صلیبی جنگوں سے مسئلہ فلسطین تک: تاریخ کیا کہتی ہے؟
شیخ مقداد ربیعی :
فلسطین کا حال عجیب ہے۔ تاریخ کے واقعات کو دیکھنے والا ہر انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ واقعات اس حد تک دہرائے جا رہے ہیں کہ وہ تقریباً ایک جیسے نظر آتے ہیں، چاہے وہ صلیبی جنگیں ہوں جن میں فلسطین مرکز تھا، یا موجودہ حالات۔یہ مشابہت سیاسی محرکات، مسلم رہنماؤں کی بے عملی اور قابض کی وحشی گری و نسل کشی کی پالیسیوں میں واضح طور پر دکھائی دی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ان واقعات پر شیعہ موقف میں یکسانیت بھی وہی ہے ۔ اس مضمون میں ہم ان پہلوؤں پر گفتگو کریں گے۔
قبضے کے محرکات
صلیبی جنگیں اچانک شروع نہیں ہوئیں، بلکہ ان کے لیے متعدد عوامل نے زمین ہموار کی۔ ان میں سب سے نمایاں پوپ سلویسٹر دوم کی جانب سے عیسائی دنیا کو بیت المقدس کو بچانے کی دعوت تھی۔ حتیٰ کہ پوپ گریگوری اور ہنری چہارم کے درمیان تنازع بھی اس دعوت کو مزید تقویت دینے سے نہ روک سکا۔ پوپ نے کہا: "مقدس مقامات کی آزادی کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنا میرے نزدیک پوری دنیا پر حکمرانی سے بہتر ہے۔"(ول ڈیورانٹ، قصۂ تہذیب، جلد 15، صفحہ 14)۔
تاہم، صلیبی جنگوں کے محرکات میں سب سے بڑا کردار فرانسیسی پوپ اربن دوم کے خطبے نے ادا کیا ، جس نے صلیبی جنگوں کی آگ بھڑکا دی۔ یہ خطبہ، ول ڈیورانٹ کے مطابق، قرون وسطیٰ کی تاریخ میں سب سے طاقتور اور اثر انگیز خطبوں میں سے ایک تھا۔ اس کا متن کچھ یوں ہے: "اے فرانسیسی قوم! اے خدا کی منتخب قوم!
فلسطین کے کناروں اور قسطنطنیہ کے شہر سے دکھ بھری خبریں آرہی ہیں۔ ان خبروں میں کہا گیا ہے کہ ایک ملعون قوم، جو خدا سے بالکل دور ہے، نے ان سرزمینوں پر قبضہ کرلیا ہے، جو عیسائیوں کی سرزمین ہے۔ انہوں نے لوٹ مار، آگ اور بربادی کے ذریعے ان علاقوں کو تباہ کیا ہے۔ کچھ لوگوں کو قیدی بنا کر اپنی زمینوں میں لے گئے، اور دوسروں کو بدترین اذیت دے کر قتل کر دیا۔ یہ لوگ گرجا گھروں کی قربان گاہوں کو ناپاک کرتے ہیں اور انہیں تباہ کر دیتے ہیں۔ انہوں نے یونانی مملکت کے حصےبخرے کر دیے ہیں اور ایسے وسیع علاقے چھین لیے ہیں کہ ایک مسافر ان کا دو ماہ میں بھی سفر مکمل نہیں کر سکتا۔ تو پھر ان مظالم کا بدلہ لینے اور ان زمینوں کو آزاد کرانے کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اگر یہ ذمہ داری تم پر نہیں، تو کس پر ہوگی؟ تم پر جنہیں خدا نے جنگ میں عظمت، بہادری اور دشمنوں کو زیر کرنے کی بے مثال صلاحیت سے نوازا ہے؟ اپنے آبا و اجداد کے کارناموں سے سبق لو، شارلیمان کی عظمت اور تمہارے بادشاہوں کے شاندار کارنامے یاد کرو۔ تمہاری غیرت کو ہمارے نجات دہندہ، مسیح خداوند کے مقدس مزار کے لیے ابھرنا چاہیے، وہ مزار جو اب ناپاک قوموں کے قبضے میں ہے، اور دیگر مقدس مقامات جو ناپاک اور ناپسندیدہ لوگوں نے داغدار کر دیے ہیں۔اپنے مال و اسباب یا اپنے خاندانوں کی فکر میں نہ پڑو۔ کیونکہ وہ زمین، جس میں تم اب رہتے ہو، جو ہر طرف سے سمندروں اور پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے، تنگ ہے اور اس کے رہنے والے بہت زیادہ ہیں۔ یہ زمین تمہارے کھانے کی ضروریات پوری نہیں کر سکتی۔ اسی لیے تم آپس میں لڑتے ہو، ایک دوسرے کو قتل کرتے ہو، اور خانہ جنگی میں تباہ ہو رہے ہو۔" اپنے دلوں کو نفرت کی آلائشوں سے پاک کریں، اور آپس کے اختلافات کو ختم کریں۔ اپنے قدم مقدس مزار کی جانب بڑھائیں، اور اس زمین کو اس خبیث قوم سے چھین کر اپنی ملکیت بنائیں۔ یروشلم ایک ایسی زمین ہے جس کی پیداوار بے نظیر ہے، اور یہ خوشیوں کی جنت ہے۔ یہ عظیم شہر، جو دنیا کے وسط میں قائم ہے، تم سے فریاد کر رہا ہے کہ آؤ اور مجھے بچاؤ۔ اس سفر پر شوق اور جوش کے ساتھ نکلو تاکہ تم اپنے گناہوں سے نجات پا سکو۔ یقین رکھو کہ اس کے بدلے تمہیں آسمانی بادشاہی میں لازوال عظمت نصیب ہوگی۔(قصۂ تہذیب، جلد 15، صفحہ 16)۔
یہ خطبہ صلیبی جنگوں کے حقیقی محرکات کو ظاہر کرنے والی سب سے اہم دستاویز سمجھا جاتا ہے۔ یہ مغربی کلیسائی شعور میں مسلمانوں کی تصویر کو واضح طور پر پیش کرتا ہے۔ پوپ کے الفاظ کے مطابق، مسلمان "ملعون قوم"، "ناپاک اقوام"، اور "خبیث جنس" ہیں۔
اسی طرح، اس خطبے میں جہاں ان جنگوں کے مذہبی پہلو کو نمایاں کیا گیا، وہیں ان کے دیگر محرکات کو بھی چھپایا نہیں گیا۔ یہ محرکات ثانوی نہیں بلکہ بنیادی تھے، جیسے اقتصادی مقاصد اور دیگر اقوام کے وسائل پر قبضے کی خواہش۔ یہ بات پوپ کے الفاظ میں واضح ہے:
"یہ زمین، جس میں تم اب رہتے ہو، تنگ ہے اور اس کے رہنے والے بہت زیادہ ہیں، یہ تمہارے کھانے کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی... یروشلم ایک ایسی زمین ہے جس کی پیداوار بے نظیر ہے۔"
درحقیقت، 1095ء میں یورپ میں قحط اور بھوک نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو متاثر کیا تھا، یہی وہ عنصر تھا جس نے کسانوں اور نادار افراد کی بڑی تعداد کو ان گروہوں کے پیچھے چلنے پر مجبور کیا، جو "عوامی مہم" یا "کسانوں کی مہم" کے نام سے جانی جاتی ہے۔ غریبوں نے پوپ کی اس مہم کو غربت، جاگیرداری نظام، اور جاگیرداروں کے تسلط سے نجات کا ایک شاندار موقع سمجھا۔(قاسم عبدہ، ماہیت الحروب الصلیبیة، صفحہ 67)۔
اسی طرح، مذہبی اور اقتصادی محرکات کے ساتھ ساتھ صلیبی جنگوں کے کچھ دیگر اسباب بھی موجود تھے، اگرچہ ان کی اہمیت نسبتاً کم تھی۔ یورپ صلیبی جنگوں کے آغاز کے وقت بدترین سماجی اور سیاسی حالات سے گزر رہا تھا، اور اسے اپنی اندرونی مشکلات کو برآمد کرنے اور اپنی توجہ و دشمنی کو کسی بیرونی دشمن کی جانب موڑنے کی ضرورت تھی۔
اس حقیقت کی جانب معروف محقق گوستاف لوبون نے اشارہ کیا:
"یورپ، خاص طور پر فرانس، گیارہویں صدی میں، جب پہلی صلیبی جنگ شروع کی گئی، تاریخ کے بدترین اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ جاگیرداری نظام فرانس کو کھا رہا تھا، اور ملک قلعوں سے بھرا ہوا تھا، جن کے مالک نیم وحشی تھے، ہمیشہ آپس میں لڑتے رہتے تھے، اور ان کے پاس صرف جاہل غلاموں کا ایک گروہ تھا۔ اس وقت کلیسا کے علاوہ کسی بھی طاقت کا کوئی مجموعی اثر نہیں تھا، اور لوگ پوپ سے زیادہ خوفزدہ تھے بجائے کہ ان کا احترام کرتے۔"(حضارة العرب، صفحہ 320)۔
ہم دیکھتے ہیں کہ وہی غرور اور برتری کا رویہ جو صہیونی اور مغربی طاقتیں عربوں اور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھتی ہیں، پہلی جنگ عظیم کے بعد فلسطین پر قبضے کے محرکات میں بھی موجود تھا۔ وہی نظریاتی محرکات جو صلیبی جنگوں کے دوران فلسطین پر حملے اور قبضے کے لیے کارفرما تھے، اس باریہ محرکات صلیبیوں کی بجائے یہودیوں کی طرف سے سامنے آئے ۔اس کے علاوہ، اقتصادی مقاصد اور دیگر اقوام کے وسائل کا استحصال بھی قابضین کے ذہنوں میں موجود رہا۔ ساتھ ہی، یورپ کی یہ خواہش بھی کہ وہ اپنے معاشروں پر یہودیوں کے اقتصادی اور سماجی اثرات سے نجات حاصل کرے، ان محرکات کا ایک اہم حصہ تھی۔
مسلم حکمرانوں کی نااہلی
صلیبی جنگوں کے آغاز پر اسلامی دنیا داخلی طور پر تین بڑی ریاستوں کے درمیان تقسیم تھی:
عباسی خلافت، جو اس وقت ترک سلجوقیوں کے زیر اثر تھی
فاطمی ریاست، جو مصر میں قائم تھی۔
موحدین کی ریاست، جو شمالی افریقہ میں موجود تھی،
اس کے علاوہ اندلس میں مختلف چھوٹی چھوٹی منتشر امارتیں قائم تھیں۔
ان اسلامی ریاستوں اور امارتوں کے درمیان سیاسی تعلقات بہتر نہیں تھے بلکہ مذہبی اور سیاسی اختلافات نے ان میں دشمنی اور نزاع پیدا کر رکھی تھی۔ اس کے ساتھ، خلفاء اور امراء پر آرام طلبی، عیش و عشرت، اور بے پروائی کا غلبہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں ہمیں صلیبی حملے کے ابتدائی مرحلے میں ان حکمرانوں کی جانب سے کوئی فوری اور منظم مزاحمت نظر نہیں آتی۔ ساری کوششیں ان چند علماء اور قاضیوں تک محدود تھیں کہ جو مساجد میں گھوم کر جہاد اور مزاحمت کی دعوت دیتے رہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی آواز مسلم حکمرانوں تک نہ پہنچ سکی۔ بلکہ بعض علماء جو مدد کی درخواست لے کر گئے، انہیں عباسی خلیفہ کے حیرت انگیز رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ایک وفد جو مدد کی درخواست لے کر بغداد آیا، اس نے خلیفہ کے سامنے ایک بڑی تھیلی رکھی جس میں کٹی ہوئی کھوپڑیاں اور عورتوں و بچوں کے بال تھے۔ ان اشیاء کو حاکم کے سامنے بکھیر دیا گیا تاکہ انہیں حالات کی سنگینی کا احساس دلایا جا سکے۔ لیکن خلیفہ کا جواب اپنے وزیر سے یہ تھا: "مجھے اس سے زیادہ اہم کام کرنے دیں ، میری چتکبری فاختہ کو دیکھے تین دن ہو گئے ہیں۔"
خلیفہ کے پاس ایک چتکبری رنگ کی فاختہ تھی جو خاص طور پر مقابلہ کرنے اور دوسرے پرندوں کو چونچ مارنے کی تربیت یافتہ تھی۔ یہ کھیل اس دور میں عوام میں بہت مقبول تھا، اور خلیفہ کو اس میں خاص دلچسپی تھی، جیسے کہ اس وقت کے امیر و اعلیٰ طبقات بھی اس کھیل میں حصہ لیتے تھے۔
دکتور ماجد عرسان نے اپنی کتاب "هكذا ظهر جيل صلاح الدين وهكذا عادت القدس" (صفحہ 81) میں اس بات کا ذکر کیا کہ خلیفہ کا وقت اس فاختہ کے ساتھ گزر رہا تھا جبکہ فلسطین اور مسلمانوں کے مقدس مقامات پر صلیبی حملے جاری تھے۔
آج بھی ہم مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور دشمن کے ساتھ تعاون دیکھتے ہیں، جو اپنے ہی لوگوں کے خلاف کھڑے ہیں۔ وہ فلسطینیوں کے لیے چند خوراکی امداد کے ٹکڑے پھینک کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں، جبکہ ساتھ ہی دشمنان اسلام کو سیاسی، انٹیلی جنس، اور میڈیا کی حمایت فراہم کرتے ہیں، اور یہ سب کچھ بغیر کسی شرم و حیا کے وہ انجام دے رہے ہیں۔
صلیبیوں کی وحشی گری:
صلیبی جنگوں کے مورخین نے، ہر اس شہر میں کہ جس پر انہوں نے قبضہ تھا وہاں قتل وغارت اور تباہی کی بھیانک تصاویر پیش کی ہیں۔ بلکہ ان میں سے کئی مورخین نے ان حملہ آوروں کے وحشی پن اور بے لگام طبیعت پر سخت تنقید بھی کی۔ عکا کے صلیبی اسقف جاك دوفيتری نے اپنی تاریخ میں یروشلم کے بارے میں لکھا: "زمینِ مقدس میں سوائے کافروں، ملحدوں، چوروں، زانیوں، قاتلوں، غداروں، مذاق کرنے والوں، فاسق راہبوں اور فاحشہ راہبات کے کچھ نہیں نظر نہ آتا تھا" ۔یہ بیان صلیبی حملہ آوروں کی درندگی ، اخلاقی پستی اور انتہائی بدسلوکی کو ظاہر کرتا ہے جو انہوں نے اپنی فتوحات کے دوران مسلم اور غیر مسلم عوام کے ساتھ روا رکھی۔
غليوم الصوري کی بات بھی اس سلسلے میں دوفیتری کے بیان سے کم نہیں ہے، اس نے صلیبیوں کے بارے میں یہ کہا کہ وہ "سفاہت میں مبتلا، فاسق، اور بے حیائی کے شکار" ہیں۔ اس نے مزید کہا: "یہ ان کی وحشیانہ برائیاں ہیں، جنہیں اگر کوئی مورخ بیان کرنے کی کوشش کرے تو وہ مورخ کی حیثیت سے باہر نکل کر ایک غصے سے بھرا ہوا الزام تراش بن جائے گا۔"
غليوم الصوری کا یہ بیان صلیبیوں کی اخلاقی پستی اور درندگی کو ظاہر کرتا ہے، اور ان کی طرف سے کی جانے والی ظالمانہ کارروائیوں کی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔
کاہن انکٹیل نے اپنی تاریخ میں یہ بات مزید وضاحت سے بیان کی:
"شاذ و نادر ہی کوئی صلیبی تھا جو دینی جذبے سے چلتا تھا، یہ صلیبی دراصل ہر قسم کے وحشیانہ جرائم، ڈاکہ زنی اور شرمناک فواحش میں ملوث تھے۔"
غوستاف لوبون کی کتاب حضارة العرب (صفحہ 328-329) میں اس کا ذکر کیا گیا ہے، جس میں صلیبیوں کی اخلاقی گراوٹ اور ان کی وحشت کو اجاگر کیا گیا ہے، جو نہ صرف مذہبی جذبے سے عاری تھے بلکہ اپنے مشن میں ظلم و زیادتی کا ارتکاب بھی کرتے تھے۔
مورخ اور راھب روبرٹ نے بیت المقدس پر قبضے کے وقت جو کچھ ہوا اس کی یوں وضاحت کی ہے "ہمارے لوگ گلیوں، میدانوں اور گھروں کی چھتوں پر یہ دیکھ رہے تھے کہ کس طرح یہ صلیبی قتل و غارت کا بازار گرم کر رہے تھے ، یہ اس شیرنی کی طرح کہ جس کا بچہ چھینا گیا ہو پوری وحشت کے ساتھ بچوں ، نوجوانوں اور بوڑھوں کو ذبح کر کے ان کے تکرے ٹکڑے کر رہے تھے ۔وہ کسی انسان کو بھی زندہ نہیں چھوڑ رہے تھے ۔ جلدی جلدی قتل کرنے کے لئے وہ کئی کئی انسانوں کو ایک ہی رسی سے پھانسی چڑھا دیتے تھے ۔ وہ لوگ ہر اس چیز کو قبضے میں لے رہے تھے کہ جو انہیں نظر آتی تھی ،وہ مردوں کے پیٹ چاک کرتے تھے تاکہ اس میں سے سونے کا ٹکڑا مل سکے ، کتنی بدترین لالچ تھی اور کس قدر گھناؤنی محبت تھی سونے سے ۔
انسانی لاشوں سے اٹی ہوئی گلیوں سے کون کی ندیاں بہہ رہی تھیں ،کس قدر وحشی اور اندھی قوم تھی کہ جسے قتل غارت کے لئے تیار کی گئی تھی ۔ اتنے بڑے لشکر میں شاید بھی ایسا آدمی نہیں تھا کہ جو نصرانیت کو بطور دین دل سے قبول کرتا ہو ، پھر بوھیھموند نے تمام اسیروں کو کہ جنہیں قلعے کے اندر رکھا گیا تھا ، حاضر کرنے کا حکم دیا ، پھر ان میں سے بوڑھوں اور کمزوروں کو قتل کرنے اور باقیوں کو انطاکیہ لے جانے کا حکم دیا تاکہ ان کو وہاں فروخت کیا جاکسے ۔ حضارة العرب. ص325.
مورخین نے یہ بات واضح کی ہے کہ یروشلم میں صلیبیوں نے نہ صرف مسلمانوں، بلکہ غیر مسلموں جیسے یہودیوں اور عیسائیوں کا بھی مکمل صفایا کر دیا۔ جب صلیبی یروشلم میں داخل ہوئے، تو انہوں نے ایک اجلاس بلایا جس میں یہ طے کیا گیا کہ یروشلم کے تمام باشندوں کو قتل کر دیا جائے، چاہے وہ مسلمان ہوں، یہودی ہوں یا عیسائی۔ ان کی تعداد تقریباً ساٹھ ہزار تھی، اور انہوں نے ان سب کو آٹھ دنوں کے اندر مکمل طور پر نیست و نابود کر دیا، اس دوران نہ کسی عورت کو چھوڑا گیا، نہ بچے اور نہ بوڑھے۔ اس کے بعد، انہوں نے انسانیت سے گری ہوئی ہر حرکت کی، جیسے نشے اور بدمعاشیوں جیس ہر لعنت کا مظاہرہ کیا ، یہاں تک کہ ان کے اپنے مورخ برنارڈ الخازن نے انہیں "پاگل" قرار دیا، جبکہ اس وقت کے ایک اسقف نے ان کی مثال گندگی میں لوٹنے والے گھوڑوں سے دی۔ )حضارة العرب، ص327(
یہ واقعات صلیبیوں کی وحشیانہ اور درندہ صفت فطرت کو ظاہر کرتے ہیں، جس میں نہ صرف انسانی جانوں کا بے دریغ قتل تھا، بلکہ اخلاقی پستی اور فساد بھی شامل تھا۔"کل اور آج میں کس قدر شباہت ہے "جہاں فلسطین میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں بے گناہ بچے، خواتین اور بزرگ قتل کیے جا رہے ہیں، اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ان بے گناہوں کو اس طرح قتل کیا جا رہا ہے، جیسے یہ انسان نہ ہوں، بلکہ جانور ہوں۔ بلکہ ان پر ہونے والے ظلم و تشدد کا یہ سلوک کسی جانور کے ساتھ ہوتا، تو دنیا بھر کے ممالک اور تنظیمیں فوراً مداخلت کرتیں۔ مگر مسلمانوں کی زندگی کی کوئی قدر و قیمت نہیں، اور ان کے قتل کے خلاف عالمی برادری کا کوئی ردعمل نہیں آتا۔
یہ حقیقت مزید افسوسناک بن جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی سطح پر ان مجرموں کے نام نہاد حقوق کے لیے اور سزائے موت کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے ، انہیں سزا کے بجائے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، چاہے انہوں نے ہزاروں افراد کی جانیں لی ہوں، لیکن فلسطین کے معاملے پر وہی عالمی برادری بے اور وہی انسانی حقوق کی تنظمیں لب سی کر بیٹھ جاتی ہیں اوران بے گناہ مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کرتی۔
اس وقت شیعوں کا موقف:
عباسی خلیفہ اور مسلم رہنماؤں کی غفلت کے سامنے حلب کے شیعہ قاضی ابو الفضل بن خشاب نے صلیبی حملہ آوروں کے خلاف اقدام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ بن خشاب بغداد کی مسجدِ سلطان میں اپنے ساتھ کچھ حلبیوں کے ہمراہ، جن میں فقیہ، زہاد اور تاجروں کا گروہ تھا، داخل ہوئے اور خطیب کو منبر سے اُتار کر توڑ ڈالا۔ وہ فریاد کرتے اور روتے تھے، کیونکہ اسلام کو صلیبیوں کے ہاتھوں جو نقصان پہنچا تھا، اس میں مردوں کا قتل، عورتوں اور بچوں کا اغوا اور لوگوں کو نماز پڑھنے سے روکا گیا تھا۔
پھر اگلے جمعہ کو وہ عباسی خلیفہ کی مسجد میں داخل ہوئے ،جب دربانوں نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی تو انہیں بے دردی سے نیچے گرا دیا، اور لکڑی کے منبر کو توڑ ڈالا۔ انہوں نے خود خلیفہ عباسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، مگر خلیفہ اور اس کے خاندان کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ کیونکہ جس دوران ابن خشاب بغداد پہنچا تھا اسی وقت خلیفہ کی بیوی اور سلجوقی بادشاہ کی بہن اصفہان سے بغداد پہنچنے والی تھی کہ جن کے ساتھ سونے چاندی، قیمتی جواہرات، فرنیچر، اعلیٰ قسم کے لباس، غلام، کنیزیں اور دیگر بے شمار سامان آیا تھا۔ یوں ابن خشاب کی فریاد نے خلیفہ کی اس خوشی اور سکون میں خلل ڈالا تھا، اس لئے خلیفہ المستظهر باللہ کو یہ واقعہ ناگوار گزرا ۔ مگر سلطان نے ان کے کیے گئے اس عمل کو معاف کر دیا اور اللہ کے دشمنوں سے جنگ کے لیے تیاری کا وعدہ کیا۔.(صلیبی جنگیں جیسا کہ عربوں نے دیکھا، امین معلوف، صفحہ 115)
حلب کے حکمران کا موقف اس دور میں عباسی خلیفہ کے بے حسی اور عیش و عشرت میں غرق ہونے کے مقابلے میں ایک شدید بغاوت کا اظہار تھا ، جہاں مسلمان ایک یقینی تباہی کا سامنا کر رہے تھے اور حکام ان کی مدد کے لیے تیار نہیں تھے
وہی صورت حال آج ایک بار پھر ہمارے سامنے ہے ، جہاں شیعیان حیدر کرار ع اس تکبر اور غرور کے خلاف صف اول میں لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں ، انہوں نے اپنی جانیں دولت سے پہلے قربان کیں، اور وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ان کی تکالیف میں شریک ہو رہےہیں ۔ انہوں نے جهاد کا پرچم بلند کیا ہوا ہے، جبکہ دوسری طرف بعض ممالک کے حکام اپنی عیش و عشرت کی محفلیں سجانے میں مصروف نظر آتے ہیں اوروہ ظلم وجبر کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو غدار قرار دے رہے ہیں۔