قرآن کی صداقت اور دعا کی عدم قبولیت کو بطور نمونہ پیش کرنا: ایک فکری جائزہ
تحریر:باسم حلی
جن آیات میں سے جن پر سب سے زیادہ گفتگو کی گئی ہے، ان میں یہ آیت کریمہ بھی شامل ہے(وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ)۔ اس آیت کو مختلف سوالات اور تجزیات کا محور بنایا گیا ہے۔ اسلام کے ناقدین نے دعویٰ کیا کہ اس آیت میں کوئی عملی حقیقت نہیں بلکہ یہ محض ایک دعویٰ ہے۔ (تاہم، یہ اعتراض ان کے ناقص علم اور قرآن کی گہری حکمت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دعا کی طرف بلاتے ہوئے یہ باور کراتا ہے کہ وہ ان کے قریب ہے اور ان کی دعاؤں کا جواب دینے والا ہے)
علمائے اسلام اور اہلِ فکر نے اس اعتراض کے جواب میں کئی دلائل پیش کیے ہیں، جو اپنی ذات میں اطمینان بخش اور درست ہیں۔ تاہم، یہ بات محسوس کی گئی ہے کہ ان میں سے اکثر جوابات کو، یا کم از کم ان کے زیادہ حصے کو، دوسرے مکاتبِ فکر کے افراد روایتی اور غیر مؤثر قرار دیتے ہیں۔
یہی بات ان آیات کے بارے میں بھی کہی گئی ہے(وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ) (البقرة: 186)، اور (إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ) (إبراهيم: 29)۔
اشکال کی کیفیت:
(کیا واقعی اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کا وعدہ کیا ہے؟ اگر ہاں، تو کیوں بہت سی دعائیں قبول نہیں ہوتیں؟ کیا یہ آیات وعدے کی خلاف ورزی کو ظاہر کرتی ہیں یا ان میں کوئی شرط یا حکمت پوشیدہ ہے جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے؟)
اس اعتراض کا خلاصہ سادہ الفاظ میں یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں قطعی طور پر یہ ارشاد فرمایا ہے (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا)، لیکن عملی زندگی اس کے برعکس نظر آتی ہے؛ کیونکہ ہم نے نہیں دیکھا کہ کسی نے دعا کی ہو اور اسے فوراً قبولیت ملی ہو۔ اس بنیاد پر اعتراض کرنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس آیت کا کوئی عملی مظہر نہیں، اور بعض کفار اس سے آگے بڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ اگر قرآن واقعی آسمانی کتاب ہوتا تو اس طرح کی واضح تضاد عملی زندگی میں سامنے نہ آتا۔
اعتراض کا جواب
خود یہ اعتراض بغیر دلیل اور مصادرہ عن المطلوب ہے۔ کیونکہ یہ کس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی دعا کرنے والے کی دعا قبول نہیں کی؟!
اسلام کے مختلف مذاہب اور عقائد کے تنوع کے باوجود مسلمانوں کا یہ محکم اور پختہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی دعا کرنے والے کو رد نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کوشش کرنے والے کو ناکام کرتاہے۔ اللہ کا وعدہ ہے(ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
پس کوئی بھی دعا کرنے والا، جو خالص نیت کے ساتھ اللہ کا رخ کرے، اس کے فضل، رحمت، اور سخاوت کا دروازہ کھٹکھٹائے، تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا ضرور قبول کرتا ہے۔ یہ قبولیت کبھی دعا کرنے والے کی سمجھ میں آنے والے طریقے سے ہوتی ہے اور کبھی ایسی صورت میں جو اس کی سمجھ سے بالاتر ہو۔ یہ قبولیت یا تو فوراً ہوتی ہے، یا کچھ وقت کے بعد، اور کبھی براہ راست ہوتی ہے تو کبھی کسی واسطے کے ذریعے۔
دعاؤں کی استجابت کی کیفیت:
اللہ کی اپنے بندوں کی دعاؤں کو قبول کرنے کی کیفیت ایک دانا اور مہربان باپ کی مانند ہوتی ہے، جو اپنے بچوں کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حکیمانہ انداز اپناتا ہے، حتیٰ کہ ان خواہشات کے لیے بھی جو بظاہر بچوں کی بھلائی کے خلاف ہوتی ہیں۔
کبھی کبھار ایک معذور بچہ اپنے والد سے درخواست کرتا ہے کہ وہ ماونٹ ایورسٹ کی چوٹی پر چڑھنے دے یا شدید سردی میں River Thames کو تیر کر پار کرنے دے، حالانکہ ایسے معذور افراد کے زندہ بچنے کے امکانات انتہائی کم ہوتے ہیں۔ لیکن کیا والد اپنے بیٹے کی اس درخواست کو قبول کرے گا؟!ہم اس کو دو طریقوں سے فرض کرسکتے ہیں کوئی تیسرا فرض قابلِ تصور نہیں ہے لیکن یہ ایک غلط سوچ ہے۔ ہمارے پاس ایک تیسرا فرض بھی موجود ہے جس میں تمام حقیقت پوشیدہ ہے، جو اوپر بیان کی گئی مصادرة (تحکم) کو مکمل طور پر بے نقاب کرتا ہے، بلکہ ایک چوتھا فرض بھی موجود ہے۔
لیکن تیسرے فرض کی وضاحت سے پہلے، جس میں تمام حقیقت مضمر ہے، یہ ضروری ہے کہ پہلے دو فرضوں پر روشنی ڈالی جائے:
فرضِ اول:۔ والد اپنے بیٹے کی درخواست قبول کر لے، حالانکہ بیٹے کی نجات کے امکانات بہت کم ہیں۔
انسانی منطق اور تمام عقل مند لوگ بلا جھجھک ایسے والد کو بے وقوف قرار دیں گے۔
یہ قابل غور بات ہے کہ انسانوں کی اکثر دعائیں منطقی اور عقلی لحاظ سے غیر معقول ہوتی ہیں، جیسا کہ کسی معذور شخص کا ماونٹ ایورسٹ سر کرنے کی خواہش کرنا، جو اس کے لیے مہلک ہو سکتی ہے۔ اسی طرح کی نامعقول دعائیں اللہ تعالیٰ، جو احکم الحاکمین ہیں، اپنی حکمت کاملہ کے تحت کبھی قبول نہیں کرتا، کیونکہ یہ دعا کرنے والے کے فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت ہمیشہ بندوں کی بھلائی کے اصول پر قائم رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کی اس نامعقول دعا ؤں اور تمناؤں کی عکاسی کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
(وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَئُوسٌ كَفُورٌ (9) وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ) (سورة هود:9-10) .
ا ور اگر ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد وہ نعمت اس سے چھین لیں تو بیشک وہ ناامید اور ناشکرا ہو جاتا ہے۔ اور اگر ہم اسے تکلیفوں کے بعد نعمتوں سے نوازتے ہیں تو ضرور کہ اٹھتا ہے: سارے دکھ مجھ سے دور ہو گئے،بیشک وہ خوب خوشیاں منانے اور اکڑنے لگتا ہے"(سورۃ ہود: 9-10)
فرض دوم: والد اپنے معذور بیٹے کی درخواست کو مسترد کر دیتا ہے تاکہ اسے نقصان سے بچایا جا سکے۔
یہ صورت حال زندگی کی حقیقی مثالوں کے عین مطابق ہے، جہاں والدین اپنے بچوں کی خواہشات کو ان کی بھلائی اور حفاظت کی خاطر رد کرتے ہیں۔ ایک عقلمند والد، جو معذور بیٹے کی خطرناک مہم کی خواہش کو رد کرتا ہے، اپنی عقل و حکمت کے ذریعے اس کے نقصان کے امکان کو ختم کرتا ہے۔
لیکن کیا یہیں پر بات ختم ہو جاتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ایک عقل مند والد، محض انکار پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنے بیٹے کے لیے بہتر اور محفوظ متبادل موقع فراہم کرتا ہے۔ وہ ایسی سرگرمیاں یا مواقع پیش کرتا ہے جو بیٹے کی صلاحیتوں کے مطابق ہوں اور اس کی خواہش کو کسی حد تک پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے فائدہ بھی پہنچائیں۔
فرض سوم: متبادل جواب:
زیادہ تر والدین، خاص طور پر مائیں، جو اپنی شفقت اور اولاد کی خواہشات پوری کرنے میں سب سے آگے ہوتی ہیں، اگر اولاد کو کسی ایسی چیز سے روکتی ہیں جو ان کے لیے نقصان دہ، تکلیف دہ یا مہلک ہو سکتی ہے، تو وہ انہیں خالی ہاتھ نہیں چھوڑتیں۔
ایک عقلمند اور متوازن والد، جیسا کہ اکثر والدین ہوتے ہیں، اگر اپنے معذور بیٹے کو ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے سے روکتا ہے تو وہ اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتا جب تک وہ اس خواہش کا کوئی متبادل نہ دے دے۔ مثال کے طور پر، وہ بیٹے کو سالگرہ پر ایک نئی سائیکل، ایک الیکٹرانک ڈیوائس، ایک خوبصورت لباس، یا کسی دلچسپ سفر کی ٹکٹ دے سکتا ہے۔ اس طرح وہ بیٹے کی خوشی کا سامان کرتا ہے اور اس کی معصوم خواہشات کی تکمیل کسی بہتر اور محفوظ طریقے سے کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے قول)ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ(میں استجابتِ دعا کے دونوں پہلو شامل ہیں)دعا کا حرف بہ حرف پورا ہونا۔دعا کی جگہ بہتر متبادل کوئی چیز عطا کیا جانا(
اللہ تعالیٰ کسی بھی دعا کو نظر انداز نہیں کرتا۔ اس کی حکمت کے تحت یا تو بندے کی دعا کو اس کے عین مطابق پورا کیا جاتا ہے، یا پھر اس کے لیے بہتر، محفوظ اور مفید متبادل عطا کیا جاتا ہے۔ یہی استجابتِ دعا کا مفہوم اس آیت مبارکہ میں بھی ملتا ہے(وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ) (البقرة: 186)۔ یہ آیت دونوں مذکورہ بالا پہلوؤں کو شامل کرتی ہے۔
اس طرزِ استجابت کا مقصد یہ ہے کہ بندہ اللہ کی طرف رجوع کرے، اس پر ایمان رکھے اور اس کی عطا و حکمت پر یقین رکھے، تاکہ وہ ہدایت یافتہ اور کامیاب ہو جائے۔
ایک دلیل جو استجابتِ دعا کے متبادل تصور کی وضاحت کرتی ہے، وہ روایت ہے جو کلینی نے صحیح سند کے ساتھ بیان کی ہے۔ ابو بصیر کہتے ہیں:
میں امام ابو جعفر (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: "کیا آپ رسول اللہ ﷺ کے وارث ہیں؟"امام (علیہ السلام) نے فرمایا: "جی ہاں۔"
میں نے کہا: "رسول اللہ ﷺ انبیاء کے وارث ہیں، اور جو کچھ انبیاء کرام علیھم السلام جانتے تھے، کیا وہ سب رسول اللہ ﷺ بھی جانتے تھے؟"امام (علیہ السلام) نے فرمایا: "جی ہاں۔"
میں نے عرض کی: "تو کیا آپ لوگ مُردوں کو زندہ کر سکتے ہیں، مادر زاد اندھے کو شفا دے سکتے ہیں اور کوڑھی کو صحت یاب کر سکتے ہیں؟"امام (علیہ السلام) نے فرمایا: "ہاں، اللہ کے حکم سے۔" پھر امام (علیہ السلام) نے مجھ سے کہا: "اے ابو محمد! میرے قریب آؤ۔" میں قریب ہوا تو امام (علیہ السلام) نے میرے چہرے اور آنکھوں پر ہاتھ پھیرا۔ پس میں نے سورج، آسمان، زمین، مکانات اور شہر کی ہر چیز دیکھ لی۔
پھر امام (علیہ السلام) نے مجھ سے فرمایا: "کیا تم پسند کرتے ہو کہ اسی طرح (بینائی کے ساتھ) رہو، اور قیامت کے دن تم سے وہی سوالات پوچھے جائیں اور وہی سختیاں کی جائیں جو عام لوگوں پر کی جاتی ہیں یا تم اپنی پہلی حالت پر واپس لوٹ جاؤ اور صرف جنت میں ہی تیرے لیے جگہ ملے ؟"
میں نے عرض کیا: "میں اپنی پہلی حالت پر واپس جانا پسند کروں گا، ۔" امام (علیہ السلام) نے میرے آنکھوں پر ہاتھ پھیرا، اور میں اپنی پہلی حالت پر واپس آگیا۔
ابو بصیر کہتے ہیں: میں نے یہ واقعہ ابن ابی عمیر کو سنایا تو انہوں نے کہا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ سچ ہے، جس طرح دن موجود ہونا سچ ہے۔" (الکافی، جلد 1، صفحہ 174، باب ولادتِ امام محمد بن علی الباقر علیہ السلام)
اس سلسلے میں ہارون بن خارجہ کی معتبر روایت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے نقل ہوئی ہے، جس میں آپ نے فرمایا:"بے شک خوشحالی کے وقت کی جانے والی دعا، مصیبت کے وقت کی حاجات کو پورا کرتی ہے"۔ ( الکافی، جلد 2، صفحہ 473)یہ قول استجابتِ بدیلہ کے تصور کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ اس میں یہ نکتہ بیان ہوا ہے کہ انسان کی دعائیں صرف اس کے فوراً مطلوبہ نتائج پر اثر نہیں ڈالتی بلکہ ان کا اثر مستقبل کی مشکلات اور مصائب کو دور کرنے میں بھی نمایاں ہوتا ہے۔ دعا کے اس فلسفے پر صحیح احادیث تواتر کی حد تک موجود ہے، اور ان تمام احادیث کو احاطہ کرنا ایک مقالے میں ممکن نہیںَ ۔
چوتھی صورت: دعا کرنے والے کی ضد
اگر کوئی معذور فرد ضد کرے کہ وہ ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھنا چاہتا ہے، اور ضد کی شدت اس حد تک بڑھ جائے کہ وہ اپنے والد کو خودکشی کی دھمکی دے، تو ممکن ہے کہ والد مجبوری میں اس کی درخواست کو قبول کر لے، اگرچہ وہ یہ جانتا ہو کہ کامیابی کا امکان نہایت کم ہے۔ اس مجبوری کی بنیاد یہ ہوگی کہ والد دو نقصانات میں سے کم نقصان کو ترجیح دے۔
اللہ تعالیٰ بعض اوقات دعا کرنے والے کے الحاح اور اصرار کے سبب وہ دعا بھی قبول کر لیتا ہے جس میں نقصان کا احتمال ہوتا ہے، تاکہ دعا رد ہونے سے دعا کرنے دلوں میں اعتقادی خلل یا فتنہ پیدا نہ ہو۔
قرآنی مثال:
قرآن کریم میں حواریین کا واقعہ اس اصول کو واضح کرتا ہے:
(إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (112) قَالُوا نُرِيدُ أَنْ نَأْكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّاهِدِينَ (113) قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِنْكَ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (114) قَالَ اللَّهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ فَمَنْ يَكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ) .115)
(وہ وقت یاد کرو) جب حواریوں نے کہا: اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ہمارے لیے آسمان سے کھانے کا خوان اتار سکتا ہے؟ تو عیسیٰ نے کہا : اگر تم مومن ہو تو اللہ سے ڈرو
۱۱۳۔ انہوں نے کہا: ہم چاہتے ہیں کہ اس (خوان) میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور یہ جان لیں کہ آپ نے ہم سے سچ کہا ہے اور اس پر ہم گواہ رہیں۔
۱۱۴۔ تب عیسیٰ بن مریم نے دعا کی: اے اللہ!اے ہمارے رب! ہمارے لیے آسمان سے کھانے کا ایک خوان نازل فرما کہ ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے وہ دن عید اور تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے۔
۱۱۵۔ اللہ نے فرمایا: میں یہ خوان تم پر نازل کرنے والا ہوں، لیکن اگر اس کے بعد تم میں سے کوئی کفر اختیار کرے گا تو اسے میں ایسا عذاب دوں گا کہ اس جیسا عذاب عالمین میں کسی کو نہ دیا ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایسے دعاؤں کی قبولیت، جو اس قسم کی ہوتی ہیں (یعنی ایسی جن میں شدید نقصان کا اندیشہ ہو)، بہت کم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ صرف اس وقت انہیں پورا کرتا ہے جب دعا کرنے والے کا اصرار حد سے تجاوز کر جائے اور اس کی "ایورسٹ نما" غیر دانشمندانہ خواہش انتہا کو پہنچ جائے۔
سوال: مسلمانوں کی دعاؤں کے اثرات کہاں ہیں؟
اگر کوئی سوال کرے کہ مسلمانوں کی دعاؤں کے بدلے اثرات کہاں ہیں، خاص طور پر مغربی ترقی یافتہ معاشروں کے مقابلے میں؟
تو اس کا جواب واضح ہے، اللہ تعالیٰ نے مسلم ممالک کو، باوجود ان کی بے شمار بڑی اور سنگین غلطیوں کے، بہت سی اخلاقی، سماجی اور طبعی تباہیوں سے محفوظ رکھا ہے۔مہلک وبائیں، جیسے ایڈز، کرونا، ایبولا، سوائن فلو، اور برڈ فلو، زیادہ تر ان خطوں میں پیدا ہوئیں جو اللہ کے ذکر اور دعا سے دور ہیں اور قرآن کی تعلیمات کو نہیں جانتے۔