

خدا کے بغیر اخلاقیات کا تصور کیسے متاثر ہوتا ہے؟
الشيخ معتصم السيد أحمد
خدا کے وجود کا مسئلہ محض ایک نظریہ یا خیال نہیں ہے جسے نظرانداز کر دیا جائے یا ہلکا لیا جائے بلکہ یہ ایک بنیاد ہے جو انسان کے عقائد اور دنیا کے بارے میں اس کے نظریے کو تشکیل دیتا ہے۔ اللہ کے وجود کا سوال کائنات کی حقیقت، زندگی کی معنویت اور انسانی تکالیف کے بارے میں گہرے سوالات کا راستہ کھولتا ہے۔یہ مفروضہ کہ اگر خدا موجود ہےاور وہ ظلم سے راضی ہے تو وہ تسلیم کیے جانے کے لائق بھی نہیں ہے؟اس مفروضہ میں ایک منطقی نقص ہے کیونکہ یہاں ایک مسئلے سے دوسرے مسئلے کی طرف بغیر کسی منطقی ربط کے منتقل ہوا جا رہا ہے۔ اصل معاملہ خدا کے وجود کے سوال سے شروع ہوتا ہےاور اس کے بغیر یہ بحث کرنا کہ آیا وہ انصاف پسند ہے؟ یا ظلم سے راضی؟ درست نہیں ہے۔ اس سے غیر منطقی اسلوب ظاہر ہوتا ہے کہ سوال اٹھانے والے نے منظم فکر کو مدنظر نہیں رکھا بلکہ ٹھوس دلائل کے بغیر ہے خیالات کو آگے پیچھے غلط انداز میں پیش کر دیا ہے۔
خدا کے وجود کو تسلیم کرنے کا معاملہ ایک معروضی حقیقت سے جڑا ہے نہ کہ کسی ذاتی انتخاب یا مزاج کا مسئلہ ہے۔ دنیا میں موجود چیزوں کو ہمارے ذاتی اعتراف کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ ہم اعتراف کریں تو وہ موجود سمجھی جائیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ایک پہاڑ موجود ہے تو ہم ایک مادی حقیقت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں جو ہمارے ذاتی قبول یا انکار سےبالکل باہر ہے۔ یہی اصول خدا کے وجود پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اس پر ایمان لانا کسی کے ذاتی اعتراف سے زیادہ ایک منطقی استدلال سے تعلق رکھتا ہے جو حواس سے جڑا ہوسکتا ہے لیکن حقیقت میں وہ موجود رہتا ہے۔ لہٰذایہ کہنا کہ "چاہے خدا موجود بھی ہو، میں اسے تسلیم نہیں کرتا" وجود کو تسلیم کرنے کے منطقی طریقے سے متصادم ہے کیونکہ اس طرح کا انکار درحقیقت خود وجود کے انکار کے مترادف ہے، جو معروضی حقیقت کو سمجھنے کے اصول سے مطابقت نہیں رکھتا۔
عام طور پر ملحد جن تضادات کا شکار ہوتا ہے، ان سے الجھے بغیر آگے بڑھ کرپہلے اُس بنیادی مسئلے پر بات کرنا ضروری ہے ، یعنی وہ دنیا میں موجود برائیوں اور ناانصافیوں کا مسئلہ اٹھاتا ہے اس سے آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ فطری بات ہے کہ انسان کائنات میں انصاف اور بھلائی کی تلاش کرےلیکن یہاں بنیادی سوال یہ ہے: ہم خیر و شر کا تعین کس پیمانے پر کرتے ہیں؟ اور وہ کون سا ذریعہ ہے جو ان تصورات کو آفاقی حیثیت دیتا ہے؟ اگر خدا ایک مطلق ہستی کے طور پر موجود ہے تو وہی اعلیٰ اور واحد معیار ہوگا جس پر انسان خیر و شر کی بحث میں تمیز کر سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ مطلق ذریعہ ہی موجود نہ ہو تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تصورات ہی کہاں سے آتے ہیں؟ کیا یہ فرد اور معاشرے کے لحاظ سے بدلنے والے نسبتی امور ہیں یا پھر کوئی ایسی مستقل حقیقت ہے جو حالات کے بدلنے سے بھی تبدیل نہیں ہوتی؟
الحاد ایک مادی فکری نظام ہےاس لیے یہ اخلاقیات کی کوئی معروضی تشریح پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اخلاقیات میں نیکی، انصاف، احسان اور رحم جیسے اوصاف ہیں یہ مادی خصوصیات نہیں ہیں جنہیں تجرباتی طور پر ناپا یا لیبارٹری میں پرکھا جا سکے۔ مادی نقطہ نظر کے مطابق انسان محض ایک متحرک مادہ ہے جو حیاتیاتی قوانین کے تابع ہے تو پھر یہ اخلاقی اقدار کہاں سے آتی ہیں؟ اور انسان کے اندر ایسا اخلاقی شعور کیسے پیدا ہو سکتا ہے جو اندھے قدرتی قوانین سے آزاد ہو؟ اگر اخلاقی تصورات محض انسانی ذہن کی تخلیق ہیں تو الحاد ان کی وضاحت کیسے کر سکتا ہے؟
جب ملحد اخلاقیات پر بات کرنے کی کوشش کرتا ہےمشکل میں پڑ جاتا ہے کیونکہ اگر دنیا محض ایک مادی حقیقت ہے جو قدرتی قوانین کے تابع ہے تو پھر خیر و شر کا کوئی معروضی مفہوم ہی نہیں رہتا بلکہ یہ محض انسانی ذہن کی تخلیق بن کر رہ جاتے ہیں جن کی کوئی حقیقی بنیاد ہی نہیں ہوتی۔ اس صورت میں تو ملحد کا دنیا میں برائی اور ناانصافی کے وجود پر اعتراض ہی بے بنیاد ہو جاتا ہے کیونکہ وہ خود اخلاقیات کے وجود کی کوئی معقول تشریح پیش نہیں کر سکتا۔ یہ اسے ایک فکری الجھن میں ڈال دیتا ہے جہاں اخلاقیات کا معاملہ کسی مستحکم بنیاد سے ہی محروم ہو جاتا ہے۔
اسی حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ مشہور فلسفی ویلیام لین کریگ نے اپنی ویب سائٹ پر قارئین کے سوالات کے حصے میں لکھا ہے جس کا عنوان تھا: پروفیسر کریگ، آپ نے میری زندگی تباہ کر دی!مختصر یہ کہ سوال لکھنے والا ایک امریکی یونیورسٹی کا فلسفہ کا طالب علم تھا، جو پوری طرح ملحد ہو چکا تھا وہ الحاد میں اتنا آگے بڑھ چکا تھا کہ اس کی زیادہ تر تحقیقی تحریریں بھی الحاد کے بارے میں ہوتی تھیں۔ ایک دن اس نے کریگ کا ایک مضمون پڑھا، جس کا عنوان تھا: "خدا کے بغیر زندگی کی عدم معنویت" اس مضمون نے اس کے اندر ایک زلزلہ برپا کر دیاوہ اس قدر متاثر ہوا کہ دو راتیں سو نہ سکا۔ اس نے کئی مہینوں تک کریگ کے دلائل کا جواب تیار کرنے کی کوشش کی اور جب اس نے اپنا تفصیلی تنقیدی رد مکمل کیا تو اسے کچھ اطمینان محسوس ہوا۔
کریگ کے استدلال کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ اگر خدا پر ایمان نہ ہو تو الحادی سوچ بالآخر عدمیت (Nihilism) کی طرف لے جاتی ہے، جہاں کسی بھی چیز کی اپنی کوئی حقیقی قدر یا معنی نہیں رہتا۔ یہ بات اس نوجوان کے دل میں اتر گئی اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ الحاد کے مطابق زندگی گزارے کیونکہ اگر اس کا طرزِ زندگی اس کے نظریات سے مختلف ہوتا ہے تو یہ فکری تضاد ہوگا۔ لیکن جب اس نے عدمیت کے فلسفہ کے مطابق جینے کی کوشش کی، تو وہ شدت سے پکار اٹھا"عدمیت کے مطابق زندگی نہیں گزاری جا سکتی!"
وہ شدید ذہنی انتشار کا شکار ہو گیا اور تنہائی میں چلا گیا کیونکہ اسے احساس ہو گیا تھا کہ خدا پر ایمان ہی وہ واحد چیز ہے جو زندگی کو معنی دے سکتا ہے اور اس کے ذہن میں ابھرنے والے سوالات کے جوابات فراہم کر سکتا ہے.آخر میں اس نوجوان نے اپنی تحریر کو ان الفاظ کے ساتھ ختم کیا۔ "میں ایک ملحد ہوں. جو الحاد سے نفرت کرتا ہے!"
یہ واقعہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ کس طرح ایک شخص جب عملی طورپر مادی نظریہ اپنانے کی کوشش کرتا ہے جو کسی مستحکم اور مضبوط بنیاد سے محروم ہوتا ہے شدید اندرونی کشمکش کا سامنا کرتا ہے۔ اس ساری بحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملحد اخلاقیات پر صرف اسی صورت میں اعتراض کر سکتا ہے جب وہ پہلے خدا کے وجود کو تسلیم کرے کیونکہ اخلاقیات کا کوئی حقیقی مفہوم تبھی ممکن ہے جب خیر و شر کا تعین کرنے کے لیے کوئی مطلق معیار موجود ہو۔ اگر کوئی شخص خدا پر ایمان لانے سے انکار کرتا ہے تو اسے اپنی نظریہ کے مطابق یہ بھی قبول کرنا ہوگا کہ زندگی بے معنی ہےاور ناانصافیوں پر بات کرنا محض ذاتی جذبات کا اظہار ہےجس کی کوئی معروضی حقیقت نہیں۔ خدا کے بغیر اخلاقیات محض انفرادی آراء بن کر رہ جاتی ہیں، جن کی کوئی مستقل اور مستحکم بنیاد نہیں ہوتی۔
مذہبی نقطہ نظر سے عدل کو سمجھنے کے لیے زندگی کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر زندگی حقیقتاً ایک ابدی جنت ہوتی جہاں انسان کو کسی تکلیف یا آزمائش کا سامنا نہ کرنا پڑتا تو پھر دنیا میں برائیوں اور ناانصافیوں کا وجود عدل کے خلاف تصور کیا جاتا۔ لیکن اگر یہ زندگی ایک امتحان اور آزمائش ہے، جہاں انسان اپنی مرضی سے اپنی آخرت کا انجام طے کرتا ہےتو پھر مشکلات اور مصائب بھی اس امتحان کا لازمی حصہ بنتے ہیں۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:(أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ) (العنكبوت: 2) کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟
لہٰذا، یہاں برائیاں اور مشکلات ظلم نہیں بلکہ انسان کی آزمائش اور اس کے اخلاقی و روحانی امتحان کا ذریعہ ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی سے زندگی کا راستہ چُن سکے۔یہ نقطہ نظر مذہبی تصورِ عدل کا ایک حصہ ہے جو الٰہی حکمت کو مدنظر رکھتا ہے ایک ایسی حکمت جو انسانی عقل کے محدود دائرے کی وجہ سے مکمل طور پر نہیں سمجھی جا سکتی لیکن یہ عدل کے ایک وسیع اور اعلی مفہوم کا بتاتی ہے۔اسی طرح دنیا میں برائیوں اور ناانصافیوں پر بحث صرف اسی صورت میں منطقی ہو سکتی ہے جب ہم خدا کے وجود کو تسلیم کریں کیونکہ اخلاق اور اقدار کی وضاحت تبھی ممکن ہے جب ان کے لیے کوئی مطلق معیار موجود ہو۔جبکہ ملحد ان امور پر اعتراض کرتے ہوئے خود ایک تضاد کا شکار ہو جاتا ہےکیونکہ اس کے پاس خیر و شر کے تعین کے لیے کوئی معروضی بنیاد ہی نہیں ہوتی۔
نتیجہ
آخر میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خدا کا وجود محض ایک نظریاتی یا فلسفیانہ بحث نہیں بلکہ ایک بنیادی حقیقت ہے جو انسانی فکر، اخلاقیات اور زندگی کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔اگر مطلق معیار نہ ہو تو اخلاقیات کا تصور تضادات اور شکوک میں الجھ کر بے معنی ہو جاتا ہے۔ اس کا حل تبھی ممکن ہے جب خدا کے وجود کو تسلیم کیا جائے۔جہاں الحاد مادی نقطہ نظر سے اخلاقی اقدار کی وضاحت کرنے میں ناکام رہتا ہےوہیں ایمان باللہ ایک معقول اور معروضی تشریح پیش کرتا ہے جو اخلاقیات کے لیے ایک مستحکم معیار فراہم کرتی ہے۔لہٰذا، خدا کا وجود زندگی کے مقصد اور معنی کو سمجھنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بغیر، دنیا معنویت سے خالی ہو جاتی ہے اور انسان ایسے سوالات میں الجھ جاتا ہے جن کا جواب محض مادی سوچ کی حدود میں رہتے ہوئے ممکن نہیں۔ صرف خدا پر ایمان ہی وہ بنیاد ہے جو انسان کی اقدار اور اس کے مقصدِ حیات کو ایک واضح سمت عطا کرتا ہے۔