18 ربيع الثاني 1446 هـ   22 اکتوبر 2024 عيسوى 11:27 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-10-16   29

وفاداری ۔۔۔ دین کے ساتھ یا وطن کے ساتھ ؟

شیخ مقداد ربیعی: کہا جاتا ہے کہ شہید محمد باقر الصدر(رحمۃ اللہ علیہ) بطور ایک دینی مرجع کے عراق میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اور ان کے اثرات کا بغور مشاہدہ فرماتے تھے ، جب وہ عراق کی ناگفتہ بہ حالات کو دیکھتے تھے تو نہایت غمگین ہوتے اور لوگوں کی مشکلات کو کم  کرنے کےلئے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لاتے ۔ اسی دوران اپنے آپ سے یہ سوال کیا کرتے تھے کہ یہی مشکلات اگر کسی دوسرے اسلامی ملک کے ہوتے تو کیا میری بالکل یہی حالت ہوتی کہ جو حالت عراق کے صورت حال دیکھ کر میری ہوتی ہے؟

در اصل یہی سوال ہمیں اپنے آپ سے بھی کرنا چاہئے، مثلا اگر کوئی اور ملک ہمارے ملک کے کسی حصے پر قابض ہو جائے تو ہمارا رد عمل کیا ہوگا؟ خصوصا اگر قابض ملک ایک غیر مسلم ملک ہو۔ مگر کیا ہماری جو حالت اپنے ملک کے کسی حصے پر دوسرے ملک کے قبضے سے ہوتی ہے وہی حالت کسی دوسرے اسلامی ملک کے اوپر ناجائز قبضے سے بھی ہوتی ہے۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ ان دونوں صورتوں میں بالکل مختلف ردعمل دیں گے۔ جب اپنے وطن پر قبضہ ہو جائے تو اپنی جان مال اولاد اور سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہو جائے گا تاکہ اپنے ملک کے اس حصے کو آزاد کروا لیں، لیکن دوسرے اسلامی ملک کے لئے فقط غم کا اظہار کرنے اور ملک کی حفاظت میں کوتاہی پر اس ملک کی حکومت کو برا بلا کہنے پر ہی اکتفا کیا جائے گا ۔

سوال یہ ہے کہ رد عمل میں یہ اختلاف طبیعی / نیچرل ہے یا پھر کہیں نہ کہیں کوئی بنیادی خلل موجود ہے ؟

سب سے پہلے تو ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اسلام ضابطہء حیات کے طور پر موجودہ دنیا کے انتطامی حوالے سے طے شدہ حدود و قیود میں محدود نہیں ہے ۔ لہذا دار اسلام ہر اس شخص کو اپنے اندر سمو لیتا ہے کہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتا ہے۔ اسی طرح اسلام ایک سایسی نظرئے کے طور پر بھی ساری دنیا کے مسلمانوں کوخلافت اسلامیہ کے تحت ایک ہی حکومت کے ماتحت سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی مملکت کے کسی ایک حصے پر آنے والی مشکل پوری اسلامی سلطنت کی مشکل شمار ہوتی ہے اور ہر مسلمان اس مشکل کو دور کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کا پابند ہے ۔

اسلامی نقطہ نظر سے حکومت صرف وہی ہے کہ جو خلافت اسلامی کے تحت قائم ہو اور تقریبا تمام اسلامی ممالک کو شامل ہو جیسا کہ تاریخ سے ھی ہمیں یہی پتہ چلتا ہے۔ اسی لئے دین سے محبت یا وطن سے محبت کا سوال ذھن میں آتا نہیں تھا۔ دینی فکر اور قومی فکر میں یہ اختلاف اس وقت پیدا ہوا کہ جب جدید سیاسی نظام وجود میں آئے، خصوصا یہ تفریق زیادہ گہری ہوئی جب 1924 میں سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور اسلامی مملکت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا، استکباری قوتوں نے اسلامی سلطنت کو آپس می تقسیم کر لیا، بہت سی چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم کی گئیں، ہر ایک کو الگ قومی تشخص دیا گیا۔ پھر ترکی میں کمال اتا ترک کی قومیت پسندی نے دیگر اقوام کے اندر بھی قومی جذبے کو پروان چڑھایا جیسے عرب قومیت وغیرہ ، یوں ایسی تنظیمیں وجود میں آگئیں کہ جن کا ہدف تمام قوم پرست تنظیموں کا اتحآد تھا جیسے بعثی اور جمال عبد الناصر کی جماعت وغیرہ ،ان تنظیموں نے یہ کوشش شروع کر دیے کہ دین سے دور خالص قومی بنیادوں پر حکومتیں قائم کی جائیں ۔ 1967 کی شکست کے بعد یہ منصوبہ بھی اپنے اختتام کو پہنچا اور پھر ہر ملک کی اپنی پہچان اور شناخت سامنے آئی۔ اس طرح قومیت کا یہ نیا مفہوم سامنے آیا کہ عراقی سے مراد وہ شخص جس کا تعلق عراق سے ہو ، مصری وہ جو مصر سے تعلق رکھتا ہو، اسی طرح باقی بھی۔ پھر جب اسلامی سیاسی تنظیمیں وجود میں آئی تو انہوں نے نعرہ دیا کہ دین وطن پر مقدم ہے، تو یہاں سے یہ اختلاف سامنے آیا کہ ہماری وفادار وطن سے ہونی چاہئے یہ دین سے۔

مسلم ممالک میں دین اور وطن کا یہ الگ الگ شعور دراصل قوم پرست اور سیکولر تنظیموں کا پیدا کردہ ہے۔ در اصل ان تنظیموں نے مختلف قوموں کی الگ الگ خصوصیات کو مورد توجہ قرار دے کر اس قومیت کے احساس کو لوگوں میں عام کیا اور صورت حال کو یہاں تک پہنچایا کہ اب یہ اسلام سے قبل اپنی اقوام میں رائج ثقافتوں کو زندہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ جس طرح مصر میں فرعونی ثقافت ، تونس میں قرطاجی ثقافت اور عراق میں بابلی ثقافت وغیرہ وغیرہ۔۔

ہم کسی بھی قوم کی اپنی قومی شناخت پر فخر کرنے اور اسے بیان کرنے کے خلاف نہیں ہیں، مگر اس کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان غیرتِ دینی کی ضعیف ہونے اور بعض اوقات تو کہا جا سکتا ہےکہ بالکل ختم ہونے کی حد تک پہنچنے کی حالت کے خلاف ہے ۔ جیسا کہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ غیر مسلم دنیا کے لوگ فلسطین کے مظلوم لوگوں کے حق میں احتجاج کرتے نظر آتے ہیں جبکہ زیادہ تر اسلامی ممالک کہلانے والے ملکوں میں رقص و سرور کی محفلیں منعقد ہو رہی ہیں اور مسلم حکمران ان کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں ۔

حالانکہ اسلام ثقلین یعنی قرآن و عترت دونوں کی زبانی مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی رکھنے اور دکھ درد میں شریک ہونے کا حکم دیتا ہے، قرآن کی صریح آیت کے مطابق تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ..)، الحجرات: 10۔

اسی طرح امام سجاد علیہ السلام ایک بھائی کے دوسرے بھائی پر موجود حق کو بیان کرتے ہوئے یوں ارشاد فرماتے ہیں:  "وحق أخيك أن تعلم أنه يدك التي تبسطها، وظهرك الذي تلتجئ إليه، وعزك الذي تعتمد عليه، وقوتك التي تصول بها. فلا تتخذه سلاحا على معصية الله، ولا عدة للظلم لخلق الله ولا تدع نصرته على نفسه، ومعونته على عدوه"

(تمہارے بھائی کا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ تمہارا ہاتھ ہے اور تمہارے لیے پشت پناہ ہے کہ جہاں تم پناہ گیزیں ہوتے ہو وہ تمہاری عزت ہے کہ جس پر تم اعتماد کرتے ہو اور وہ تمہاری قوت ہے کہ جس کے ذریعہ تم حملہ کرتے ہو پس اسے دا کی معصیت و نافرمانی کا ذریعہ و حربہ نہ بناؤ اور اس کے وسیلہ سے خدا کی مخلوق پر ظلم نہ کرو تم اس کے حق میں اس کی مدد کرو اور اس کے دشمن کے خلاف اس کی نصرت کرو)

مسلمان پوری دنیا میں جہاں بھی ہیں وہ ایک ہی امت کے افراد ہیں جبکہ دیگر اقوام و ملل کے افراد الگ الگ ہیں (إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ) یہ تمہاری امت یقینا امت واحدہ ہے اور میں تمہارا رب ہوں لہٰذا تم صرف میری عبادت کروس، الأنبياء: 92.،

 یہ وحدت صرف انسانی روابط یا مشترکہ مفادات کے لئے اجتماع کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس سے ذیادہ گہرا معنی رکھتا ہے، کیونکہ یہ وحدت، خدائی کی وحدانیت کے اقرار اور اس بھائی چارگی کے شعور و احساس کی بناء پر ہے کہ جس کا ذکر قرآن نے کیا ہے ۔

تمام مسلمان ایک ہی جسد کی طرح ہیں ، ایک کے درد کو دوسرے بھی محسوس کرتے ہیں ،ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہیں، یہ وہ اقدار ہیں کہ جن کی بنیاد اسلام نے رکھی ہے ،اور ان اقدار کو ہمیں اپنی زندگی کے ہر قدم پر ذھن میں رکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ صرف بولے جانے والے کلمات نہیں ہیں بلکہ یہ ایک عظیم ذمہ داری ہے کہ جو ہمارے اوپر یہ واجب قرار دیتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں اور ایک دوسرے کی مدد کریں اور مل کر دنیا میں عدل و انصاف کے لئے کوششیں کریں۔

لہذا امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا نے ارشاد فرمایا :

"من أصبح لا يهتم بأمور المسلمين فليس منهم، ومن يسمع رجلا ينادي " يا للمسلمين " فلم يجبه فليس بمسلم".جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ اسے مسلمانوں کے امور کی کوئی پرواہ نہ ہو تو وہ مسلمان نہیں ہے، اسی طرح جو کسی شخص کو یہ صدا بلند کرتے ہوئے سنے کہ اے مسلمانو! اور وہ اس کا جواب نہ دے تو وہ مسلمان نہیں ہے ۔   وسائل الشيعة: (11 / 559 باب 18)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے :

"مثل المؤمن في توادهم وتراحمهم كمثل الجسد إذا اشتكى بعضه تداعى سائره بالسهر والحمى". ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور رحم کے لئے مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی ہے ، اگر بدن کا کوئی ایک حصہ کسی مرض میں مبتلاء ہو تو پورا بدن سو نہیں سکتا اور اس مرض کو محسوس کرتا ہے ۔  بحار الأنوار، ج58، ص150.

آپ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  "المؤمن للمؤمن بمنزلة البنيان يشد بعضه بعضا" مؤمن دوسرے مؤمن کےلئے دیوار کی طرح ہے کہ جو ایک دوسرے کی مضبوطی کا موجب ہیں ۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ صلى الله عليه وآله نے فرمایا : "المؤمنون يد واحدة على من سواهم" مؤمن اپنے غیر کے مقابلے میں ایک مٹھی کی طرح ہیں ۔. نفس المصدر.

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018