14 رمضان 1446 هـ   14 مارچ 2025 عيسوى 9:19 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2025-01-28   149

عدلِ الہی: انسان کی ذمہ داری اور درپیش حالات

الشيخ معتصم السيد أحمد

ہم روز مرہ کی زندگی میں بہت سے حالات اور واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں جو ہمارے ذہن میں زندگی کی نوعیت اور حالات کے بارے میں سوالات  پیدا کرتے ہیں، یہی سوالات مختلف راستوں کو بنانے میں معاون ہیں۔ لوگوں کے درمیان حالات کا تنوع ایسی چیز ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے ماحول میں پیدا ہوتے ہیں جو انہیں ایمان اور نیک اعمال کی انجام دہی میں مدد دیتا ہے جب کہ دوسرے ایسے ماحول میں پیدا ہوتے ہیں جو انہیں چیلنجوں اور مشکلات سے دوچار کر دیتا ہے اور وہ مشکلات میں پڑسکتے ہیں، انحراف یا مصیبت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کیا حالات میں یہ فرق ناگزیر ہے؟ کیا اس دنیا میں ہمارا انتخاب ہمارے پیدا ہونے سے پہلے عالم ذر کی دنیا کے انتخاب کا نتیجہ ہیں؟یا یہ انتخاب ہم میں سے ہر ایک پر اللہ تعالی کی طرف سے فیصلہ شدہ ہے؟ کیا ایسے حالات میں کوئی شخص اپنی تقدیر بدل سکتا ہے؟ یہ اور دیگر سوالات جن کا انسانی زندگی پر گہرا اثر ہے اس میں ہم مشکلات،اختیار اور ذمہ داری کے درمیان تصورات پر بحث کریں گے۔

حالات کی تبدیلیاں اور انسانوں پر اس کے اثرات

کچھ لوگوں کا نظریہ ہے کہ انسان ہر طرح سے حالات کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ،سب کچھ حالات کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے انسان کی بنیادی آزادی کو ہی ختم کر دیا ہے۔انسان کا انتخاب حالات کے تابع ہوتا ہے۔ سوشیالوجسٹ ایمل دورکائیم نے سماجی حتمیت کا نظریہ پیش کیا اس میں کہا ہے کہ معاشرہ ہی انسان کے اختیارات کو فرض کرتا ہے، یہاں تک کہ افراد کا ذاتی ضمیر بھی صرف معاشرتی اقدار اور عادات کی عکاسی ہوتا ہے جو معاشرہ ان پر مسلط کرتا ہے۔ دورکائیم کے الفاظ میں: "جب ہمارا ضمیر بولتا ہے تو دراصل معاشرہ ہی ہماری آواز بن کر بات کرتا ہے۔" اس تصور کے تحت انسان کے پاس اپنی انتخابی آزادی نہیں ہوتی بلکہ معاشرہ ہی اس کے لیے انتخاب کرتا ہے، وہ صرف ایک ایسا وجود ہے جو معاشرتی اصولوں کی پیروی کرتا ہے۔

اسی سیاق میں، معروف ماہر نفسیات سیغموند فروئڈ نے نفسیات میں ایسی تھیوری پیش کی جو ایک طرح کی حتمیت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق، انسان اپنی اندرونی خواہشات اور مغلوب جذبوں سے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے تو جو بھی عمل یا ردعمل انسان کرتا ہے وہ اس کی شعوری مرضی کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ یہ غیر شعوری نفسیاتی اثرات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس تصور کے تحت، انسان کے تصرفات غیر ارادی ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ، اقتصادی تقدیر پسندی جو کہ کارل مارکس اور اس کے پیروکاروں کے تجزیے میں واضح طور پر نظر آتی ہے، اس میں مارکس نے معاشی زندگی کو افراد اور معاشروں کے مقدر کو چلانے اور متعین کرنے والی طاقت کے طور پر دیکھا۔ اس نظریے کے مطابق، افراد کو اپنے فیصلے کرنے میں مکمل آزادی نہیں ہوتی ، بلکہ وہ اقتصادی حالات سے شدید متاثر ہوتے ہیں جو غالب طبقاتی نظام نافذ کرتا ہے۔ اس طرح ان کے انتخاب ان کے سماجی و اقتصادی حالات سے تشکیل پاتے ہیں۔ غریب طبقات اپنی غربت اور تعلیمی یا اقتصادی مواقع تک رسائی کی کمی کی وجہ سے اپنے آپ کو غربت اور جہالت کے دائرے میں محصور پاتے ہیں، جو ان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اس کے برعکس، اعلیٰ طبقات کے پاس قسمت بنانے کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں، اس لیے وہ وسائل کو اپنی ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ان میں سیاسی حتمیت بھی شامل ہے، جو یہ دیکھتی ہے کہ افراد اپنے معاشروں میں موجود سیاسی نظاموں سے کس حد تک متاثر ہوتے ہیں؟ جتنا زیادہ سیاسی نظام جابرانہ یا استبدادی ہو، اتنی ہی کم افراد کو آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کا اظہار کرسکیں یا آزادانہ فیصلے کر سکیں۔ کئی مفکرین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ سیاسی نظام لوگوں پر ایک مخصوص طرزِ فکر اور رویے کو مسلط کرتا ہے جس سے فرد ایک ایسے نظام کا حصہ بن جاتا ہے جو اس کے اختیارات کو محدود کرتا ہے اور اسے معمول سے ہٹ کر کچھ کرنے سے روکتا ہے۔

اس کے علاوہ، طبعی حتمیت بھی موجود ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ حیاتیاتی عوامل، جیسے جینز اور وراثت، انسان کی سوچ اور اس کے رویوں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ مثلاً، وراثت شخصیت کی سوچ پر اثرانداز ہوسکتی ہے اور اس کے نفسیاتی رجحانات کو متاثر کرسکتی ہے، جو انتخاب کی صلاحیتوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

انتخاب کی آزادی اور انسانی ذمہ داری

جب ہم آزادیِ انتخاب اور انسان کی ذمہ داری کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمیں مختلف حالات کے اثرات کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے، چاہے وہ سماجی ہوں، اقتصادی ہوں، نفسیاتی ہوں حتیٰ حیاتیاتی ہوں۔ یہ عوامل انسان کے فیصلوں کو بہت حد تک متاثر کرسکتے ہیں اور اس کے سامنے موجود انتخابوں کو تشکیل دے سکتے ہیں۔ لیکن ان عوامل کے باوجود، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان کا اپنا ارادہ ختم ہو جاتا ہے یا وہ مکمل طور پر تقدیر کے تابع ہو جاتا ہے۔ بالآخر، انسان ایک عقل مند مخلوق ہے جس کی اپنی مرضی اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے اور یہ صلاحیت حالات یا بیرونی اثرات کے باوجود ختم نہیں ہوتی۔

آزاد ارادہ کی بنیاد پر ذمہ داری کا تصور قائم ہوتا ہے کیونکہ اگر ساری زندگی خارجی قوتوں کے زیر اثر ہو، جن میں انسان نہ تبدیلی لا سکے اور نہ ان کے بغیر زندگی گزار سکے، تو پھر ذمہ داری کا کوئی مفہوم ہی نہیں ہوتا۔ ذمہ داری صرف اس صورت میں ممکن ہے جب فیصلہ کرنے کی آزادی انسان کے پاس موجود ہو۔ اگر انسان تقدیر یا جبر کے تابع ہو تو اس کے انتخاب اور اعمال کی ذمہ داری انسان پر نہیں ڈالی جا سکتی کیونکہ یہ انتخاب آزاد ارادے کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ ان حالات کا ردعمل ہوتے ہیں جو اس پر مسلط کیے گئے ہیں۔

یہ تصور صرف فلسفی یا فکری نظریہ تک محدود نہیں ہے، بلکہ مختلف معاشروں میں قانونی اور سماجی نظاموں کا بنیادی عنصر ہے۔ عدالتی مقدمات میں لوگوں کو ان کے اعمال کا ذمہ دار ٹھہرا کر اس کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔ قانون افراد کو ان کے اعمال کے نتائج سے اس وقت تک نہیں آزادی نہیں دیتا جب تک کہ ان پر کوئی زبردستی یا جبر نہ کیا گیا ہو جس سے وہ آزادانہ طور پر فیصلے نہ کر سکیں۔ اس طرح اگر یہ ثابت ہو جائے کہ انسان اپنے فیصلے کرنے میں آزاد تھا تو اسے ان فیصلوں کی ذمہ داری اٹھانی پڑے گی، چاہے وہ فیصلے اچھے ہوں یا برے۔

اسلامی تعلیمات میں یہ تصور واضح طور پر نظر آتا ہے، جہاں انسان کو اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال کا ذمہ دار بتایا گیا ہے۔ اگرچہ اسلام انسان کی زندگی پر اثرانداز ہونے والےحالات کو تسلیم کرتا ہے لیکن یہ بھی کہتا ہے کہ آخری ذمہ داری انسان پر ہی ہوتی ہے ۔ جب بات اس کے انتخاب کی ہو، چاہے وہ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہوں تو یہ انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ مشکل اور سخت حالات میں بھی انسان کو اپنے فیصلوں اور انتخاب کے بارے میں جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔ تاہم، اگر کسی شخص پر کوئی زبردستی یا جبر ہو تو اس پر ان اعمال کی ذمہ داری نہیں ڈالی جاتی کیونکہ وہ اعمال اس کی آزاد مرضی سے نہیں ہوتےاور اللہ تعالیٰ ان سے درگزر فرماتا ہے کیونکہ وہ اس کے اختیار سے باہر ہیں۔

اللہ کا انصاف اور درپیش مختلف حالات

ایک چیلنج جو شخصی ذمہ داری اور آزاد انتخاب کے موضوع سے پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بعض اوقات انسان ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ وہ آزادی سے انتخاب نہیں کر پاتا۔ یہ حالات جیسے  شدید غربت، غیر مستحکم معاشرتی ماحول، یا شدید  نفسیاتی مشکلات انسان کے لیے آزادانہ فیصلے کرنا مشکل بنا دیتی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے: شخصی ذمہ داری اور ان حالات کے درمیان کیسے توازن پیدا کیا جا سکتا ہے جو انسان کے انتخاب پر بہت اثر ڈالتے ہیں؟ اگر یہ حالات بہت زیادہ جابرانہ ہوں، تو قیامت کے دن اللہ کیسے عدل قائم کر سکتا ہے؟ مثلاً اگر امیر شخص چوری کرے اس کا عذاب اور غریب شخص جو شدید ضرورت مند ہے چوری کرے تو کیا ان کا حساب ایک جیسا ہو گا؟

اسلام میں اللہ کا عدل صرف ایک نظریہ ہی نہیں بلکہ یہ ایسی بنیاد ہے جس پر مومن کا ایمان قائم ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں بار بار یہ بات آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ عادل ہے جو کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اس کے عدل کا مفہوم یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق انصاف ملے گااور اللہ کبھی کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرے گا۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا) (الكهف: 49) آپ کا رب تو کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

یہ آیت یہ واضح کرتی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی ہر انسان کی حالت کو بخوبی جانتا ہے اور وہ اس بات کو سمجھتا ہے کہ ان حالات کا انسان کے اعمال پر کیا اثر پڑتا ہے؟ اللہ کا عدل صرف ظاہری اعمال تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انسان کی نیت، ارادہ، اور اس کی زندگی پر اثرانداز ہونے والے ماحول و حالات کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا عدل انسان کی مکمل حالت کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔

اسی طرح نظریہ عدالت کو واضح کرتے ہوئے سورہ مبارکہ بقرہ میں ارشاد باری ہوتا ہے: (لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ) (البقرة: 286) اللہ کسی شخص پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتا،

یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو صرف اتنی ہی ذمہ داری سونپتا ہے جتنی وہ اٹھا سکتا ہے۔ وہ بخوبی جانتا ہے کہ اس کی طاقت اور ارادہ کی حدود کیا ہیں؟ یہ آیت ہمیں ایک واضح دلیل فراہم کرتی ہے کہ اللہ عز وجل انسان پر کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالتا جو اس کی استطاعت سے باہر ہو۔

دو متضاد طرح کے حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کو اچھا ماحول ملا جس نے اس کے با ایمان اور اچھا بننے میں مدد کی۔دوسرا ایسے ماحول میں پروان چڑھا جو انحراف کی طرف لے جاتا تھا۔اللہ تعالی اس فرق کو مد نظر رکھے گا اور کسی پر بھی ظلم نہیں کرے گا۔ہر انسان کو اس کا حساب دینا پڑے گا جس ماحول میں وہ رہا وہ اتنا حساب دے گا جتنا اسے اختیار حاصل تھا۔

اللہ سبحانہ وتعالی بعض لوگوں کا حساب کتاب بہت تفصیل اور دقت کے ساتھ لے گا جبکہ بعض کو معاف اور نظرانداز کر دے گا۔ مثال کے طور پر، جو لوگ اپنے حالات کی بنا پر عقل اور ایمان کی تکمیل تک پہنچے ہیں، ان کا حساب بہت دقیق اور سخت ہوگا جبکہ جو لوگ اس کمال تک نہیں پہنچ سکے، ان کا حساب نرمی کے ساتھ ہو گا۔ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندوں کا حساب ان کو دنیا میں دی گئی عقل کے مطابق لے گا۔" (شرح اصول کافی، المازندرانی ج1 ص 79)

امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے آپ نے فرمایا: "جب قیامت کا دن آئے گا، تو دو مؤمن بندے حساب کے لیے کھڑے ہوں گے، دونوں جنت کے اہل ہوں گے، ایک دنیا میں غریب اور دوسرا امیر۔ غریب شخص کہے گا: 'اے ربّ، مجھے کس بات پر روکا گیا؟ تیری عزت کی قسم، تُو جانتا ہے کہ نہ مجھے کسی ریاست کا اختیار دیا تھا کہ میں اس میں انصاف کرتا یا ظلم، نہ مجھے مال دیا تھا کہ میں اس میں حق ادا کرتا یا روک لیتا اور نہ ہی میرا رزق اس کے سوا کچھ تھا جو تُو نے میرے لیے مقدر کیا تھا۔' اللہ تعالیٰ جواب دے گا: 'میرے بندے نے سچ کہا، اُسے چھوڑ دو، وہ جنت میں داخل ہو جائے۔' پھر دوسرا شخص، یعنی امیر، وہاں کھڑا رہ جائے گا اور اس سے اتنا پسینہ بہے گا کہ اگر چالیس اونٹوں کو پلایا جائے تو وہ کافی ہوگا، پھر وہ بھی جنت میں داخل ہو گا۔ غریب شخص اس سے پوچھے گا: 'تم کو کیا روک رہا تھا؟' وہ جواب دے گا: 'طویل حساب، ایک چیز کے بعد دوسری چیز آتی تھی اور میری مغفرت ہوتی جاتی تھی، ہر ایک اور چیز پوچھی گئی یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے مجھےاپنی رحمت میں شامل کیا اور مجھے تائبین میں شمار کر لیا۔' وہ شخص پھر پوچھے گا: 'تم کون ہو؟' وہ جواب دے گا: 'میں وہی غریب ہوں جو ابھی تمہارے ساتھ تھا۔' غریب شخص کہے گا: میرے بعد دنیا کی نعمتوں نے تمہیں بدل دیا؟'  (الأمالي للصدوق، ص 441)

انسان کے حالات اور اعمال کے مطابق اللہ کی طرف سے دی جانے والی جزا میں فرق آسکتا ہے۔ ایک امیر شخص جو لاکھوں ڈالر صدقہ دیتا ہے، اس کا اجر اس فقیر سے کم یا برابر ہو سکتا ہے جو صرف ایک ڈالر صدقہ دیتا ہے اور یہی حال گناہوں کا بھی ہے۔ مثال کے طور پر، جو شخص ضرورت کی حالت میں چوری کرتا ہے اس کا حساب اُس شخص سے مختلف ہوگا جو بغیر کسی ضرورت کے چوری کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی بے شمار رحمتوں کے ذریعے اپنے بندوں کو معاف کر سکتا ہے، جبکہ دوسرے بندے کو سخت حساب کا سامنا ہو سکتا ہے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ عادل ہے اور اس کے فیصلے میں کبھی بھی ظلم نہیں ہوتا۔ اللہ کی رحمت ہمیشہ اس کے عدل سے پہلے آتی ہے اور وہ انسان کے لیے اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے جتنا انسان خود اپنے بارے میں فکر مند ہوتا ہے۔ دنیا میں انسان کا حال اللہ کی توفیق اور رحمت پر منحصر ہے اور آخرت میں بھی وہ اللہ کے فضل اور رحمت پر کا محتاج ہے۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ انسان کے فیصلوں پر حالات اثرانداز ہوتے ہیں پھر بھی یہ بات یقینی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے فیصلے میں کسی بھی قسم کا ظلم نہیں ہوگا۔ ممکن ہے کہ دنیا میں بعض لوگوں کے اعمال زیادہ ہوں، مگر قیامت میں ان سب کا حساب اللہ کے عدل اور رحمت کے تحت ہوگا اور اللہ ہر ایک کو اس کی حالت اور نیت کے مطابق جزا دے گا۔

اسی طرح، اللہ کا عدل انسان کے حالات کے مطابق ہوتا ہے، اس کے تحت اگر فرد ایسی صورتحال میں ہو جہاں اس کے پاس کوئی راستہ یا ذریعہ نہ ہو کہ وہ ان حالات سے باہر نکل سکے، تو اللہ تعالی اسے معاف کرسکتا ہے۔ لیکن اگر اس کے پاس کوئی طریقہ ہو کہ وہ ان حالات سے بچ سکے یا انہیں تبدیل کرسکے اور اس نے ایسا نہ کیا، تو وہ اپنے انتخاب کامکمل ذمہ دار ہو گا۔

اس اصول کو قرآن کریم میں بہت وضاحت سے بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُوْلَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا. إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا) (النساء: 97-98)

ترجمہ: وہ لوگ جو اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں: تم کس حال میں مبتلا تھے؟ وہ کہتے ہیں: ہم اس سر زمین میں بے بس تھے، فرشتے کہیں گے: کیا اللہ کی سرزمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ پس ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔ ۹۸۔بجز ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کے جو نہ کوئی چارہ کر سکتے ہیں اور نہ کوئی راہ پاتے ہیں۔

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس شخص کو معاف نہیں کرتا جو ظلم سے بچنے یا اپنے مشکل حالات سے نکلنے کی استطاعت رکھتا ہے، مگر وہ کوشش نہیں کرتا اور ان حالات سے نہیں نکلتا۔ ایسی حالت میں وہ شخص اپنی کوتاہی اور اپنے ساتھ ظلم کا خود ذمہ دار ہے اور اس کا اس بات پر احتساب  کیا جائے گا۔ تاہم، وہ لوگ جو حالات کے جبر یا مجبوریوں  کی وجہ سے کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے، انہیں اس حساب سے مستثنیٰ کیا جائے گا۔

یہ تفصیل عدلتِ الٰہی کے توازن کو ظاہر کرتی ہے، جو رحمت اور ذمہ داری کے درمیان ہے۔ انسان کا اُس وقت محاسبہ نہیں کیا جاتا جب وہ ایسے حالات میں ہو جن میں اس کا کوئی اختیار نہ ہو لیکن اگر وہ اپنے اختیار میں موجود امکانات سے فائدہ اٹھانے میں کوتاہی کرتا ہےتو وہ اس کا ذمہ دار ہوگا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلام میں ذمہ داری کا تعلق انسان کے عمل کرنے کی صلاحیت اور اپنے حالات کو بہتر بنانے کے لیے درکار وسائل کی موجودگی سے ہے۔

یہ وہ چیز ہے جو عدلتِ الٰہی کو عدالتِ بشری سے ممتاز کرتی ہے، کیونکہ انسانی نظاموں میں بعض اوقات تمام عوامل کو مدنظر رکھنا ممکن ہی نہیں ہوتا جو کسی فرد پر اثرانداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ، جو پوشیدہ اور چھپی چیزوں کو بھی جانتا ہے، ہر چیز کو  بہت ہی درست اور منصفانہ ترازو میں تولتا ہےاور ہر انسان کو اس کا پورا حق آخرت میں دیتا ہے، جہاں کسی پر بھی ظلم نہیں کیا جاتا۔

خاتمہ:

اللہ کی عدالت انسان کی تخلیق اور اُسے اپنی صلاحیتوں اور حالات کے مطابق انتخاب کی آزادی دینے میں رب کی حکمت کی عظمت کو اجاگر کرتی ہے۔ اللہ انسان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور وہ صرف انہی چیزوں پر محاسبہ کرتا ہے جو اُس کے لیے ممکن تھیں یا جنہیں وہ تبدیل یا مسخر کر سکتا تھا۔ ذاتی ذمہ داری وہ مرکزی نقطہ ہے جس پر انسان اپنے اعمال کا حساب دیتا ہے کیونکہ اُسے ان چیزوں پر محاسبہ کیا جاتا ہے جو اُس کے اختیار میں تھیں یا جنہیں وہ بدل سکتا تھا۔

رحمت اور عدالت کے درمیان یہ توازن اللہ کے حساب کو انصاف کا اعلی ترین نمونہ بناتا ہے، جو انسانوں کے اپنے نظام انصاف اور سماجی نظام میں مکمل طور پر ممکن نہیں ہوتا۔ اسلام میں انسان حالات کے سامنے اپنے ارادہ کی آزادی سے محروم نہیں ہے بلکہ اُسے اپنے اعمال کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے جب تک کہ وہ انتخاب کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جو انسان اس صلاحیت سے محروم ہے یعنی وہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہے، اللہ کی رحمت اُس پر سبقت لے جاتی ہے اور اس کے حساب کو آسان کرتی ہے۔ یہ بات دین اسلام کے اعلی انصاف کو ظاہر کرتی ہے جو لوگوں کے مختلف حالات اور زندگی کے فرق کو مدنظر رکھتا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018