مرجعیت: ظلم و جبر کے خلاف قوم کا ڈھال
شیخ معتصم سید احمد
جب تشیع کو ایک مذہبی اور سماجی نظر سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ اسلامی اقدار کا ایک مکمل نظام ہے جو روحانیت اور فکری پہلوؤں کو جوڑتا ہے۔ شیعیت صرف ایک فقہی مکتب فکر نہیں ہے، بلکہ یہ امت کی قیادت کے لیے بہترین نظریہ پیش کرتا ہے۔ اس بات کا عملی اظہارفقہاء کے عملی کردار سے ہوتا ہے جو علمی رہنمائی اور روحانی ہدایت فراہم کرتے ہیں، جس سے توازن قائم ہوتا ہے۔ اس طرح، شیعیت صرف سیاسی وفاداری کے روایتی تصور سے آگے بڑھ کر ایک ایسی قیادت کا ماڈل پیش کرتی ہے جو مذہبی اصولوں کو عام زندگی میں نافذ کرنے کے کام ہے، جبکہ عام طور پر دوسرے گروہوں میں اقتدار کو عقیدے پر فوقیت دی جاتی ہے۔
شیعیت کو سمجھنے کےلیے دو اہم پہلو ہیں؛ پہلا اس کا تاریخی پس منظر ہے جس سے اس کے اسلام سے اٹوٹ تعلق کا پتہ چلتا ہے۔ شیعیت نے اہل بیت (علیہ السلام) سے نسبت کا اظہار کیا ہے کیونکہ وہ پیغمبر کی تعلیمات کا حقیقی تسلسل تھے، اور اسی وجہ سے یہ اسلام میں حکومتی انحرافات کے خلاف تھا۔ شیعیت صرف ایک سیاسی تحریک نہیں بلکہ ایک حقیقی موقف ہے جو اسلام کے عدل و مساوات کے اصولوں پر قائم ہے، اور دین کے استبداد یا سیاست میں تسلط کے جواز کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔
یہ تاریخی پہلو صرف ظلم کی مخالفت تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ کوششیں بھی شامل ہیں جن کے ذریعے اصلی اسلامی اصولوں کو محفوظ رکھا جاتا ہے، جیسے انسان کی عزت، عدل۔اس میں ہر ایسی حکومت کو رد کیا جائے جو اللہ کے احکامات کے خلاف ہو۔ اس لیے شیعیت ہمیشہ ایسی کسی بھی حکومت کی پیروی سے انکار کرتی ہے جو ان الہی اصولوں کے خلاف ہو۔قانون کی بنیاد اللہ کے احکام ہیں اور پیغمبرﷺ کی تعلیمات ہیں۔
دوسرا پہلو اس کا عقیدتی اور فکری پہلو ہے جو شیعیت کی گہری بنیاد ہے، اور یہ دین کے اہم اصولوں پر قائم ہے جیسے توحید، امامت، معاد اور عدل۔
عقیدہ امامت اس نظام کا مرکز ہے کیونکہ یہی وہ بنیادی اصول ہے جو شیعیت کو دوسرے مکاتب فکر سے الگ کرتا ہے۔یہ خدا کی ولایت کا تسلسل ہے جو دین کو کسی بھی تحریف سے بچاتا ہے۔ غیبت کے دور میں فقہاء کرام نے اس عقیدے کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا اور امت کو اس کی حقیقی روح سے روشناس کروایا ۔یہ عقیدہ شیعیت کو مختلف فکری مشکلات اور سیاسی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتا ہے، کیونکہ یہ ہمیشہ اپنی فکری آزادی کو برقرار رکھتا ہے اور جدید حالات کے مطابق اپنے علم میں اضافہ کرتا ہے۔اگرچہ شیعیت نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے، جیسے سیاسی ظلم، اور فکری مناظرے لیکن یہ ہمیشہ اپنے اصولوں پر قائم رہی اور اپنی آزاد شناخت کو برقرار رکھا۔ اس کی قیادت کا نظام، جو مرجعیت پر مبنی ہے، اس توازن کو برقرار رکھنے میں اہم رہا ہےکیونکہ فقیہ ہمیشہ امت کو صحیح اسلامی تعلیمات کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور تاریخ یا ثقافتی دباؤ کے نتیجے میں آنے والے انحرافات سے بچاتے ہیں۔
توحید و ولایت اور عملی انکار
اسلام میں توحید صرف نظریہ نہیں بلکہ یہ طاغوت کو انکار اور اللہ کے منتخب ولیوں کے ساتھ عملی تعلق سے ظاہر ہوتا ہے۔ شیعیت، جو امامت اور ولایت پر ایمان رکھتی ہے، اس کے ذریعے طاغوت کا انکار کرتی ہے اور اللہ پر ایمان کے ساتھ جوڑتی ہے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا ہے:
(لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انْفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ)(بقرہ ۲۵۶)
دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔
حقیقی توحید تب ہی ممکن ہے جب دین کی قیادت صحیح لوگوں کو صحیح طریقے سے ملے جو پیغمبر کی تعلیمات کا تسلسل ہواور تشیع اس کا عملی نمونہ ہے۔امام مہدی (عجل اللہ فرجہ) کی غیبت کے دوران شیعہ فقہاء کے ساتھ جڑ گئے جو دین کی حفاظت اور امت کی رہنمائی کے لیے امامت کا ہی تسلسل تھے۔
دینی مرجعیت ایک عظیم اور غیر معمولی منصب ہے جو ایک الٰہی پیغام کے تسلسل کا مظہر ہے، اور یہ منصب شیعیت کو سیاسی حکمت عملیوں اور دباؤ سے آزاد رکھتا ہے۔ امام مہدی (علیہ السلام) نے امت کو فقیہ کی ضروری صفات سے آگاہ کیا، جن میں تقویٰ، خواہشات پر قابو پانا، اور اللہ کے احکامات کی مکمل پیروی شامل ہے۔ شیعہ فقہی نظام کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فقیہ کا انتخاب مکمل طور پر آزادانہ ہوتا ہے۔ حوزہ علمیہ کسی خاص مرجع کو عوام پر مسلط نہیں کرتا بلکہ ہر فرد کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی دینی رہنمائی کے لیے اس فقیہ کا انتخاب کرے جس پر وہ اعتماد رکھتا ہو۔ یہی آزادی شیعی مرجعیت کو ہر قسم کے سیاسی دباؤ سے محفوظ رکھتی ہے، جبکہ دوسرے دینی ادارے ریاستی نظام کا حصہ بن چکے ہیں، جس سے ان کی آزادی اور غیر جانبداری متاثر ہوئی ہے۔
تاریخ میں شیعہ مرجعیت نے ہمیشہ ظلم کے خلاف ایک مؤثر اور طاقتور کردار ادا کیا ہے۔ ایک نمایاں مثال ایران میں تمباکو کے حرام ہونے کا فتویٰ ہے، جو آیت اللہ میرزا حسن شیرازی نے جاری کیا تھا۔ اس فتویٰ نے ناصرالدین شاہ قاچاری کو برطانوی کمپنی کو تمباکو کا لائسنس دینے کے فیصلے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا جس نے مرجعیت کی عوامی طاقت اور اثر و رسوخ کو نمایاں کیا۔
اسی طرح امام خمینیؒ کی قیادت میں اسلامی انقلاب نے مرجعیت کی طاقت کو ظلم کے خاتمے اور ایک اسلامی حکومت کے قیام کے لیے استعمال کیا۔ یہ انقلاب مرجعیت کے دینی و عوامی کردار کی ایک عظیم مثال ہے، جس نے ایران میں ایک ظالم حکومت کو ختم کر کے اسلامی نظام کو قائم کیا۔
حالیہ دور میں آیت اللہ سید علی سیستانی دام عزہ کے داعش کے خلاف فتویٰ نے بھی مرجعیت کی اہمیت اور کردار کو اجاگر کیا۔ اس فتویٰ نے لاکھوں عراقیوں کو دہشت گردوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ کیا اور حشد الشعبی کی تشکیل کی بنیاد رکھی۔ اس عظیم اقدام نے نہ صرف داعش کی پیش قدمی کو روکا بلکہ عراق کے شہروں میں امن و امان کی بحالی میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔
شیعیت اور دوسرے مذاہب میں فرق:
شیعہ مرجعیت کا نظام ایک منفرد مثال پیش کرتا ہے جہاں علما کی قیادت اہم ہوتی ہے۔ دوسری طرف، دیگر مذاہب میں دینی ادارے اکثر ریاست کے تابع ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ حکمرانوں کےما تحت کام کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، شیعت میں قیادت دین کی خدمت کے لیے ہوتی ہے اور یہ امت کی آزادی کو ترجیح دیتی ہے۔شیعہ مرجعیت صرف دینی قیادت نہیں بلکہ ایک اعلی نظام ہے جو اسلامی اقدار کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ نظام صدیوں سے کامیاب کے ساتھ چل رہا ہے، یہ نظام ہر مسلمان کے لیے بہترین نظام ہے جو دین کو عملی طور پر نافذ کرنا چاہتا ہے اور ظلم و تسلط سے آزاد رہنا چاہتا ہے۔