جمود اور عقل کے درمیان عصر حاضر کے مسلمان کا انتخاب ؟
فکری فاصلے، جو ابتدائے اسلام کے مسلمان اور موجودہ دور کے مسلمان کے درمیان ہمیں نظر آتے ہیں، وہ ایک فطری اور متوقع امر ہیں۔ یہ انسانی تاریخ میں رونما ہونے والے تغیرات کا نتیجہ ہیں۔ جب اسلام اپنی بعثت کے وقت ایک مخصوص زمانی اور مکانی حالات و چیلنجز کا جواب دے رہا تھا، اس وقت سے لے کر آج تک انسانی تہذیب نے سماجی، اقتصادی، اور فکری ارتقاء کے کئی مراحل طے کیے ہیں، جس کی وجہ سے آج کے مسلمانوں کا موقف ساتویں صدی کے مسلمانوں کے موقف سے مختلف ہونا ایک قدرتی امر ہے ۔ ان تغیرات نے انسانی زندگی کے ہر پہلو پر اثر ڈالا، خواہ وہ علوم ہوں، فنون یا نظریات۔ اس تبدیلی نے انسان کے سوچنے کے انداز اور واقعات و تصورات کو سمجھنے کے طریقوں پر بھی گہرا اثر چھوڑا ہے۔
یہ فکری فاصلہ ان واضح اختلافات میں واضح طور پرنظر آتا ہے کہ جو مکہ اور مدینہ کے پہلے دور کے مسلمانوں کو در پیش چیلنجز اور آج کے تیز رفتار تبدیلیوں والے دور کے مسلمانوں کو درپیش مسائل اورچیلنجوں کے درمیان موجود ہیں۔ چونکہ اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر آج تک دنیا نے سائنس، ٹیکنالوجی، سیاست، اور بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں زبردست ترقی دیکھی ہے، جس نےان کے سوچنے، بات چیت کرنے، اور دینی فہم کے انداز میں تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ یہ تبدیلیاں اس بات کو فطری بناتی ہیں کہ جو باتیں صحابہ اور تابعین کے دور میں مسلمہ تھیں، وہ آج کے مسلمانوں کے لئے پیچیدہ اور اختلافی قرار پائے۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ آج کے بہت سے مسلمان اس فکری فاصلے کو شعوری طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ تاریخی اور فکری امور کی لفظی تشریحات کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ ان کا گمان ہے کہ ماضی میں جو کچھ عمل کیا گیا، وہی سب موجودہ دور میں بھی بغیر کسی تبدیلی کے نافذ ہونا چاہیے۔ اس طرز فکر کے تحت وہ قدیم تاریخی حالات اور موجودہ دور کی تغیر پذیر ضروریات کے درمیان بنیادی فرق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
معاصر فہم اور گزشتہ ادوار کے فہم کے درمیان یہ فاصلے فکری بحرانوں کو مزید گہرا کر دیتے ہیں اور جدید دنیا سے الگ تھلگ رہنے کے احساس کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ نتیجتاً، مسلمان یا تو پرانی روایات اور عادات کو مضبوطی سے تھامے رہتے ہیں، جو اب موجودہ وقت اور مقام کے لیے موزوں نہیں رہیں، یا پھر جامد مذہبی تصورات کے حصار میں مقید ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتحال اسلامی فکر کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن کر فکری جمود کا سبب بنتی ہے۔
دوسری طرف، ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی میراث سیکولر تحریکوں کے لیے تنقید کا ایک دلکش موضوع بن چکا ہے۔ یہ تحریکیں اسلام کو ایک ایسا دین تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں جو جدید دور کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ان کے نزدیک اسلام محض ایک تاریخی پیداوار ہے، جو مخصوص حالات میں وجود میں آیا تھا، اور اس کے ورثے کا موجودہ دور میں کوئی تمدنی کردار یا عملی تعلق ممکن نہیں۔یہ نظریہ، جدید دور کے تناظر میں اسلامی فکر کی تجدید کی کسی بھی دعوت کو مکمل طور پر مسترد کر دیتا ہے اور اسلام کو ایک ایسا تاریخی تصور بنا کر پیش کرتا ہے جسے موجودہ تقاضوں کے مطابق محض تعبیر و تاویل یا تبدیلی کے ذریعے ڈھالا جا سکتا ہے۔
ان سکیولر تحریکوں کے مطابق اسلام، - جیسا کہ آج کل بہت سے معاشروں میں عملی طور پر موجود ہے، - محض ایک قدیم تاریخی دور کی پیداوار ہے اور اب اس میں انسانی حقوق، جمہوریت، اورٹیکنالوجی کی ترقی جیسے معاصر مسائل سے نمٹنے کی کوئی صلاحیت نہیں رہی۔ در اصل یہ نقطہ نظر اسلامی فکر کے کئی پہلوؤں کو نظرانداز کرتا ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اس پہلو کی جانب نہیں دیکھتے کہ اسلامی قوانین لچک اور تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بلکہ قرآن مجید اور سنت نبوی میں ایسے اصول موجود ہیں جنہیں مختلف سیاق و سباق میں پڑھا جا سکتا ہے تاکہ وہ موجودہ حالات کے مطابق ہوں۔
ان لا دینی تحریکوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آج کے مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ تاریخی حقیقت اور موجودہ حقیقت کے درمیان فکری فاصلہ کتنا بڑا ہے، اور انہیں ایک ایسا لچکدار تفسیری طریقہ اپنانا ہوگا جو ان تبدیلیوں کو قبول کر سکے۔ ساتھ ہی، انہیں یکطرفہ تصورات سے آگے بڑھنا ہوگا جو اسلامی ورثے کو فکری قید میں بدل دیتے ہیں، اور انہیں اس ورثے کے ذریعے تجدید کی کوشش کرنی ہوگی، ایک ایسے تناظر میں جو موجودہ تہذیبی چیلنجوں سے ہم آہنگ ہو۔ آج کے مسلمان کو پرانے دینی فہم اور موجودہ حقیقت کے درمیان تعلق کو نئے سرے سے جانچنا ہوگا، اور ان فقہی و تفسیری اجتہادات سے فائدہ اٹھانا ہوگا جنہوں نے اسلامی فکر کو مختلف ادوار میں ترقی دی، جبکہ ایسا کرتے ہوئے اپنےان مستقل اصولوں پر ہمیشہ قائم رہے ۔
اہم مسئلہ یہ ہے کہ سمجھے بغیر دینی ورثے سے تمسک کرنا ،جب کہ ان کے سیاق و سباق کو مد نظر نہ رکھا گیا ہوتو بعض اوقات یہ اسلام کے بارے میں اور مسلمانوں کے مستقبل کے حوالے سے اسلام کی قدرت و طاقت کے حوالے سے انسان غلط نتائج تک پہنچ جاتا ہے ،
حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلام کو صحیح انداز میں پڑھا اور سمجھا جائے تو یہ دین ایک زندہ ثقافت کی بنیاد اور جدید مسائل کے حل کے طور پر باقی رہنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک ایسا دین کہ جو جدید تقاضوں کو مدنظر رکھے، ثوابت اور تغیرات کے درمیان فرق کرے، اور اپنے اصولوں کو دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آھنگ کر سکے ۔
مذہبی عقلانیت ایک بہترین انتخاب:
آج کامسلمان ایک حقیقی فکری الجھن کا سامنا کر رہا ہے، جو دنیا کے گوشہ وکنار میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی چیلنجوں سے پیدا ہوتی ہے مختلف سائنسی، ثقافتی، سیاسی، سماجی اور فکری تحریکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کے ساتھ، موجودہ دور کے مسلمان کے سامنے کئی راستے موجود ہیں، اور وہ ان میں سے ایک راستہ اختیار کر سکتا ہے جو دینی متون اور عقل کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کے تعامل کی عکاسی کرتا ہو۔
1. دینی عقلانیت کا راستہ
دینی عقلانیت کے راستے کا انتخاب مسلمان کو ایک ایسا منطقی فریم ورک فراہم کرتا ہے، جو اسے دینی متن کے ساتھ تاریخی جمود سے آزاد ہو کر تعامل کرنے کے قابل بناتا ہے۔ یہ عقلانیت وحی اور عقل کے امتزاج پر مبنی ہے، تاکہ مسلمان اسلام کی تعلیمات کا پابند رہے لیکن تاریخی تصورات یا تشریحات کا اسیر نہ ہو، جو بعض اوقات ممکن ہے کہ نئی تبدیلیوں کے ساتھ بھی ہم آہنگ نہ ہوں۔ اس انتخاب میں عقل کو ایک آلہ سمجھا جاتا ہے جو دین کی ایسی تشریح میں مدد فراہم کرتی ہے جو موجودہ تغیرات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہو۔ اس طرح اسلام کو محض سخت مفاہیم پر مبنی متون کا مجموعہ نہیں سمجھا جاتا، بلکہ ایک متحرک نظام سمجھا جاتا ہے جسے تمام حالات اور تبدیلیوں میں سمجھا اور نافذ کیا جا سکتا ہے۔
دینی عقلانیت ایمان کے ساتھ متصادم بھی نہیں ہے بلکہ یہ عقل کو وحی کے سمجھنے اور اس کی تشریح کےلئے ایک ذریعہ مانتی ہے۔ یہ ایک جامع نقطہ نظر اپنانے کی دعوت دیتی ہے جو دین کو موجودہ دنیا کو سمجھنے کا ذریعہ بناتی ہے، ساتھ ہی اصولی اور تغیر پذیر امور کے درمیان فرق کو مدنظر رکھتی ہے۔ اس انتخاب میں مسلمان اسلام کی بنیادی اقدار اور اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے فکر کو تاریخی یا ثقافتی پابندیوں سے آزاد رکھ سکتا ہے، جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ یوں، دینی عقلانیت ایک ایسا انتخاب ہے جو وحی اور عقل کے درمیان توازن قائم کرتا ہے اور گہری اور تجدید پذیر تہذیبی شعور کی تعمیر میں مدد دیتی ہے ۔
2. اسلام پر ایمان کا راستہ
دوسرا انتخاب، دین سے انکار کاراستہ، کچھ جدید نسلوں میں کسی حد تک یہ رجحان بھی دیکھنے کو ملتا ہے ، خاص طور پر ان معاشروں میں جہاں فکری اور تہذیبی تنازعات در پیش ہیں۔ یہ انتخاب اسلامی فکر کو ایک تاریخی پیداوار کے طور پر موجودہ چیلنجوں کے ساتھ مطابقت پذیر نہ سمجھتے ہوئے اسے مکمل طور پر رد کرنے کے مترادف ہے ۔
اس راستے پر چلتے ہوئے، کچھ لوگ اسلام کو ایک دین کی حیثیت سے ترک کرتے ہیں اوردینی اعمال کو بجا نہیں لاتے مشرقی یا مغربی فکری دیگر رجحانات کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔
ایسے فکری رجحانات جن کی طرف کچھ لوگ مائل ہوتے ہیں، جیسے کہ الحاد یا سیکولر نظریات،وہ اسلام کو اس کی مسخ شدہ صورت میں رد کرتے ہیں۔ در اصل وہ نوجوانوں کو اپنے دین اور اس جدید دنیا کے درمیان اختلاف بلکہ تناقض محسوس کرتا ہےاور اسی وجہ سے وہ ان راستوں کا انتکاب کرتے ہیں جو ان کے خیال میں دین اور جدید دور کے درمیان تضاد کا ردعمل ہیں۔
اس انتخاب میں مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کے بارے میں غلط نقطہ نظر اختیار کیا اور موجودہ دور کی ضروریات کے بارے میں بھی غلط موقف اپنایا۔ اس طرح وہ ان مواقع کو ضائع کر دیتے ہیں جو حقیقی اسلام موجودہ روحانی اور مادی بحرانوں کے حل کے لیے فراہم کرتا ہے
3. روایتی اسلام کا راستہ ہے
تیسرا انتخاب، روایتی اسلام کا راستہ ہے، اس کی نمائندگی اسلام کی تاریخی شکل کی طرف واپسی سے ہوتی ہے جیسا کہ بعض سلفی یا شدت پسند تنظیمیں پیش کرتی ہیں۔ اس نقطہ نظر کی بنیاد اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کے ابتدائی دور کی پیروی کی جائے اور جدید تغیرات کو نظر انداز کرتے ہوئے دینی فکر کو اس کی تاریخی شکل میں نافذ کیا جائے ۔
یہ فکر کئی صورتوں میں، جدید دنیا کے ساتھ تعامل کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے، کیونکہ یہ ایک جامد اور غیر متغیر ماڈل کو اپناتا ہے، جس کی وجہ سے حقیقت سے دوری اور الگ تھلگ رہنے کا رجحان بڑھ سکتا ہے۔ یہ عقل کو محدود کرنے اور متون کی ایسی تشریح کی اجازت دینے کا باعث بن سکتا ہے جو نئے چیلنجز سے ہم آہنگ نہ ہو۔
یہ نقطہ نظر یک طرفہ سوچ کو فروغ دے سکتا ہے، جو نہ خود تنقیدی کی اجازت دیتا ہے اور نہ ایسے فکری اجتہاد کی ، جو عصر حاضر کے مسائل کا حل پیش کر سکے۔ اگرچہ یہ اسلامی ورثے کے احترام اور اس کی روایات کو برقرار رکھنے کی خواہش پر مبنی ہے، لیکن کسی قسم کی تبدیلی یا ترقی کو مسترد کرنا فکری بحران کو مزید گہرا کر سکتا ہے اور مسلمان اور جدید عالمی معاشرے کے درمیان خلیج کو وسیع کر سکتا ہے۔
عقل اور وحی میں موازنہ:
یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان تینوں راستوں میں بہترین انتخاب وحی اور عقل کے درمیان توازن قائم کرنا ہے۔ تہذیبی شعور بند ماضی پر مبنی یا محدود سوچ کے سائے میں حاصل نہیں ہو سکتا۔ موجودہ حالات کے مطابق دینی متون کی عقلی تعبیر وہ بنیاد ہے جو ایک جامع اسلامی فہم کو ممکن بناتی ہے، جو ترقیات کے ساتھ ہم آہنگ رہے اور اسلام کے اصل اصولوں سے جڑا رہے۔
لہٰذا، عقل کو یہاں وحی کے مخالف نہیں بلکہ اس کے مکمل کرنے والے اور دین کی گہری تفہیم کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر عقل کو بلند مقام دیا جائے اور متون کے فہم میں لچک کو برقرار رکھا جائے، تو یہ اسلامی امت کو شریعت کی گہری سمجھ حاصل کرنے کے قابل بنائے گا، جو دورِ حاضر کے چیلنجوں سے ہم آہنگ ہو اور دنیا کے ساتھ مؤثر تعامل کو فروغ دے۔
اس متوازن عقلی طرزِ فکر کے ذریعے اسلام مسلم معاشروں کو ایک جدید تہذیبی وژن پیش کر سکتا ہے جو ان کے تاریخی جڑوں کو نظر انداز کیے بغیر، انہیں ایک نئے سیاق و سباق میں رکھتا ہے جو عصرِ حاضر کی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔
اسلام، جیسا کہ اس کے آخری پیغام میں آیا ہے، محض ایک ایسا دین نہیں ہے جو انفرادی یا ذاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اختیار کیا جائے، بلکہ یہ ایک جامع تہذیبی منصوبہ ہے جو انسان کو اس کی کلیت میں مخاطب کرتا ہے۔ یہ ان چیلنجز پر غور کرتا ہے جو انسانی معاشرہ زمان و مکان کے تناظر میں درپیش کرتا ہے۔
یہ منصوبہ محض مذہبی وابستگی تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کی حقیقتوں کی گہری تفہیم اور انسان اور اس کے ماحول کے درمیان تعلق کو منظم کرنے تک پھیلتا ہے، جو عدل، مساوات اور آزادی جیسے اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔
اسلامی احکام میں لچک:
اسلام کو دیگر فکری نظاموں سے ممتاز کرنے والی خصوصیات میں ایک غیرمعمولی لچک ہے، جو اسے مختلف ادوار اور ماحول کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ یہ لچک محض خارجی حالات کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت نہیں، بلکہ اس پیغام کا جوہر ہے۔ قرآنِ کریم نے مسلسل مفاہیم اور طریقہ کار کو ان بدلتے ہوئے چیلنجوں کے مطابق ترقی دینے کی ترغیب دی ہے۔
اسلام، چونکہ ایک عمومی اور جامع دین ہے، اسے کسی مخصوص تاریخی دور سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ بلکہ یہ ایک کھلا پیغام ہے جو انسانی عقل کو کائنات کی حقیقتوں کو دریافت کرنے اور ان کے ساتھ تعامل کرنے کی دعوت دیتا ہے، ان بنیادی اصولوں کے ذریعے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتے، جیسے عدل، حق، رحمت، اور مساوات۔
اسی لیے اسلام میں تجدید کو محض موجودہ حالات کا ردعمل نہیں سمجھا جاتا، بلکہ یہ خود قرآن کی دعوت کا حصہ ہے، جو مسلسل ترقی کی تاکید کرتا ہے، بشرطیکہ یہ ترقی اس کے کلی اصولوں کے مطابق ہو۔ اس تناظر میں تجدید کا مطلب دینی اقدار کو ترک کرنا نہیں، بلکہ ان اقدار کو حاصل کرنے کے لیے نئے وسائل اور طریقے اپنانا ہے۔
یہ بات سلف صالحین کے کئی واقعات میں بھی نظر آتی ہے، جنہوں نے ان مسائل میں اجتہاد کی قابلیت کا مظاہرہ کیا جو براہِ راست دورِ رسالت میں زیر بحث نہیں آئے تھے
قرآنِ کریم نے اس پہلو کو واضح طور پر بیان کیا جب اس نے اپنی آیات کے ذریعے تمام انسانیت کو مخاطب کیا اور پیغام کی نوعیت کو عقلی اور شعوری طور پر سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ قرآن نے نہ صرف مسلمانوں کو دینی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے فکری اوزار فراہم کیے، بلکہ انہیں اپنی عقل استعمال کرنے کی دعوت دی تاکہ وہ حقیقتِ کائنات کے تناظر میں دین کے معانی کو سمجھیں اور ان کی تشریح کریں۔اسی تناظر میں، اسلامی عقل ایک ناگزیر ذریعہ بن گئی ہے جو دینی متون کو سمجھنے اور ان کا ایسا حل پیش کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے جو تہذیبی اور زمانی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتا ہو۔اس لیے اسلام کبھی بھی جامد مذہب نہیں رہا جو کسی سخت سانچے میں قید ہو اور مخصوص طرز زندگی مسلط کرے۔ بلکہ اسلام ہمیشہ ایک گہری عقلی تفہیم کا متقاضی رہا ہے، جو مسلمان کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنے دین میں ایسے عناصر تلاش کرے جو اس کے زمانے کی تبدیلیوں کے مطابق ہوں، بغیر دین کے جوہر کو متاثر کیے۔یہ عالمی نقطہ نظر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اسلامی پیغام ہمیشہ متعلقہ رہے اور معاصر دنیا کے ساتھ مؤثر طور پر تعامل کر سکے۔
آخر میں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو اپنے اندر فکری اور اعتقادی قوت رکھتا ہے، جو اسے دوام اور ترقی کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ وحی اور عقل کے درمیان توازن قائم کرنا ہی وہ مؤثر راستہ ہے جو اسلام کو موجودہ معاشروں میں ایک زندہ قوت کے طور پر برقرار رکھتا ہے، تاکہ یہ اپنی مسلسل تہذیبی خدمات کا عملی مظاہرہ کر سکے۔ایمان سے تقویت یافتہ عقل کے ذریعے، اسلام محض ایک تاریخی ورثہ بن کر کتابوں تک محدود نہیں رہتا، بلکہ ہر دور میں تخلیق اور اصلاح کے ذریعے ایک زندہ اور تجدید پذیر قوت بن جاتا ہے۔اس جامع نقطہ نظر کے ذریعے اسلام ایک تہذیبی قوت کے طور پر سامنے آ سکتا ہے، جو اعلیٰ انسانی اقدار کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ اور متوازن جدید دنیا کی تشکیل میں معاون ہو۔