سقراط سے بیکن تک ۔۔۔۔ علمی وتحقیقی طریقے کیسے بدلے ؟
شیخ مقداد ربیعی: یونانی یورپ کے پہلے لوگ تھے جنہوں نے قدیم قبائلی صورت حال سے نکل کر چھٹی صدی قبل مسیح سے بھی پہلے ایک بڑھتی ہوئی تہذیب و ثقافت کو تشکیل دیا۔ وہ یورپی تہذیب کا آغازتھا،اور ان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ حس اور تجربے کی بنیاد پر دستی مشقت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اسی وجہ سے وہ غلاموں اور عورتوں کو انسان سمجھنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔
سقراط کی طرٖف یہ بات منسوب ہے کہ اس نے کہا : "غلام محض ان آزاد آقاؤں کی خدمت کرنے والی زندہ مشینیں ہیں جو خود کو غور و فکر اور دوستی کی خوبیوں پر عمل کرنے کے لئے وقف کرتے ہیں۔")بیسویں صدی کا فلسفہ، یمنا الخولی، صفحہ 39) ان کے نزدیک انسان وہ ہے جو خالص ذہنی تفکر اور دوستی پر عمل کرتا ہے، تاکہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے نتائج فکر ی اور عقلی استدلال کے نتائج پر گفتگو کرسکیں۔
یونانی فلسفہ کے عین عروج کے دور مں ارسطو اس کام میں کامیاب ہوا کہ بحث و تحقیق کے لئے ایک ایسا نظم معین کرے کہ جو اس زمانے اور اس ثقافت کی روح کے ساتھ مکمل ہم آہنگ ہو ،پس ارسطو نے یہ بتایا کہ قیاس منطقی کے ساتھ استدلال ہی یقینی معرفت کا نتیجہ دیتا ہے ۔
یہ علمی طریقہ سترھویں صدی تک علم کے مختلف پہلوؤں پر مکمل کنٹرول رکھتا تھا اور اس پورے عرصے میں یعنی تقریباً 2000 سال تک اس کے غلبے کی ایک اہم وجہ تھی، اور وہ یہ تھی کہ یہ علمی طریقہ ایک عقلی طریقے کی حیثیت سے اس زمانے کے لوگوں کے درمیان زیر بحث مسائل ہی میں سے ہوتے تھے ، جو کہ اکثر ایسے مسائل تھے کہ جو مادہ اور طبیعت کی حدود سے باہر ہیں۔ یہ ان علل و اسباب کے بارے میں بحث کرتے تھے کہ جو علت بعیدہ ، مجردہ اورعالم مادہ سے خارج ہوتے ہیں۔
پھر ان کے بعد مسیحی اور اسلامی ثقافتوں کا دور آیا،جو کہ ان مطلوبہ سوالوں کا جواب دینے میں مشترک تھے۔ وہ تمام کے تمام دینی مسائل تھے کہ جن میں غیر مادی چیزوں جیسے اللہ ملائکہ وغیرہ وغیرہ کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے، پس اسی نظام علمی و عقلی پر عمل ہوتا رہا اور اسے دیگر طریقوں پر فوقیت دی جاتی رہی ۔
پھر قیاس منطقی کا سکہ چلتا رہا یہاں تک کہ لوگوں کی توجہات تبدیل ہوگئی اور کلی امور اور ابتدائی اسباب پر غور فکر کی جگہ لوگوں نے طبیعت اور اس پر کنترول کے بارے میں زیادہ غور و فکرکو اہمیت زیادہ دینے لگے۔ چونکہ عقلی استدلال سائنس دانوں کے سوالوں کا جواب دینے سے قاصر تھا لہذا یورپی لوگوں نے اس طریقہ علم سے پیچھا چھڑانا شروع کر دیا، پھر انہوں نے جدید دور کے سوالوں سے ہم آھنگ جدید منہج کے مطابق جدید نظام کی تشکیل کا کام شروع کردیا ۔
15 ویں صدی کے اوخر میں بہت سے جغرافیائی دریافتوں نےانسان کو یہ باور کرایا کہ یہ دنیا ارسطو اور دیگر قدیم مفکرین نے جس طرح تصور کیا تھا اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ ان انکشافات کے نتیجے میں یورپی سائنسدانوں نے طبیعت کو سمجھنے اور دینی نصوص سے نکل کرکائنات کی تفہیم کی کوششیں کیں، ہیزنبرگ لکھتے ہیں " اس زمانے میں سائنس اور طبیعت کو دینی امور سے الگ دیکھا جانا اتفاقی معاملہ نہیں تھا ، بلکہ طبیعت اللہ اور انسدان دونوں سے آزاد ہو گئی ہے، اور یہی وہ نکتہ ہے کہ جس پر تحقیق ہونی چاہئے۔ (الطبيعة في الفيزياء المعاصرة، فيرند هيزنبرج، ص12
16ویں صدی کے اواخر تک طبیعت کے بارے میں سوال ایک بار پھر سب سے زیادہ اہمیت کا سوال بن کر سامنے آیا ۔ بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہی سوال ہی اس زمانے کی ہر مفکر اور فلسفی کے ذہن کو مشغول کر رہا تھا ۔ بلکہ ہر جگہ یہی موضوع ہی زیر بحث تھا ، چوکوں ، چوراہوں یہاں تک کہ خواتین کی محفلوں تک میں یہ موضوع سخن بن چکا تھا ۔
بلکہ مختصر ہی عرصے میں ہر شعبہ زندگی کے اندر تبدیلیاں آئی، مشینیں اور دگر چیزیں ایجاد ہوئیں ، اور انسانی عقل نے اس کائنات کو مزید گہرائی کے ساتھ سمجھنا شروع کر دیا ، اس صورت حال میں ارسطوئی منطق کی بے مائگی اور بے فائیدگی کا احساس مزید گہرا ہو گیا ، بلکہ اب تو اسی منطق کو اس بات کا الزام دیا جانے لگا کہ یہ دراصل طبیعت اور علوم طبیعت میں دلچسپی رکھنے والوں کی نسبت اپنے سلبی اور منفی رائے کی وجہ سے انسانیت کی ترقی و تکامل کے راستے میں حائل بنا رہا۔
یہاں سے فلاسفہ کی سب سے بڑی ترجیح یہ بن گئی کہ کوئی ایسا نیا سائنسی و تحقیقی نظام متعارف کرایا جائے کہ جو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہو، اور جدید دور کے نئے نئے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ 17 ویں صدی دنیا میں مختلف نطاموں کی صدی تھی ، اسی صدی میں سب سے پہلے ڈیکارٹ نے اپنی معرکۃ الاراء کتاب " نصاب پرگفتگو"لکھی ، پھر سبینوزا نے اصلاح العقل ،جبکہ لیبتز نے المنہج الریاضی لکھی ، اور بالاخر فرانسس بیکن کا دور آیا اور اس کی کتاب " نیو آرگنون " سامنے آئی ، یہ وہ کتاب تھی کہ جس نے بجا طور پر اپنے وقت کی صحیح ترجمانی کی ،انہوں نے طبیعت کو ہی موضوع بنا کر نیز اس پر تحقیق کے لئے مناسب تجرباتی طریقہ کار کی جانب توجہ دلا کر بہت بڑا کام انجام دیا۔ اس طرح بیکن سائنسی تجربی طریقہ کار کے بانی اور جدید سائنس کے مؤسس قرار پائے ، اسی لئے دنیا کی سب سے بڑی لائبریری یعنی امریکہ کے کانگریس لائبریری نے بیکن کا نام ان لوگوں میں سے ایک کے طور پر کہ جنہوں نے انسانیت کو جدید دور تک پہنچانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے ، اپنے سنہرے دروازوں میں سے ایک دروازے پر نقش کروایا ہے۔؛
پس ہر دور میں علمی منہج اس دور کے لوگوں کی رغبتوں اور ترجیہات کے درمیان گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ اس معاملے میں لوگوں کے سوالات کیا ہیں، یونانیوں نے چونکہ فطرت کو غیر اہم سمجھا اس لئے اس سے منہ موڑ لیا۔ اوراس کئے لئے کوئی علمی طریقہ کار وضع کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں دی ۔جبکہ ان کا پورا زور کلیات اور معانی مجردہ کی تفہیم و تفصیل پر رہی۔ چونکہ یہ انداز تحقیق علمی طریقے کے طور پر صرف عقلی برھانی کے ساتھ ہی سازگارتھا، اس لئے انہوں نے اس کو خاص قسم کی اہمیت دی۔ اور جب عام لوگوں کی ترجیہات بدل گئیں ، سائنس دانوں اور اشرافیہ کی فطرت میں دلچسپی بڑھی اور انہوں نے اس میں عقلی طریقہ کار میں فائدے کی کمی دیکھی تو استدلالی طریقے پر دوبارہ توجہ دی اور اسے منطق ارسطو کے ڈھانچے پر کھڑا کیا گیا ۔
اب ہم اس سوال کی جانب بڑھتے ہیں کہ جسے ہم نے عنوان قرار دیا ہے : پس عقلی طریقہ بذات خود غلط نہیں تھا کہ جس کی وجہ سے مفکرین کسی اور طریقہ کار کی تلاش پر مجبور ہوئے ہوں، بلکہ در اصل عقلی طریقہ کار کا میدان استقراء اور تجربے کے میدان سے مختلف تھے۔ ان میں سے جس کو بھی اپنے میدان کی بجائے کسی اور میدان میں استعمال کیا جائے وہ فائدہ مند واقع نہیں ہو گا۔ پس جس سوال کا تعلق مادہ اور طبیعت کی دنیا سے ہو اس کے لئے حسی تجریبی طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہئے، یہاں عقلی طریقہ کام نہیں آتا، اسی طرح اگر موضوع مادہ کے دائرے سے خآرج ہو تو وہاں حسی تجریبی طریقہ کار سے نہیں ہے، کیونکہ یہ مادہ کے ساتھ مخصوص ہے لہذا یہاں عقلی استنباطی طریقہ کار سے کام لیا جانا چاہئے۔
اور اس بات کی تائید جو ہم نے کی ہے کہ عقلی یا تجربی طریقہ کار پر زور دینے کی وجہ دراصل معاشرتی دلچسپیاں یا زیر بحث مسائل کی نوعیت ہے، وہ یہ ہے کہ قدیم چینیوں کا سائنسی طریقہ کار خالص تجربی تھا، کیونکہ ان کی دلچسپی مادے میں تھی۔ چینی سائنس ایک مختلف اور آزاد راستے پر چل رہی تھی جو مغربی (یونانی) راستے سے الگ تھا۔ چینیوں کو ارسطو، اقلیدس، اور بطلیموس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا، اور اسی طرح ابتدائی ادوار سے لے کر جدید دور تک چینی سائنس میں منطقی دلائل، استنباطی ریاضی، اور نظریاتی اصولوں کی کمی تھی، جنہیں یونانیوں نے بڑی مہارت سے وضع کیا تھا۔ چینی ریاضی بے ترتیب اور الجھن کا شکار رہی، جس میں گنتی کے لیے ڈنڈیوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ وہ نہ تو عربی یا ہندی اعداد کو جانتے تھے، نہ صفر کے استعمال سے واقف تھے، اور نہ ہی مثلثات کے بارے میں کچھ علم رکھتے تھے۔ فلکیات میں بھی ان کا کوئی قابل ذکر حصہ نہ تھا کیونکہ فلکیات کا انحصار مثلثات پر تھا۔ ٹومی ہف کہتے ہیں: 'انہوں نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے تیرہویں صدی سے بیجنگ میں عرب ماہرین فلکیات کی خدمات حاصل کیں، اور اسی دور میں پہلی بار انہوں نے اعداد، اعشاری نظام، اور صفر کا استعمال سیکھا
اس کے برعکس، ہمیں چینیوں کی طرف سے سائنسی اطلاقی علوم (تجرباتی علوم) میں بڑی خدمات نظر آتی ہیں، جیسے کہ طب کا علم، جس میں چینی طب کی شہرت عام تھی، اور کئی ایجادات، جیسے پانی کی گھڑی، کاغذ، اور بارود وغیرہ۔ جوزیف نیدہام، جو چینی تہذیب کے ماہر ہیں، کہتے ہیں: 'چینی علم تقریباً تجرباتی اور اطلاقی تھا؛ اسی لیے اس میں نظری پہلو کم ترقی یافتہ تھے۔ پہلی اور دوسری صدی عیسوی میں چین سائنسی اور تکنیکی ترقی کی چوٹی پر تھا۔ لہٰذا، تجربے پر مبنی ٹیکنالوجی کے لحاظ سے، چین کو قدیم مشرقی تہذیبوں کی انتہا اور عروج سمجھنا بالکل درست ہے۔' (کتاب: علم اور تہذیب چین میں، 1954)
بلکہ حتیٰ کہ یونانیوں نے بھی حسی طریقہ کار کو مکمل طور پر نظرانداز نہیں کیا۔ ارسطو نے استقراء (جو کہ تجرباتی طریقہ ہے) کے لیے ایک خاص باب وقف کیا، لیکن اس پر زیادہ زور نہیں دیا اور اسے منطقی قیاس کی سطح پر نہیں رکھا۔ اسی طرح، ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے اپنے قدرتی علوم میں حواس اور تجربے کا استعمال کیا، یہاں تک کہ اس نے سکندر کے قاصدوں کو مقبوضہ علاقوں سے پودوں اور جانوروں کے نمونے لانے کی ہدایت کی۔
خلاصہ یہ ہے کہ کسی معاشرے میں رائج سائنسی طریقہ کار کا تعین اس معاشرے کی عملی ضرورت کرتی ہے۔ جب سوالات اور مباحث کی نوعیت غیر مادی ہوتی ہے، تو یونانیوں نے عقلی طریقہ کار کو ترجیح دی اور اسے دیگر طریقوں پر فوقیت دی، کیونکہ دیگر طریقے ان کے زیرِ بحث مسائل کے لیے مفید نہیں تھے۔ لیکن جب سوالات کی نوعیت تبدیل ہوئی اور مغربی معاشرے میں مادہ اور قدرتی دنیا میں دلچسپی بڑھ گئی، تو انہوں نے عقلی طریقے کے بجائے تجرباتی طریقہ کار کو اپنایا، جو مادی تحقیق کے لیے زیادہ کارآمد تھا۔
یہیں سے اوگست کومٹ کی بڑی غلطی سامنے آتی ہے، جب اس نے انسانیت کی فکری ترقی کو تین ادوار میں تقسیم کیا (الہٰیاتی، فلسفیانہ، اور سائنسی)، اور یہ فرض کیا کہ انسان کا مذہب یا فلسفہ کی طرف رجحان صرف اس کی مادی مظاہر کے اسباب جاننے میں ناکامی کا نتیجہ تھا۔ مثلاً، جب انسان بجلی کی وجوہات کو نہیں سمجھ سکا تو اس نے اسے قدیم نورڈک دیوتا 'ثور' سے منسوب کیا۔ جیسے جیسے انسانی فکر میں ترقی ہوئی، اس نے بجلی کو کچھ درمیانی علل اور اسباب سے منسوب کیا، یہاں تک کہ انسانی فکر نے مکمل طور پر پختگی حاصل کی اور تجرباتی سائنس کے ذریعے بجلی کے حقیقی سبب کو جان لیا۔ اس لیے، اوگست کومٹ کے مطابق، سائنسی علم کی مزید ترقی براہِ راست مذاہب اور فلسفیانہ نظریات کے زوال کا سبب بنے گی۔
اسی خیال کو ہم فزکس کے ماہر اسٹیفن ہاکنگ کے کام 'دی گرینڈ ڈیزائن' میں دیکھتے ہیں، جہاں وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فلسفے کا دور ختم ہو چکا ہے اور اب علم کا زمانہ ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قدیم لوگوں نے حسی طریقہ کار کو اس وجہ سے نظرانداز نہیں کیا کہ ان کا عقلی شعور کمزور تھا، بلکہ اس لیے کہ جن مسائل کے جوابات وہ تلاش کر رہے تھے، وہ مادی نوعیت کے نہیں تھے اور تجرباتی حسی طریقہ کار کے لیے موزوں بھی نہیں تھے۔