14 رمضان 1446 هـ   14 مارچ 2025 عيسوى 10:09 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-01-31   268

ریچرڈ ڈاکنز اور انسانی اخلاقیات کی بنیاد

معتصم السيد أحمد

ریچرڈ ڈاکنز اپنی کتاب (خدا ئی مغالطہ-The God Delusion-)کے باب نمبر 6 )اخلاق کی ابتدا[i] (میں ایک نہایت گہری اور پیچیدہ بحث چھیڑتے ہیں، جہاں وہ ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا اخلاق کو خدا کے وجود کے بغیر خالصتاً فطری بنیادوں پر سمجھا جا سکتا ہے؟ ڈاکنز اس باب میں ایک عام غلط فہمی کی نشاندہی بھی کرتے ہیں جسے وہ "ڈارونی اخلاقیات"کہتے ہیں۔ ان کے مطابق"قدرتی انتخاب کی وضاحت کرنااس وقت کافی مشکل ہو جاتا ہے جب بات انسانی نیکی، دیانت داری، ہمدردی اور افسوس جیسے اخلاقی احساسات کی ہو۔اسی طرح  قدرتی انتخاب انسانی بھوک، خوف، جنسی خواہشات، اور دیگر وہ چیزیں جو جینیاتی بقا میں براہ راست مدد کرتی ہیں، انہیں آسانی سے بیان کر سکتا ہے۔ لیکن وہ احساسات جو ہمیں یتیم بچوں کو روتے دیکھ کر ہمدردی پر مجبور کرتے ہیں، یا کسی بیوہ کی تنہائی پر دکھی کرتے ہیں،بھلا وہ کہاں سے آتے ہیں؟اور وہ  کیا چیز ہےجوہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم دور دراز کے خطے میں سونامی کے متاثرین کو عطیات بھیجیں، حالانکہ ان سے کوئی ذاتی فائدہ ممکن نہیں؟ یہ ہمدردی اور نیکی کہاں سے جنم لیتی ہیں؟ کیا یہ خیر خواہی "خود غرض جینز کے نظریے" سے متصادم نہیں؟"

ریچرڈ ڈاکنز اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ غلط فہمی نظریے کی ناقص سمجھ سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ اس غلط فہمی کو "افسوسناک لیکن ہمیشہ متوقع" قرار دیتے ہیں، اور واضح کرتے ہیں کہ جینز کی "خودغرضی" کا مطلب حیاتیات یا معاشروں کی خودغرضی کے مترادف نہیں ہے۔ ڈاکنز "خودغرض جین" اور "خودغرض جاندار" کے درمیان فرق کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ قدرتی انتخاب کے دائرے میں اخلاقیات کے وجود کو جائز قرار دے سکیں۔ وہ کہتے ہیں:"یہ ضروری ہے کہ ہم درست الفاظ پر توجہ دیں۔ 'خودغرض جین' کا مطلب 'خودغرض جاندار' یا 'خودغرض نوع' کے مترادف نہیں ہے۔ ڈارونی منطق ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ حیاتیاتی اکائیاں، جو قدرتی انتخاب کے ذریعے باقی رہتی ہیں اور آگے منتقل ہوتی ہیں، وہ خودغرض ہونے کا رجحان رکھتی ہیں۔بلکہ وہ  اکائیاں جو باقی رہتی ہیں، وہ اپنے ہی سطحی طبقے میں موجود حریف اکائیوں کی بناء پر باقی رہتی ہیں۔ اور یہی وہ بات ہے جو اس سیاق میں خودغرضی کا مطلب بیان کرتی ہے۔"

نظریے پر تنقید:

1۔جین اور جاندار کے درمیان تضاد

ڈاکنز دعویٰ کرتے ہیں کہ "جینز کی خودغرضی" کا مطلب یہ نہیں کہ جاندار خود بھی لازمی طور پر خودغرض ہو، البتہ یہ فرق کئی منطقی مسائل کو جنم دیتا ہے:

جینز جاندار کی بنیادی ساختی اکائیاں ہیں: اگر جینز اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لیے خودغرضانہ رویہ اپناتی ہیں، تو یہ قدرتی بات ہے کہ یہ خودغرضی جاندار پر بھی اثر اندازہوگی، کیونکہ آخرکار جاندار جینز کا مجموعہ ہی تو ہے، جیسا کہ ڈاکنز خود اسے ایک "میکانزم" یا "سواری" قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ، جینز خودغرض ہو سکتی ہیں اور جاندار اس خودغرضی کے رویے سے یکسر مبرانہیں رہ سکتا۔

جز اور کل کے درمیان غیرجانبداری کا فقدان: فلسفیانہ نقطہ نظر سے، وہ اجزاء جو کسی خاص صفت (جیسے خودغرضی) کے حامل ہوں،وہ کوئی  ایسا مجموعی کُل تشکیل نہیں دے سکتے جو متضاد صفات (جیسے ایثار یا غیر جانبداری) کا حامل ہو۔ یہ نکتہ ہمیں فلسفے میں جزو اور کل کے تعلق پر موجود کلاسیکی بحث کی طرف لے جاتا ہے، جسے ایسا لگتا ہے کہ ڈاکنز گہرائی سے حل کرنے سے گریزاں دکھائی  دیتے ہیں۔

2۔ ایثار: ڈارونی منطق میں ایک استثنا:

ریچرڈ ڈاکنز ایثار کے تصور کو ارتقائی میکانزمز جیسے"اقربا کے لیے ایثار"اور"باہمی ایثار"کا نتیجہ قرار دیتے ہیں:

اقربا کے لیے ایثار: یہ وہ عمل ہے جہاں جین جاندار کو اس کے قریبی رشتہ داروں کے لیے قربانی دینے پر تیار کرتا ہے، کیونکہ ان کے جینز مشابہت رکھتے ہیں۔

باہمی ایثار:اسے "تم میری مدد کرو، میں تمہاری مدد کروں گا" کے اصول پر مبنی تصور کہا جا سکتا ہے، جو جانداروں کے درمیان مفاداتی تبادلے پر مبنی ہے۔ ڈاکنز پہلی قسم کی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جیسے انسان یا جانور اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں، یہ قربانی اخلاقی قدر کا ثبوت نہیں بلکہ ایک قدرتی جبلت ہے جس کا مقصد جینیاتی بقا ہے۔ دوسری قسم کی وضاحت کے لیے وہ درج ذیل مثالیں پیش کرتے ہیں: "شکاری کو نیزے کی ضرورت ہوتی ہے، اور لوہار کو گوشت کی۔ ان کے درمیان عدم مساوات ایک معاہدے کی صورت پیدا کرتی ہے۔شہد کی مکھی کو رس کی ضرورت ہوتی ہے، اور پھولوں کو جرگ کی۔ پھول شہد کی مکھی کو رس بطور کمیشن دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے پروں کا استعمال کریں۔ شہد کا رہنما پرندہ، غُر (یا انسان) کو شہد کے چھتے تک لے جاتا ہے تاکہ شہد حاصل کیا جا سکے، اور بدلے میں وہ اپنا حصہ حاصل کرتا ہے۔"تاہم ڈاکنز کی یہ وضاحت بذات خود اندرونی تضادات کا شکار ہے:

اقربا کے لیے ایثار اجنبیوں کے لیے قربانی کی وضاحت نہیں کرتا:

اگرچہ فرد کی اپنے قریبی رشتہ داروں کے لیے قربانی نظریۂ "خودغرض جین" کے مطابق منطقی ہو سکتی ہے (کیونکہ رشتہ دار مشترکہ جینز کے حامل ہوتے ہیں)، لیکن اجنبیوں یا دور دراز معاشروں کے لیے ایثار کی اس نظریے سے وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ مثال کے طور پر، مالی عطیات بھیجنا یا غذائی امداد فراہم کرنا ایسی اقوام کے لیے جو کسی اور براعظم میں رہتی ہیں، اس عمل کو جینیاتی بقا کے میکانزم سے نہیں جوڑا جا سکتا۔

باہمی ایثار حقیقی ایثار کی وضاحت نہیں کرتا: تم میری مدد کرو، میں تمہاری مدد کروں گا" کے اصول پر مبنی نظریہ مفادات کے باہمی تبادلے کو فرض کرتا ہے، لیکن یہ ان ایثار کی حالتوں کی وضاحت نہیں کرتا جہاں فرد کسی بدلے کی توقع نہیں رکھتا، جیسے کسی اجنبی کو بچانے کے لیے اپنی جان کی قربانی دینا، یا کسی انسان کی مدد کرنا جب کہ مستقبل میں کسی انعام یا فائدے کا کوئی امکان نہ ہو۔ یہ اعمال مادی وضاحت سے آگے بڑھ کر ایک اخلاقی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں جو ڈارونی اخلاقیات سے باہر ہے۔

3 ۔سماجی سلوک کی وضاحت کی محدودیت

انسانی سلوک جینیاتی پروگرامنگ سے زیادہ گہرا ہے: انسان صرف جینز کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ اس کے پاس شعور، تخلیقی سوچ اور اخلاقی فیصلے کرنے کی صلاحیت موجود ہے جو روحانی یا فلسفیانہ تصورات پر مبنی ہیں۔ تمام انسانی سلوک، بشمول اخلاقیات، کو جینیاتی میکانزم کے نتائج میں محدود کرنا انسانی نفسیات کی پیچیدگی کو کم سمجھنا ہوگا۔ اخلاق کا وجود جو "سب سے بہتر کی بقا" سے متصادم ہے: بہت ساری ایسی سرگرمیاں ہیں جو "سب سے بہتر کی بقا" کے تصور سے مطابقت نہیں رکھتیں جو قدرتی انتخاب کی بنیاد ہے۔ مثال کے طور پر، مذاہب اور فلسفے دشمنوں کے ساتھ معافی اور ہمدردی جیسے اقدار کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، جو خود کی بقا یا جینز کے تحفظ کے منطق سے متصادم نظر آتی ہیں۔

4۔نظرانداز کردہ ثقافت اور مذہب کا اثر

ڈاکنز اخلاق کی وضاحت کے لیے جینز کو واحد عامل کے طور پر پیش کرتے ہیں، مگر وہ اس اہم کردار کو نظرانداز کرتے ہیں جو ثقافت اور مذہب اخلاقی قدروں کی تشکیل میں ادا کرتے ہیں:

اخلاقی قدریں جینیاتی طور پر موروث نہیں ہیں: اخلاقیات تعلیم اور ثقافت کے ذریعے منتقل ہوتی ہیں، اور یہ صرف جینیاتی پروگرامنگ کا عکس نہیں ہیں۔ مختلف معاشروں میں تاریخ، مذہب، اور ثقافت کی بنیاد پر مختلف اخلاقی نظام ترقی پاتے ہیں، اور یہ ضروری نہیں کہ جینز کی وجہ سے ہی ہوں۔

مذہب بطور ماخذ اخلاق: اگرچہ ڈاکنز نے مذہب پر تنقید کی ہے، مگر پوری تاریخ میں انسانوں نے جو اخلاقی قدریں اپنائی ہیں، وہ بہت حد تک مذہبی عقائد سے آئی ہیں۔ ایثار، کمزوروں کی مدد، اور انصاف ایسی قدریں نہیں ہیں جو حیاتیاتی ارتقا کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہوں، بلکہ یہ روحانی تعلیمات میں جڑیں پائی ہیں۔

5۔فلسفی مسئلہ "خودغرض جین" میں

جین کو ایک شعور رکھنے والے وجود کے طور پر پیش کرنے جیسی"خودغرض جین" کی اصطلاح ایک غلط موازنہ پیش کرتی ہے، کیونکہ یہ اصطلاح یہ تاثر دیتی ہے کہ جینز کوئی شعور رکھنے والی مخلوق ہیں جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کر سکتی ہیں۔ یہ موازنہ گمراہ کن ہے کیونکہ یہ جینزکی حد کو محض ایک کیمیائی مواد سے کہیں زیادہ بڑھادیتا ہے۔

انسانی آزادی کا نظرانداز کرنا: انسانی سلوک کو "جینیاتی پروگرام" تک محدود کرنا انسان کی آزادی اور اخلاقی انتخاب کی صلاحیت کو نظرانداز کرتا ہے،کیونکہ  انسان، دیگر مخلوقات کے برعکس، آزاد ارادہ رکھتا ہے جو اسے اپنی جینیاتی پروگرامنگ کو تجاوز کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔

6۔اخلاق کےمطلق ماخذ کا فقدان

نسبی اخلاق کافی نہیں ہیں:ڈاکنز ایک مادی نقطہ نظر سے اس بحث کا آغاز کرتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مطابق اخلاق نسبی اور حالات یا ماحولیاتی و جینیاتی عوامل کے مطابق بدلتے ہیں۔ تاہم، اصل اخلاقیات ایک مطلق ماخذ کی ضرورت رکھتی ہیں جو اقدار کو متعین کرے جو مفاد پرستی یا جبلت سے آگے بڑھ کر ہوں۔

مذہب پر تنقید میں تضاد: اگرچہ ڈاکنز مذہب کو اخلاق کا ماخذ قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید کرتے ہیں، لیکن وہ ایمان کے بغیر اخلاق کے لیے کوئی موضوعی اور مطلق متبادل پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

خلاصہ

ڈاکِنزکی یہی کوشش ہے کہ وہ اخلاقیات کو "خود غرض جین" کے فریم ورک میں سمجھائے، جبکہ یہ بذات خود متعدد منطقی اور فلسفیانہ تضادات کا شکار ہوتی ہے۔ اگرچہ جینز کچھ بنیادی اور غریزی رویوں کی وضاحت کر سکتے ہیں، لیکن وہ ان گہری اخلاقی اقدار کو سمجھانے سے قاصر ہیں جو مادی حساب کتاب سے بالاتر ہیں۔المختصر:  ایثار، قربانی، اور انصاف جیسے تصورات کو ایک ایسے ماخذ کی ضرورت ہوتی ہے جو محض مادے سے بالاتر ہو، اور یہ وہ چیز ہے جو ڈاکِنز کا مادہ پرستانہ نقطہ نظر پیش نہیں کرتا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اخلاقیات کی تشریح کے لیے محض مادی اور سائنسی نقطہ نظر کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے ایک بالاتر اور روحانی بنیاد کی ضرورت ہے۔

[i]  ننقل كل المقاطع في هذا العنوان من كتاب وهم الإله، ترجمة بسام البغدادي، الطبعة العربية الثانية، من ص 215إلي 220

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018