یورپ میں بڑھتی ہوئی سماجی خلیج اور اسلام کا معاشی نظریہ
شیخ مقداد ربیعی:
سماجی عدم مساوات شاید جدید منصوبے کے تخلیق کاروں کو شرمندہ کر دے۔ یہی نتیجہ میشال روکار، دومنيك بورغ، اور فلوران اوغانيور نے اپنی مشترکہ تحریر میں اخذ کیا ہے، جو "انسانی نسل خطرے میں" کے عنوان سے 3 اپریل 2011 کو فرانسیسی اخبار لوموند میں شائع ہوئی۔" (ماخذ: الحداثة السائلة، صفحہ 35)
قرآن مجید میں ایک واضح اور صریح اشارہ ہے کہ قوموں اور معاشروں کو ایک دوسرے کے تجربات اور علم سے فائدہ اٹھانا چاہیے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے." (الحجرات: 13)۔
لہذا، ہمیں ایک ایسی امت کے طور پر جو قرآن کو سامنے رکھتی ہے اور اس کے مطابق چلتی ہے، قوموں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس میں سے ایک سبق یہ ہے کہ ہمیں مغربی معاشروں میں بڑھتی ہوئی سماجی خلیج اور معاشرتی مساوات کے فقدان پر غور کرنا چاہیے، جس سے ان معاشروں کے ٹوٹنے اور سنگین بحرانوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ یہ حالات اس بات پر سوالات اٹھاتے ہیں کہ کیا موجودہ سماجی اور اقتصادی نظام واقعی سماجی انصاف فراہم کر سکتے ہیں۔
حالیہ اعداد و شمار اور علمی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور متعدد یورپی ممالک میں معاشی اور سماجی تفاوت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہر اقتصادیات توماس پیکیٹی اپنی مشہور کتاب "Capital in the Twenty-First Century"
میں اشارہ کرتے ہیں کہ "یورپ میں دولت کی تقسیم تیزی سے غیر مساوی ہو رہی ہے"، اور مزید کہتے ہیں کہ "امیر اور غریب کے درمیان خلیج خطرناک حد تک وسیع ہو رہی ہے، جو یورپی معاشروں کے استحکام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے"۔ پیکیٹی اس تفاوت کی وجہ لبرل اقتصادی پالیسیوں کو قرار دیتے ہیں، جو آزاد منڈی اور دولت کی دوبارہ تقسیم میں ریاست کے کردار کو کم کرنے پر انحصار کرتی ہیں۔
اسی تناظر میں، اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم( (OECDکی ایک حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ "یورپی یونین کے متعدد ممالک میں نسبتا غربت کی سطح بڑھ گئی ہے، جو سماجی تحفظ کے نظام کی کمزوری اور آمدنی کی تقسیم میں بڑھتے ہوئے تفاوت کو ظاہر کرتی ہے۔" یہ تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بعض یورپی ممالک میں جاری اقتصادی ترقی کے ثمرات معاشرے کے تمام طبقات پر منصفانہ طور پر ظاہر نہیں ہو رہے، جس سے امیر مزید امیر ہو رہے ہیں جبکہ غریب غربت کے دائرے میں محصور ہیں۔
((OECD، 2020۔ آمدنی کی عدم مساوات اور غربت کے اشارے، اقتصادی تفاوت کے ساتھ ساتھ، یورپ نسل اور قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا بھی سامنا کر رہا ہے، جو سماجی خلیج کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ محقق پال گلمارٹن اپنی European Journal of Sociology میں شائع شدہ تحقیقی مضمون میں اشارہ کرتے ہیں کہ "یورپ میں تارکین وطن اور نسلی اقلیتیں ملازمت، تعلیم، اور صحت کی خدمات میں بلند سطح کے امتیاز کا سامنا کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ غربت اور سماجی حاشیے پر زندگی گزارنے کے خطرات سے زیادہ دوچار ہیں۔" گلمارٹن وضاحت کرتے ہیں کہ ان طبقات کو ثقافتی اور لسانی رکاوٹوں کا سامنا ہے، جو ان کے یورپی معاشروں میں انضمام میں رکاوٹ بنتی ہیں، اور یہ تفاوت اس کو مزید گہرا اور مساوات کے فقدان کو بڑھاتی ہیں۔
مزید برآں، پیو ریسرچ سینٹر کی ایک تحقیق نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ "کچھ یورپی ممالک میں تارکین وطن کے بارے میں منفی رائے میں اضافہ ہو رہا ہے، جہاں انہیں معاشی اور سماجی بحرانوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ (Pew Research Center2021) یورپ میں تارکین وطن کے بارے میں رویے، یہ رجحانات اس ماحول کے فقدان کو اجاگر کرتے ہیں جو ہر ایک کے لیے مساوی مواقع کو یقینی بناتا ہے، خواہ ان کا نسلی یا ثقافتی پس منظر کچھ بھی ہو۔ اس حوالے سے معروف ماہر اقتصادیات اور سماجیات زیجمونٹ باومان کہتے ہیں: "مثال کے طور پر، تارکین وطن اب اطالوی قومی پیداوار میں 11 فیصد کا حصہ ڈالتے ہیں، مگر انہیں نہ ووٹ کا حق حاصل ہے اور نہ ہی اطالوی انتخابات میں حصہ لینے کا۔ اس کے علاوہ، کسی کو بھی ان آنے والوں کی حقیقی تعداد کا علم نہیں ہے جو یا تو سفر کے قانونی کاغذات نہیں رکھتے یا جعلی کاغذات کے ساتھ بھرپور انداز میں قومی پیداوار اور قوم کی خوشحالی میں حصہ لے رہے ہیں۔" یہاں "دالما" ایک سوال اٹھاتے ہیں جسے کسی بھی صورت میں محض بلاغی سوال نہیں کہا جا سکتا: "یورپی یونین ایسے حالات کو کیسے برداشت کر سکتی ہے، جہاں آبادی کے ایک بڑے طبقے کو سیاسی، اقتصادی، اور سماجی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، جس سے ہمارے جمہوری اصولوں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے؟ اور جب شہری کے فرائض بنیادی طور پر اس کے حقوق کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں، تو کیا ہم واقعی توقع کرتے ہیں کہ تارکین وطن اس معاہدۂ معاشرت کی بنیادوں پر یقین رکھیں، اس کا احترام کریں، اس کا ساتھ دیں، اور اس کا دفاع کریں؟
ہمارے ملک میں سیاست دان انتخابات میں اپنے حامیوں کو متحرک کرنے کے لیے تارکین وطن پر الزام عائد کرتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ مقامی آبادی کے معیار میں ضم ہونے میں ناکام ہیں یا اس میں ہچکچاتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے سیاست دان ان معیارات کو تارکین وطن سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور مزید اقدامات کا وعدہ بھی کرتے ہیں۔ اس عمل میں، وہ ان معیارات کی توہین کرتے ہیں یا انہیں بگاڑ دیتے ہیں جنہیں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ غیر ملکی یلغار سے محفوظ رکھ رہے ہیں۔" (الحداثة السائلة، صفحہ 34-35)
اسی طرح ہمیں معیشت کی نجکاری کے کردار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ماضی کی دہائیوں میں یورپ میں ریاست کو سماجی انصاف اور مساوات فراہم کرنے کا بنیادی ستون سمجھا جاتا تھا، جہاں حکومتیں مفت تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، اور بے روزگاروں کے لیے امداد فراہم کرتی تھیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں، جب سے پالیسیوں کا رخ نجکاری اور عوامی اخراجات میں کمی کی طرف ہوا، یہ ماڈل کمزور ہونا شروع ہوگیا ہے۔ پروفیسر ڈیوڈ ہاروی اپنی کتاب "نیولیبرلزم: ایک مختصر تاریخ" میں اشارہ کرتے ہیں کہ "نجکاری کی طرف تبدیلی اور معیشت میں ریاست کے کردار کو کم کرنے سے ان سماجی بنیادوں میں کمی آئی ہے جو کمزور طبقات کی حمایت کرتی تھیں۔"
یہ پسپائی حکومتوں کی سماجی خلیج کو حل کرنے کی صلاحیت کو کمزور کرتی ہے، کیونکہ بنیادی خدمات جیسے صحت اور تعلیم ان لوگوں کے لیے بہتر دستیاب ہوتی ہیں جو مالی استطاعت رکھتے ہیں، جس سے سماجی تفاوت مزید بڑھتا ہے۔ اس تناظر میں، محقق جون راولی اپنی (Journal of Social Policy) میں شائع شدہ مقالے میں لکھتے ہیں کہ: ریاست کی سماجی ذمہ داری میں کمی اور نجی شعبے کے بڑھتے ہوئے کردار سے امیر اور غریب کے درمیان تفاوت میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ عوامی خدمات کم مؤثر اور زیادہ مہنگی ہو جاتی ہیں۔" آج ہم دیکھتے ہیں کہ عدم مساوات اور مواقع کی عدم برابری کی وجہ سے امیر اور غریب کے بچوں کو ایک جیسے تعلیمی معیار تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ امیر گھرانوں کے بچے بہتر ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں، جو غریب بچوں کے لیے ممکن نہیں، جس سے سماجی تفاوت گہرا ہوتا ہے اور اس کے خطرناک اثرات تیزی سے ظاہر ہونے لگتے ہیں، جو بالآخر معاشرتی بکھراؤ تک پہنچ سکتے ہیں۔
حل کیا ہے ؟
مغرب میں عدم مساوات کے اثرات پیش کرنے کے بعد، جو کہ خالص مادی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں، جو عوام کے مفاد کا خیال نہیں رکھتی ہیں، بلکہ طاقتور کو بااختیار بنانے اور کمزور کو کچلنے کی نچلی سوچوں اور فلسفوں پر مبنی ہیں، اس کا حل اسلامی تصورات کی طرف لوٹنے میں ہے، جو اقتصادی اور سماجی پالیسیوں کے لیے اخلاقی اصول فراہم کرتی ہیں۔ قرآن کریم میں ریاست کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے تاکہ معاشرے کے افراد کے درمیان مساوات کو یقینی بنایا جا سکے، جیسے کہ سورۃ الحشر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)
اللہ نے ان بستی والوں کے مال سے جو کچھ بھی اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے وہ اللہ اور رسول اور قریب ترین رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکین اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ اور اللہ کا خوف کرو، اللہ یقینا شدید عذاب دینے والا ہے (الحشر: 7)
(لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ)
(یہ مال غنیمت) ان غریب مہاجرین کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں اور اموال سے بے دخل کر دیے گئے جو اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں نیز اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں۔ (الحشر: 8)
(وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ)
اور جو پہلے سے اس گھر (دارالہجرت یعنی مدینہ) میں مقیم اور ایمان پر قائم تھے، وہ اس سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آیا ہے اور جو کچھ ان (مہاجرین) کو دے دیا گیا اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی خلش نہیں پاتے اور وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود محتاج ہوں اور جو لوگ اپنے نفس کے بخل سے بچا لیے گئے ہیں پس وہی کامیاب لوگ ہیں (الحشر: 9)
(وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ)
اور جو ان کے بعد آئے ہیں، کہتے ہیں: ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی عداوت نہ رکھ، ہمارے رب! تو یقینا بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔ (الحشر: 10)
یہ آیات ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہمیں اپنے سماجی اور اقتصادی نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ سب کے لیے مساوات اور انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ آیات انفال کے مال کے بارے میں ہیں، جو مسلمانوں نے بغیر لڑائی کے حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان غنائم کا معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے بعد امام کی دسترس میں رکھا، یعنی ان کا معاملہ حکومتی ریاست کے حوالے کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے کچھ مخصوص لوگوں کے ہاتھوں میں دولت کے جمع ہونے کو روکا جا سکے، جو وسیع پیمانے پر مالیاتی گردش میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (کَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ)، یعنی یہ یقینی بنایا جائے کہ دولت صرف امیروں تک محدود نہ رہے۔ اس لیے اس کا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں رکھا گیا، یعنی ریاست کے سربراہ کے پاس، تاکہ وہ اسے فقراء، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کریں، یعنی معاشرے کے کمزور اور ناتواں طبقات پر۔
شیخ ناصر مکارم شیرازی کہتے ہیں: " اس آیت میں جو مفہوم بیان کیا گیا ہے، وہ اسلامی معیشت کا ایک بنیادی اصول واضح کرتا ہے، یعنی اسلامی معیشت میں اس بات کی اہمیت ہے کہ دولت کسی مخصوص طبقے یا گروہ کے ہاتھ میں متجمع نہ ہو، بلکہ یہ ایک دوسرے کے درمیان گردش کرتی رہے، جبکہ ذاتی ملکیت کا پورا احترام کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایک واضح پروگرام تیار کرنا ضروری ہے جو قوم کے بڑے طبقے میں دولت کی گردش کو یقینی بنائے۔
یہ قدرتی بات ہے کہ ہم اس سے یہ نہیں سمجھتے کہ ہم اپنی مرضی سے قوانین اور ضوابط بنائیں اور ایک طبقے سے دولت لے کر دوسرے کو دیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اسلامی قوانین کو مالی حصول کے میدان میں نافذ کیا جائے، اور دیگر مالیاتی قوانین جیسے خمس، زکات، خراج اور انفال کی صحیح طور پر پابندی کی جائے۔ اس طرح ہم مطلوبہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں، یعنی ایک طرف سے ذاتی محنت کا احترام اور دوسری طرف سماجی مفادات کی حفاظت، اور معاشرے کو دو طبقات (ایک دولت مند اقلیت اور ایک کمزور اکثریت) میں تقسیم ہونے سے روکنا۔" (الأمثل، ج18، ص184)
یہ وہ فریم ورک ہے جس کے تحت اقتصادی نظاموں کو کام کرنا چاہیے۔ جوزف سٹیگلٹز، جو کہ اقتصادیات کے میدان میں نوبل انعام حاصل کر چکے ہیں، اپنے کتاب "ثمن اللامساواة" میں اشارہ کرتے ہیں کہ "سماجی انصاف صرف مؤثر انداز میں دوبارہ تقسیم کی پالیسیوں کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے، جو کمزور طبقات کی حمایت اور انہیں بااختیار بنانے کے غرض سے بنائی گئی ہوں ۔" سٹیگلٹز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ترقی پسند ٹیکسوں کو بڑھانے اور سماجی تحفظ کے نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غریبوں اور امیروں کے درمیان خلیج کو کم کیا جا سکے۔
آخر میں، یہ واضح ہے کہ مغرب میں سماجی عدم مساوات ایسی اقتصادی
پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو نجکاری کی طرف مائل ہیں اور ریاست کے کردار
کو دولت کی دوبارہ تقسیم میں کم کر رہی ہیں، ساتھ ہی نسلی اور لسانی
امتیاز اور سماجی پالیسیوں کی کمزوری بھی اس کا حصہ ہے۔ مستقبل کو
زیادہ منصفانہ بنانے کے لیے، ان ممالک کو زیادہ جامع اور انصاف پسند
پالیسیوں کو اپنانے پر کام کرنا چاہیے جو سب کے لیے، کسی قسم کے
اقتصادی تفریق یا نسلی پس منظر کو دیکھے بغیر، یکساں مواقع فراہم
کریں۔ صرف سماجی امداد اور بیروزگاری کی الاؤنسز کی فراہمی کافی
نہیں ہے، کیونکہ یہ دیرپا حل نہیں ہیں۔ اصل حل وسائل پیدا کرنے اور
خاص طور پر سب کے لیے یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنے میں
ہے۔