امام مہدی: عدلِ الٰہی کی علامت اور روشن مستقبل کا وعدہ
الشيخ معتصم السيد احمد
بلاشبہ، اسلام ایک ہمہ گیر اور جامع نظام حیات پیش کرتا ہے جو انسان کی دنیاوی اور اخروی زندگی دونوں پر محیط ہے۔ اگر آخرت میں جنت اور اس کی نعمتیں وہ بلند ترین ہدف ہیں جو اسلام نے انسان کے لیے مقرر کیے ہیں، تو دنیا میں اسلام کے اہداف بھی اس سے کسی طور کمتر نہیں، بلکہ ان کا ایک ضروری جزو ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کی دعوتِ اسلام کے آغاز کے ساتھ ہی یہ بنیادی سوال اٹھا کہ اس الٰہی منصوبے کا حتمی مقصد کیا ہے اور انسان کی زندگی میں اس کے عملی اہداف کیا ہیں؟
اس تناظر میں، امامت کو رسالتِ محمدی کے تسلسل اور اس کے اعلیٰ مقاصد کے حصول کی ایک بنیادی اور ناگزیر ضمانت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کی نبوت کے ساتھ الٰہی پیغام مکمل اور ختم ہو چکا، تاہم یہ امر ضروری تھا کہ ایک ایسا نظام وجود میں آئے جو اس پیغام کی حفاظت کرے اور اسے اپنے آخری مقاصد تک پہنچانے کی ضمانت دے۔ اس حوالے سے، امامت ایک فطری امتداد کے طور پر ظاہر ہوتی ہے جو روحِ نبوت کو جاری رکھتی ہے۔ یہ سلسلہ حضرت علیؑ کی امامت سے شروع ہوا، اور ائمہ کے ایک غیر منقطع سلسلے کے ذریعے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ امامت اپنے اختتامی مقاصد تک پہنچ کر اسلام اپنے کمال معنویت اور نہائی مقاصد کو حاصل نہ کرے۔
بلاشبہ، امامت صرف ایک وقتی یا سیاسی قیادت نہیں بلکہ کائناتی نظام کا ایک بنیادی ستون ہے، جس کے ذریعے اللہ نے عدلِ الٰہی کی تکمیل کا ارادہ فرمایا ہے۔ اگر امامت کا وجود نہ ہو، تو اسلامی تعلیمات اور اقدار میں تحریف کا امکان پیدا ہو سکتا ہے، اور رسالت کے عظیم مقاصد ادھورے یا غیر واضح رہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امامت کا سلسلہ اس وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک کہ حتمی مقصد، یعنی ایک ایسا عالمی نظام قائم نہ ہو جائے جس میں اسلام اپنی مکمل توحید، عدل، اور رحمت کے اصولوں کے ساتھ عملی طور پر نافذ ہو۔ اس تناظر میں، امامت کو اسلام کی معنویت اور اس کے مقاصد کے تسلسل اور تکمیل کے لیے ایک ناگزیر عنصر سمجھا جا سکتا ہے۔
امت کی تاریخ میں صحابہ اور تابعین کے درمیان جنگوں اور تنازعات کے واقعات نے اسلامی تجربے کو اس کے اصل محتوا سے خالی کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ یہ تنازعات، جو اصولی طور پر اتحاد اور تکامل کے ذریعے حل ہونے چاہیے تھے، سوءِ فہمی کی وجہ سے تفرقہ انگیزی کا سبب بن گئے۔ معصوم کی مرجعیت کی عدم موجودگی یا اس کی نظراندازی کے باعث، امت ایک ایسے مستند ذریعۂ ہدایت سے محروم ہو گئی جو اسے اسلام کی حقیقتوں کا صحیح فہم فراہم کرتا۔ اس صورتحال کے تجزیے سے محقق دو ممکنہ نتائج تک پہنچ سکتا ہے:
(ایک)اسلامی تجربے کو موردِ الزام ٹھہرائے: اس نقطہ نظر کے مطابق، معصوم امام کو نظرانداز کرنا امت کے انتشار اور انحراف کی بنیادی وجہ بنا، جو صحابہ اور تابعین کی پالیسیوں پر تنقید کا متقاضی ہے۔
(دوسرا) اسلام کو ایک نامکمل نظام قرار دے: یہ فرض اسلام کے نظام میں ایک خلا کی طرف اشارہ کرتا ہے، یعنی یہ کہ اسلام نے امامت کو رسالت کے تسلسل کے لیے ایک لازمی شرط کے طور پر واضح انداز میں پیش نہیں کیا۔
امت کے اندر رونما ہونے والے تنازعات اور جنگیں بنیادی طور پر امامت کے مسئلے کے گرد گھومتی تھیں۔ امامت، جو اسلامی قیادت اور رہنمائی کا مرکزی ستون ہے، ہمیشہ سے امت کے اندر ایک اہم اور حساس موضوع رہی ہے۔ جیسا کہ کہا گیا: "اسلام میں کسی مسئلے پر اتنی تلواریں نہیں کھینچی گئیں جتنی کہ امامت کے مسئلے پر کھینچی گئیں۔"
اور اس بات پر زور دینے کے لیے کہ امامت ایک اسلامی ضرورت اور ہر زمانے میں انسانی حاجت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "من مات ولم يعرف إمام زمانه مات ميتة جاهلية۔" یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہر مسلمان کے لیے ہر دور میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے، جو امامت کو ایک مسلسل اور دائمی حقیقت بناتا ہے، نہ کہ صرف ایک تاریخی تجربہ۔
اسلام کی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک کہ امت کی قیادت کے لیے ایک امام موجود نہ ہو، جو نہ صرف دین کی تشریح کرے بلکہ مسلمانوں کی عملی زندگی کو بھی منظم کرے۔ نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان، کہ جو شخص بغیر امام کےمر جائے، وہ " جاہلیت کی موت " مرے گا، اس بات کی مکمل تاکید کرتا ہے کہ امامت دین اسلام کا ایک لازمی حصہ ہے۔ یہ حدیث اس تصور کو تقویت دیتی ہے کہ امامت کے بغیر ایمان اور دین کی تکمیل ممکن نہیں۔
اسی تناظر میں ہمارے لیے یہ سمجھنا ممکن ہے کہ کیوں تشیع کے ہاں تصور مہدویت کو اس قدر اہمیت حاصل ہے، اور کیوں شیعہ نقطۂ نظر میں مہدویت کو اسلامی نظریے کے ایک جامع اور تکمیلی پہلو کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو ایک الٰہی وعدے کی عملی تعبیر ہے۔ امام مہدیؑ اس وعدے کی ضمانت ہیں، جو عدلِ الٰہی پر مبنی ایک ایسی عالمی ریاست کے قیام کے لیے مامور ہیں، جہاں انصاف، توحید، اور انسانی اقدار کو غلبہ حاصل ہو اور ظلم، فساد، اور شرک کے تمام آثار ختم ہو جائیں۔امامت ختمِ نبوت کے بعد رسالت کے عظیم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک ضروری تسلسل فراہم کرتی ہے۔ یہ وہ رابطہ ہے جو نبوت کی تکمیل کو ایک مستقبل کے ایسے مثالی ہدف سے جوڑتا ہے جو پوری انسانیت کو اپنے دائرے میں لاتا ہے
شیعی نقطہ نظر میں امام مہدی (عج) کے تصور کو گہرائی اور بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم انسان کی تخلیق اور انبیاء کی بعثت کے مقصد پر غور کریں، جو انسان کی روحانی اور مادی ترقی ہے۔ یہی حکمت ایک ایسا معیار فراہم کرتی ہے جس کی مدد سے کسی بھی اسلامی نظریے کو پرکھا جا سکتا ہے۔
اسلام کے ذریعے حاصل ہونے والے تکامل کو محض انفرادی سطح تک محدود نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ فرد کی روحانی اور اخلاقی ترقی اسلام میں ایک بنیادی اور مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے باوجود، اسلام کے پیغام کا گہرائی میں مطالعہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اس کا اصل ہدف انسانی معاشرے کے مجموعی نظام کی حالت میں بہتری اور اسے ایک جامع اور منصفانہ شکل دینا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام پر گفتگو اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک اسے اس عالمی نظام سے نہ جوڑا جائے، جس کے قیام کے لیے اسلام نے اپنی تعلیمات فراہم کی ہیں۔ یہ نظام اسلام کے پیغام کے تحت انسانی تکامل کی بلند ترین شکل کی عکاسی کرتا ہے۔
اگر اسلام کو ایک جامع اور مؤثر عالمی پیغام کے طور پر سمجھنا ہے، تو اس کا بنیادی مقصد ایک عادلانہ اور متوازن عالمی نظام کا قیام ہونا چاہیے۔ انسانی تاریخ میں تمام اصلاحی نظریات، چاہے وہ فلسفیانہ ہوں یا مذہبی، انسانی معاشرت کی مجموعی حالت کو بہتر بنانے اور اسے ایک اعلیٰ سطح پر لے جانے کے داعی ہیں۔کمیونزم، بطور مثال، ایک سیاسی اور سماجی نظام پیش کرتا ہے جو مساوات اور انصاف کی بنیاد پر انسانی زندگی کو بہتر بنانے کا وعدہ کرتا ہے۔ یہ نظریہ اپنے اعلیٰ مقصد، یعنی "مساوی معاشرت" کے قیام کی بنیاد پر اپنی صداقت کا دعویٰ کرتا ہے۔
اسی تناظر میں، اسلام کا حقیقی مقصد بھی ایک جامع نظام کا قیام ہے، جو نہ صرف فرد بلکہ انسانی معاشرت کے ہر پہلو کو عدل اور تکامل کی بنیاد پر ترقی دے۔ اگر اسلام کو اس عالمی مقصد سے جدا کر کے صرف انفرادی اصلاح تک محدود کر دیا جائے، تو نہ صرف اس کے عالمی پیغام کی افادیت کم ہو جائے گی بلکہ اس کی اصلاحی حیثیت بھی متاثر ہوگی۔اسلام کو ایک عادلانہ نظام کے قیام کے لیے ایک جامع پیغام کے طور پر سمجھنا لازم ہے، جو تمام انسانیت کو محیط ہو اور جس کے تحت سماجی انصاف اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں متوازن ترقی ممکن ہو۔ یہی اسلام کے آفاقی اور جامع پیغام کی روح ہے، جو اسے ایک عالمی اصلاحی تحریک کے طور پر منفرد بناتی ہے۔
یہاں معاملہ دو امکانات کے گرد گھومتا ہے: یا تو اسلام ایک ایسا جامع پیغام ہے جو ایک عالمی حکومت کے قیام کا داعی ہے، جہاں آسمانی و آفاقی اقدار اپنی مکمل شکل میں نافذ ہوں؛ یا پھر یہ ایک محدود پیغام ہے جو صرف مخصوص مقاصد تک محدود ہے۔
اگر پہلے امکان کو تسلیم کیا جائے، تو اسلام کو ایک مکمل، جامع، اور ہمہ جہت دین کے طور پر سمجھنا ناگزیر ہو جاتا ہے، جو انسانی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔ اس تناظر میں، اسلام کا عالمی حکومت کے قیام کا وعدہ اس کے بنیادی نظریات میں شامل ہونا چاہیے، اور اس کی تبلیغ اسی نظریے کے تحت کی جانی چاہیے۔
اگر دوسرا راستہ اختیار کیا جائے، تو ہم یہ کیسے سمجھیں کہ اسلام ایک آسمانی دین ہے جو انسان کے لیے آیا ہے؟ اگر پیغام الٰہی ہے، تو اس کا مقصد بلا شبہ انسان ہی ہوگا۔ لہٰذا، یہ پیغام انسانی ضروریات اور امنگوں کو پورا کرنا چاہیے۔ انسان کی سب سے بڑی امنگ کمال کی تلاش ہے، اور یہ کمال مجموعی طور پر انسانیت کے لیے اُس وقت ممکن ہے جب ایک عالمی نظام تشکیل دیا جائے جو تمام اقدار کا مظہر ہو۔ بصورتِ دیگر، خالقِ انسان اُس چیز سے غافل سمجھا جائے گا جس کی انسان تلاش کرتا ہے۔ اور اگر انسان اسلام کے بغیر اپنی مرضی کی تہذیب بنا سکتا ہے، تو پھر دنیاوی سطح پر اسلام کے کسی تہذیبی محرک کے بغیر اُس سے وابستہ رہنے کی کیا ضرورت ہے؟
اسی باتوں کی روشنی میں ہمیں یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ ان تمام نظریات، مذاہب اور مکاتب فکر کا ناقدانہ جائزہ لیں جو اس اہم دن کی اہمیت کو نظرانداز کرتے ہیں۔ وہ دن جس میں اللہ کے پیغام کی تکمیل نہ صرف نظریاتی اور اعتقادی سطح پر بلکہ عملی سطح پر بھی ہوگی۔ یہ ایک ایسا بنیادی مسئلہ ہے جس پر ہر وہ فرد جو الٰہی پیغام پر ایمان رکھتا ہے، غور و فکر کرے اور اپنی توجہ مرکوز رکھے۔ اس مسئلے کی اہمیت اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ یہی دن ہر مومن کے لیے امید کی بنیاد ہے۔اسی لیے ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے فرمایا: "اَفضل العبادة انتظار الفرج"۔ یہ فرمان واضح طور پر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ الٰہی ادیان کی حقیقت اور اسلام کی روح اس وعدہ شدہ دن کے بغیر ادھوری رہتی ہے۔ تمام انبیاء نے اپنے مشن میں انسانیت کو اسی دن کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی، جب زمین پر الٰہی عدل و انصاف کا نظام قائم ہوگا اور اللہ کی حکمرانی مکمل طور پر نافذ ہوگی۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تخلیق کیا اور انہیں زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا، تو درحقیقت یہ ایک ایسے الٰہی منصوبے کی بنیاد تھی جس میں عدل و انصاف پر مبنی حکمرانی کا قیام شامل تھا۔ فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ آدمؑ کے سامنے سجدہ کریں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ کے نزدیک ایک خاص حیثیت اور مقصد حاصل ہے۔
جب ہم ان آیات پر غور کرتے ہیں، تو فرشتوں کا یہ قول: ﴿أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها وَيَسْفِكُ الدِّماءَ﴾ ایک اہم پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ فرشتے انسان کی خلافت پر اعتراض اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ انسانی طبیعت میں ظلم، فساد، اور خونریزی کے امکانات موجود ہیں۔ ان کا یہ موقف تھا کہ خلافت کا فریضہ انہیں سونپا جائے، کیونکہ وہ صرف اللہ کی حمد و تقدیس کرتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے کہا: ﴿وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ﴾۔
یہ اعتراض انسانی فطرت کے ان پہلوؤں کی نشاندہی کرتا ہے جو آزمائش اور چیلنجز کا حصہ ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا: ﴿إِنِّي أَعْلَمُ ما لا تَعْلَمُونَ﴾۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو جہالت سے متصف نہیں کیا، اور نہ ہی یہ فرمایا کہ "أنتم تجهلون"، بلکہ ارشاد فرمایا: ﴿إِنِّي أَعْلَمُ ما لا تَعْلَمُونَ﴾۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو فرشتے جانتے ہیں، اور وہ بھی جانتا ہے جو فرشتے نہیں جانتے۔فرشتوں کا اعتراض جہالت یا لاعلمی پر مبنی نہیں تھا، بلکہ وہ انسان کی حقیقت اور اس کی کمزوریوں سے واقف تھے، جن میں فساد اور خونریزی کے امکانات شامل ہیں۔
اگر فرشتے اپنے اس بیان میں حق بجانب تھے اور ان کا اعتراض فساد اور خونریزی کے امکان کی بنیاد پر تھا، تو اللہ کا جواب اس اعتراض سے مطابقت رکھنا ضروری تھا۔ یہ نامعقول ہوگا کہ فرشتے کسی خدشے کا اظہار کریں اور اللہ ان کے خدشے کا ایسا جواب دے جو ان کے اعتراض سے غیر متعلق ہو۔لہٰذا، اللہ کا یہ فرمانا: ﴿إِنِّي أَعْلَمُ ما لا تَعْلَمُونَ﴾ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اللہ کا علم فرشتوں کے علم سے کہیں زیادہ وسیع اور مکمل ہے۔ یہی علم اس اعتراض کی وضاحت اور جواز فراہم کرتا ہے۔ اگر فرشتے وہ سب کچھ جانتے جو اللہ جانتا ہے، تو وہ کبھی اعتراض نہ کرتے۔یہ الٰہی علم نہ صرف انسان کی خلافت کے پیچھے موجود حکمت کو شامل کرتا ہے بلکہ اس میں وہ بشارت بھی شامل ہے جو اس خلافت کی تکمیل پر مشتمل ہے۔ گو کہ انسان سے ظلم، فساد، اور خونریزی سرزد ہونے کا امکان موجود ہے، لیکن اللہ کے علم میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ انسان اپنی آزمائشوں اور ارتقاء کے ذریعے ایک ایسی ریاست قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہو، اور جس میں فساد اور خونریزی کا خاتمہ ہو جائے۔
فرشتوں نے حقیقت کا صرف ایک پہلو دیکھا، یعنی فساد اور خونریزی، لیکن وہ اس حقیقت کو نہیں دیکھ سکیں جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینے کے الٰہی منصوبے سے متعلق ہے، بعد اس کے کہ وہ ظلم اور جور سے بھر چکی ہوگی۔ اگر فرشتے اس حقیقت کو سمجھ لیتیں، تو ان کا اعتراض بے محل ہوتا، کیونکہ ایسی ریاست پر اعتراض کرنا جو اللہ کی اقدار اور اس کے حکم پر مبنی ہو، مناسب نہیں ہو سکتا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً﴾ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آدم کی خلافت زمین پر کسی ایسی حکمت کے تحت تھی جو فساد، ظلم، اور خونریزی کے مسلسل رہنے سے پاک ہے۔ بلکہ یہ خلافت اس خواب کی تعبیر کا آغاز ہے جو ایک ایسی ریاست کے قیام کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں عدل و انصاف کا غلبہ ہوگا اور فساد و ظلم کا کوئی وجود نہ ہوگا۔
یہ تصور، نہ صرف ہر انسان کا خواب ہے بلکہ ہر دین کی غایت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ(النور: 55)
تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں۔
وَ نُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ نَجۡعَلَہُمۡ اَئِمَّۃً وَّ نَجۡعَلَہُمُ الۡوٰرِثِیۡنَ ۙ(القصص:5)
اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں۔
اگر ہم انسانی تاریخ پر غور کریں، ابتداء آدم (ع) کی تخلیق سے لے کر آج تک، تو ہمیں یہ حقیقت نظر آتی ہے کہ یہ تاریخ فساد، ظلم، اور خونریزی سے بھری ہوئی ہے۔ انسانی معاشرہ کبھی بھی ایسی حالت سے نہیں گزرا جہاں ظلم اور فساد سے پاک دور دیکھا گیا ہو۔ یہاں تک کہ انبیاء (ع) بھی ان مظالم سے محفوظ نہ رہ سکے؛ انہیں قتل کیا گیا، بے گھر کیا گیا، اور مسلسل ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔ انسانی دنیا پر ہمیشہ خون اور جبر کی تاریک حقیقت چھائی رہی ہے۔اگر کوئی ایسا دن نہ ہو، جو انسانیت کے لیے ایک نئی شروعات کا دن ہو، ایسا دن جو ظلم، خونریزی، اور فساد سے پاک ہو، تو کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ فرشتوں کا اعتراض بجا تھا؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آدم (ع) کی خلافت زمین پر اُس الٰہی منصوبے کا آغاز تھا، جو بالآخر اُس دن کی جانب لے جائے گا جب زمین پر عدل و انصاف کا دور شروع ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ﴾(الأنبياء: 105)
اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے سلسلے کو اپنے آخری نبی محمد مصطفیٰ (ص) پر ختم کردیا، اور انبیاء و رسل کی پھر سے تشریف آوری کی اُمید باقی نہ رہی۔ لہٰذا، ختمِ نبوت کو صرف اس پہلو سے سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ وہ آخری پیغام ہے جس کے ذریعے اُس وعدہ شدہ دن کی تکمیل ہوگی۔ اسی طرح، اسلام کو بھی اُس دن کی بشارت کے تناظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
"اگر دنیا کا ایک دن بھی باقی رہ جائے، تو اللہ اُس دن کو اتنا طویل کردے گا کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص ظاہر ہوگا، جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، جیسے کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔"
امام علی (ع) نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں فرمایا:﴿وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ﴾(القصص: 5)
آپ (ع) نے فرمایا:
"یہ آل محمد ہیں، جنہیں اللہ ان کی جدو جہد کے بعد مہدی کے ذریعے عزت عطا کرے گا، اور ان کے دشمنوں کو ذلیل کرے گا۔"
عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:"قیامت اُس وقت تک نہ ہوگی جب تک میرے فرزندوں میں سے ایک شخص، جس کا نام میرے نام جیسا ہوگا، زمین پر حکومت نہ کرے۔ وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، جیسے کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔"
یہ احادیث اور تفاسیر اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ اسلام کا وعدہ شدہ دن انسانیت کے لیے عدل و انصاف کا وہ دور ہوگا، جو نبی اکرم (ص) کی تعلیمات کا حقیقی مظہر ہوگا اور دنیا کے خاتمے سے پہلے الٰہی عدل کی تکمیل کا ضامن بنے گا۔
اس موضوع پر روایات تمام اسلامی مذاہب کے نزدیک تواتر کے درجے تک پہنچی ہیں، جو امام مہدی (عج) کے کردار پر زور دیتی ہیں، انہیں فکرِ اسلامی میں وہ نجات دہندہ قرار دیتی ہیں جن کے ذریعے آسمانی عدل کا قیام ہوگا۔ ان روایات نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ مہدی (عج) رسول اللہ (ص) کی نسل سے ہیں، جو امام مہدی کی حکومت اور نبی اکرم (ص) کے پیغام کے درمیان مضبوط تعلق کو واضح کرتی ہیں۔یہ تعلق ہمیں اسلامی پیغام کی جامعیت کا ادراک عطا کرتا ہے، اور اس کا کمال اُس ریاست میں مکمل ہوتا ہے جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گی، جبکہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔
راہِ اسلام امامت سے شروع ہوتی ہے، جو معصوم قیادت کی صورت میں دین مقدس اسلام کی راہ کو ہر قسم کی گمراہی سے محفوظ رکھتی ہے۔ یہ سفر اپنے عروج کو اُس وقت پہنچتا ہے جب امام مہدی (عج) کے ہاتھوں عدل و انصاف پر مبنی ریاستِ الٰہی قائم ہوگی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پیغامِ اسلامی ہی وہ آخری اور کامل پیغام ہے جسے اپنی حکمرانی اور تمام ادیان پر تسلط کا حق لازمی طور پر ملنا چاہیے۔
امامت اور قیادت اسلام کا ایسا نظام ہے جوحیاتِ بشر کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوا، اور قیامت تک باقی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ﴾ (جس دن ہم ہر قوم کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے)۔ یہ آیت اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ دنیا میں جو امام انسان کی رہنمائی کرتا ہے، وہی آخرت میں بھی اس کا رہنما ہوگا۔ اگر امام حق پر ہوگا، تو وہ جنت کی طرف لے جائے گا، اور اگر باطل پر ہوگا، تو انجام جہنم ہوگا۔