

اسلام میں سزاؤں کا فلسفہ:عدل اور سماجی اصلاح کے مابین توازن
تحریر: شیخ معتصم السید احمد
بعض شرعی احکام، جیسے مرتد کی سزائے موت اور زنا کی حد، الٰہی رحمت کے اصولوں سے ان کےموافقت کے حوالے سے سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ تاہم، کسی بھی شرعی حکم کی صحیح تفہیم تبھی ممکن ہے جب اسے اس کے حقیقی سیاق و سباق میں سمجھا جائے، کیونکہ کسی حکم کو اس کے اصل پس منظر سے ہٹ کر لاگو کرنا یا اسے اس کی حقیقی غایات و مقاصد سے جدا کر کے محض نظریاتی زاویے سے دیکھنا، ایک غیر متوازن اور غلط فہمی پر مبنی نقطۂ نظر کو جنم دیتا ہے۔ لہٰذا، اسلامی قوانین کو سمجھنے کے لیے ایک جامع اور کلی نگاہ درکار ہے، جو کسی ایک حکم کو اس کے جزوی مفہوم میں محدود کرنے کے بجائے، پورے اسلامی نظام کے تناظر میں دیکھے۔ اس طرح، ان احکام کو ایک وسیع تر اسلامی منصوبے کے تحت پرکھا جا سکتا ہے، جو ایک متوازن اخلاقی اور فکری نظام پر مبنی ہم آہنگ اور منظم معاشرے کی تشکیل کو یقینی بناتا ہے۔
اسلامی نظام اور عقیدے کی اہمیت
اسلام محض انفرادی عقائد کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک مکمل نظام ہے جو فرد اور معاشرے کی ہمہ جہت ترقی کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اسی لیے اس کے قوانین اور احکام ایک مربوط منصوبے کا حصہ ہیں، جو سماجی استحکام اور اخلاقی نظم و ضبط کو یقینی بناتے ہیں۔اسلام میں عقیدہ صرف ذاتی اعتقاد نہیں، بلکہ وہ بنیادی ڈھانچہ ہے جس پر انسانی اقدار، رویے، اور معاشرتی اصول استوار ہوتے ہیں۔ جب عقیدہ مضبوط اور واضح ہو، تو معاشرہ مستحکم رہتا ہے اور فکری و اخلاقی انحرافات سے محفوظ رہتا ہے۔ لیکن اگر عقیدہ متزلزل ہو جائے یا اس میں بگاڑ پیدا ہو، تو فکری اور اخلاقی بے راہ روی پھیل جاتی ہے، جو سماجی توازن کو بگاڑ دیتی ہے۔ اسی پس منظر میں بعض قوانین وضع کیے گئے تاکہ عقیدے کا تحفظ کیا جا سکے۔ ان قوانین کا مقصد سوچنے اور سوال کرنے کی آزادی کو محدود کرنا نہیں، بلکہ فکری نظام کو بدنظمی اور غیر ذمہ دارانہ تحریف سے محفوظ رکھنا ہے۔
اسلام میں مرتد کی سزائے موت کا حکم فکری آزادی کو سلب کرنے یا عقل پر قدغن لگانے کے لیے نہیں، بلکہ یہ ایک وسیع تر نظام کا جزو ہے جو امت کے عقیدتی تحفظ اور دینی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ جس طرح جدید ریاستیں اپنی قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے غداری اور دشمنوں سے سازباز کے خلاف سخت قوانین نافذ کرتی ہیں، اسی طرح اسلام بھی ایسے احکام متعین کرتا ہے جو معاشرے کو اندرونی خلفشار اور فکری انتشار سے محفوظ رکھتے ہیں۔ بعض مخصوص حالات میں، ارتداد معاشرتی ہم آہنگی اور دینی وحدت کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے، بالخصوص جب اس کا مقصد فتنہ برپا کرنا اور لوگوں کے عقائد کو متزلزل کرنا ہو۔
چنانچہ، اسلام نے "مرتد مستہتر"اور "مرتد عن شبهة" کے درمیان واضح فرق رکھتا ہے۔
(مرتد مستہتر) وہ شخص ہے جو ذاتی یا سیاسی مقاصد کے تحت اپنے ارتداد کا علانیہ اظہار کرتا ہے، تاکہ معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلائے یا لوگوں کے دینی مسلمات کو مشکوک بنا کر ان کے عقائد کو متزلزل کرے۔ اس کا یہ طرزِ عمل فکری انتشار کو جنم دیتا ہے اور دینی و سماجی استحکام کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اسی لیے، ایسے شخص پر وہ سزا نافذ کی جاتی ہے جو نہ صرف اسے روکنے بلکہ اس کے تخریبی اثرات کے سدباب کے لیے مقرر کی گئی ہے۔
اس کے برعکس، (المرتد عن شبهة) وہ ہے جو کسی فکری شبہ یا نظریاتی الجھن کی وجہ سے دین سے منحرف ہو جاتا ہے۔ ایسے فرد کے ساتھ سختی کے بجائے حکمت و نرمی سے پیش آیا جاتا ہے، اسے سوالات کے جوابات اور فکری وضاحت کا موقع دیا جاتا ہے، اور اگر وہ حقیقت کو پا لے تو اسے دوبارہ اسلام کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
مرتد کی سزا کا حکم قرآن کریم کی آیت )لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ) سے متصادم نہیں، کیونکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کسی کو اسے زبردستی قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ تاہم، ایک بار جب کوئی شخص شعوری طور پر اسلام کو اپنا لیتا ہے، تو اس پر کچھ اصول و ضوابط لاگو ہوتے ہیں جو اسلامی معاشرے کے فکری اور عقیدتی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔
جس طرح ہر سیاسی اور قانونی نظام میں کچھ حدود مقرر ہوتی ہیں، جنہیں عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، اسی طرح اسلام بھی ایک مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر اپنے بنیادی ڈھانچے کو تحریف اور انتشار سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرتد مستہتر، جو یقین کے ساتھ اسلام قبول کرنے کے بعد جان بوجھ کر اس سے منحرف ہوتا ہے، ایک عام غیر مؤمن کے مقابلے میں زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ صرف اپنا عقیدہ ترک نہیں کرتا بلکہ فکری انارکی اور نظریاتی بے یقینی کو ہوا دے کر معاشرتی استحکام کو نقصان پہنچاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے جدید قوانین میں "غداری" کو ایک سنگین جرم سمجھا جاتا ہے، چاہے مجرم یہ دعویٰ کرے کہ اس نے اپنے نظریات یا وفاداری کو تبدیل کر لیا ہے۔
ان احکام کے بارے میں ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ ان کے نفاذ کا اختیار عام افراد یا حتیٰ کہ سیاسی حکام کو بھی حاصل ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی فقہ میں حدود کا نفاذ صرف اس ہستی کے ذریعے ممکن ہے جو شرعی طور پر اللہ کی حاکمیت اور مرضی کی نمائندگی کا اختیار رکھتی ہو، جیسے نبی اکرمؐ یا امام معصومؑ۔ فقہاء امامیہ نے عصرِ غیبتِ کبریٰ میں حدود کے نفاذ کے بارے میں مختلف آراء پیش کی ہیں۔ بعض فقہاء، جیسے شیخ طوسی، ابن ادریس، اور سید احمد خوانساری، کا مؤقف یہ ہے کہ حدود کا نفاذ صرف امام معصومؑ کا حق ہے، اور ان کی غیبت میں ان کا اجرا جائز نہیں۔ اس کے برعکس، شیخ مفید، شہید اول، امام خمینی، اور سید خوئی جیسے فقہاء کا نظریہ ہے کہ جامع الشرائط فقیہ کو بھی عصرِ غیبت میں حدود نافذ کرنے کا اختیار حاصل ہے، اور صاحبِ جواہر نے اس رائے کو اختیار کرتے ہوئے اس پر اجماعِ علماء شیعہ کا دعویٰ کیا ہے۔
تیسرا نظریہ، جسے بعض فقہاء، خاص طور پر قمی فقہاء نے اختیار کیا، یہ ہے کہ عصرِ غیبت میں حدود کا نفاذ جائز نہیں، البتہ فقیہ کو تعزیری سزائیں دینے کا اختیار حاصل ہے۔
یہ اختلاف ظاہر کرتا ہے کہ حدود کے نفاذ کا مسئلہ فقہی اجتہاد پر مبنی ہے اور اس پر کوئی متفقہ نظریہ موجود نہیں۔ لہٰذا، عصرِ حاضر میں ان احکام کے نفاذ کے لیے ایک مضبوط فقہی و اجتہادی بصیرت درکار ہے جو معاشرتی حالات اور ضروریات سے ہم آہنگ ہو۔ ان احکام کو انفرادی یا سیاسی بنیادوں پر نافذ کرنا درست نہیں، خصوصاً جب شریعت کا مقصد محض سزا دینا نہیں، بلکہ ایسا مستحکم اور عادل معاشرہ تشکیل دینا ہے جو خود کو فتنہ و فساد اور جرائم سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہی وہ ہدف ہے جو اکثر معاصر اسلامی معاشروں میں اب تک مکمل طور پر حاصل نہیں ہو سکا۔ مزید برآں، ان احکام کو اسلامی قانون سازی کی وسیع تر حکمت کے تناظر میں سمجھنا ضروری ہے، جو سزاؤں کو آخری تدبیر کے طور پر اختیار کرتا ہے، نہ کہ اولین حل کے طور پر۔ شریعتِ اسلامی کی بنیاد سب سے پہلے ایک ایسا معاشرتی نظام قائم کرنے پر رکھی گئی ہے جو جرائم کے سدِّباب کو یقینی بنائے، قبل اس کے کہ وہ مجرموں پر سزائیں نافذ کرے۔
اسلامی قانون کا مقصد محض سزاؤں کا نفاذ نہیں، بلکہ ان بنیادی اسباب اور عوامل کو جڑ سے ختم کرنا ہے جو جرائم کے ارتکاب کا باعث بنتے ہیں، تاکہ سزا دینا محض ایک استثنائی اقدام رہے، نہ کہ عام ضابطہ۔ اسی لیے، شریعت نے ایک ہمہ گیر قانونی و اخلاقی نظام وضع کیا جو عدل، مساوات، اور اجتماعی ذمہ داری کے اصولوں پر مبنی ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جہاں جرائم کے مواقع اور ان کے اسباب از خود محدود ہو جائیں۔ مثال کے طور پر، حدِ سرقہ اسی وقت نافذ کی گئی جب سماجی انصاف کو مکمل طور پر یقینی بنایا جا چکا تھا۔ اسلامی شریعت نے ریاست اور معاشرے پر لازم کیا کہ وہ ہر فرد کو باعزت زندگی کے مواقع فراہم کریں، چاہے وہ روزگار، سماجی کفالت، یا زکوٰۃ و صدقات کے منظم نظام کے ذریعے ہو، تاکہ کسی کو چوری کی طرف مائل ہونے کا کوئی حقیقی جواز نہ ملے، سوائے چند انتہائی نادر حالات کے۔
جب معاشرہ غربت اور بنیادی ضروریات کی محرومی سے آزاد ہو جائے اور اس کے تمام افراد کی بنیادی حاجات پوری ہو رہی ہوں، تو ایسے ماحول میں چوری حاجت کی بنا پر نہیں، بلکہ اخلاقی زوال اور بے حسی کی علامت بن جاتی ہے۔ ایسے حالات میں، سخت سزا کا نفاذ محض انتقامی کارروائی نہیں، بلکہ عدل و انصاف کے عین مطابق ایک ناگزیر اقدام ہوتا ہے تاکہ سماجی نظم و ضبط کو تباہی سے بچایا جا سکے۔ چنانچہ، اسلامی قانون میں سزائیں صرف جرائم کی روک تھام کے لیے نہیں، بلکہ معاشرتی استحکام اور اجتماعی فلاح کے تحفظ کے لیے آخری تدبیر کے طور پر متعین کی گئی ہیں، جب تمام اصلاحی اور احتیاطی تدابیر ناکام ہو چکی ہوں۔
یہی اصول دیگر حدود پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اسلامی شریعت کسی بھی سزا کے نفاذ سے قبل ان سماجی عوامل کی اصلاح پر زور دیتی ہے جو جرائم کی روک تھام میں معاون ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، زنا کے معاملے میں، اسلام نے ایک مکمل نظام قائم کیا ہے تاکہ معاشرے کو اخلاقی بگاڑ سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اس مقصد کے تحت، اسلام نے نکاح کو آسان بنایا، غیر ضروری اور بے ضابطہ اختلاط کو ممنوع قرار دیا، نگاہوں کی حفاظت، حجاب کی پابندی، اور عفت و حیا کی فضا کو فروغ دینے جیسے اقدامات متعارف کرائے، تاکہ ایک مثالی اسلامی معاشرے میں زنا کے ارتکاب کا امکان نہایت محدود ہو جائے۔
اسی طرح، اسلام نے زنا کے مرتکب افراد کے درمیان فرق واضح کیا ہے۔ اگر کوئی غیر شادی شدہ شخص اس جرم میں ملوث ہو، تو اس پر حدِ جلد نافذ کی جاتی ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ شہوت کے غلبے یا نفسیاتی کمزوری کی بنا پر اس گناہ میں مبتلا ہوا ہو۔ لیکن اگر کوئی شادی شدہ فرد زنا کا مرتکب ہو، تو اس پر حدِ رجم نافذ کی جاتی ہے، کیونکہ اس نے جائز ازدواجی تعلقات میسر ہونے کے باوجود اس سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔ اس کا جرم زیادہ سنگین اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف ایک فحش عمل میں ملوث ہوا بلکہ اس کے نتیجے میں معاشرتی بگاڑ اور اخلاقی فساد کی راہ بھی ہموار ہوئی۔ چنانچہ، اسلامی قانون میں یہ جرم محض ایک انفرادی لغزش نہیں، بلکہ پورے معاشرتی نظام کی اخلاقی بنیادوں کے لیے ایک سنگین خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔
اسی لیے، اسلامی سزائیں محض مجرد قانونی احکام نہیں، بلکہ ایک ہمہ جہت نظام کا حصہ ہیں جو فرد اور معاشرے کی فلاح و بقا کے اصولوں پر مبنی ہے۔ ان سزاؤں کا نفاذ کسی غیر منصفانہ یا جذباتی ردِعمل کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک ایسے سماجی، اقتصادی اور اخلاقی ڈھانچے کے قیام سے مشروط ہے جو جرم کے اسباب کا تدارک کرے۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ جرم کی روک تھام کے لیے پہلے اصلاحی و احتیاطی تدابیر کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے، اور اگر ان کے باوجود جرم سرزد ہو، تب ہی سزا کا اطلاق کیا جائے۔ چنانچہ، اسلام میں سزاؤں کا مقصد محض انتقام یا عبرت نہیں، بلکہ ایک ایسے منصفانہ اور متوازن سماج کا قیام ہے، جہاں جرائم کی جڑیں ختم کر دی جائیں اور عدل و انصاف کی فضا قائم ہو۔
خلاصہ
اسلامی سزائیں محض تعزیری قوانین نہیں بلکہ ایک جامع اصلاحی نظام کا حصہ ہیں، جو عدل، پاکیزگی، اور سماجی استحکام کو یقینی بناتا ہے۔ اسلام کا بنیادی ہدف ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں جرائم کی وجوہات کا ازالہ کر کے ان کے امکانات کو کم سے کم کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ حدود کے نفاذ سے قبل اسلامی اصولوں پر مبنی عدل، اخلاقی تربیت، اور سماجی فلاح کے تمام ذرائع فراہم کیے جاتے ہیں۔ اسلام میں سزا آخری چارہ کار ہے، جو تبھی دی جاتی ہے جب تمام اصلاحی تدابیر ناکام ہو جائیں۔ اگر معاشرہ عدل، فلاح، اور اخلاقی استحکام کی بنیادی شرائط پوری نہ کرے، تو حدود کا نفاذ غیر مؤثر اور غیر منصفانہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا، اسلامی قوانین کو صرف سزاؤں کے تناظر میں نہیں، بلکہ ایک مکمل سماجی، اخلاقی اور قانونی نظام کے طور پر سمجھنا ضروری ہے، جہاں اصلاح پہلے اور سزا بعد میں آتی ہے۔