انسان کا خاتمہ... بائیوٹیکنالوجیکل ترقی کے ضمنی اثرات
شیخ مقداد الربیعی:
انسانی ارتقائی ماہرین بشریات کے مطابق، نیاندرتھال انسان (Neanderthal) تقریباً چالیس ہزار سال پہلے انسانِ عاقل (Homo sapiens) کے ظہور کے ساتھ ہی ناپید ہو گیا تھا۔ یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ انسانِ عاقل نے اپنے اسلاف نیاندرتھال کو ختم کر دیا ہوگا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کہانی دوبارہ دہرائی جا سکتی ہے کہ جب ایک زیادہ ترقی یافتہ نوع موجودہ انسان سے آگے بڑھ کر منظرِ عام پر آئے؟
ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کی وجہ سے آج کل یہی خوف ماہرینِ عمرانیات کو لاحق ہے۔ فرانسس فوکویاما کی کتاب "انسان کا خاتمہ: بائیوٹیکنالوجی انقلاب کے نتائج" میں مصنف نے اس سائنسی انقلاب کے اخلاقی اور سماجی مضمرات پر غور کیا ہے۔ فوکویاما، جو معاشرتی اور سیاسی تجزیے کے لیے مشہور ہیں، اس کتاب میں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی انسانی فطرت اور شناخت پر کس طرح گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے، اور وہ خبردار کرتے ہیں کہ یہ سائنسی انقلاب، خاص طور پر حیاتیاتی میدان میں، ایک نئے "محسن انسان" یا "سپر مین" کے ظہور کا سبب بن سکتا ہے۔
فوکویاما کے مطابق، چین میں انسانی کلوننگ کے تجربات کھلے عام جاری ہیں، اور دیگر ممالک خفیہ طور پر اس دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ صورت حال ایک ایسے نئے اور بہتر انسان کے ظہور کا امکان پیدا کرتی ہے جو موجودہ انسانوں سے زیادہ طاقتور اور ذہین ہو۔ اس سے دنیا میں دو طبقاتی نظام پیدا ہو سکتا ہے، جہاں ایک طبقہ دوسرے کا استحصال کرے گا، اور یوں انسانوں کے درمیان وہی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جو کبھی نیانڈرتھال اور ہومو سیپینز کے درمیان تھی۔
فوکویاما اپنی کتاب میں ایک بنیادی نظریہ پیش کرتے ہیں کہ بائیوٹیکنالوجی کی ترقی، چاہے طب کے میدان میں بے شمار فوائد فراہم کرے یا انسانوں کی زندگی بہتر بنائے،وہ اپنے اندر بڑے خطرات بھی رکھتی ہے جو انسان کی ماہیت کو واپس پلٹنے سے معذوری کے انداز میں بدل سکتے ہیں۔ ماضی میں، انسان کو اپنی بقا کے لیے صرف بیماریوں اور ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا تھا، لیکن اب، بائیوٹیکنالوجی کے انقلاب کے ساتھ، انسانی جینز میں تبدیلی، جسمانی صلاحیتوں میں اضافے، اور یہاں تک کہ آنے والی نسلوں کی خصوصیات طے کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں فوکویاما کے مطابق، سب سے بڑا خطرہ موجودہے، کیونکہ یہ تبدیلیاں نہ صرف افراد کی زندگی کو بہتر بنا سکتی ہیں، بلکہ اس کے برخلاف اصولوں کو کمزور بھی کر سکتی ہیں جن پر انسانی معاشرے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
اس سلسلے میں فوکویاما ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں اور وہ یہ کہ انسانی جوہر پر بڑھتی ہوئی کنٹرول کی صلاحیت کی موجودگی میں انسانیت کا مستقبل کیا ہوگا؟ ان کا ماننا ہے کہ انسانی فطرت میں ترمیم کی یہ صلاحیت ایک ایسی غیر مساوی دنیا کو جنم دے سکتی ہے، جہاں بعض انسان دوسروں سے زیادہ صلاحیتیں اور مراعات رکھتے ہوں گے۔ یہ صورتحال طبقاتی فرق اور نسلی امتیاز کے خدشات کو دوبارہ جنم دے سکتی ہے، لیکن ایک زیادہ ترقی یافتہ اور پیچیدہ انداز میں۔ یوں دولت مند اور غریب کے درمیان خلیج ایک نئی شکل اختیار کر لے گی، یعنی "محسن انسان" اور "عام انسان" کے درمیان، ایک حد فاصل جس کے سبب صرف وہی افراد جو مالی طور پر اس کے متحمل ہو سکیں گے، جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے اعلیٰ صلاحیتیں حاصل کر پائیں گے۔
اگرچہ فوکویاما تسلیم کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی نے انسانیت کی ترقی اور اس کی مشکلات کے ازالے میں اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسئلہ اس ٹیکنالوجی کو قدرتی حدود سے آگے بڑھانے اور بنیادی تصورات جیسے آزادی اور عزت نفس سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا ہے۔ بائیوٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ، یہ سوال مزید اہم ہو جاتا ہے کہ انسان کی اصل حقیقت کیا ہے: کیا ہم اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کے ساتھ جوں کے توں رہیں، یا پھر ہم بغیر کسی عیب کے ایک ایسی احسان مند مخلوق میں تبدیل ہو جائیں، جو اپنے اصل انسانی جوہر سے محروم ہو؟
فوکویاما کا خیال ہے کہ انسانیت ایک بڑے خطرے کا سامنا کر رہی ہے، جو ٹیکنالوجی پر کنٹرول کھونے کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ اگر یہ ٹیکنالوجی بلا روک ٹوک اور وضع کردہ اخلاقی معیارات کے بعد استعمال ہوتی رہی، تو ہم ایک ایسی دنیا میں جی سکتے ہیں جہاں طاقتور افراد اپنی حیاتیاتی برتری کے ذریعے کمزوروں پر حکمرانی کریں گے، اور انسان محض تجربات کی بنیاد پر باوسائل اور اعلیٰ طبقاتی معاشروں کی خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔
فوکویاما خبردار کرتے ہیں کہ یہ تبدیلیاں بظاہر پرکشش نظر آ سکتی ہیں، کیونکہ سائنس بہتر صحت، طویل عمر، اور ذہنی طاقت میں اضافے کا وعدہ کرتی ہے، لیکن یہ خوبیاں بہت بھاری قیمت پر حاصل ہوں گی، نہ صرف مالی لحاظ سے بلکہ اخلاقی اور وجودی لحاظ سے بھی۔ انسانی فطرت میں اس قسم کی تبدیلی، ان کے مطابق، انسانی شناخت کے کھو جانے کا باعث بن سکتی ہے اور معاشرتی زندگی کے توازن کو بگاڑ سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں، نئی قسم کے تنازعات جنم لیں گے، جو صرف سیاسی یا معاشی نوعیت کے نہیں ہوں گے، بلکہ انسان کی فطرت، اس کے بنیادی حقوق، اور اس کے وجودی مقام پر ہونے والے تنازعات سے متعلق ہوں گے۔
فوکویاما اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسئلے کا حل ٹیکنالوجی کو رد کرنے یا ماضی کی طرف لوٹنے میں نہیں ہے، بلکہ اس کے استعمال کے لیے اخلاقی اور قانونی حدود و قیود وضع کرنے میں ہے۔ وہ ایک عالمی مکالمے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، جس میں سائنس دان، فلاسفر، سیاست دان، اور سول سوسائٹی کے ارکان شامل ہوں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ٹیکنالوجیانسانی جوہر کو نقصان پہنچائے بغیر صرف انسانیت کی خدمت کے لیے استعمال ہو۔
کتاب کے اختتام پر، فوکویاما قاری کےلئے ایک کھلا سوال چھوڑتے ہیں کہ انسانیت کا مستقبل کیا ہوگا؟ وہ سب کو اس انقلاب کے ممکنہ نتائج پر گہرائی سے سوچنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ٹیکنالوجی بذاتِ خود کوئی برائی نہیں ہے، لیکن اس میں اخلاقی اور قدرتی حدود کو پار کرنے کی صلاحیت ہے، جس سے انسانیت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہو جائے گی ، کیا ہم خود اپنے معبود بن جائیں گے، جو اپنی زندگی کو اپنی خواہشات کے مطابق تشکیل دینے کی طاقت رکھتے ہوں، یا پھر ہم اپنی اس انسانی شناخت کو برقرار رکھیں گے، جو ہماری کمزوریوں اور حسن کا مجموعہ ہے؟