

اسلام میں تاریخ کا تسلسل (ڈیمو ہسٹری)
تحریر: الشيخ باسم الحلي
یہ ایک نہایت اہم سوال ہے کہ تاریخ کو کس انداز میں پڑھا جائے اور اس کے مطالعے سے کیا فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ کیا ماضی اور حال کا عمیق تجزیہ ہمیں مستقبل کی تشکیل میں مدد دے سکتا ہے، یا کم از کم اس کی پیشین گوئی ممکن بنا سکتا ہے؟ اگر ایسا ہے، تو یہ کس طرح ممکن ہوگا؟اس مقصد کے لیے کن علمی و سائنسی معیارات کو بنیاد بنایا جائے جن کی روشنی میں ہم مستقبل کے ممکنہ نتائج اخذ کر سکیں؟ کیا یہ نتائج قطعی ہوں گے، یا نسبتی، یا پھر حالات و شرائط کے مطابق ان دونوں کے درمیان کسی درمیانی درجے پر ہوں گے؟یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو تاریخ کے مطالعے اور اس کے عملی اطلاق پر غور و فکر کرنے والوں کے ذہن میں ابھرتے ہیں، اور ان کے جوابات کی جستجو ایک پیچیدہ مگر ناگزیر علمی مہم ہے۔فلاسفرز اس سوال کے جواب میں دو مکاتب فکر میں منقسم ہو گئے:
پہلا مکتب: فلاسفۂ تاریخ
اس مکتب کے مفکرین کا کہنا ہے کہ اگر معاشرتی تبدیلیوں کا استقرائی مطالعہ کیا جائے، خواہ وہ سیاسی، اقتصادی، فکری یا مذہبی ہوں، تو تاریخ اور معاشرے کے مستقبل کی قطعی، حتمی اور یقینی پیشین گوئی ممکن ہے۔یہی تصور ہیگل کے مطلق روح کارل مارکس کے کمیونزم، اوگست کونٹ کے اثباتی فلسفے،اشبنگلر کے تمدنی زوال کے نظریے، اور آرنلڈ ٹوئن بی کے "چیلنج اور ردِعمل" جیسے افکار میں جھلکتا ہے۔ان تمام مفکرین کا بنیادی اتفاق اس نکتہ پر ہے کہ تاریخ کا سفر ایک حتمی اور ناگزیر رخ اختیار کرے گا۔ مثال کے طور پر، کارل مارکس کا اصرار تھا کہ تاریخ ناگزیر طور پر کمیونزم کی طرف بڑھے گی، اوگست کونٹ کے نزدیک اثباتیت ہی حتمی نظریہ ہوگا، جبکہ ہیگل کے مطابق مطلق انسانی روح کی تکمیل تاریخ کا حتمی انجام ہے۔
دوسرا مکتب: فلاسفۂ طبیعیات
یہ وہ مفکرین ہیں جنہوں نے تاریخی حتمیت کو قطعی اور دوٹوک انداز میں مسترد کر دیا۔ ان کے نزدیک کسی بھی تاریخی عمل کو ناگزیر قرار دینا درحقیقت انسانی اختیار کے بنیادی عنصر کو نظرانداز کرنا ہے، جبکہ یہی اختیار م حالات کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی قوت رکھتا ہے۔ان کا مؤقف یہ ہے کہ انسانی انتخاب کو کسی جامد اور حتمی قانون کے تابع کرنا ناممکن ہے، کیونکہ نہ صرف ماضی کے واقعات کی تعبیر و تشریح میں اختلاف پایا جاتا ہے، بلکہ مستقبل کی پیشین گوئی تو بدرجہ اولیٰ محال ہے۔یہ فلسفی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تاریخ کا کوئی طے شدہ رخ نہیں ہوتا، کیونکہ مستقبل کے بارے میں مطلق پیشین گوئی ممکن نہیں، الا یہ کہ اسے محض ایک مابعد الطبیعیاتی قیاس مانا جائے، جسے عمومی طور پر طبیعی علوم کی یقینیات تسلیم نہیں کرتیں۔مزید برآں، طبیعیاتی سائنسز میں بھی مطلق یقین کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہاں تک کہ فزکس، کیمیا اور ٹیکنالوجی جیسے علوم میں بھی قطعی حتمیت کے بجائے نسبیت کا اصول کارفرما ہے، کیونکہ یہ علوم مسلسل مشاہدے، مستقل نظرثانی اور استقرائی تجزیے پر مبنی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، نیوٹن کی کششِ ثقل کا نظریہ، جو اپنے وقت میں ایک مسلمہ حقیقت سمجھا جاتا تھا، آئن سٹائن کی عمومی اضافیت کے مقابلے میں ایک محدود اور نسبتی تصور ثابت ہوا۔ اور اس کے باوجود، آئن سٹائن کا نظریہ بھی کائنات میں کشش ثقل کی تمام پیچیدگیوں کی مکمل وضاحت فراہم نہیں کر سکا۔
حتمیت دراصل سماجی ارادے کے انکار اور انسانی اختیار کو نظرانداز کرنے پر مبنی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر سیاسی، سماجی اور مذہبی فیصلے مختلف ہوتے، تو تاریخ کی صورت بھی یکسر مختلف ہوتی۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ہمارے اسلاف کی تاریخ، جیسا کہ آج ہمارے سامنے ہے، اس سے بالکل مختلف ہو سکتی تھی اگر فیصلے اور حالات کسی اور رخ پر جاتے۔
دیموتاریخ کا مؤقف یہ ہے کہ تاریخی فلسفہ اور طبیعیاتی فلسفہ دونوں مکاتبِ فکر میں غلطیوں کا احتمال زیادہ ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ اور دیموتاریخ درحقیقت ہے کیا؟
دیموتاریخ کا مفہوم
دیموتاریخ کو مختصر طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ:یہ وہ علمی منہج ہے جو فلسفۂ تاریخ اور فلسفۂ علم کی کمزوریوں کا احاطہ کرتا ہے اور ان کے ان پہلوؤں کا بھی تجزیہ کرتا ہے جنہیں وہ نظرانداز نہیں کر سکے۔یہ اصطلاح دو الفاظ—دیمومت (Continuity) اور تاریخ (History)—سے ماخوذ ہے۔ اس کا بنیادی مقصد ان قوانین اور اصولوں کی نشاندہی کرنا ہے جنہوں نے انسانی معاشرت کو ہمیشہ زندہ، متحرک اور جاری و ساری رکھا، چاہے اس کے بقاء کے روایتی اسباب نظر نہ بھی آتے ہوں۔
چونکہ تاریخ میں جو کچھ فنا ہو چکا، وہ مستقبل کی پیشین گوئی کا قابلِ اعتبار ذریعہ نہیں بن سکتا، اس لیے دیموتاریخ کا اصول یہ ہے کہ: "تاریخ میں جو عناصر ہمیشہ زندہ، متحرک اور مسلسل باقی رہے، وہی کسی حد تک مستقبل کے مطالعے اور پیشین گوئی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔" تاریخ کا تسلسل، اس کی زندگی، تعمیر و ترقی اور ارتقاء، اگر یہ زوال اور تباہی سے محفوظ رہے، تو ایک یقینی حقیقت بن جاتی ہے، چاہے یہ حقیقت کسی حد تک نسبتی (Relative) ہی کیوں نہ ہو۔یہ حقیقت تاریخی استقراءکے ذریعے دس ہزار سالہ انسانی تاریخ سے اخذ کی گئی ہے، جس کا آغاز سومری تہذیب (Sumerian Civilization) سے لے کر آج تک ہوتا ہے۔
دیموتاریخ اور انسانی مستقبل: دیموتاریخ کے مطابق، اگرچہ مستقبل کی پیشین گوئی کبھی بھی مکمل نہیں ہو سکتی، لیکن وہ عناصر جو تاریخ میں ہمیشہ زندہ، متحرک اور ناقابلِ فنا رہے، وہ کسی حد تک مستقبل کی سمت متعین کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔یہ اصول اس بات سے قطع نظر کہ ہم حتمیت کے نظریات کے قائل ہوں یا نسبتی فکر کے حامی، ایک حقیقت برقرار رہتی ہے، اور وہ "بقاء" (Survival) ہے۔یہی وجہ ہے کہ چاہے ہم مشرقی فلسفہ کا مطالعہ کریں یا مغربی فکر دیکھیں، خیر، رحمت، اور انسانی وقار وہ بنیادی اقدار ہیں جنہوں نے تاریخ کو زندہ رکھا، معاشروں کو سربلند کیا، اور انسانیت کو اس کی بقاء اور ارتقاء میں مدد دی۔
تاریخ: بقا اور زوال کی کشمکش: اس کے برعکس، شر، ظلم، اور انسانی حرمت کی پامالی ہی وہ عوامل ہیں جو تاریخ کو جمود، معاشروں کو زوال، اور انسان کو ہلاکت و تباہی کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔دیموتاریخ کے مطابق، انسانی تاریخ درحقیقت بقا اور فنا، زندگی اور موت، تسلسل اور انقطاع کے مابین مسلسل کشمکش کا نام ہے۔
دیموتاریخ کا بنیادی اصول: دیموتاریخ کی سب سے نمایاں حقیقت یہ ہے کہ: زندگی اور بقا ہی کسی بھی معاشرے اور تاریخ کا اصل جوہر ہیں، اور یہ دونوں ایک دوسرے کےساتھ ہیں۔اس کے برعکس، موت، انقطاع، اور زوال انسانی تہذیب اور معاشرت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال دوسری جنگ عظیم کے دوران 80 ملین افراد کا قتلِ عام اور برلن پر قبضے کے بعد اتحادی افواج اور روسی فوجیوں کے ہاتھوں 20 لاکھ جرمن خواتین کی بے حرمتی جیسے المناک واقعات ہیں، جو انسانی زوال اور وحشت کی سیاہ ترین مثالیں ہیں۔کیا تاریخ ایک بہتر رخ اختیار کر سکتی تھی؟دیموتاریخ کے مطابق، اگر ہٹلر، نیرو، کالیگولا، اسٹالن اور مسولینی جیسے جابر اور خونخوار حکمران پیدا نہ ہوتے، تو انسانی تاریخ کہیں زیادہ باوقار، فلاحی، ترقی یافتہ اور متوازن شکل میں سامنے آتی۔
حتمیت یا انسانی اختیار؟
دیموتاریخ یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ ان شخصیات کا ظہور کوئی تاریخی ناگزیریت (Historical Necessity) نہیں تھا، بلکہ یہ انسانی غلطیوں اور حماقتوں کا نتیجہ تھا۔اگر انسان نے اپنے عقل و شعور کو بہتر طور پر بروئے کار لایا ہوتا، تو وہ اس فریب، خودغرضی، اور خونریزی سے بچ سکتا تھا جس نے اسے تباہ کن جنگوں، بے مقصد قتل و غارت، اور اجتماعی زوال کی طرف دھکیل دیا۔ اگر ایسا ہوتا، تو آج دنیا کی تاریخ یقیناً ایک مختلف اور بہتر شکل میں ہمارے سامنے ہوتی۔
تاریخی کتب پر ایک سرسری نگاہ ڈالنا ہی کافی ہے کہ یہ حقیقت آشکار ہو جائے کہ رومی سلطنت، جو انسانی اقدار کی پامالی میں انتہا کو پہنچ چکی تھی، بقا اور دوام کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ جب ظلم، وحشت، اور سفاکیت اپنی آخری حدوں کو چھو ا، تو ایسی سلطنت کے زوال کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔نیرون کی سلطنت اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ اس کی ظالمانہ، جنونی اور سفاک ذہنیت کے ساتھ یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ طویل عرصے تک تاریخ کے دھارے میں برقرار رہتی۔ نیرون، جس نے محض اپنی تفریح اور رات کی تنہائی کو دور کرنے کے لیے 64 عیسوی میں روم کو نذرِ آتش کر دیا، کیا وہ ایسی سلطنت کی قیادت کا اہل تھا جو پائیداری اور استحکام کی دعوے دار ہوتی؟
کالیگولا (12-41 عیسوی) ظلم، دیوانگی اور سادیستی فطرت کے لیے مشہور تھا۔ وہ محض اپنی بیمار ذہنی تسکین کے لیے انسانوں پر ظلم ڈھاتا، انہیں قتل کرتا، اور اپنی ہی فوجی قیادت کو ذلیل کرنے کے لیے ان کے سامنے ان کی بیویوں کی بے حرمتی کرتا۔ تاریخی شواہد کے مطابق، وہ محارم سے ناجائز تعلقات میں بھی ملوث تھا، اور اس کی سفاکیت کی انتہا یہ تھی کہ اس نے اپنے ہی گھوڑے کو قونصل (اعلیٰ حکومتی عہدہ) پر فائز کر دیا۔
دیموتاریخ کا ناقابلِ انکار اصول
دیموتاریخ، خواہ اسے فلسفۂ تاریخ کے زاویے سے دیکھا جائے یا فلسفۂ علم کے تناظر میں، ایک اٹل حقیقت کو بیان کرتا ہے:"جب کسی تہذیب میں ظلم، بربریت، اور انسانی وقار کی پامالی اپنی انتہا کو پہنچ جائے، تو وہ چاہے کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو، ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جاتی ہے، اور اس کا دوبارہ احیاء ممکن نہیں رہتا۔"یہی اصول تاریخ کے مختلف ادوار میں بار بار ثابت ہوا ہے۔ ظالم حکمرانوں کی وحشت اور جبر نہ صرف معاشروں کے زوال کا سبب بنی بلکہ خود ان کے اقتدار کو بھی ایک ہولناک انجام سے دوچار کر دیا۔
ظلم، بربریت اور انسانی بقا—تاریخ کے بے رحم ابواب
یہ حقیقت کسی طور پر نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ رومی معاشرہ، باوجود اپنی جہالت، بت پرستی، اور اخلاقی زوال کے، اس قدر شدید ظلم، وحشت، اور انسانی تذلیل کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اگرچہ اس میں فسق و فجور کا وائرس سرایت کر چکا تھا، لیکن اس کے اجتماعی شعور میں اتنی مزاحمت باقی تھی کہ وہ مکمل طور پر درندگی اور سفاکیت کے ہاتھوں تباہ نہ ہو سکا۔یہی اصول تاریخ کے مختلف ادوار میں بھی کارفرما رہا ہے، اور اسی بنیاد پر مؤرخین، فلسفی، اور مفکرین بارہا یہ سوال اٹھاتے رہے ہیں کہ آخر وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر ایک ناقابلِ شکست سمجھی جانے والی سلطنت، جیسے کہ منگول سلطنت، زوال کا شکار ہو گئی؟
چنگیز خان: بربریت کی انتہا: چنگیز خان، جس کا اصل نام تیموجن تھا، تاریخ کی سب سے بڑی سلطنتوں میں سے ایک کا بانی تھا، مگر اس کی حکمرانی میں انسان، معاشرہ، اور تاریخ کی کوئی حرمت باقی نہ رہی۔ وہ ایک سفاک، وحشی، اور ظالم حکمران تھا، جس نے چین، ایران، عراق، اور مشرقی یورپ میں قتل و غارت کی ایسی داستانیں رقم کیں، جن کی نظیر تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔"نیشاپور کی جنگ کے دوران، چنگیز خان کے حکم پر لاکھوں انسانوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔یہی وہ سنگین ظلم تھا، جس نے بالآخر اس کی سلطنت کو زوال کی راہ پر ڈال دیا۔ طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں کو یہ حقیقت ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ ظلم دائمی نہیں ہوتا، اور سفاکیت کسی سلطنت کے دوام کی ضمانت نہیں بن سکتی۔
جوزف اسٹالن: سیاست کے نام پر قتلِ عام: تاریخ میں ظلم کی داستانیں محض قدیم ادوار تک محدود نہیں بلکہ جدید دور میں بھی جوزف اسٹالن (1953ء) جیسے آمر اپنی بربریت کے ذریعے لاکھوں بے گناہ انسانوں کی جانوں کے قاتل بنے۔ اسٹالن، جو سوویت یونین میں 20 ملین انسانوں کی ہلاکت کا ذمہ دار تھا، نے سیاسی تطہیر، قحط، اور جبری مشقت کے کیمپ (Gulag) کے ذریعے لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔ سن 1933ء میں، صرف اپنی ناکام زرعی پالیسیوں کے باعث، اس نے 4 ملین یوکرینی باشندوں کو بھوک اور قحط کا شکار کر دیا۔ اسی طرح، اپنے سیاسی مخالفین کو جعلی مقدمات، اجتماعی سزاؤں، اور جبری قتل و غارت کا نشانہ بنایا۔
دیموتاریخ کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ظلم، استبداد، اور انسانی وقار کی پامالی کسی بھی ریاست یا سلطنت کے استحکام کی بنیاد نہیں بن سکتی۔جس معاشرے میں انسانیت کا چراغ بجھا دیا جائے، وہاں بظاہر مضبوط ترین سلطنتیں بھی کھوکھلی ہو کر زمین بوس ہو جاتی ہیں۔یہی اصول روم، منگول سلطنت، اور سوویت یونین جیسے جابر حکمرانوں کے زوال میں کارفرما رہا۔ جب کوئی ریاست طاقت کے نشے میں ظلم اور بربریت کی راہ اختیار کر لیتی ہے، تو وہ جلد یا بدیر تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو جاتی ہے۔
قرآن میں دیموتاریخ
دیموتاریخ کی سب سے عظیم حقیقت یہ ہے کہ وہی باقی اور زندہ و جاوید رہتا ہے جو انسانی عظمت اور شرف کے اصولوں پر استوار ہو۔ وہ اصول جنہیں ہر ذی شعور انسان فطرتاً تسلیم کرتا ہے۔ اس کے برعکس، ہر وہ نظریہ، ہر وہ طرزِ حیات جو انسانی حرمت، عدل اور انصاف کو پامال کرے، ایسی مہلک وبا کی مانند ہے جو انسانی معاشرے کے حسن کو برباد کر کے اسے پستی اور ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔مگر اس کے باوجود نہ انسان کا وجود مٹا، نہ تاریخ کا تسلسل ختم ہوا اور نہ ہی معاشرہ معدوم ہوا، حالانکہ استبداد کی طاعون، بدعنوانی کے ایڈز اور عیش پرستی کے کورونا وائرس نے ہر دور میں اپنی تباہ کاریوں کے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان آزمائشوں اور بحرانوں کے نتیجے میں بیشمار تہذیبیں اور سلطنتیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں، حالانکہ اگر انسان نے عدل و انصاف کو اپنا طرزِ حیات بنایا ہوتا، اگر اس نے دیموتاریخی اصولوں کو اپنایا ہوتا، تو وہ تہذیبیں آج بھی تابندہ و برقرار ہوتیں۔دیموتاریخ کا سب سے محکم اور فیصلہ کن قانون یہ ہے کہ وہ ہر اس شے کو نابود کر دیتا ہے جو انسانی شرافت، معاشرتی اصولوں اور تاریخ کی فطری سمت کے خلاف کھڑی ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
(وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا رَجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا (32) كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِنْهُ شَيْئًا وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا نَهَرًا (33) وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا (34) وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَنْ تَبِيدَ هَذِهِ أَبَدًا ...، وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَى مَا أَنْفَقَ فِيهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا (42) وَلَمْ تَكُنْ لَهُ فِئَةٌ يَنْصُرُونَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مُنْتَصِرًا(
ترجمہ:
اور (اے رسول) ان سے دو آدمیوں کی ایک مثال بیان کریں جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ عطا کیے اور ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ لگا دی اور دونوں کے درمیان کھیتی بنائی تھی۔دونوں باغوں نے خوب پھل دیا اور ذرا بھی کمی نہ کی اور ان کے درمیان ہم نے نہر جاری کی۔اور اسے پھل ملتا رہتا تھا، پس باتیں کرتے ہوئے اس نے اپنے ساتھی سے کہا: میں تم سے زیادہ مالدار ہوں اور افرادی قوت میں بھی زیادہ معزز ہوں۔اور وہ اپنے نفس پر ظلم کرتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا، کہنے لگا:میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی فنا ہو جائے گا۔۔۔چنانچہ اس کے پھلوں کو (آفت نے) گھیر لیا پس وہ اپنے باغ کو اپنی چھتوں پر گرا پڑا دیکھ کر اس سرمائے پر کف افسوس ملتا رہ گیا جو اس نے اس باغ پر لگایا تھا اور کہنے لگا: اے کاش! میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ۔اورـ(ہوا بھی یہی ہے کہ) اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کے لیے مددگار ثابت نہ ہوئی اور نہ ہی وہ بدلہ لے سکا۔
اگر ہم انسانی سرکشی اور طغیان کی داستان کو بیان کرنے بیٹھیں تو بات طویل ہوجائے گی، کیونکہ یہی وہ عنصر ہے جو تاریخ کے زوال اور انسانیت کی تباہی کا باعث بنتا رہا ہے۔ مگر قرآن نے اس حقیقت کو مختصر مگر نہایت جامع انداز میں یوں بیان کیا ہے:
(الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ، فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ، فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ، إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ) (سورہ الفجر: 11-14)
ترجمہ: ان لوگوں نے ملکوں میں سرکشی کی۔ اور ان میں کثرت سے فساد پھیلایا۔ پس آپ کے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا۔ یقینا آپ کا رب تاک میں ہے۔لیکن کیا تاریخ واقعی ختم ہوگئی؟ کیا انسانیت کا مکمل خاتمہ ہوگیا؟ کیا معاشرہ ہمیشہ کے لیے مٹ گیا؟ کیا زندگی کا چراغ گل ہوگیا؟
حقیقتِ ابدی یہی ہے کہ ہر وہ چیز جو ظلم، طغیان اور سرکشی کے دائرے میں گردش کرتی ہے، فنا کے لیے ہی ہے۔ وہ ایک مردہ اور زوال پذیر حقیقت ہے، بلکہ وہ ایک عبرتناک یادگار ہے جس پر انسانی شرف ماتم کرتا ہے، جس سے زندہ ضمیر نفرت محسوس کرتا ہے، اور جس کے تصور سے تاریخ کے صفحات لرز اٹھتے ہیں۔
رومی شہر پومپی تباہی کی عبرتناک داستان
پومپی دنیا کے مشہور ترین تاریخی کھنڈرات میں سے ایک ہے، جو جنوبی اٹلی میں نیپلز کے قریب واقع ہے۔ یہ شہر اپنے عروج کے دور میں ایک عظیم رومی تہذیبی اور تجارتی مرکز تھا۔ اس کی بنیاد چھٹی صدی قبل مسیح میں اوسکانی قبائل نے رکھی، یہ وہ لوگ تھے جو رومی سلطنت کے قیام سے قبل اٹلی کے قدیم باشندے تھے۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں، رومیوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور اسے ایک اہم بندرگاہ اور زرعی مرکز میں تبدیل کر دیا۔ پومپی اپنے شاندار طرزِ تعمیر، وسیع تھیٹروں، عظیم الشان معابد، عوامی چوراہوں، اور فخریہ حماموں کی بدولت شہرت رکھتا تھا۔
مگر 79 عیسوی میں، اس پر ایک ایسا قہر ٹوٹا جس نے اسے تاریخ کے صفحات میں ایک عبرت ناک مثال بنا دیا، آتش فشاں پہاڑ ویسوویئس(Vesuvius) اچانک پھٹ پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر کو دہکتے ہوئے لاوے اور گھنی راکھ کے بادلوں میں دفن کر دیا۔ وہ رات قیامت سے کم نہ تھی، جب پومپی کے باسی نیند کی آغوش میں بےخبر سوئے ہوئے تھے کہ اچانک یہ آتشیں بلا ان پر ٹوٹ پڑی۔ نہ کسی کو سنبھلنے کا موقع ملا، نہ فرار کا راستہ، اور یوں، ایک آباد و شاداب شہر چند لمحوں میں ملبے کا ڈھیر بن گیا۔
آج پومپی ایک خاموش گواہ ہے، ایک ایسا آثارِ قدیمہ جو وقت کے جبر اور انسانی غفلت کی کہانی سناتا ہے۔ یہ شہر نہ صرف اپنی تاریخی شان و شوکت کی علامت ہے بلکہ اس حقیقت کا بھی اعلان کرتا ہے کہ ظلم، عیش پرستی، اور اخلاقی زوال میں غرق تہذیبیں بالآخر فنا کے گھاٹ اتار دی جاتی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر، آتش فشانی راکھ اور لاوے نے شہر کے باسیوں کی لاشوں کو اسی حالت میں محفوظ کر دیا جس میں وہ آخری لمحات میں تھے۔ آج بھی، ان کے پتھرائے ہوئے خدوخال اور جمود زدہ حرکات اس المناک انجام کی بھیانک گواہی دیتے ہیں۔
اگر ہم اس قدیم شہر کی تاریخ پر گہری نظر ڈالیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ پومپی غیرمعمولی دولت و خوشحالی کا مرکز تھا۔ زرخیز زمین، شاندار زرعی پیداوار، اور تجارتی سرگرمیوں نے اسے بے پناہ اقتصادی استحکام بخشا تھا۔ اس کے علاوہ، بندرگاہی محصولات اور کاروباری منافع نے یہاں کے باشندوں کو بے شمار مادی وسائل فراہم کیے۔ لیکن اس معاشی ترقی کے باوجود، یہاں کے اشرافیہ اور عوام دونوں اخلاقی زوال کے دلدل میں مکمل طور پر دھنس چکے تھے۔یہ شہر عیاشی، فحاشی، اور جنسی بے راہ روی کا گڑھ بن چکا تھا— زنا، ہم جنس پرستی، اور دیگر قبیح اعمال یہاں کے لوگوں کی روزمرہ زندگی کا لازمی حصہ بن چکے تھے۔ یہاں تک کہ وہ تمام اخلاقی حدود کو روند چکے تھے، اور انسانی شرافت کے بنیادی اصولوں کو بھی فراموش کر بیٹھے تھے۔
آج بھی جب ماہرینِ آثارِ قدیمہ پومپی کے کھنڈرات کی کھدائی کرتے ہیں، تو ہر گھر میں بیہودہ اور فحش تصاویر دریافت ہوتی ہیں، جو اس دور کے اخلاقی زوال اور بے حیائی کی واضح گواہ ہیں۔ حیرت انگیز طور پر، اس شہر میں باقاعدہ قحبہ خانے (brothels) قائم تھے، جن میں سب سے بدنامِ زمانہ لوبنار(Lupanar) تھا۔ یہ ایک ایسا مرکز تھا جہاں چھوٹے چھوٹے کمروں کی دیواریں فحش اور غیر اخلاقی نقش و نگار سے مزین تھیں۔ مؤرخین کے مطابق، یہ تصاویر درحقیقت ان خدمات کی فہرست تھیں جو یہاں آنے والے گاہکوں کو فراہم کی جاتی تھیں۔
پومپی میں قحبہ گری (Prostitution) کو نہ صرف جائز، بلکہ ایک قومی فریضہ تصور کیا جاتا تھا۔ یہ عمل ریاستی قوانین کے تحت آتا تھا اور اسے ایک منظم اقتصادی سرگرمی کی حیثیت حاصل تھی، جس پر باقاعدہ ٹیکس عائد کیے جاتے تھے۔ اگر آج کے دور میں "جنسی تجارت" کو ایک باضابطہ کاروبار کی حیثیت حاصل ہے، تو اس کی جڑیں اسی قدیم رومی ورثے میں پیوست نظر آتی ہیں، جہاں حیوانیت کو تہذیب کا لبادہ پہنا دیا گیا تھا۔اگر ہم موجودہ حالات پر نظر ڈالیں، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج کی جدید یورپی اقوام، جو فحاشی کے سب سے زیادہ متاثرہ معاشرے سمجھی جاتی ہیں، واقعی اس بے راہ روی کو قبول کرتی ہیں؟ کیا وہ ایڈز، زہری (Syphilis)، اور دیگر جنسی امراض کے تباہ کن اثرات کو معمولی سمجھتی ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ یورپ کے بیشتر عوام مجموعی طور پر بے حیائی کو باعثِ ندامت سمجھتے ہیں اور اس کی غیر محدود آزادی کو ایک سنگین سماجی مسئلہ تصور کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ، جو فحش فلموں اور جنسی آزادی کے حوالے سے دنیا میں بدنام ہے، وہاں بھی معاشرتی اقدار کی کچھ حدیں موجود ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کو صرف اپنی ایک خاتون ملازمہ سے تعلقات کے الزام پر شدید قانونی کارروائی اور عوامی احتساب کا سامنا کرنا پڑا۔یہ تمام حقائق ثابت کرتے ہیں کہ فحاشی اور اخلاقی زوال کو ترقی یافتہ طرزِ زندگی سمجھنا سراسر دھوکہ ہے۔ جو معاشرے اس دلدل میں پھنس جاتے ہیں، وہ بالآخر اپنی تہذیب، اقدار اور معاشرتی استحکام کے ساتھ تباہی کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ اور پومپی کی تباہی اس حقیقت کی سب سے بڑی مثال ہے۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ زیادہ تر امریکی اور یورپی ممالک اپنے سرکاری یا نجی اداروں میں ایسے افراد کو ملازمت دینے سے گریز کرتے ہیں، جن پر ہم جنس پرستی (لواطت یا سحاق) کا شبہ ہو۔ ان اداروں کا بنیادی اصول یہی ہوتا ہے کہ اخلاقی ریکارڈ بے داغ ہو۔ درحقیقت، یہ وہی دیموتاریخ (Demo-history) ہے۔ ایک فطری اور ابدی قانون، جو پوری انسانی تاریخ میں اپنی گرفت برقرار رکھے ہوئے ہے، چاہے تمام عالمی طاقتیں اس کے خلاف کیوں نہ کھڑی ہو جائیں۔ یہ ایک ناقابلِ زوال حقیقت ہے، کیونکہ جب تک انسانیت باقی ہے، یہ اصول بھی قائم رہے گا۔
اگرچہ تاریخ نے ایسے ادوار بھی دیکھے ہیں، جب نیرون، کالیگولا، ہٹلر، اسٹالن اور چنگیز خان جیسے جابروں اور ظالموں کے نظریات نے انسانی معاشروں کو آلودہ کر دیا تھا، لیکن دیموتاریخ ان سب کو "مردہ" قرار دیتا ہے۔ ان کی میراث محض عبرت ناک یادوں کے سوا کچھ نہیں، جنہیں تاریخ نے اسی طرح جھاڑ پھینکا، جیسے انسان نے کورونا وائرس کے جراثیم کو اپنے جسم سے نکال پھینکا تھا۔ اگرچہ وبا نے ہزاروں زندگیاں نگل لیں، مگر انسانیت زندہ رہی ، اور جب تک ایک بھی صالح انسان باقی ہے، تاریخ اور تہذیب کا کارواں رواں دواں رہے گا۔
قرآنِ مجید اسی ناقابلِ تغیر اصول کو یوں بیان کرتا ہے:(وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا فَجَاءَهَا بَأْسُنَا بَيَاتًا أَوْ هُمْ قَائِلُونَ، فَمَا كَانَ دَعْوَاهُمْ إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا إِلَّا أَنْ قَالُوا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ) (الأعراف: 4) .
اور کتنی ایسی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے تباہ کیا پس ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آیا یا ایسے وقت جب وہ دوپہر کو سو رہے تھے۔پس جب ہمارا عذاب ان پر آیا تو وہ صرف یہی کہ سکے: واقعی ہم ظالم تھےمحض ماورائی استدلال نہیں، بلکہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر جابر سلطنت، ہر فاسد نظام، اور ہر وہ معاشرہ جو اخلاقی زوال کا شکار ہوا، بالآخر مٹ گیا۔ یہ اصول اسی طرح غیر متزلزل ہے، جیسے نیوٹن کا قانونِ تجاذب تین جہتی کائنات میں، یا آئن اسٹائن کا عمومی نظریۂ اضافیت چار جہتی زمان و مکان میں، جہاں مؤخر الذکر زیادہ ہمہ گیر، جامع اور مطلق حقیقت سے قریب تر ہے۔
بعینہ، دیموتاریخ بھی ایک ناقابلِ تغیر قانون ہے— جو ماضی میں بھی نافذ تھا، حال میں بھی مؤثر ہے، اور مستقبل میں بھی اپنی سچائی کو ثابت کرتا رہے گا۔اسی طرح، اگر ہم گزشتہ دس ہزار سال (یا اس سے زیادہ) کی انسانی تہذیب اور سلطنتوں کے عروج و زوال کا جائزہ لیں، تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہر وہ نظام جو انسانی حرمت، وقار اور ضمیر کو پامال کرتا ہے، بالآخر نیست و نابود ہو جاتا ہے۔یہ ایک اٹل تاریخی حقیقت ہے کہ ظلم و استبداد پر قائم حکومتیں زیادہ دیر تک باقی نہیں رہتیں۔ ان کا مقدر ہمیشہ تباہی اور زوال ہوتا ہے، اور اگر کبھی وہ وقتی طور پر اپنا وجود برقرار بھی رکھیں، تو زیادہ سے زیادہ تاریخ کے گلے میں اٹکا ہوا ایک تھوک کا گولا ہیں، جسے وہ جب چاہے، کسی بھی لمحے اگل دیتی ہے۔
یونانی منطق، ارسطوئی فلسفہ، دیکارٹ کا عقلی استدلال، جدلیاتی نظریہ، وضعي افکار، اور تمام فلسفۂ تاریخ، سب مل کر بھی اس حقیقت کی قطعی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں کہ امام حسین علیہ السلام آج بھی زندہ ہیں، ان کی یاد ہمیشہ تازہ ہے، اور ان کی فکر مسلسل ارتقا پذیر ہے۔یہ اس کے باوجود ہے کہ حسینی اُمت مادی لحاظ سے شاید دنیا کی سب سے کمزور قوم ہو، لیکن حیرت انگیز طور پر یہی اُمت تاریخ کی سب سے طاقتور اور ناقابلِ تسخیر قوت بھی ہےبغیر کسی ظاہری مادی سبب کے۔یہود، جو دنیا کی سب سے مالدار قوم رہے، تاریخ میں عظیم سلطنتوں کے مالک بنے، اور کئی ادوار میں عالمی اقتدار ان کے ہاتھ میں رہا، لیکن اگر یہودیت اور حسینیت کا تقابلی جائزہ لیا جائے، تو منطق خود سر جھکا کر اپنی بے بسی کا اعتراف کر لیتی ہے۔ یہ کوئی قابلِ قیاس موازنہ ہی نہیں۔
امام حسین علیہ السلام سن 60 ہجری میں کربلا کے میدان میں جنگ پر مجبور کر دیے گئے۔ وہ جنگ نہیں چاہتے تھے، بلکہ یہ معرکہ انسانی شرف، ضمیر کی حیات، اور انسانیت کی کرامت کے دفاع میں برپا ہوا تھا۔ آج، چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود، وہ زندہ ہیں، باقی ہیں، اور ان کا پیغام ہر دور کے یزید کے خلاف بغاوت کی صدا بن چکا ہے۔
حسینیت: دیموتاریخ کا سب سے بڑا معجزہ
اگر ہم حسینیت کو منطق اور فلسفہ کی روایتی عینک سے دیکھیں، تو بظاہر امام حسین علیہ السلام کربلا میں سب کچھ کھو بیٹھے۔ انہیں اور ان کے جانثاروں کو بے دردی سے شہید کیا گیا، ان کے مقدس سروں کو نیزوں پر بلند کیا گیا، ان کے اموال لوٹ لیے گئے، اور ان کے اہلِ بیت کو اسیر بنا کر بازاروں میں گھمایا گیا، حالانکہ وہ نہ صرف عرب، بلکہ پوری انسانیت کے اشرف ترین افراد تھے۔یہ ظلم واقعۂ کربلا کے بعد بھی جاری رہا۔ ایک کے بعد ایک سلطنت آئی، اور ہر حکومت نے سرکاری سطح پر امام حسین علیہ السلام کی توہین اور سبّ و شتم کو رواج دینے کی کوشش کی۔ لیکن حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ:اگر امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھی واقعی ظاہری طور پر شکست کھا چکے تھے، اگر وہ ہر مادی وسیلے سے محروم ہو گئے تھے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حسینیت آج بھی زندہ ہے، بلکہ ہر لمحہ مزید طاقتور ہو رہی ہے؟یہ کیسے ہوا کہ ایک بظاہر شکست خوردہ تحریک، ایسی اُمت میں تبدیل ہو گئی جو آج بھی زندہ، جاوید اور مسلسل ارتقا پذیر ہے؟ یہ کیسے ممکن ہوا کہ حسینیت دنیا کی ہر ظالم طاقت کے لیے ایک خوفناک چیلنج بن گئی، حالانکہ اس کے پاس نہ کوئی سلطنت ہے، نہ فوج، نہ ہتھیار؟یہ وہ معمہ ہے، جسے ارسطو کی منطق، دیکارٹ کی عقل، جدلیاتی فلسفہ، اور اوگست کونٹ کے وضعی نظریات، سب سمجھنے سے قاصر ہیں۔ تمام فلسفۂ تاریخ اور جدید سائنسی نظریات حسینیت کے اس معجزے کی کوئی مادی توجیہہ پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جس پر کم از کم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس پر شک کرنا بھی ممکن نہیں۔
حسینیت اور یہودیت: دیموتاریخ کے آئینے میں
اگر ہم یہودی قوم کا تجزیہ کریں، جو ہزاروں سال سے قائم ہے اور جس کے پاس بقا کے لیے بے پناہ مادی وسائل موجود ہیں، دولت، سیاسی اثر و رسوخ، طاقتور ریاستیں، اور عالمی سطح پر فیصلہ سازی میں ایک کلیدی مقام، و یہ بلاشبہ ایک انتہائی مستحکم اور محفوظ قوم سمجھی جاتی ہے۔لیکن جب ہم اس کا موازنہ اُمتِ حسینؑ سے کرتے ہیں، جو کسی بھی ظاہری مادی وسیلے سے محروم ہے، جس کے پاس نہ کوئی سلطنت ہے، نہ فوج، نہ سیاسی اقتدار، نہ مالی وسائل، تو ایک نہایت حیران کن سوال جنم لیتا ہے:آخر حسینیت آج بھی کس طرح زندہ ہے؟ بلکہ یہ روز بروز مزید طاقتور اور اثر انگیز کیسے ہوتی جا رہی ہے؟
یہ وہ غیر معمولی حقیقت ہے جسے دیموتاریخ کہا جاتا ہے، وہ اصول جو ثابت کرتا ہے کہ حقیقی بقا ہمیشہ اسی نظریے کو حاصل ہوتی ہے جو انسانی ضمیر، فطرت اور حقانیت سے ہم آہنگ ہو، نہ کہ اس نظریے کو جو محض مادی طاقت، جبر، اور وسائل کے سہارے قائم ہو۔
عیسائیت: ایک تاریخی مثال
اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ عیسائیت بھی بغیر مادی وسائل کے زندہ رہی ہے، اور یہ معاملہ صرف امام حسینؑ کی تحریک تک محدود نہیں، تو دیموتاریخ اس دلیل کو بے وزن قرار دیتا ہے، کیونکہ:عیسائیت کی ابتدائی بقا اور عروج طاقت، جبر، اور ریاستی سرپرستی کے ذریعے ممکن ہوا۔ روم کے بادشاہ قسطنطین نے 325 عیسوی میں نقیہ (Nicaea) میں عیسائیت کو زبردستی نافذ کیا، اور عوام کو تثلیث، صلیب اور تجسّد جیسے عقائد ماننے پر مجبور کیا۔ عیسائیت نے سیاسی اقتدار، فوجی قوت، اور مالی وسائل کے ذریعے ترقی کی، اور جب کبھی یہ سلطنتی تحفظ سے محروم ہوئی، تو اس کا زوال شروع ہو گیا۔یہی اصول ہر اُس تحریک پر لاگو ہوتا ہے جو ظاہری طاقت کے بل بوتے پر کھڑی ہو۔ اسلامی تاریخ میں بھی وہ تمام حکومتیں اور سلطنتیں جو تلوار اور جبر کے ذریعے پھیلیں، آج اپنا وجود کھو چکی ہیں۔ لیکن اس کے برعکس، حسینی تحریک جو کسی مادی طاقت پر نہیں، بلکہ محض انسانی ضمیر، عدل اور قرآنی اصولوں پر استوار تھی، آج بھی زندہ ہے اور مسلسل ترقی کر رہی ہے۔
یہی دیموتاریخ کا ناقابلِ تردید اصول ہے کہ:وہ قوم جو تلوار، جبر اور مادی طاقت کے ذریعے ابھرتی ہے، وہ بالآخر فنا ہو جاتی ہے، جبکہ وہ تحریک جو انسانی فطرت، عدل، اور حقانیت پر کھڑی ہو، وہ ہمیشہ باقی رہتی ہے، اور یہی حسینیت کے ابدی وجود کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
دیموتاریخ بلا شک و شبہ اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ ایک ماورائی دیموتاریخی حقیقت ہیں، جو زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہے۔ تاہم، اس کا انحصار اس حقیقت کو طاقت، دولت، اور جبر کے ذریعے مسخ کیے گئے تاریخی عیسائی تصور سے الگ کرنے پر ہے۔ چنانچہ، وہ عیسائیت جو سلطنتوں، مال و زر، اور تلوار کے زور پر پھیلی، وہ حقیقی دیموتاریخی عیسائیت نہیں، بلکہ ایک تحریف شدہ تاریخی حقیقت ہے۔یہی اصول ان تمام اسلامی حکومتوں پر بھی لاگو ہوتا ہے جو اسلام، قرآن، اور اہلِ بیتؑ کے نام پر قائم ہوئیں، لیکن جن کی بنیاد تلوار، دولت، اور مذہب کے استحصال پر رکھی گئی، خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی، حق پر ہوں یا باطل پر۔ ایسی تمام سلطنتیں فنا ہو چکی ہیں، اور آج محض عبرتناک یادگار کے طور پر باقی ہیں۔
دیموتاریخ اور بقاء کا اصول
دیموتاریخ کے مطابق، ہر وہ تحریک یا نظریہ جو طاقت، جبر، اقتدار، اور مالی وسائل کے ذریعے فروغ پاتا ہے، وہ لازمی طور پر زوال پذیر ہوتا ہے۔ ایسی تحریک کو نہ دائمی زندگی حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی ابدی بقا۔ البتہ، وہ جدوجہد جو محض دفاعی ہو، اس اصول سے مستثنیٰ ہے۔
اسی لیے دیموتاریخ کے مطابق نبی اکرمؐ کی تمام جنگیں دفاعی نوعیت کی تھیں، جو دین کے وقار اور انسانی فطرت کے تحفظ کے لیے لڑی گئیں۔امام حسینؑ کی تلوار کربلا میں ایک دیموتاریخی دفاع تھی، جو دین کی حرمت، انسانی ضمیر، اور ازلی سچائی کی حفاظت کے لیے بلند ہوئی۔اسی طرح، امام علیؑ کی جنگیں— صفین، جمل، اور نہروان— صرف اقتدار کے حصول کے لیے نہیں، بلکہ حق و باطل کی تمیز اور عدل کے قیام کے لیے تھیں۔
یہی وہ اصول ہے جو دیموتاریخ کو ہر نظریے کے حقیقی یا مصنوعی ہونے کا معیار فراہم کرتا ہے۔ طاقت اور اقتدار سے پروان چڑھنے والے نظریات بالآخر مٹ جاتے ہیں، مگر جو تحریک انسانی فطرت، عدل، اور حقانیت پر استوار ہو، وہ ہمیشہ باقی رہتی ہے، اور یہی حسینیت کی ازلی سچائی ہے۔
دیموتاریخی (دفاعی) جنگ کی ایک درخشاں مثال، جو نبی اکرمؐ، امیرالمؤمنینؑ، اور امام حسینؑ کی جنگی حکمتِ عملی کے اصولوں پر مبنی ہے، وہ تاریخی فتویٰ ہے جس کے ذریعے داعش کے خلاف قیام کو واجب قرار دیا گیا۔ اس جنگ کی ناگزیریت اس حقیقت پر مبنی تھی کہ یہ قطعی طور پر ثابت ہو چکا تھا کہ اگر داعش کی سرکشی کو روکا نہ جاتا، تو وہ انسانیت، دین، فطرت، اور قرآن کی تمام مقدسات کو پامال کر ڈالتے۔دیموتاریخ کی فیصلہ کن قوت: جب مادی وسائل بے وقعت ہو جاتے ہیں، یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ داعش کے خلاف سب سے پہلے شیعہ مجاہدین نے قیام کیا، حالانکہ طاقت، عسکری وسائل، اور بین الاقوامی پشت پناہی کے اعتبار سے وہ داعش اور اس کے استکباری سرپرستوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھے۔ مگر دیموتاریخ نے اس معرکے کا فیصلہ کر دیا، کیونکہ بقا ہمیشہ اسی کے حصے میں آتی ہے جو اس کا حقیقی مستحق ہو، چاہے وہ مادی وسائل سے مکمل طور پر محروم ہی کیوں نہ ہو۔
ایسی دیموتاریخی جنگوں کی بدولت تشیّع ہمیشہ زندہ، متحرک اور مسلسل فروغ پذیر رہتا ہے۔ یہ ایک ایسی امت ہے جسے مٹایا نہیں جا سکتا، اور طویل المدت میں اسے زیر کرنا ممکن ہی نہیں۔ آخر ایسی امت کو کیسے شکست دی جا سکتی ہے، جب کہ تاریخ کی بقا اور انسانی ضمیر کی حیات کے اسباب اسی میں پنہاں ہیں؟
امتِ حسینؑ، جو نبی اکرمؐ، امیرالمؤمنینؑ، امام حسینؑ، اور قرآن کی پیداوار ہے، تاریخ کے ہر موڑ پر زندہ و جاوید رہے گی۔ اگرچہ یہ امت بظاہر اقتدار، دولت، ریاست، یا عسکری قوت سے محروم ہو، بلکہ اگر تمام ظاہری وسائلِ بقا بھی اس سے چھین لیے جائیں، تب بھی اس کا وجود مٹایا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ یہ امت انسانیت کے زندہ ضمیر اور بشریت کے ازلی و ابدی شعور کی حقیقی ترجمان ہے۔(يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ) (سورہ الصف:8)یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ (کی پھونکوں) سے اللہ کے نور کو بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا خواہ کفار برا مانیں۔
(مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے: "دیموتاریخ الرسول المصطفى والحسين عليهما السلام")