24 جمادي الثاني 1446 هـ   26 دسمبر 2024 عيسوى 9:38 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-11-30   223

اسلام: ایک کامل دین

تجدید اور تقلید کی کشمکش۔۔ ہمیں کون سا دین چاہئے ؟

الشيخ معتصم السيد أحمد

ترقی پسند اسلام، یا دینی جدیدیت ،یہ  اپنی موجودگی کا جواز ایک دوسرے اسلام کے تصور سے حاصل کرتا ہے، جسے قدامت پسندی اور رجعیت پسند اسلام کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ تقسیم در اصل دو متضاد تصورات کی عکاسی کرتی ہے: پہلا تصور اسلام کی تاریخی طور پر حاصل کردہ روایتی فہم کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے، جبکہ دوسرا تصور اسے دورِ حاضر کی ضروریات اور تغیرات کے مطابق تجدید فہم کامطالبہ کرتا ہے۔

لیکن اگر اس بحث کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اصل مسئلہ اسلام کو کسی خاص وقت کی مرکزیت کے تابع کرنے کا ہے۔ خواہ وہ مرکزیت ماضی کی ہو، جو نصوص کو کسی مخصوص تاریخی سیاق میں محدود کرتی ہو، یا وہ حال کی ہو، جو اسلام کو موجودہ تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اپنے پیغام اور حقیقی معنی کے اعتبار سے ان وقتی پابندیوں کی قید سے بالا تر ہے ، کیونکہ یہ ایک جامع الہامی خطاب ہے جو ہر زمان و مکان کے انسان کے لیے ہے اور اسے وقتی یا حالات کے مطابق بدلنے یا ڈھالنے کا امکان نہیں ہے۔

قرآن مجید ایک الہی پیغام کی حیثیت سے اس بات سے بالا تر ہے کہ اسے زمانے کے سامنے جھکایا جا سکے بلکہ زمانہ اور واقع کو قرآن کے سامنے جھکنا چاہئے ۔ قرآن زمانے کی حدود سے باہر ہے اسی لئے اسے کسی خاص زمانے کے لئے قرار دے کر دور حاضر کو قرآن سے بالاتر قرار دینا ممکن نہیں ہے ، بلکہ قرآن تاریخی حوادث اور زمانے کی تبدیلیوں کے حوالے سےہمیشہ ایک بلند مرتبہ مرجع کی حیثیت سے قائم و دائم ہے ۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے  کہ یہ جو جدت پسند اور قدامت پسند کے درمیان بحث ہے وہ در اصل دینی نصوص کی حقیقت کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ ان نصوص کو سمجھنے میں انسانی فہم کے اختلاف کا نتیجہ ہے ۔

پس قرآن حقیقت میں سورج کی طرح ہے کہ جو اپنی روشنی سے مختلف جگہوں اور حصوں کو روشن تو کرتا ہے مگر ان جگہوں یا حصوں میں منحصر نہیں ہے ۔ مزکورہ حقائق کا نتیجہ یہ ہےکہ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ہم زمانے کی تبدیلیوں کوپڑھیں اور ان کی تفسیر قرآن مجید کی روشنی میں تلاش کریں مگر اس کا عکس درست نہیں ہے ، یعنی ہم قرآن کوپڑھیں اور اسے زمانے کی تغیرات کے مطابق بنانے کی کوشش کریں ۔ یعنی قرآنی نصوص زمانے کے تحولات کو سمجھنے کا ذریعہ تو ہو سکتا ہے ،لیکن یہ زمانے کے تغیرات کے سانچے میں ڈھلا نہیں جا سکتا ۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ جو دو مخالف نطریات ہیں زمانہ محوری کے اعتبار سے نص قرآنی  سے ماؤراء ہے ۔ بلکہ یہ دونوں نظرئے اسلام کی ادھوری شناخت کے عکاس ہیں ، وہ اسلام کہ جو کسی بھی زمانے کی حدود سے بلند تر ہے تاکہ ہر زمانے کی انسانیت کے لئے مشعل راہ بن سکے ۔

جن لوگوں نے تاریخ کو مرکزیت دی، انہوں نے اسلام کو تنگ نظریوں میں محدود کر دیا، اور امت کے اسلاف کو ہی نمونہ قرار دینے پر تل گئے ۔ اس کے نتیجے میں وہ نہ صرف اسلام کے حقیقی جوہر سے دور ہو گئے بلکہ اپنے عصر حاضر کے حقائق سے بھی کٹ کر رہ گئے۔

دوسری طرف، وہ لوگ جو موجودہ دور سے چمٹے رہے اور اسلام کو موجودہ ثقافت کے تابع بنا نے کے در پے رہے ، انہوں نے اسلام کے ثابت اور غیر قابل تغیر معانی کا انکار کیا اور اس کی بنیادی اصولوں اور ثابت شدہ اقدار سے بغاوت کی۔ انہوں نے جدید زندگی کے مسلط کردہ نئے اقدار کو اپنایا، اس طرح وہ مکمل طور پر ایک نئے تابعیت کے دائرے میں داخل ہو گئے۔ یوں، حالیہ زندگی کے تقاضوں سے قریب ہوتے ہوئے، وہ اسلام کے جوہر اور اس کی بنیادی اقدار سے دور ہو گئے۔

اسلام کو زیادہ مؤثر اور میدان میں زیادہ حاضر دین کے طور پر پیش کرنے کے لئے  یہ ضروری ہے کہ ماضی اور حال کی مرکزیت سے آگے بڑھا جائے اور اسلام کو اس کے اخلاقی پہلوؤں اور مطلق معانی میں تلاش کیا جائے۔ اسلام کی ہر زمان و مکان کے لیے موزونیت تب ہی ممکن ہے جب ان اقدار کو سمجھا جائے جن کی وجہ سے قرآنِ کریم کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ ہر زمانے کے انسان اپنا مخاطب قرار دے سکے ۔ یہ قرآنی اقدار انسانی فطرت سے جدا نہیں ہیں، جس پر انسانی عقل کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اسی لیے قرآن کو "ذکر" کہا گیا ہے، یعنی ایک یاد دہانی جو انسان کو اس کی فطری حقیقت سے آگاہ کرتی ہے، نہ کہ محض معلومات کا مجموعہ جو زمان و مکان کی تبدیلیوں سے متاثر ہو۔

اسی تناظر میں امام موسی کاظم (علیہ السلام) سے مروی ہے: (إنَّ للّه عَلَى النّاسِ حُجَّتَينِ: حُجَّةً ظاهِرَةً، وحُجَّةً باطِنَةً، فأمّا الظّاهِرَةُ فَالرُّسُلُ والأنبِياءُ والأئمَّةُ عليهم السلام، وأمّا الباطِنَةُ فَالعُقولُ)

بے شک اللہ نے انسانوں پر دو حجتیں رکھی ہیں: ایک ظاہری اور دوسری باطنی۔ ظاہری حجت رسول، انبیاء اور ائمہ (علیہم السلام) ہیں، اور باطنی حجت عقل ہے۔

اسی طرح نبی اکرم (صلى الله عليه وآله) نے فرمایا:(العقل رسول باطن، والرسول عقل ظاهر)

 عقل باطنی رسول ہے اور رسول ظاہری عقل ہے۔"

یہ جامع بیان اسلامی معرفت کے نظام میں وحی اور عقل کے درمیان تکمیلی تعلق کو واضح کرتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی تعلیمات وقت اور جگہ کی حدود سے ماورا ہیں۔ وحی اور عقل کا یہ امتزاج انسان کو نہ صرف روحانی اور اخلاقی رہنمائی فراہم کرتا ہے بلکہ اسے فطرت کے قوانین اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی کے لیے ایک متوازن راستہ بھی دکھاتا ہے۔

جس طرح عقل اپنے جوہری حقائق کو سمجھنے کی صلاحیت میں ثابت اور مطلق ہے، اسی طرح قرآن اپنی رسالت میں ثابت اور اپنی دلالتوں میں مطلق ہے۔ عقل کو جس طرح حقیقت کی حرکت اور تغیرات کو قابو میں رکھنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اسی طرح قرآن عقل کو اعلیٰ معیار فراہم کرتا ہے اور اسے ہدایت دیتا ہے۔

لہٰذا، اسلامی فریم ورک کے اندر ایسی کوئی علمی کوشش قابل قبول نہیں جو ان دونوں میں سے کسی ایک کو نظرانداز کرے۔ وحی کو نظرانداز کرنا عقل کو گمراہی کا شکار بنا سکتا ہے، اور عقل کو نظرانداز کرنا وحی کو عملی اثر سے محروم کر دیتا ہے۔ دونوں کا امتزاج ہی اسلام کی مکمل اور متوازن فکری و عملی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

یہاں سے وحی اور عقل کے درمیان جدلی تعلق واضح ہوتا ہے؛ کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے وجود کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا ۔ اور اس نظرئے کو مکمل کرنے کے لیے، وحی کو ایک ایسی حقیقت کے طور پر دیکھنا ضروری ہے جو زمان و مکان کی حدود سے باہر ہو۔ کیونکہ وہ لمحہ جب وحی کو کسی مخصوص زمانی یا مکانی سیاق و سباق سے جوڑا جاتا ہے، وہی لمحہ ہے جب عقل وحی سے الگ ہو جاتی ہے، جس سے اسلام اپنی جامعیت اور ابدیت کی صلاحیت سے خالی ہو جاتا ہے۔

بناء برایں ، اسلام کو ترقی پسند یا ماضی پسند کے طور پر بیان کرنا اسلام کی اصل حقیقت کو نہیں بیان کرتا، جو کہ مقدس متون جیسے قرآن مجید اور معصومین (علیہم السلام) کی روایات میں مذکور ہے، بلکہ یہ صرف موجودہ دور کی اسلامی تحریکوں اور ان کے خیالات کا عکاس ہے ۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ روایتی نظرئیے کو قبول کیا جائے جو اسلام کو صرف سلف کے فہم میں محدود کرتا ہو، اور نہ ہی اس فہم کو تسلیم کیا جا سکتا ہے جو اسلام کے ضروری اور ثابت شدہ اصولوں کا انکار کرتا ہو۔ سلفیت ایک ایسی رکاوٹ کی نمائندگی کرتی ہے جسے تہذیب کے قیام میں عبور کرنا ضروری ہے، اسی طرح بائیں بازو کی انتہاپسندی بھی ایک اور رکاوٹ ہے جو خودی کے حوالے سے شکست خوردہ نظرئیے اور مغرب کے حوالے سے غیر معمولی متاثر ہونے سے جنم لیتی ہے۔

یہ انتہا پسند بائیں بازو کے لوگ اپنے حالات کو ایک کرائے کے چشموں کے ذریعے دیکھتے ہیں، جو ہر اصل چیز کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر رد کر دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے اسلام کو اس کی خالص روح اور فطری بلند اصولوں سے محروم کر دیا۔ ان کا یہ حال ہو گیا کہ انہوں نے مسلمانوں سے اسلام کے خلاف نظریات کو اسلام کے نام پر اپنانے کا مطالبہ کیا، یہاں تک کہ یہ دعویٰ کیا کہ اسلام صرف ایک قومی یا خاندانی تعلق سے زیادہ کچھ نہیں، اور جدید تہذیب کی طرف سے مسلط کی جانے والی ہر نئی بات کو اپنانے کی بات کرتے ہیں ۔ ایسا کہتے ہوئےوہ یہ بھول جاتے  کہ اسلام کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ وہ جو زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ شعور اور رہنمائی کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔

اس طرح، کوئی ترقی پسند اسلام اور کوئی رجعت پسند اسلام نہیں ہے، بلکہ ایک مسلمان ہے جو ترقی پسند سمجھ بوجھ اختیار کرتا ہے اور دوسرا وہ جو ماضی کے نقطہ نظر کو اپناتا ہے۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو وہ زندگی کی ہر جہت اوراس ہر صورت کے لئے پیغام کے حامل ہے ، ایسی زندگی جو وحی کی رہنمائی اور توحید کی بصیرت پر قائم ہے۔ اس متوازن فہم کو حاصل کرنے کے لئے دو بنیادی اصولوں کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے

پہلا: بنیادی اصول ۔ دین کی اصالت :

اصالت کا مطلب ہے اسلام کو تمام انحرافی ثقافتوں سے اخذ کردہ تصورات سے  پاک صاف رکھنا ، تاکہ دین جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا، واپس آئے: ایک نظامِ اقدار اور اصول جو انسانی زندگی کو شعور اور ذمہ داری کے گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ہم شرعی نصوص کی طرف واپس جائیں، ان پر ایمان لائیں اور ان کو قابل عمل سمجھیں ۔ اور یہ سب تہذیبی شکست سے پیدا ہونے والی نفسیاتی اثرات سے آزاد ہو کر ہی کیا جا سکتا ہے ۔

دوسرا مبدأ:  حقیقت پسندی اور وسعت نظر :

حقیقت پسندی زندگی کی ضروریات اور تقاضوں کے ساتھ موضوعی تعامل کا تقاضا کرتی ہے، جدید تہذیب کا مطالعہ کرتے ہوئے اسے یورپی نقطہ نظر کی منفی پہلوؤں سے پاک کیا جائے ۔ نیز یہ سب کچھ عقل اور قرآن کی ہدایت کے مطابق ہونا چاہیے، اندھے تقلید یا بے فائدہ تنگ نظری  سے دوررہا جائے ۔ اس فہم کے ساتھ، ایک مکمل اسلامی تہذیب قائم کی جا سکتی ہے جو روح کی آرزوؤں اور مادی ضروریات کے درمیان توازن پیدا کرے، اور ایک مضبوط فکری اور سماجی نظام قائم کرے جو انسان کو حقیقی تکامل فراہم کرسکے ۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018