

کَج فَہْمی: کیا مذاہب انسان کو اندھی تقلید سکھاتے ہیں یا شعوری فہم؟
الشيخ مقداد الربيعي
انسانوں میں "گروہی یا ہجوم کی پیروی" جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں، جس سے مراد یہ ہے کہ افراد اپنی جماعت یا ماحول کے فیصلوں اور رویوں کی پیروی کرتے ہیں، خواہ وہ فیصلے منطقی یا مضبوط دلائل پر مبنی نہ بھی ہوں۔ اس کی معاشرے میں بے شمار مثالیں موجود ہیں، جیسے: سرمایہ کاروں کا اکثریت کی نقل کرتے ہوئے شیئرز خریدنا یا بیچنا، جبکہ یہ عمل اکثر قیمتوں کے غیر منطقی اتار چڑھاؤ کا باعث بنتا ہے؛ کسی خیال یا ہیش ٹیگ کا محض عوامی مقبولیت کی بنا پر وسیع پیمانے پر پھیل جانا، چاہے وہ غیر اہم ہو؛ کسی خاص فیشن یا طرزِ زندگی کو اپنانا محض اس لیے کہ سب لوگ ایسا کر رہے ہیں، یا کسی مشہور پراڈکٹ کو صرف اس کی شہرت کی بنیاد پر خریدنا۔
حالانکہ تاریخ واضح طور پر یہ ثابت کرتی ہے کہ مذاہب، خصوصاً اسلام، نے اس اندھی تقلید اور اس کے تمام مظاہر کے خلاف جنگ کی ہے، لیکن اس کے باوجود دہریوں کی گفتگو میں ہم اکثر یہ الزام سنتے ہیں کہ مذاہب کے ماننے والے تقلید کے اس رویے کا شکار ہیں۔ ان کے مطابق، لوگوں کا دین ذاتی انتخاب اور قناعت کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ جغرافیائی یا خاندانی وابستگی کی بنیاد پر طے پاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص اپنے طور پر اس دین کا انتخاب نہیں کرتا جو اسے دلائل سے قائل کرے، بلکہ اس کا مذہب اس کے ملک یا خاندان کی بنیاد پر طے ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص بھارت میں پیدا ہو تو وہ عیسائی یا مسلمان نہیں ہوگا بلکہ ہندو ہوگا۔ اگر کسی کی پیدائش یہودی خاندان میں ہو تو وہ یہودی ہی ہوگا۔ اور اگر کسی کی پیدائش مکہ میں ہو تو وہ مسلمان ہوگا۔
لہٰذا، دہریوں کے مطابق ہندوؤں نے اپنے مذہب کو انہی بنیادوں پر اپنایا جن بنیادوں پر ایک مسلمان نے اسلام کو اپنایا، لیکن اس کے باوجود مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے پر ہلاکت اور عذاب کے فتوے لگاتے ہیں۔ مسلمان یقین رکھتا ہے کہ اسلام ہی حق دین ہے اور دیگر تمام مذاہب کے پیروکار کافر ہونے کے ناطے جہنم کے مستحق ہیں، حالانکہ وہ خود اپنے طور پر اسلام کا انتخاب نہیں کرتا۔ اگر اس کے والد ہندو ہوتے تو وہ بھی ہندو ہی ہوتا۔چنانچہ ان کے نزدیک مذاہب قناعت، فہم اور غور و فکر کی بنیاد پر نہیں بلکہ تقلید اور وابستگی کی بنیاد پر قائم ہیں۔ اس نقطۂ نظر کی حمایت کے لیے وہ "دینِ فطرت" از ژان ژاک روسو (صفحہ 92) اور "وہمِ خدا" از رچرڈ ڈاکنز (صفحہ 240) کا حوالہ دیتے ہیں۔
یہ اعتراض دینی فکر پر نیا نہیں ہے۔ اسے ابوبکر الرازی نے ایک ہزار سال قبل پیش کیا تھا، اور اسلامی علماء نے اس پر تفصیلی تجزیہ، تنقید اور رد پیش کیا ہے۔ مزید دیکھیں: "أعلام النبوة" از ابوحاتم الرازی (صفحہ 40-42)۔
ان یہ اعتراض کرنے والے لوگ غفلت میں ہیں کیونکہ ان کے اعتراضات میں دین کی صحت پر کوئی شک نہیں کیا گیا، اور نہ ہی ان میں اس کی نفی کی کوئی دلیل ہے۔ بلکہ، ان کا اصل مقصد صرف اس بات کا تقاضا کرنا ہے کہ انسان کو اپنے دین کی صحت کی تحقیق کرنی چاہیے اور صرف والدین کی تقلید پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔ یہی پیغام اسلام بھی دیتا ہے۔ قرآن مجید میں بار بار اس بات کی دعوت دی گئی ہے کہ والدین کی تقلید کو چھوڑ کر عقل کا استعمال کیا جائے، جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ * وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ))البقرة: 170-171(
ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آبا و اجداد کو پایا ہے، خواہ ان کے آبا و اجداد نے نہ کچھ عقل سے کام لیا ہو اور نہ ہدایت حاصل کی ہو۔اور ان کافروں کی حالت بالکل اس شخص کی سی ہے جو ایسے (جانور) کو پکارے جو بلانے اور پکارنے کے سوا کچھ نہ سن سکے، یہ بہرے، گونگے، اندھے ہیں، پس (اسی وجہ سے) یہ لوگ عقل سے بھی عاری ہیں۔
اس کے علاوہ، تمام انبیاء علیہم السلام نے اپنی قوموں کے انحرافی عقائد اور رویوں کے خلاف ایک انقلابی تحریک شروع کی تھی۔ اللہ تعالی نے فرمایا: (وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُون) (المائدة: 104)ترجمہ: اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو دستور اللہ نے نازل کیا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤ تو وہ کہتے ہیں: ہمارے لیے وہی (دستور) کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، خواہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور ہدایت پر بھی نہ ہوں۔
لہٰذا، تمام علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ عقائد کے اصولوں میں تقلید کرنا حرام ہے، اور ہر فرد پر فرض ہے کہ وہ ان پر دلیل قائم کرے۔ ایک مسلمان جو اپنے دین کے ساتھ مخلص ہے، وہ کسی بھی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور ان کے لائے ہوئے پیغام کی صداقت سے علیحدہ نہیں رہ سکتا۔ اس لیے وہ قرآن پڑھتا ہے، اسے سنتا ہے، اور علمی مجالس میں شریک ہوتا ہے جہاں اسلام کے اصول اور احکام کی وضاحت کی جاتی ہے اور ان پر دلائل اور براہین پیش کیے جاتے ہیں۔
ایک مسلمان کا حال غیر مسلموں سے مختلف ہوتا ہے جو اپنے دین کے وسائل سے مکمل طور پر کٹ چکے ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ان کے پاس ایسی عبادات یا وظائف نہیں ہوتے جن میں وہ اپنے دین کے دلائل سن سکیں اور ان پر استدلال کر سکیں۔اگر ہمیں کچھ ایسے مسلمان نظر آئے جو اپنے دین کی تعلیمات سے بے خبر ہو یا کچھ علما اسلام اور شریعت کے احکامات واضح کرنے میں کوتاہی کر رہے ہیں، تو یہ اسلام کی خامی نہیں ہے بلکہ یہ کچھ مسلمانوں کی کوتاہی ہے۔چنانچہ یہ بھی واضح ہے کہ ہر مسلمان سے یہ مطلوب نہیں کہ وہ ایک ماہر فقیہ بنے جو دین کے تمام پہلوؤں میں مکمل طور پر مہارت رکھتا ہو۔ یہ ایک مشکل اور دشوار راستہ ہے، جس پر بہت کم لوگ چلتے ہیں اور اس کے اختتام تک پہنچتے ہیں۔ اس کے بجائے، ایک مسلمان کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے دین کے بنیادی اصولوں سے واقف ہو اور جو کچھ وہ سمجھ سکتا ہے، اسے سیکھے اور اپنے دماغ سے اسے سمجھنے کی کوشش کرے۔اس میں کوئی عیب نہیں ہے۔ ہم سب اپنی زندگی میں اسی راستے پر چل رہے ہیں۔ کیا کوئی بھی شخص اپنے کھانے پینے، کپڑے یا گاڑیوں کے بارے میں تمام معلومات رکھتا ہے؟ نہیں، ہم اپنی زندگی کے بہت سے معاملات میں ماہرین پر انحصار کرتے ہیں، ان کے علم اور تجربے پر اعتماد کرتے ہیں، اور ہمیں اس میں کوئی عیب نہیں نظر آتا۔دین کا معاملہ بھی یہی ہے؛ عام آدمی کے لیے دین کی تمام تفصیلات سے آگاہ ہونا مشکل ہوتا ہے، لہذا اسے اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اہلِ علم اور ان کے مشوروں پر اعتماد کرے۔ وہ علماء ربانی ، جو سچائی اور امانت کے حامل ہوں، ان سے اپنا دین لے، اور ہدایت کے راستے پر ان کی رہنمائی حاصل کرے۔لیکن کچھ لوگ مذاہب پر تنقید کرتے ہیں اور عوام کے علماء کی تقلید کو عیب اور فساد سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ خود اپنی زندگی کے دوسرے امور میں تقلید سے گریز نہیں کرتے! یہ کیا تضاد ہے؟اسلام پر یہ الزام لگانا کہ وہ ہر غیر مسلم کو کافر قرار دے کر اسے جہنم کا عذاب دینے کا حکم دیتا ہے، سراسر جھوٹ ہے۔ علمائےاسلام نے جو حقیقت واضح کی ہے وہ یہ ہے کہ کافر دو قسم کے ہیں:
پہلی قسم وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کے بارے میں سنا لیکن تعصب یا تکبر کے ساتھ یا محض تقلید اور توہین کی بنا پر منہ موڑ لیا۔ اس قسم کے لوگوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عذاب دے گا کیونکہ ان پر حجت قائم ہو چکی ہے۔
دوسری قسم ان لوگوں کا ہے جنہوں نے اسلام کے بارے میں بلکل نہیں سنا، یا جس نے اسلام کے بارے میں ایسی تشویش والی معلومات سنی ہیں جو حقیقت سے مختلف ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کا حکم اس جاہل کے جیسے ہوگا جسے علم نہ ہو، اور اس پر عذاب نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے شامل کرے گا۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا)(الإسراء: 15) اور جب تک ہم کسی رسول کو مبعوث نہ کریں عذاب دینے والے نہیں ہیں۔یہ آیات اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ ہر کافر کو آخرت میں عذاب دینا ضروری نہیں، بلکہ وہی عذاب کا مستحق ہے جس پر حجت قائم ہو چکی ہو اور اس نے اسے قبول نہ کیا ہو۔جو لوگ دین اسلام پر تنقید کرتے ہیں، انہیں اس تفصیل کا علم نہیں ہوتا، اور وہ مسلمانوں کو الزام دیتے ہیں کہ وہ غیر مسلموں پر عذاب اور ہلاکت کے احکام لگاتے ہیں۔ یہ سب جاہلیت اور علمی تحقیق سے انحراف ہے۔