ہی محدود تھا۔ عام طور پر تفریح اور عیش و عشرت کی محفلوں ہی اسے انجام دیا جاتا تھا۔ آج کے دور میں یہ ہر جگہ اور ہر وقت میسر آچکا ہے۔انٹرنیٹ، جدید موبائل فون، ٹیلی ویژن نیٹ ورکس، ریکارڈنگ ڈیوائسز، اور اسپیکرز جیسے آلات نے گانے اور موسیقی کو ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہر لمحہ موجود کر دیا ہے۔ اب یہ گھروں سے لے کر ٹرانسپورٹ، بازاروں، دکانوں اور حتیٰ کہ عوامی مقامات تک، ہر جگہ سنائی دیتے ہیں۔
اب تو یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ کوئی ایسا دن بھی گزرے جب انسان کے کانوں تک غنا یا موسیقی کی آواز نہ پہنچے۔ایسا چاہتے نہ چاہتے ہوئے ہو ہی جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جدید معاشرہ اس رجحان کا اس قدر عادی ہو چکا ہے کہ اگر دنیا بھر میں صرف ایک دن کے لیے غنا اور موسیقی کوبند کر دیا جائے تو ہم عالمی سطح پر سماجی اور نفسیاتی بے چینی اور انتشار کو ملاحظہ کریں گے۔
جدید معاشرے میں غنا اور موسیقی کے معاملے میں اکثر غیر جانبدار اور معروضی نقطہ نظر اختیار نہیں کیا جاتا۔ آج کل زیادہ تر لوگ اس ثقافت کے باعث پیدا ہونے والے سماجی اور اقتصادی دباؤ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ صورتحال ایسی بن گئی ہے کہ لوگ اس کے سامنے مسلسل بے بس نظر آتے ہیں۔ غنا اور موسیقی تفریح کے بنیادی ذرائع میں شامل ہو چکے ہیں،یہ میڈیا ہو، کام کی جگہیں ہوں یا عوامی اجتماعات ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ رجحان انسانی خواہشات کو مطمئن کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نفسیاتی جبلّتوں کو بھی بھڑکاتا ہے، کیونکہ یہ جذباتی ضروریات کو پورا کرتا اور احساسات کو متحرک کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فرد کے اندر اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کی کوئی اندرونی مزاحمت باقی نہیں رہتی بلکہ اس کے برعکس، انسان کی فطرت خود بخود ان چیزوں کی طرف مائل ہوتی ہے جو اس کی خواہشات کو ابھارتی اور اسے خوشی فراہم کرتی ہیں۔
اب یہ رجحان معاشرے میں اپنی جگہ بنا چکا ہے کیونکہ یہ انسانی نفس کی وقتی خواہشات اور جذباتی ضروریات کو تسکین فراہم کرتا ہے۔ تاہم، مسئلہ یہ ہے کہ گانا اور موسیقی اگرچہ فوری طور پر جذبات پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن یہ بنیادی طور پر ان عقلی اور روحانی اصولوں سے متصادم ہیں جنہیں آسمانی مذاہب انسان میں راسخ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ معلوم ہےکہ انسانی نفس عام طور پر عارضی لذتوں اور تفریح کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ چیزیں انسان کی زندگی کا مقصد بن جائیں یا وہ انہی کو اپنی حقیقی خوشی کا ذریعہ سمجھے۔
اس تناظر میں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ انسان کی فطرت میں ہمیشہ عقل اور خواہشات کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے۔ انسان کو اپنی خواہشات کے لیے کسی یاد دہانی کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ خود بخود جانتا ہے کہ وہ کن چیزوں کی طرف مائل ہے اور کن جبلّتی رغبتوں کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ جس چیز کی اسے مسلسل ضرورت رہتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی اسے اعلی عقلی اقدار کی طرف متوجہ کرے وہ اقدار جو روحانی خوبصورتی اور کمال کی طرف لے جانے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ بلند اقدار محض وقتی خواہشات یا عارضی لذتوں سے حاصل نہیں ہوتیں بلکہ یہ وہ اعلیٰ اصول ہیں جو آسمانی مذاہب نے انسان کے لیے متعین کیے ہیں۔ انہی تعلیمات کے ذریعے انسان اپنی زندگی کے راستے کو درست کر سکتا ہے اور اپنی ذہنی و نفسیاتی صلاحیتوں کو اعلیٰ مقاصد کے حصول میں استعمال کر سکتا ہے۔اس سے وہ اپنی جسمانی، فکری اور روحانی ضروریات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غنا اور موسیقی بظاہر دلکش معلوم ہوتے ہیں لیکن درحقیقت یہ انسان کو اعلیٰ مقاصد سے غافل کر دیتے ہیں۔ یہ نہ تو عقل کو اچھے تفکر پر ابھارتے ہیں اور نہ ہی انسان کی غور و فکر اور تدبر کی صلاحیت کو مضبوط بناتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ محض جذباتی تحریک کا ذریعہ بنتے ہیں جو سطحی احساسات کو بڑھاوا دیتے ہیں اور عارضی خواہشات کو مزید بھڑکاتے ہیں۔ جب انسان مسلسل ان چیزوں کو سنتا رہے تو اس کے اور عقل کی ان اعلیٰ اقدار کے درمیان خلا بڑھنے لگتا ہے جو اسے سکون اور زندگی کے بلند تر معانی پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو غنا اور موسیقی درحقیقت نفس کو روحانی بلندیوں سے دوری کی طرف لے جاتے ہیں اور دل کے اس تعلق کو کمزور کر دیتے ہیں جو اسے پُرسکون اور مطمئن عقل کے ساتھ جوڑتا ہے وہ عقل جو انسان کو اللہ کے ذکر سے حقیقی سکون اور اطمینان کی طرف لے جاتی ہے۔
دوسری طرف اس حوالے سے حق اور باطل کے درمیان کشمکش واضح طور پر نظر آتی ہے۔ گانے اور موسیقی محض تفریحی ذرائع نہیں بلکہ یہ ایسے عوامل ہیں جو انسان کے دل میں باطل اور خواہشاتِ نفس کو بڑھاوا دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اس راستے سے دور ہو جاتا ہے جس کی طرف آسمانی تعلیمات انسان کی رہنمائی کرتی ہیں۔ کوئی بھی عقل مند شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ غنا اور موسیقی حق کی تائید کرتے ہیں یا انسان کو حق کے حصول کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو چیز عقل کو غافل کر دے اور دل کو اللہ کے ذکر سے دور کر دے، وہ ایسی چیز ہے جس سے بچنا اور اس سے خبردار رہنا ضروری ہے۔ یہ غفلت ہی وہ رکاوٹ ہے جو انسان کو اس کے اصل مقصدِ حیات کو سمجھنے اور روحانیت سے دور رکھتی ہے، جن کی تکمیل کے لیے زندگی کو الٰہی ہدایت کے دائرے میں گزارنا ضروری ہے۔
اللہ تعالی قرآن مجیدمیں ارشاد فرماتا ہے:
(أَفَمَن شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللهِ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ) (الزمر: 22)
کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہو اور جسے اپنے رب کی طرف سے روشنی ملی ہو (سخت دل والوں کی طرح ہو سکتا ہے؟)، پس تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل ذکر خدا سے سخت ہو جاتے ہیں، یہ لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔
اگرچہ یہ آیتِ کریمہ مخصوص طور پر گانے کے بارے میں نہیں بتاتی لیکن یہ ایک عمومی اصول کو واضح کرتی ہے یہ اصول دو دلوں میں فرق کو ظاہر کرتا ہے وہ دل جنہیں اللہ نے اپنے نور سے منور کیا اور ان دلوں کے درمیان جو اللہ کے ذکر سے دور ہو کر سخت ہو گئے۔ وہ دل جنہیں اللہ نے اسلام کی روشنی دی انہیں روحانی زندگی کے معانی میں غور و فکر اور تدبر میں حقیقی سکون ملتا ہے جبکہ سخت دل اس راستے سے ہٹ کر دنیاوی لذتوں اور عارضی خوشیوں میں کھو جاتے ہیں۔ چونکہ اسلام کا مقصد دلوں کو پاک کرنا اور انہیں حق کی طرف لے جانا ہے گانا دل کی سختی کو بڑھانے اور انسان کو سیدھے راستے سے دور کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں بہت سی روایات گانے کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں،یہ سب ایک بنیادی نکتے پر مبنی ہیں: گانا حقیقی بندگی کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ مشہور عالم، علامہ حرّ عاملی نے اپنی کتاب وسائل الشیعة میں ایک باب مخصوص کیا ہے جس کا عنوان ہے: "تحریم الغناء، حتیٰ في القرآن، وتعلیمه وأجرته" (یعنی غنا کی حرمت، چاہے وہ قرآن کی آیات میں ہی کیوں نہ ہواور غنا کوسیکھنا یا اس کا معاوضہ لینا بھی حرام ہے)۔ اس باب میں، زید شحّام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: (بيت الغناء لا تؤمن فيه الفجيعة، ولا تجاب فيه الدعوة، ولا يدخله الملك( "گانے والا گھر ایسا ہوتا ہے جہاں مصیبت سے امان نہیں ہوتی، جہاں دعا قبول نہیں کی جاتی اور جہاں فرشتہ داخل نہیں ہوتا۔"
ان نصوص سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ غنا ان اعلیٰ مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہے جنہیں آسمانی مذاہب حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ باطل کی ایک شکل ہے، جو انسان کو گمراہ کرنے کے لیے اس کے ذہن کو غفلت میں ڈالنے اور اس کے دل کو بگاڑنے کا کام کرتی ہے۔ ائمہ کرام نے گانے کو فریب اور نفاق سے تعبیر کیا ہے۔ جیسا کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: گانا نفاق کا دھوکہ ہے۔
ایک مؤمن کو چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور شبہات میں پڑنے سے بچنے کی کوشش کرے۔ اسے اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے جواز تلاش کرنے کی بجائے دیانت داری کے ساتھ شریعت کے احکام کی پیروی کرنی چاہیے۔ فقہاء جب کسی شرعی مسئلے پر گفتگو کرتے ہیں تو وہ ایک علمی اور معروضی طریقہ کار اپناتے ہیں اور اپنے فتاویٰ کی بنیاد شرعی نصوص پر رکھتے ہیں۔ جہاں تک غنا کی بات ہے تو فقہاء اس کی حرمت پر متفق ہیں کیونکہ اس کے خلاف واضح شرعی دلائل موجود ہیں۔ موسیقی کی حرمت کے معاملے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہےکیونکہ اس پر کوئی صریح اور قطعی نص موجود نہیں۔ بعض فقہاء نے اسے لہو و لعب میں شمار کرتے ہوئے حرام قرار دیاجبکہ کچھ نے اسے جائز کہا، بشرطیکہ یہ موسیقی ایسی محافل اور مجالس میں نہ سنی جائے جو لہو و طرب (عیش و عشرت) کے ماحول پر مشتمل ہوں۔ اس حوالے سے انہوں نے اس کی حدود و قیود کو متدین اور دین دار معاشرے کے عرف پر چھوڑ دیا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ہر مؤمن کو چاہیےوہ اللہ سے ڈرے، شبہات سے بچے اور اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے بہانے تلاش نہ کرے۔ شریعت کے مسائل پر جب فقہاء غور و فکر کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ ایک علمی اور معروضی طریقہ کار اپناتے ہیں اور اپنے احکام کی بنیاد شرعی نصوص پر رکھتے ہیں۔ جہاں تک غنا کا تعلق ہے، تو فقہاء اس کی حرمت پر متفق ہیں کیونکہ اس کے خلاف واضح شرعی دلائل موجود ہیں۔ البتہ موسیقی کے بارے میں فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہےکیونکہ اس پر کوئی صریح اور قطعی نص نہیں ہے۔ کچھ فقہاء نے موسیقی کو لہو و لعب میں شمار کرتے ہوئے اسے حرام قرار دیاجبکہ بعض نے اسے اس شرط کے ساتھ جائز قرار دیا کہ یہ لہو و طرب (عیش و عشرت) کی محافل میں نہ ہو۔ اس معاملے میں، انہوں نے اس کے جواز یا عدم جواز کو متدین معاشرے کے عرف پر چھوڑ دیا۔
ہر مؤمن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ درست شرعی موقف اختیار کرے اور ہر اس چیز سے پرہیز کرے جو باطل کی تقویت کا سبب بنے اور اسے حق کے راستے سے دور کر دے۔