خدا اور بندوں کےدرمیان محبت نہیں مفاد کا تعلق ہے،کانٹ کے نظریہ کا تنقیدی جائزہ
الشيخ باسم الحلي
آندرے کارسن کہتا ہے کہ آگسٹ کانٹ نے سب سے پہلے یہ دعوی کیا تھا جس میں اس نے کہا: "کیا لوگوں کو یہ نہیں کہا جا رہا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی نجات کے بارے میں سوچیں اور صرف اسی تک محدود رہیں؟ یہی بات ہیلوسیئس نے اپنی اخلاقی تعلیمات میں کی تھی؟جب کوئی شخص صرف خوف خدا کے سامنے اچھا بن رہا ہے یا اس کی نعمتوں کے لالچ میں اچھا بن رہا ہے تو حقیقت میں وہ اچھا نہیں ہے نہ ہی وہ بھلائی کو دوست رکھنے والا ہے۔حقیقت میں وہ یہ سب اچھائیاں کسی دوسرے کے لیے نہیں کر رہا ہوتا ہے، اسے خود سے ہی محبت ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ اچھائیاں کر رہا ہوتا ہے۔ (المشكلة الأخلاقية والفلاسفة، أندريه كريسون، ص: 304).
کانٹ کا نظریہ(انسان کوئی عمل اللہ کی محبت میں نہیں کرتا)
اس کا مکمل جواب آجائے گا مگر میں یہ نہیں سمجھ پا رہا کہ پروفیسر کانٹ قرآن کی تعلیمات سے جاہل تھا ؟ اس نے بہتان لگایا ہے؟ یا اس نے حقیقت کا جان بوجھ کر انکار کیا ہے یا کچھ اور تھا؟ہمارے لیے جو قرآن نے کہا وہی کافی ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ) (المائدة: 54) اے ایمان والو ! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ بہت جلد ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جن سے اللہ محبت کرتا ہو گا اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہوں گے۔ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:(قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ) (آل عمران: 31) کہدیجئے: اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔
قرآن کی اس بارے میں صراحت آجائے گی کہ زیادہ سے زیادہ چیز جو خدا اپنی مخلوق سے طلب کرتا ہےیا مخلوق خدا سے طلب کرتی ہے یہ محبت سے ہٹ کر رضا ہے،یہ جنت کا لالچ یا جہنم کا ٖخوف نہیں ہے اور اس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے۔یہ تعجب کی بات نہیں ہے اگر ہم کہیں کہ پروفیسر کانٹ کا اوپر بیان کردہ نظریہ اُس کے مغربی بیک گراونڈ اور کیتھولک ورثے کے مطابق بالکل درست ہے اور ہم بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ پروفیسر کانٹ اور جنہوں نے ان کی پیروی کی، وہ انسان کے اپنے خدا کے ساتھ تعلق کو مغرب کے نظریاتی ورثے اور کیتھولک چرچ کی عقیدتی تاریخ کے تناظر میں دیکھتے ہیں جو گناہوں کی معافی کے سرٹیفکیٹ (پاپی پاردن) اور جنت کی جائیدادیں بیچننے کی تاریخ رکھتا ہے۔یہ سب انسانی عقل اور اخلاقی اقدار کی توہین کے مترادف تھا۔
پروفیسر کانٹ اس بات کو دیکھتا ہے کہ مذہبی قوانین اور راہبوں کے اثر و رسوخ نے کس طرح لواطت اور سحاق جیسے گناہوں کو بڑھاوا دیا اور کلیسیا میں تمام گناہ و بری عادات نے رواج پایا،یہ اس پر سخت تنقید کرتا ہے۔ یہی وہ تاریخ ہے جس میں پادریوں کے فساد اور ان کے اسکینڈلز کی گونج ہے، جو مسیحیت کے چہرے کو شرمندہ کرتے ہیں،ان اقدامات سے مسیحیت تحریف اور بدنامی سے دوچار ہوئی۔ مسیحیت آج تک انجیل کو عیسیٰ علیہ السلام سے جوڑنے میں ناکام رہی ہے اور تورات کو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ قرآن کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ یہ براہ راست حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے، اگرچہ کچھ لوگوں نے جعل سازی کی ناکام کوششیں بھی کیں۔
پروفیسر کانٹ مسیحی ورثے کا اسیر ہے اور عام مغربی ورثے کا پیروکار ہے۔خاص طور پر اپنے مغربی ورثے کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دیتا ہے۔ وہ بدترین مغربی تاریخ اور کیتھولک غلط کاریوں اور مجرمانہ ورثے سے متاثر ہے۔اس طرح کی غیر اخلاقی گندگی سے نفرت کرنا فطری تھا، جو انسان کی فطرت کو کفر کی طرف لے گئی۔شاید انہیں یہ بات اچھی طرح سمجھ نہیں آئی کہ دین، اخلاق اور معاشرت کے بارے میں ان کے تمام خیالات اسی شرمناک حقیقت سے متاثر ہیں۔ان خیالات کے بارے میں آسمانی ہونے کا دعوی کیا گیا مگر یہ کسی طور پر بھی درست نہیں ہیں۔ انجیل کا متن تحریف کا شکار ہے، اس می لفظی اور معنوی طور کمی بیشی کی گئی ہے،اس لیے یہ کبھی بھی کسی بھی چیز کا معیار نہیں بن سکتا اور نہ کسی معیار کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس کے مقابل قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں بڑے بڑے طاغوت گزرے مگر قرآن ہر طرح کے شک و شبہ سے بالا تر رہا۔اس کے تمام الفاظ وہی ہیں جونبی اکرمﷺ پر نازل ہوئے تھے ان میں کسی قسم کی کمی بشی اور تحریف نہیں ہوئی۔اسی طرح معنوی تحریف بھی نہیں ہے کیونکہ اس کے معانی کے ضابطے بھی مسلمانوں کے درمیان متفقہ ہیں۔یہ واضح طور پر اس سوال کو رد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو کانٹ نے اٹھایا تھا، نیچے وضاحت سے ظاہر ہوگا۔
دوہرا معیار!!
اس کی تصدیق استاد اینڈریے کرسون کی کتاب سے ہوتی ہے اس کتاب کا نام "فلسفہ اخلاق" ہے اس میں اس نے اخلاق کے مسئلے پر بات کی ہے۔ یہ کتاب یونانی فلسفے سے شروع ہو کر یہودیت اور عیسائیت تک کی بات کرتی ہےاس کے بعد یہ مغربی فکر کی بات کرتا ہے،اس میں یہ پروٹسٹنٹ انقلاب اور اس کے بعد کے دور تک کے مراحل کا ذکرتا ہے.اس میں ہمیں قرآن، اسلام، اور مسلمانوں کا ذکر کہیں بھی نہیں ملا؟! عجیب بات یہ ہے کہ خدا اور اس کے بندوں کے درمیان تعلق کے بارے میں قرآن کی رائے کو جانے بغیر اسے اور کانٹ کو تمام مذاہب پر تنقیدکرنے کا حق تھا؟!
پروفیسر کانٹ نے اپنے آپ پر یہ فرض کیا ہے اور یہی آج تک مغرب کا طریقہ ہےکہ وہ کسی بھی حقیقت کو تسلیم نہیں کرے گا جو کچھ بھی کانٹی تجرباتی طریقہ کار اور اس کی وضعتی فلسفے کے مطابق نہ ہو؟!!
کیوں؟ اور کس نے اسے یہ حق دیا کہ وہ اسلام، مسلمانوں اور قرآن کو اپنی تجرباتی تجزیوں سے ہی خارج کر دیں جو معاشرت، تاریخ اور مذہبی تہذیبوں میں اپنا مقام رکھتے ہیں؟
ہم مغربی اخلاقیات کے اساتذہ جیسے استاد ليفی برول (اپنی کتاب "اخلاق اور علم عادات" میں)کے موقف کی تائید کرتے ہیں کہ اخلاقیات کے لئے جو مطلق مابعد الطبیعیاتی اصول مغرب کے اخلاقی ورثے (یہودی، کیتھولک، اور پروٹسٹنٹ) سے اخذ کیے گئے ہیں، وہ ان اساتذہ اور علما کو قائل کرنے والے نہیں ہیں جنہوں نے پہلے ان اصولوں کو اپنایا تھا۔ یہ اصول ان کے پاپائی ورثے اور مغربی ثقافت کی بنیاد پر ہیں، جو اب قابل قبول نہیں سمجھے جاتے۔
خاص طور پر پروفیسر کانٹ اور ان کی فکر رکھنے والے سب مفکرین سے سوال ہے کہ اس بات کو ایک مطلق حقیقت کے طور پر لینے کا جواز کیا تھا؟ حالانکہ یہ (عام کرنے کی حقیقت) خود وضعی انکار ہے؟! کیا یہ مابعد الطبیعیات نہیں ہے؟ حالانکہ فلسفہ وضعی کا انکار مابعد الطبیعیات ہونے کی دلیل پر قائم تھا، تو پھر یہ دوہرا معیار کیوں؟! ہم شک کریں یا نہ کریں، لیکن ہمیں اس بات پر کوئی شک نہیں کہ پرفیسر کانٹ کا اسلامی عقیدہ اور انسان کے اللہ تعالیٰ سے تعلق پر تجزیہ عجلت پر مبنی اور سطحی نوعیت کا ہے، جو کوئی معقولیت بھی نہیں رکھتا اور نہ ہی حقیقت سے ہم مربوط ہے۔ کیونکہ ان مفکرین میں سے کون ہے جس نے قرآن کو پڑھا ہےاور اسلام کو سنجیدگی سے سمجھا ہے۔صرف اسی صورت میں ہم یہ فرض کر سکتے ہیں وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، اسے حقیقتاً سمجھ کر کہہ رہے ہیں؟ یا پھر اپنے مغربی ورثے اور پاپائی تراث کے ساتھ اسے موازنہ کرنے کی جرات کرے؟!
استاد اینڈریے کرسون نے اسلامی نظریے کو منصفانہ انداز میں پیش نہیں کیا۔ اس نے اپنی پوری کتاب میں اسلام اور قرآن کے بارے میں کوئی منصفانہ رائے نہیں دی۔ جو کچھ اس نے بیان کیا، وہ دراصل کانٹ اور اس سے پہلے والوں کی باتوں کا محض دوبارہ اظہار تھا، جو کوے کی بار بار کائیں کائیں کی طرح محسوس ہوتا ہے۔اس میں انصاف سےکام نہیں لیا گیا صرف شک، الزام تراشی اور غیر سنجیدہ تنقید کی گئی ہے۔
کانٹ کا مقصد کیا ہے؟
کیتھولک کلیساجو یہودیت اور مغربی عیسائیت کا فکری امتزاج ہے اس کے مطابق انسان اور اللہ کے درمیان تعلق کی بنیاد نیک نیتی پر نہیں ہے۔ اس تعلق میں محبت، ضمیر، اور اخلاقی قدروں کا حقیقی کردار نہیں ہوتا۔ اس کے مطابق " عام اخلاقی ضمیر" کا تصور بھی نہیں ہوتا، یعنی ایسا ضمیر جو سب انسانوں میں ایک مشترک ضابطے کے طور پر موجود ہو اور جو سب پر ایک سا لاگو ہو۔یہ بات اس نظریہ کو بیان کرتی ہے کہ کلیسائی تعلیمات میں اخلاقیات کو ایک خاص دائرے میں محدود کر دیا گیا ہے اور ایک ایسا عام اخلاقی ضمیر وجود نہیں رکھتا جو تمام انسانوں میں یکساں طور پر موجود ہو۔
کانٹ نے اس بات کو دلیل کے طور پر پیش کیا کہ وہ زیادہ تر لوگ جو " عام اخلاقی ضمیر" یا "عام اخلاقیات" کی بات کرتے ہیں دراصل وہ فلسفی اور مذہبی لوگ ہیں۔ جہاں تک فلسفہ کی بات ہے تو اس میں وضعتی منطق (پوزیٹیوازم) کی بنیاد مادی تجربات اور مشاہدات پر ہے جو کسی بھی قسم کی عالمی یا کلی حقیقت جو تجربے اور مشاہدے میں نہ آئے اس کو تسلیم نہیں کرتا۔اس لیے اس نے فلسفیوں کے خیالات کو محض مفروضات اور مابعد الطبیعیات (یعنی میٹا فزکس) قرار دیا۔ چونکہ ان خیالات کو کسی مادی تجربے سے ثابت نہیں کیا جا سکتا، اس لیے وہ کسی سائنسی حقیقت کے طور پر تسلیم نہیں کیے جا سکتے۔اس میں کانٹ کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ اخلاقیات کے وہ تصورات جو فلسفہ یا مذاہب سے نکل کر آئے ہیں انہیں سائنسی بنیادوں پر ثابت نہیں کیا جا سکتا اس لیے وہ محض غیر سائنسی خیالات ہیں۔
کانٹ کا نظریہ ہے کہ عقائد دینیہ، اگرچہ اکثر اوقات مابعد الطبیعیات (میٹا فزکس) کی قیبل سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن ان میں واضح تناقضات اور بے شمار تضادات پائے جاتے ہیں۔ وہ خاص طور پر عیسائیت کے اصولوں کا ذکر کرتا ہے جیسے صلیب اور تین اقانیم جن میں وہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ اصول خدا اور انسانوں کے درمیان محبت کا رشتہ قائم کرتے ہیں اور اس کے ذریعے انسانوں کے درمیان بھی اتحاد اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ کانٹ کے مطابق یہ دعوی نہ صرف عقلی طور پر متناقض ہیں بلکہ وہ سائنسی اور تجرباتی بنیادوں پر ثابت بھی نہیں کیے جا سکتے۔
کانٹ کا دعویٰ تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے بقول اہل مذہب ، اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان جو تعلق بتاتے ہیں وہ صرف محبت اور بھلائی پر مبنی نہیں ہوتا جیسا کہ مختلف مذاہب دعویٰ کرتے ہیں۔ اسی طرح، ضمیر کی آواز اور اخلاقی اصول جو مذہبی کتابوں میں بیان کیے گئے ہیں (جیسے تورات، انجیل دَمَپَادَا (بھؤدھوں کی کتاب)اور اوستا (مجوسوں کی کتاب) بھی حقیقت کے مطابق نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ کانٹ اپنے دعوی کے مطابق قرآن اور اسلام پر بھی اعتراض کرتا ہے، یعنی یہ ہر مذہب کو ایک پیمانے پر پرکھتا ہےاور اسلام کو بھی اسی تنقید کے دائرے میں شامل کرتا ہے۔
کانٹ نے نظریہ بنانے میں جلدی کی ہے کہ انسان کا اللہ سے تعلق صرف خوف اور لالچ پر قائم ہے؛ دوزخ اور عذاب کی تکلیف سے بچنے کے لیے اور جنت اور اس کی نعمتوں کو حاصل کرنے کی خواہش پر ہے۔۔ اس کے مطابق کسی بھی قسم کا اچھا، صالح، یا محبت بھرا عمل، صرف اسی خوف اور لالچ کے زیرِ اثر ممکن ہے اس کے علاوہ کوئی تیسرا محرک نہیں ہوتا۔ اس نظریے میں، محبت اور اخلاقیات جیسے تصورات کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوتا، سب کچھ خوف اور طمع کے تابع ہے۔
کانٹ کے نظریہ کا اصل مقصد اخلاقی اقدار،اصلاح، اچھائی اور محبت کے مفہوم کو ہی رد کرنا ہے جنہیں فلسفہ اور مذاہب نے معاشرت کے لیے پیش کیا ہے۔ کانٹ نے ان سب کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ان کے جواز کو سائنسی بنیادوں پر ثابت نہیں سمجھا جو کہ فلسفہ اور مذاہب میں عام طور پر تسلیم کیے جاتے ہیں۔
کانٹ اور شوپینہاور(Schopenhauer) کا اتفاق
شوپینہاور(Schopenhauer) اپنی کتاب "أساس الأخلاق" میں انسان کے سلوک کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں، جو درج ذیل ترتیب میں بتائی جا رہی ہیں:
پہلا: الفضاضة: یہ وہ رویہ ہے جس میں انسان بلا وجہ دوسروں کو تکلیف دیتا ہے۔
دوسرا: الأنانية: اس رویے میں اپنے ذاتی فائدے کے حصول کی کوشش ہوتی ہے، اگرچہ اس سے دوسروں کو نقصان یا تکلیف پہنچے۔
تیسرا: العدالة: یہ رویہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ انسان اپنے عمل میں دوسروں کو نقصان نہ پہنچائے۔
چوتھا: الطيبة: اس رویے میں انسان دوسروں کی مدد کرنے کے لیے خود کو آگے بڑھاتا ہے، یعنی دوسروں کے فائدے کے لیے نیک عمل کرتا ہے۔
پانچوا: النسك: اس رویہ میں ایک شخص دنیا کی لذتوں سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے اور روحانیت کی طرف مائل ہو جاتاہے، جیسے ایک زاہد جو دنیاوی چیزوں سے دور رہتا ہے۔
یہاں مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب شوپنہاور اتفاق رائے کا دعوی کرتا ہے:
الفضاضة: ہر انسان کے نزدیک یہ رویہ بدقسمت اور ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے، اور اس کے لیے کسی عذر کی گنجائش نہیں ہوتی۔
الأنانية: معتبر آراء کے مطابق،یہ خودغرضی اور برائیوں کی بنیاد ہے۔
یہ دونوں رویے اخلاقی طور پر قابلِ نفرت سمجھے جاتے ہیں، اور شوپینہاور نے ان پر اجماع کا ذکر کیا یعنی ان پر تقریباً سبھی لوگوں کا اتفاق ہے کہ یہ رویے اخلاقی لحاظ سے غلط اور برے ہیں۔(المشكلة الأخلاقية والفلاسفة أندريه كريسون، ص: 275)
دو انسانوں کے درمیان اس بات پر کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا کہ "فضیحت" (بدتمیزی) ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک قسم کی شرارت اور تکلیف ہےیہ تمام انسانی معاشروں چاہے وہ خدا پر ایمان رکھنے والے ہوں یا نہ ناقابلِ قبول ہے۔ یہاں تک کہ استاد کانٹ جیسا پوزیٹیو فلسفی بھی فضیحت کو برائی، درد اور غم کا سبب ہی سمجھتا ہے۔ یعنی فضیحت کے بارے میں سب کا متفقہ موقف یہی ہے کہ یہ ایک برا، تکلیف دہ اور بدبختی سے بھرا رویہ ہے اور کوئی بھی اس کو مثبت یا قابلِ قبول نہیں سمجھتا۔
اس وقت کیا صورتحال بنتی جب کانٹ، پروفیسر جین پال سارتر، ان کے دوست سیمون ڈی بیوویر اور ان جیسے دوسرے لوگوں کی طرح ماسوچسٹک سائیکوپیتھ کے مریض ہوتے۔؟ مجھے نہیں لگتا کہ نفسیاتی مریض کی بے بنیاد باتوں کی بنیاد پر اخلاق، اچھائی اور بھلائی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
ذرا تصور کریں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے صدور خود اذیتی سے خوش ہونے والےبدتہذیب اور خود غرض لوگ ہوں؟
کانٹ کے نظریہ کا جواب!
پروفیسر کانٹ کا نظریہ کہ محبت، اقدار، اخلاق اور بھلائی جیسی چیزوں کا مابعد الطبیعاتی اصول کے طور پرکوئی وجود نہیں ہے فلاسفہ اور اہل مذہب دعویٰ کے برعکس جو کہتے ہیں کہ ان کا وجود ہے۔ کانٹ کے مطابق اہل مذہب کا اپنے خدا کے ساتھ تعلق محض مفاد پر مبنی ہے۔ وہ خدا کی عبادت جنت کے لالچ یا آگ کے عذاب سے بچنے کے خوف کی وجہ سے کرتے ہیں اس کےعلاوہ کچھ نہیں۔ خدا اور اس کے بندوں کے درمیان محبت کا کوئی وجود نہیں ہے۔لیکن پروفیسر کانٹ نے یہ بات کہاں سے لی؟ کیا اس نے قرآن کا بغور مطالعہ کیا تھا تاکہ ایسی فضول بات سے بچ سکے؟ یا کیا وہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام سنتوں سے واقف تھاتاکہ وہ سنگین الزام نہ لگائے؟!!"
شائد زرتشت، بدھ مت، یہودیت اور عیسائیت اس کا جواب نہ دے سکیں لیکن پروفیسر کانٹ نے اسلام کو بھی دیگر مذاہب کی طرح کا مذہب سمجھنے کی غلطی کی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قرآن میں فرمان ہے اور اسلامی عقیدہ ہے کہ وہ فرمانبرداروں کو جنت اور نافرمانوں کو جہنم میں ڈالےگا لیکن کانٹ کو کس نے بتایا کہ خدا اور بندوں کے درمیان تعلق جنت کی نعمتوں اور جہنم کے عذاب سے نجات تک محدود ہے؟ کس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کا ہدف فقط یہی ہے؟! یہ بات نہ اللہ نے کی ہے، نہ قرآن میں آئی ہے،نہ نبی اکرمﷺنے فرمایا ہے اور نہ مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ اور مخلوق کے درمیان تعلق کی بنیاد اسی پر منحصر ہے۔چودہ سو سال سے آج تک قرآن مجید ہماری رہنمائی کر رہا ہے کہ اللہ اور مخلوق کے درمیان تعلق اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے۔محبت ہر دو صورت میں موجود ہوتی ہے۔
حتمی مقصد خدا کو خوش کرنا اور اس سے محبت کرنا ہے، خوف اور لالچ نہیں!! اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ)(المائدہ ۵۴ ) اے ایمان والو ! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ بہت جلد ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جن سے اللہ محبت کرتا ہو گا اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہوں گے،
ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:(الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ) (التوبة: 20) جو لوگ ایمان لائے او ر ہجرت کی اور اپنے اموال سے اور اپنی جانوں سے راہ خدا میں جہاد کیا وہ اللہ کے نزدیک نہایت عظیم درجہ رکھتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں ۔
اس آیت مجید میں اللہ تعالی نے پیروی کرنےو الوں کو اعلی ترین درجہ پر قرار دیا ہے۔پھر ارشاد ہوتا ہے:(يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُقِيمٌ، خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ) (التوبة: 21-22) ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی کی اور ان جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لیے دائمی نعمتیں ہیں۔ ان میں وہ ابد تک رہیں گے، بے شک اللہ کے پاس عظیم ثواب ہے۔
یہ آیات واضح ہیں کہ اللہ کے ہاں دو اہم امور ہیں:
پہلا درجہ سب سے بڑا ہے وہ رضوان کہلاتا ہے۔یہ جنت کا سب سے بڑا درجہ ہے۔
دوسرا بڑا درجہ ہے یہ عظیم انعام جنت کی ایک نعمت ہے۔
ارشاد باری ہوتا ہے: (قُلْ أَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِنْ ذَٰلِكُمْ ۚ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ) (آل عمران: 15) کہدیجئے:کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز بتاؤں؟ جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے نیز ان کے لیے پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی خوشنودی ہو گی۔
یہ آیت بھی واضح اور صریح ہے اور اس میں دو امور ہیں:جنت اور رضوان ،اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:(وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ) (الحديد: 20) اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی ہے۔
پروفیسر کانٹ کے اعتراض کے باوجود قرآن فخریہ طور پر اعلان کرتا ہے کہ رضوان جنت سے بڑا ہے اور ان کے درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے۔ خداتعالیٰ نے فرمایا: (وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) (التوبة: 72) اللہ نے ان مومن مردوں اور مومنہ عورتوں سے ایسی بہشتوں کا وعدہ کر رکھا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان دائمی جنتوں میں پاکیزہ قیام گاہیں ہیں اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو ان سب سے بڑھ کر ہے، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت حاصل کرنے کو بہت بڑا اجر قرار دیا ہے اور رضوان کا درجہ حاصل کرنا اس سے بھی بڑا ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ رضوان عظیم کامیابی ہے اور رضوان رضا سے صیغہ مبالغہ ہےخصوصاً اگر یہ دو فریقوں کے درمیان ہو۔ جیسا کہ عاشق اور معشوق اور محب اور اس کے محبوب کے درمیان ہوتا ہے۔خدا کی بندوں سے رضا اور بندوں کی خدا سے رضا رضوان ہے جو عظیم کامیابی ہے اور رضوان اجر عظیم ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہوتاہے: (يَوْمُ يَنْفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) (المائدة: 119) جس میں سچوں کو ان کی سچائی فائدہ دے گی، ان کے لیے ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔
مندرجہ بالا بحث سے یہ بات واضح اور روشن ہو جاتی ہے کہ اجر عظیم اور فوز عظیم جنت و جہنم نہیں ہیں،یہ خدا اور بندوں کے درمیان تعلق کو رضوان کہتے ہیں۔جنت میں جانا اگرچہ بہت بڑی بات ہے لیکن وہ فوز عظیم نہیں ہے۔
رضوان کا اجماعی معنی اور اس پر نص
مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے اور اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے کہ رضوان رضا سے صیغہ مبالغہ ہے یا یہ خدا اور بندوں کے درمیان اعلی ترین درجہ کی رضا ہے۔اعلی ترین درجے کی محبت ہے۔یہاں انسانوں اور خدا کے درمیان تعلق ویسے نہیں ہے جیسے کانٹ نے بیان کیا ہے کہ وہ مادی مفاد نہیں ہے جو عبادت اور مذہبیت سے بھلائی، محبت اور راستبازی چھین لیتا ہے۔رضوان (خاص طور پر دو فریقوں کے درمیان مطلق باہمی رضا ) سب سے عظیم اور اعلیٰ ترین ہدف ہے۔ اس حتمی مقصد کی عظمت کو اس ادنیٰ مقصد کے وجود سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا جو ان لوگوں کے گرد گھومتا ہے جو حاصل کرنے کے لیے اٹھتے ہیں کہ رضوان کا درجہ حاصل کریں اور خوف اور امید میں اس کی عبادت کرتے رہیں، ۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ) (آل عمران: 31) کہدیجئے: اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا اور اللہ نہایت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
پروفیسر کانٹ اور ان جیسے لوگوں کو حق نہیں کہ وہ ہم سے وہ کام کرنے کا کہیں جس پر ہم عقیدہ ہی نہیں رکھتے۔ تمام مسلمانوں نے کہا ہے کہ رضوان جنت اور اس میں جو کچھ ہے اس سے بلند ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کوئی بھی اس کو حاصل نہیں کر سکے گا سوائے ان مسلمانوں کے جن کا اللہ پر سب سے زیادہ ایمان ہے، اس کے فیصلے پر سب سے زیادہ مطمئن ہیں، اللہ کی محبت میں شدید ہیں اور اس کے قریب ترین او رپاکیزہ ہوں گے۔
ہارون بن خارجہ سے مروی بااتفاق علما صحیح روایت ہے کہ ابی عبداللہ ؑ فرماتے ہیں: "إنّ العبّاد ثلاثة: قوم عبدوا الله عزّ وجل خوفاً، فتلك عبادة العبيد.
لوگوں کی تین قسمیں ہیں:ایک گروہ اللہ کی خوف کی وجہ سے عبادت کرتا ہے ،یہ غلاموں کی عبادت ہے۔
و: قوم عبدوا الله تبارك وتعالى طلب الثواب، فتلك عبادة الأُجَرَاء. ایک گروہ اللہ کی عبادت ثواب لینے کے لیے کرتا ہے،یہ مزدورں کی عبادت ہے۔
و: قوم عبدوا الله عز وجل حبّاً له، فتلك عبادة الأحرار، وهي أفضل العبادة". (الكافي2: 84. تحقيق: علي أكبر غفاري) ایک گروہ اللہ کی عبادت اس کی محبت میں کرتا ہے،یہ آزاد لوگوں کی عبادت ہے اور یہی عبادت بہترین ہے۔
یونس بن ظبیان سے مروی روایت میں ہے کہ امام جعفر صادق بن امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں:"إنّ الناس يعبدون عزوجل على ثلاثة أوجه: فطبقة يعبدونه رغبة في ثوابه، فتلك الحرصاء وهو الطمع، وآخرون يعبدونه خوفاً من النّار، فتلك عبادة العبيد وهي رهبة، ولكنّي اعبده حبّاً له عزوجل فتلك عبادة الكرام وهو الامن لقوله عزوجل"
لوگ اللہ کی تین وجہ سے عبادت کرتے ہیں:ایک گروہ ثواب کے حصول کے لیے عبادت کرتا ہے یہ حریص اور طمع والے ہیں۔دوسرے جہنم کے خوف سے عبادت کرتے ہیں،یہ غلاموں کی عبادت ہے جو خوف کی وجہ سے ہے۔ لیکن میں اللہ تعالیٰ کی محبت میں اس کی عبادت کرتا ہوں، کیونکہ یہ صاحبان عزت اور امان کی عبادت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ) (آل عمران ۳۱ ) کہدیجئے: اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا اور اللہ نہایت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ جو اللہ سے محبت کرتا ہے اللہ اس سے محبت کرتا ہے اور وہ امن پانے والوں میں سے ہو جاتا ہے۔
حضرت امیر المومنین علیؑ کا فرمان ہے: (ما عبدتك طمعاً) (میں لالچ میں عبادت نہیں کرتا۔)
علامہ باقر مجلسیؒ بحار الانوار میں فرماتا ہے:امام الموحدین ،امیر المومنین علیؑ کا فرمان ہے:ما عبدتك خوفاً من نارك، ولا طمعاً في جنتك، لكن وجدتك أهلاً للعبادة فعبدتك (بحار الأنوار 67: 186) میں تمہاری عبادت جہنم کے خوف سے نہیں کرتا نہ ہی جنت کے لالچ میں کرتا ہوں میں تمہاری عبادت اس لیے کرتا ہوں کہ میں نے تمہیں عبادت کے اہل پایا ہے۔
امیر المومنین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درج بالا بیان کا مطلب رضوان کے درجے کے سوا کچھ نہیں ہے، جس کا مطلب ہے وہی ہے جو بیان ہو چکا ہے جیسا کہ قرآن نے بھی اسے واضح کیا ہے: فوز عظیم۔ اس سے ا میر المومنین ؑ کا مقصد یہ تھا: میں صرف آپ کی رضا کا سوال کرتا ہوں۔ کیونکہ آپ کی رضا (فوز عظیم) جنت کے حصول سے بڑھ کر ہے اور یہ جہنم سے نجات سے بھی بڑی ہے(اجر عظیم)
آیت رھبہ کی تفسیر میں غلطی
اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے: (فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَى وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ) (الأنبياء: 90) پس ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں یحییٰ عطا کیے اور ان کی بیوی کو ان کے لیے نیک بنا دیا، یہ لوگ کارہائے خیر میں سبقت کرتے تھے اور شوق و خوف (دونوں حالتوں) میں ہمیں پکارتے تھے اور ہمارے لیے خشوع کرنے والے تھے۔
اس کی دلالت سے کچھ لوگ یہ گمان کر سکتے ہیں کہ اس سے وہی مراد ہے جو کانٹ نے کہا ہے۔اس سے مراد رغبت اور رہبت ہے یعنی جہنم کا خوف اور جنت کا لالچ۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے ،حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہما السلام، قرآن کی روشنی میں اور رحمٰن کی ضمانت کے مطابق جنت کے اعلیٰ درجے پر ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ خوف اور خواہش اس سے بڑی چیز کے گرد گھومتی ہو اور وہ رضوان کے سوا کچھ نہیں،رضوان جنت سے بڑا عہدہ ہے۔
اسی طرح اللہ کا ارشاد ہوتا ہے: (أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا) (الاسراء: 57) جن (معبودوں) کو یہ پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب تک رسائی کے لیے وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ ان میں کون زیادہ قریب ہو جائے اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خائف بھی، کیونکہ آپ کے رب کا عذاب یقینا ڈرنے کی چیز ہے۔
یہ اس بات کے خلاف نہیں ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہےکیونکہ رحمت کے نزول کی امید، عذاب کا خوف اور اس وجہ سے خدا کی عبادت مومن کا حقیقی مقصد ہے۔ جیسا کہ قرآن اسے اجر عظیم کہتا ہے،یہ سب سے بڑا مقصد نہیں ہے سب سے بڑا مقصد فوز عظیم ہے اور فوز عظیم حب و رضوان ہے۔مخلوق کی اکثریت کے بارے میں ایسا ہو گا جو حضرت یحیی اور حضرت زکریا علیھما السلام جیسے نہیں ہوں گے وہ رضوان تک نہیں پہنچ پائیں گے ان کے لیے راستہ یہی ہو گا کہ وہ جنت میں داخل ہوں۔اللہ تعالی اپنا فیصلہ نہیں ٹالے گاجنت میں داخل ہونے کے بعد ان کا مرتبہ بڑھائے گا جس سے وہ بھی رضوان تک پہنچ جائیں گے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ) (النساء: 173) پھر ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو اللہ ان کا پورا اجر دے گا اور انہیں اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا۔