حوصلہ نہ ہاریں۔۔۔ کیا اللہ تعالیٰ ظالم کو کامیاب ہونے دیتا ہے؟
شیخ مقداد الربیعی :
جنگ و جدال کے عروج میں ، جہاں شہداء خزاں کے پتوں کی مانند یکی بعد دیگری گر رہے ہیں اور دکھی ماؤں کی آہ و بکا ہر سمت سنائی دے رہی ہے، غاصب قوتیں اپنی سرکشی میں مسلسل اضافہ کرتی جارہی ہیں۔ یہ طاقتیں نہ صرف زمینوں پر قبضہ کر رہی ہیں بلکہ مقدسات کی بے حرمتی بھی کر رہی ہیں، اور اپنی جھوٹی عسکری فتوحات کے ذریعے خوف و حیرت کا ماحول پیدا کر رہی ہیں، جو مؤمنین کے دلوں میں اضطراب و بےچینی کا سبب بن رہا ہے۔ ان حالات میں سچے مؤمنین کے دل مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو جاتے ہیں، اور ان کے ذہنوں میں یہ سوالات ابھرنے لگتے ہیں کہ نصرتِ خداوندی کا وعدہ کیوں پورا نہیں ہو رہا۔ وہ حیرت میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ربِ عزت کیسے اس ظلم پر راضی ہو رہا ہے، جبکہ اُس نے خود اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور اپنے بندوں کو بھی اس سے منع کیا ہے۔؟
میدانِ جہاد سے باہر بھی مؤمنین بے شمار ظلم و جبر کی مختلف صورتوں کا سامنا کر رہے ہیں، اور ان کے پاس بجز اس کے کہ بارگاہِ الٰہی میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے کوئی اور راستہ باقی نہیں ہے۔ اس تناظر میں یہ سوال دوبارہ ذہنوں میں ابھرتا ہے: اللہ تعالیٰ ظالم کو فتح کی اجازت کیوں دیتا ہے؟
ان سوالات کا جواب سمجھنے کے لیے اللہ کے عدل و حکمت کے عظیم اصول کو جاننا ضروری ہے، جو نہ صرف شک کو دور کرتا ہے بلکہ دلائل کے ذریعے اطمینان و سکونِ قلبی بھی فراہم کرتا ہے۔ قرآن مجید نے انسان کی تخلیق کا مقصد واضح طور پر بیان کیا ہے، جس کا حقیقی ہدف انسان کا کمال اور اللہ تعالیٰ کے سامنے خالص بندگی تک پہنچنا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: 56)۔
ترجمہ: اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔
یہ بندگی انسان کو محض عبادت کے دائرے میں محدود نہیں کرتی بلکہ اس کائناتی نظام اور اللہ کی ہمہ گیر قدرت کا ادراک بھی فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ قرآن فرماتا ہے: اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا (الطلاق: 12)۔
ترجمہ: وہی اللہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کی طرح زمین بھی، اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ نے بلحاظ علم ہر چیز پر احاطہ کیا ہوا ہے۔
مگر یہ تب تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک وہ اپنی آزادانہ مرضی سے خیر اور اصلاح کے راستے کو نہ چنے اور اپنی محنت و عمل کے ذریعے اخلاقی فضائل کو نہ اپنائے۔ حقیقی معنوں میں، یہ روحانی کمال اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اپنی ذات کو سمجھنے، اسے پاکیزہ بنانے، اور اسے صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے کی جستجو کرے۔ انسان کو کمال کی منزل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے حالات سے گزرے جو اسے حق اور باطل کے درمیان واضح فرق دکھائیں اور اسے اس بات پر مجبور کریں کہ وہ ذمہ داری اُٹھائے۔
اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی حکمت میں انسان کی آزمائش کو ایک اہم عنصر کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ یہ آزمائش انسان کی صفات کو نکھارنے، اس کی روح کو پاک کرنے، اور اسے اخلاقی و روحانی ترقی کے مراحل طے کروانے کے لیے رکھی گئی ہے۔ اس تربیت و تزکیہ کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی خامیوں اور کمزوریوں سے آزاد ہو کر کامل بنے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا) (الإنسان: 2)
ترجمہ: ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا کہ اسے آزمائیں، پس ہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والا بنایا۔
(وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا) (هود: 7)۔
ترجمہ: اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں بنایا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں بہتر عمل کرنے والا کون ہے
ان آیات میں اللہ تعالیٰ انسان کی آزمائش کا مقصد بیان فرماتا ہے کہ وہ ان حالات میں بہترین عمل کرنے والوں کو دیکھے۔
یہ الٰہی سنت آزمائش کی حکمت کو واضح کرتی ہے، جس کے ذریعے انسان کی شخصیت و کردار کو خالص بنایا جاتا ہے۔ یہ آزمائش انسان کی روحانی و اخلاقی صفات کو پروان چڑھانے، اس کے کردار کو مضبوط بنانے، اور اسے جنت کی بلند ترین درجات تک پہنچانے کے لیے ہے۔ اس تربیت سے گزر کر، انسان اپنے مقصدِ تخلیق کو بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے اور روحانی و اخلاقی تکامل کی منازل طے کر سکتا ہے۔
قرآنی آیات سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ آزمائش ایک ایسی کسوٹی ہے جس پر انسان کے باطنی میلانات اور نفس کی پوشیدہ حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔ آزمائش دراصل ایک ایسا امتحان ہے جو انسان کو مخصوص حالات سے گزارتا ہے، جن میں اس کے سامنے طاعت و معصیت کے راستے کھول دیے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جب انسان آسانی، خوشحالی اور راحت کے عالم میں ہوتا ہے، تو اس کے لیے اللہ کی اطاعت بظاہر آسان محسوس ہوتی ہے، کیونکہ ایسے وقت میں گناہ کا محرک خاص طور پر مضبوط و مستحکم نہیں ہوتا۔ مگر یہ باآسانی کی جانے والی اطاعت، ایمان کی اصل گہرائی کو ظاہر نہیں کرتی، نہ ہی یہ عمل نفس کو اس انداز میں آزماتا ہے جس سے اس کی حقیقی تربیت ممکن ہو سکے۔
تاہم، جب انسان کو ایسی آزمائشوں میں ڈالا جاتا ہے جن میں شیطان کی وسوسہ اندازی اور نفسانی خواہشات کی پیروی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، تو یہاں اس کے ایمان کی حقیقت نمایاں ہوتی ہے۔ یہ آزمائش انسان کے لیے نفس کو پاکیزہ کرنے اور اس کی تربیت کا موقع فراہم کرتی ہے، اور جو شخص اس میں کامیاب ہو جائے، وہ ایمان و عبادت کی اعلیٰ سطح پر فائز ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعے سے ملتی ہے، جو متعدد بار سخت ترین آزمائشوں میں کامیاب ہوئے جیسے نمرود کی آگ میں ڈالے جانے کا واقعہ، بے آب و گیاہ وادی میں اپنے خاندان کو تنہا چھوڑ دینا، اور اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کی تیاری۔ ان آزمائشوں میں کامیابی کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں "لوگوں کا امام" بنایا اور انہیں یہ بلند مقام ان آزمائشوں میں ثابت قدمی کے بغیر نہ ملتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ) (البقرة: 124)۔
ترجمہ: اور ( وہ وقت یاد رکھو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے انہیں پورا کر دکھایا، ارشاد ہوا : میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔
دوسری طرف، اللہ نے ابلیس کی مثال بھی پیش کی ہے، جس نے سجدۂ آدم کے امتحان میں ناکامی پائی۔ اس کے انکار اور تکبر کے نتیجے میں وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہوگیا اور ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔ ارشاد ہوتا ہے: (وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ) (البقرة: 34)۔
ترجمہ: اور (اس وقت کو یاد کرو)جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا۔اگر یہ سوال نہ ہوتا تو شیطان کی حقیقت ظاہر نہ ہوتی۔
یہ سوال فطری طور پر پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ دلوں کے حال اور انسان کے ارادے سے بخوبی واقف ہے، تو پھر آزمائش کی ضرورت کیا ہے؟ کیا یہ تحصیلِ حاصل نہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگرچہ غیب کا علم رکھتا ہے اور دلوں کے بھید جانتا ہے، مگر وہ اپنے علم غیب کی بنیاد پر حساب کتاب نہیں کرتا، بلکہ انسان کو ان اعمال کی بنیاد پر پرکھتا ہے جو وہ حقیقی زندگی میں اختیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور عدل کے تحت کسی کو اس کے دل کی نیت کی بنیاد پر سزا یا جزا نہیں دیتا بلکہ انسان کو عملی طور پر آزمائش میں ڈالتا ہے، تاکہ وہ اپنی نیت کو حقیقی افعال میں تبدیل کر کے دکھائے۔چنانچہ آزمائش ایک ایسی حکمت ہے جو انسان کو طاعت اور معصیت کے درمیان اپنے راستے کا انتخاب کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ جب انسان آزمائش میں صبر، ثبات اور احتساب کے ساتھ اپنے ایمان کو ثابت کرتا ہے تو وہ اللہ کی رضا کا مستحق ٹھہرتا ہے، اور اگر وہ نافرمانی اور تکبر کی راہ اپناتا ہے تو وہ دنیا و آخرت میں نقصان اٹھاتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ گمان کرنا کہ اس کے اعمال بلا حکمت یا بے مقصد ہیں، جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہر عمل ایک بلند حکمت اور اعلیٰ مقصد کے تحت ہوتا ہے، جس کا تعلق انسان کی دنیا اور آخرت کی فلاح سے ہے۔
مختصراً، انسان کی تخلیق کا مقصد اس کی تکمیل اور خالص بندگی کی اس منزل تک پہنچنا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اور یہ بندگی اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک انسان اطاعت پر مبنی اعمال انجام نہ دے اور معصیت سے باز نہ رہے، اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب انسان کو آزمائشوں سے گزارا جائے۔
اسی سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر چھپی ہوئی نیتوں اور پوشیدہ ارادوں کو نمایاں اور ظاہر کیا جائے، اور یہ مشکلات اور آزمایش کے ذریعے ہی پورا ہوتا ہے۔ یہی وہ بنیادی حکمت ہے جس کے لیے انسان کی تخلیق کی گئی ہے، اور یہ حکمت کسی بھی معرکہ یا ظالم کے خلاف وقتی فتح سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ مؤمن کبھی وقتی شکست سے دوچار ہو سکتا ہے، لیکن آزمائش میں کامیاب ہو کر اصل امتحان میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کی جانب اپنی کتابِ مقدس میں توجہ دلائی ہے، جیسا کہ فرمایا:(أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ) (البقرة: 214)
"کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے لوگوں پر آئے۔ انہیں سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ ہلا دیے گئے یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ یاد رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہے"یہ آیت سوالیہ انداز میں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کیا تم نے سمجھ لیا کہ صرف عقیدہ حقہ پر ایمان لانے سے انسان جنت کا مستحق ہو جاتا ہے، جبکہ وہ ابھی عملی شرک کی میل کچیل سے پاک نہیں ہوا؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے، جبکہ پچھلی امتوں پر کڑی آزمائشیں آئیں اور انہیں مختلف نقصانات اور شکستوں کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ رسول اور ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟
اسی طرح اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتےہیں :(وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ) ( أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ) آل عمران141-142
اور اللہ ان لوگوں کو خوب جانچ لے گا جو ایمان لائے ہیں اور کافروں کو نیست و نابود کر دے گا۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو ظاہر نہیں کیا جو جہاد کرتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی نہیں جانچا جو صبر کرتے ہیں" یہ آیت اس حقیقت کو مزید وضاحت سے بیان کرتی ہے۔
یعقوب السراج اور علی بن رئاب کی صحیح حدیث جو امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ اس میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، تم ضرور ایسی آزمائشوں اور مشکلات میں مبتلا کیے جاؤ گے جن میں تمہاری صفیں الٹی پلٹی جائیں گی؛ یہاں تک کہ تم میں سے نیچے والے اوپر آئیں گے اور اوپر والے نیچے ہوں گے، اور وہ لوگ آگے بڑھیں گے جو پہلے پیچھے تھے، اور وہ پیچھے ہو جائیں گے جو پہلے سبقت لے گئے تھے۔‘‘ اس حدیث اور دیگر قطعی احادیث ہمیں واضح کرتی ہیں کہ آزمائشیں انسان کے باطن کی حقیقتوں کو ظاہر کرنے اور اس کے ایمان اور کردار کی تطہیر کا ذریعہ ہیں۔
مؤمن کے لیے لازم ہے کہ ان آزمائشوں اور مشکلات سے نہ گھبرائے، بلکہ صبر اور رضا کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرے، کیونکہ یہ آزمائشیں انسانی نفس کی تربیت اور تزکیے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی کامل حکمت سے جانتا ہے کہ انسانی نفس میں کئی پوشیدہ طاقتیں اور صبر کی قوتیں پنہاں ہوتی ہیں، جو صرف مصائب اور آزمائشوں کے وقت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اس طرح کی مشکلیں اور آزمائشیں انسان کو اس کی قوتِ صبر، توکل اور ایمان کی گہرائی سے آشنا کراتی ہیں، اور اسے اپنی کمزوریاں اور طاقتیں جاننے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
ظلم کو بھی یہاں ایک اور آزمائش کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ ظلم اللہ کی طرف سے کسی بے توجہی کا نتیجہ نہیں بلکہ حقیقی امتحان ہے جس میں انسان کو اپنے ایمان کی مضبوطی اور اللہ کے عدل پر بھروسے کو ثابت کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ظلم کا سامنا کرتے ہوئے انسان تنہائی محسوس کر سکتا ہے، لیکن یہ لمحات اسے دنیاوی سہاروں سے بے نیاز کر کے اللہ سے قریب کر دیتے ہیں۔ یہ مراحل اس کے دل میں عاجزی، توکل اور اللہ پر مکمل بھروسے کی کیفیت پیدا کرتے ہیں، اور اس کا دل اللہ کی ذات پر مزید مضبوطی سے جم جاتا ہے۔
آزمائشوں کی تاریکی میں ایمان کا نور اور توکل کی روشنی زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔ مومن ان حالات میں صبر اور استقامت کے ساتھ حق کی راہ پر قائم رہتا ہے، جیسے ایک درخت تیز ہوا میں بھی اپنی جڑوں کو مضبوطی سے پکڑے رہتا ہے۔ اس لیے اگر کسی مومن کو اللہ تعالیٰ آزمائش میں ڈالے تو اسے رنجیدہ ہونے کی بجائے خوشی منانی چاہیے کہ یہ آزمائش اسے اس کے رب کے قریب لا رہی ہے، اس کے ایمان کو مضبوط کر رہی ہے اور اس کے یقین کو بڑھا رہی ہے۔
آخر میں ہم اس نتجہ کو اخذ کریں گے کہ یہ مضمون مومن کو اپنی طاقت، قوت و اسباب چھوڑ دینے کی دعوت نہیں دیتا، بلکہ یہ طاقت کے حصول کو ضروری قرار دینے کے ساتھ مخصوص حالات میں اللہ پر بھروسہ اور استقامت کی تاکید کرتا ہے خصوصاً جب حالات اس کی طاقت و تحمل سے زیادہ ہوں۔ حتیٰ کہ ظلم کا سامنا کرتے ہوئے بھی مومن اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت پر قائم رکھتا ہے، اور یہی اصل کامیابی ہے۔ ان مشکل حالات میں بھی اس کا ایمان برقرار رہتا ہے، اور وہ اللہ کے عدل اور مدد پر یقین رکھتا ہے کہ انصاف کا وقت قریب ہے۔