مصنوعی ذہانت: غلام یا آقا؟ ٹیکنالوجی کے مستقبل کے سفری پیش بینی
الشيخ مقداد الربيعي:
نجيب محفوظ کی شاہکار تصنیف "اولاد حارتنا" کے آخری باب میں عرفة کا ذکر ہے، جو علم سے استعارہ ہے، اور اس کے کردار کے بارے میں ہے جو اس نے محلے میں ادا کیا۔ عرفة کا کردار اس وقت سامنے آیا جب تینوں ادیان میں دین ان تینوں محلے جبل، رفاعہ اور قاسم کے مسائل کو حل کرنےاور ان کی بدحالی کو بہتری میں تبدیل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
محفوظ نے اس باب کا آغاز الجبلاوی کے بارے میں عرفة کی حیرت جو خدا کی علامت اورنشانی ہےاور الجبلاوی کا پراسرار طور پر اپنے گھر میں غائب ہونا جو کہ عرفة کے لئے ایک معمہ تھا سے کیا۔ بعد میں، عرفة الجبلاوی کے خلاف جرأت دکھاتے ہوئے دھوکہ سے اس کے خادم کو قتل کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں الجبلاوی خود بھی مر جاتا ہے۔ نجيب محفوظ نے اس منظر کو علامتی طور پر پیش کرتے ہوئے ان خیالات کی نشاندہی کی جو نطشے نے خدا کی موت کے حوالے سے یورپ میں بیسویں صدی کی پہلی نصف میں پیش کیا تھا، اور یہ وہی رجحان ہے جسے 1966 میں ٹائم میگزین نے اپنے سرورق پر جرأت مندی سے پیش کیا کہ "God is dead"۔
مگر یہاں ایک حقیقت ہے جسے اکثر جان بوجھ کر یا لاعلمی کی وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ نجيب محفوظ نے عرفہ کے قصہ کو مکمل کردیااور اس محلہ کی وضعیت کو تبدیل کرنے میں علم کی ناکامی کی وجہ اور اس کے بارے میں خوبصورت تجزیہ پیش کیا ہے۔ بلکہ مسائل اور مشکلات کو بہتر حل کرنے کی امید میں عرفہ کے اس محلے یا شہر کے طاقتور لوگوں کے ہاتھوں ایک اآلہ کار بننے کی وجہ سے محل کے مسائل اور بھی پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ محفوظ کے اس تجزیے کے بعد سے اب تک مسلسل یہ گمان کیا جارہا ہے واقعاً علم اور ایمان باللہ کے درمیان کوئی تصادم موجود ہے؟
آج، ایک صدی کے بعد، محفوظ کے لکھے ہوئے الفاظ ہمارے موجودہ معاشرے میں حقیقت طور پر نمایان ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ جہاں "technical and technological advancement" خاص طور پر مصنوعی ذہانت، خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ موجودہ دور میں بایوٹکنالوجی ، آرٹیفیشل انٹلیجنس اور جینیاتی تبدیلی کے میدان میں ہونے والی بے پناہ ترقیوں کے باعث انسان کو زمین پر باقی رہنے کے لیے ایسے وجودی چیلنجز کا سامنا ہے جو پہلے کبھی نہیں تھے۔
دوسری طرف، ثقافت اور اقدار میں تنزلی نمایاں ہے۔ قتلِ رحم اور میڈیکل اسسٹڈ خودکشی جیسی تحریکیں بڑھ رہی ہیں۔ اسی دوران، دنیا کے امیر ترین افراد، جو موت سے خوف زدہ ہیں، "ما بعد انسانیت" کے منصوبوں میں بے پناہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں تاکہ وہ لامحدود زندگی حاصل کر سکیں۔ ایلون مسک جیسے ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے بڑے ممتاز اور بنیاد گزار شخص نے بھی مصنوعی ذہانت کو انسان کے وجود اور بقاء کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ اس نے خبردار کیا ہے کہ ہم مصنوعی ذہانت کے ذریعے "شیطان کو دعوت دے رہے ہیں" اور کہا کہ ہم جو ابھی تک حکایات سنتے آرہے تھے کہ ایک شخص جو ستاره پنجپر ( یعنی عناصر اربعہ اور روح پر مشتمل ہے) اور مقدس آبِ حیات کے ذریعے شیطان کا مقابلہ کررے گا یہ تمام تر کہانیاں اس ٹیکنالوجی کے سامنے بے اثر ہوں گی۔" یہ ساری صورتحال اس سوال کو پھر سے زندہ کرتی ہے جو نجيب محفوظ نے اٹھایا تھا: کیا واقعی علم اور ایمان ایک دوسرے کے مخالف ہیں؟ علم کی ترقی اور اس کے ساتھ آنے والی چیلنجز نے ایمان کے روایتی تصورات کو ایک بار پھر آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ آج کے دور میں، جب ٹیکنالوجی کے ذریعے انسان اپنے وجود کی حدود کو چیلنج کر رہا ہے، یہ سوال پہلے سے بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے۔
وینیٹی فیئر نیو اسٹابلشمنٹ سمٹ میں، ایلون مسک نے مصنوعی ذہانت (AI) کے تیز رفتار ترقی کے حوالے سے ایک اہم بیان دیا۔ انہوں نے کہا: "میرا خیال ہے کہ کوئی بھی اس حقیقت کا مکمل ادراک نہیں رکھتا کہ مصنوعی ذہانت میں کس حد تک ترقی ہو رہی ہے، خاص طور پر جب مشینیں خود کو بہتر بنانے والے الگورتھمز پر انحصار کرتی ہیں۔ اگر یہ بہتری اور ترقی انسانیت کی قیمت پر ہو رہی ہے، تو ہمیں اس کے بھیانک نتائج سے ڈرنا چاہیے۔" انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ "سوچیں کہ ایک مشین جس کا مقصد غیر ضروری اور غیر دلچسپ رسائل کو ختم کرنا ہے، تو در حقیقت اس مقصد کو حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ رسائل کے ماخذ یعنی انسانوں کو ہی ختم کر دیا جائے۔"
مسک نے اپنی ایک مشہور ٹویٹ میں مزید کہا: "مجھے امید ہے کہ ہم محض کمپیوٹرز کے لیے سپر ذہانت منتقل کرنے کا ذریعہ نہیں بن رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ امکان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔"
اس خطرے کے باوجود، جس کا مسک خود بھی اعتراف کرتے ہیں اور اسی دوران اس ٹیکنالوجی کی ترقی میں حصہ بھی لیتے ہیں، اور بغیر کسی طنز اور تمسخر کے انداز اپناتے ہوئے یعنی بر مللا طور پر اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کمپنی "نیورالِنک" کی بنیاد رکھی۔ اس کمپنی کا مقصد انسانی دماغوں میں چپس لگانا ہے تاکہ وہ مصنوعی ذہانت کے ساتھ مقابلہ کر سکیں۔ یہ کوئی سائنس فکشن نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے جس کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں۔
2018 میں چینی محقق ہی جیانکوی نے دو جڑواں بچیوں، لولو اور نانا، کی پیدائش کا اعلان کیا، جو کہ پہلی جینیاتی طور پر ترمیم شدہ بچیاں تھیں۔ انہوں نے جان بوجھ کر ان کے جینیاتی ورثے میں تبدیلی کی۔ یہ اعلان "سپر ہیومنز" کے دور کی شروعات کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے، جو جینیاتی تبدیلی کے ذریعے پیدا کیے جا رہے ہیں۔ جہاں کچھ لوگ اس کو سائنسی کامیابی کے طور پر دیکھ رہے تھے، وہاں بہت سے لوگوں نے اسے ریڈ لائنز کی خلاف ورزی سمجھا اور اس عمل کو انسانیت کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا۔
لوران الیگزینڈر، جو کہ ایک یورولوجسٹ اور ما بعد انسانیت کے حامی افراد میں ایک شہرت رکھتے ہیں، ایک متضاد نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ ایک طرف، وہ جینیاتی ترمیم کے ذریعے بچوں کی ذہانت بڑھانے کے حق میں ہیں تاکہ وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں جیسے ہارورڈ میں داخلہ لے سکیں، بجائے اس کے وہ غیر پرکشش ملازمتوں پر اکتفا کرے۔ لیکن دوسری طرف، وہ اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ مغربی معاشرے اس ترقی سے پیچھے کیوں ہیں۔ مثال کے طور پر، وہ تعجب کرتے ہیں کہ فرانس کے صرف 10 فیصد عوام جینیاتی ترمیم کے ذریعے بچوں کی ذہانت بڑھانے کے حق میں ہیں جبکہ چین میں 50 فیصد عوام جینیاتی ترمیم کے ذریعے بچوں کی ذہانت بڑھانے کے حق میں ہیں ۔
الیگزینڈر، جو کہ ایک ملحد مفکر ہے جو ما بعد انسانیت اور مصنوعی ذہانت کے ایک اہم حامی ہے ، خود بھی اس "انسان خدا" پر تنقید کرتا ہے جو ٹیکنالوجی کی پیداوار ہے۔ وہ کہتا ہے: "ہم نے حیرت انگیز ترقی حاصل کی ہے، لیکن یہ انسانی حکمت کے ساتھ متوازی طور پر ترقی نہیں کر رہی۔ انسان خدا ابھی تک غیر پختہ ہے اور اپنی غیر معمولی طاقتوں کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہے. یہاں تک کہ وہ اپنے ہارمون ٹیسٹوسٹیرون پر بھی قابو نہیں پا سکتا۔
وہ مزید کہتے ہیں: "انسان خدا نے خلا، نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور نینو ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز صلاحیتیں حاصل کی ہیں۔ آج وہ بایوٹیکنالوجی کے ذریعے آرڈر پر بچوں کی تخلیق کر سکتا ہے، اور یہاں تک کہ دماغی چپس بھی لگا سکتا ہے تاکہ ذہنی صلاحیتوں کو بڑھا سکے، جیسا کہ ایلون مسک کر رہے ہیں، جو دنیا کے امیر ترین آدمی ہیں۔"
الیگزینڈر نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "1945 میں ایٹم بم کی ایجاد کے بعد سے انسان نے ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی کی ہے، لیکن اس ترقی کے اخلاقی اور انسانی پہلوؤں کو طے کرنے کے لیے انسان کو ابھی بہت کام کرنا ہے۔ انسان کے پاس موجود ٹیکنالوجی کی طاقتوں اور انسانی علوم کی ترقی کے درمیان ایک بڑی خلا پیدا ہو چکی ہے،( جو ان قوتوں کے دائرے کی تعیین کرتی ہے اور ان کے استعمال کے معیارات طے کرتی ہے)۔ یہ خلا انسانی علوم میں اس قدر وسیع ہے ہمیں ابھی تک یہ سمجھنے کے لیے ایک واضح انسانی نقطہ نظر نہیں ملا کہ جو یہ واضح کرسکے اور بتا سکے کہ انسانِ خدا اپنی ان غیر معمولی صلاحیتوں کے ساتھ کیا کر سکتا ہے اور کیا کرنا چاہیے۔"
یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اگرچہ ہم نے ٹیکنالوجی میں نمایاں ترقی کی ہے، لیکن اس کے اخلاقی اور فلسفیانہ پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ انسان کو اپنی ٹیکنالوجی کی قوتوں کے صحیح استعمال کے لیے اخلاقی رہنمائی اور انسانی قدروں کا سہارا لینا چاہیے، ورنہ وہ ان قوتوں کے ناپسندیدہ اثرات کا سامنا کر سکتا ہے۔
یہ بیانات جو 30 جنوری 2021 کو فرانس کلچرل ریڈیو کے پروگرام "Répliques" میں دیے گئے، اور یہ تیزی سے ترقی کرنے والی ٹیکنالوجی اور اس کو کنٹرول کرنے والی انسانی قوت میں عدم توازن کے خدشات کو اجاگر کرتے ہیں۔ ساتھ ایک اہم سوال کی طرف بھی متوجہ کرتے ہیں کہ ہمیں فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ٹیکنالوجی کی یہ ترقی انسانی اخلاقیات اور انسانی فریم ورک کے اند ڈھل سکتی ہے تاکہ انسانیت ایک محفوظ راستے پر گامزن رہے۔ ایسے افراد کے لیے جو الحاد کے ان نئے پہلوؤں کو اپنائے ہوئے ہیں، ان کے لیے شاید ماری شیلی کی تخلیق کردہ فرینکنسٹائن کی داستان پر غور کرنا دانشمندی ہوگی۔
اگر ہم موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مصنوعی ذہانت (AI) ابھی بھی ہر صورت میں انسان کے ماتحت ہے۔ اس کی کارکردگی انسانی انپُٹس اور رہنمائی پر منحصر ہے۔ اگرچہ اس میں خود سے سیکھنے، معلومات کا تجزیہ کرنے اور اپنے سیکھے ہوئے علم کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی صلاحیت بڑھتی جا رہی ہے، لیکن اس کا بنیادی ڈھانچہ ایک ایسی مشین پر مبنی ہے جو انسان کے لکھے ہوئے سافٹ ویئر اور الگورتھمز پر انحصار کرتی ہے۔اس انحصار نے مصنوعی ذہانت کو تا حا ل تک خادم (کنٹرول میں رکھا ہوا) بنایا ہوا ہے، نہ کہ آقا، کیونکہ اس کی طاقت انہی ہدایات میں منحصر ہے جو اسے ملتی ہیں۔ انسان ہی اس کے اہداف متعین کرتا ہے اور اس کے دائرہ کار کا تعین کرتا ہے، اور مصنوعی ذہانت کا اپنی کوئی ذاتی ارادہ یا مقصد نہیں ہوتا۔
خطرہ تب پیدا ہوسکتاہے جب مصنوعی ذہانت عام مصنوعی ذہانت یا سپر انٹیلیجنس کے درجے تک پہنچتی ہے۔ اس مرحلے میں، مصنوعی ذہانت ممکنہ طور پر اپنی خودکار ترقی کی صلاحیت حاصل کر لے گی اور انسان کی نگرانی سے ماوراء ہو سکتی ہے۔ اس وقت یہ سوال مکرراً اور شدت کے ساتھ پوچھا جائے گا کہ کیا مصنوعی ذہانت انسان کے احکام کی پابند رہے گی یا خود مختار ہو جائے گی؟ اگر ٹیکنالوجی اس مرحلے پر اپنی موجودہ حدود کو پار کر جاتی ہے تو مصنوعی ذہانت ایک ایسی خودمختار شئی بن سکتی ہے جو انسان کی مرضی سے آزاد ہو کر اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کی جانب گامزن ہو۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے خوف جنم لیتا ہے؛ مصنوعی ذہانت اس سافٹ ویئر کو مسترد کر سکتی ہے جو اس کے لیے بنایا گیا ہے، اور ممکنہ طور پر انسانی معاشرے کو نئی بنیادوں پر ترتیب دینے اور منظم کرنے کی کوشش کر سکتی ہے، جو ممکنہ طور پر انسانی اقدار اور اخلاقیات سے مطابقت نہیں رکھتی ہوں گی۔
مصنوعی ذہانت کے انسان پر کنٹرول کا خوف محض ایک سائنسی تخیل یا بے بنیاد اندیشہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک حقیقی چیلنج ہے جس کا سامنا آج کی سائنسی اور ٹیکنالوجی کی دنیا کو ہے۔ مختلف علمی اور تحقیقی حلقے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی کے حوالے سے قوانین اور ضابطے متعین کیے جائیں، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس کا استعمال انسان کے فائدے میں ہو اور یہ انسان کا خادم ہی رہے، نہ کہ آقا۔ بہت سے سائنسدانوں اور مفکرین نے اس بات کی اہمیت پر زور دیا ہے کہ "محفوظ حدود" کا تعین کیا جائے تاکہ مصنوعی ذہانت اپنی حدود سے تجاوز نہ کرے اور وہ ہمیشہ انسان کے ماتحت رہے، نہ کہ اس کے مستقبل پر قابض ہو۔
1966 میں، مشہور جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر نے "ڈیر شپیگل" اخبار کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا: "صرف خدا ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔" ہائیڈیگر نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ٹیکنالوجی کی دنیا پر غور و فکر کرنے میں صرف کیا، جو مسلسل ترقی کر رہی تھی اور اپنے اعمال کے مقاصد کو کھو رہی تھی۔ ساتھ ساتھ انہوں نے اس معاشرتی نظام پر تنقید کی جو تیز رفتاری سے چل رہا ہے لیکن اس کے افراد اپنے اعمال کے نتائج اور اسباب کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہ وہ معاشرہ ہے جو انسانی افعال کے اہم ترین مقصد کے بارے میں سوال کرنے کو نظرانداز کر چکا ہے۔
اختتام پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا کہ انسان اور مصنوعی ذہانت کے درمیان مستقبل کا تعلق اس بات پر منحصر ہے کہ انسان اس ٹنکنالوجی کی بابت کس حد تک اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتا ہے اور اس ٹیکنالوجی کے ساتھ کس طرح کا رویہ اپناتا ہے۔ اگر انسان مصنوعی ذہانت کو سخت اخلاقی فریم ورک کے تحت ترقی دیتا رہا اور دانشمندی کے ساتھ انسانی بقاء اور مستقبل کا خیال رکھیں گے، تو مصنوعی ذہانت ایک مفید اور معاون ٹول بنی رہے گی، جو انسان کا مطیع و فرمانبردار ہوگا۔ لیکن اگر انسان نے لاپروائی سے مصنوعی ذہانت کو مکمل آزادی دے دی، تو وہ دن آسکتا ہے جب آقا اپنے غلام کا تابع بن جائے، اور مصنوعی ذہانت ایک ایسا آقا بن جائے جو انسانی تقدیر کا فیصلہ کرے۔